سائنسی مضمون : جلنا بجھنا
ڈاکٹروہاب قیصر
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09490751550
ہم روز مرہ زندگی میں یہ دیکھتے ہیں کہ بعض اشیاء بہت ہی آسانی کے ساتھ جل اُٹھتی ہیں اور بعض اشیاء کو جلانے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اشیاء تو جل ہی نہیں سکتیں۔ اسی طرح جلتی ہوئی بعض اشیاء آسانی سے بجھائی جاسکتی ہیں اور بعض اشیاء کی آگ کو بجھانے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر گیلی لکڑی کو جلانے کی کوشش کریں تو وہ سوکھی لکڑی کی طرح آسانی کے ساتھ جلنے نہیں پائے گی۔ گیلی لکڑی میں عام طورپر اس کے وزن کا 10فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ جلانے کے لیے جب اس کو حرارت پہنچائی جاتی ہے تو وہ حرارت پانی کو بخارات میں تبدیل کرنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہی یہ لکڑی جلنے کے قابل بنتی ہے۔ اگر لکڑی بہت زیادہ گیلی ہو، جس میں پانی کی مقدار 60فیصد کی حد تک پائی جائے تو ایسی لکڑی کا جلانا دشوار ہوتا ہے۔ کپڑا چاہے وہ سوتی ہو یا ریشمی جلانے پر آسانی کے ساتھ روشنی دیتے ہوئے جلنے لگے گا۔ PVCپائپ کے ٹکڑے کو جلانے کی کوشش کریں تو وہ نہیں جلے گا۔ اسی طرح کاربن کی بہروپی شکلیں جیسے کوئلہ اور چار کول آسانی کے ساتھ جلائے جاسکتے ہیں۔ ہیرا جو کاربن کی ایک بہروپی شکل ہے، مشکل سے جلتا ہے۔ جب کہ کاربن کی ایک اور بہروپی شکل گرافائٹ جلانے پر جلنے نہیں پاتا۔ نہ جلنے کی خاصیت اس میں اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دھاتوں کو پگھلانے کے لیے گرافائٹ کی بنی ہوئی کٹھالیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
کسی شئے کا جلنا ایک کیمیائی عمل ہے جس کو احتراق (Combustion)کہتے ہیں۔ احتراق کے لیے حرارت اور آکسیجن کا ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ کسی شئے کو صرف آکسیجن میں رکھ دینے سے وہ نہیں جلے گی۔ جب تک کہ اُسے حرارت کی مخصوص مقدار نہ پہنچائی جائے۔ اسی طرح کسی شئے کو آکسیجن کی غیرموجودگی میں حرارت پہنچائیں تو وہ جلنے نہیں پائے گی۔ البتہ قدرت میں چند اشیاء ایسی ضرور پائی جاتی ہیں جو آکسیجن کے بجائے کسی اور گیس کی موجودگی میں جلتی ہیں۔ لوہے کا زنگ کھانا بھی احتراق ہی ہے۔ اشیاء کا جلنا تیز رفتار احتراق ہے اور لوہے کا زنگ کھانا سست رفتار احتراق ، سفید کاغذ کا رنگ پرانا ہو کر زردی مائل ہوجاتا ہے ۔یہ بھی ایک سست رفتار احتراقی عمل کا نتیجہ ہے۔ جس میں کاغد میں موجود کاربن اور ہائیڈروجن سست رفتار سے جلتے ہیں۔ سست رفتار احتراق کبھی کبھی خطرناک صورت حال بھی اختیار کرجاتا ہے۔ اسی لئے تیل یا پینٹ لگے ہوئے کپڑوں اور کاغذ کے چیتھڑوں کو بند جگہوں پر ڈالے رکھنے کی ممانعت کی جاتی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ہوتا یہ ہے کہ ان چیتھڑوں میں سست رفتار احتراق سے جو حرارت پیدا ہوتی ہے ، بند جگہ کی وجہ سے اس کا اخراج ممکن نہیں ہوتا اس لیے یہ حرارت تپش میں اضافے کا باعث ہوتی ہے جس سے احتراق کی رفتار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح مسلسل حرارت کا پیدا ہونا، تپش کا بڑھنا اور احتراق کی رفتار میں اضافہ آگ کے شعلے پیدا کرکے ایک بڑے حادثے کا موجب بنتا ہے۔
ایسی اشیاء جو جل کر بہت زیادہ حرارت یا روشنی پیدا کرتی ہیں، ایندھن کہلاتی ہیں۔ کسی بھی ایندھن کو جلنے کے لئے کم سے کم ایک خاص تپش رکھنے والی حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تپش کو احتراقی تپش (Kindling Temperature)یا نقطہ اِحتراق (Flash Point)کہا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر چولھے کی گیس کو جلانے کے لیے لائٹرکی چنگاری کافی ہوتی ہے۔ لیکن اس چنگاری کی حرارت سے موم بتی کو نہیں جلایا جاسکتا ۔ اس کو جلانے کے لیے جلتی ہوئی تیلی درکار ہوتی ہے۔ اسی طرح لکڑی کو جلانے کے لیے جلتی ہوئی تیلی کافی نہیں ہوتی۔ لکڑی اسی وقت جلے گی جب اس کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالیں۔ کسی ٹھوس شئے کو جب شعلہ دکھایا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس شئے کی تپش بڑھتی ہے اور جب یہ تپش اس شئے کے Kindling Temperatureکو پہنچتی ہے تو وہ جلنا شروع کرتی ہے۔ سیال مادے، جلنے سے پہلے بخارات میں تبدیل ہوتے ہیں اور اس کے بعد یہ بخارات ہی جلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائعات میں آگ ہمیشہ ان کی سطح کے اوپر ہی لگتی ہے۔ یہاں تک کہ چراغ کا تیل اور موم بتی کا موم بھی جب بخارات میں تبدیل ہوتا ہے تب ہی چراغ اور موم بتی جلنے لگتے ہیں۔
اشیاء کو جلنے کے اعتبار سے تین زمروں میں بانٹا جاتا ہے۔ ( 1) شعلہ پیدا کرنے والی اشیاء (2) خود کار بجھنے والی اشیاء ( 3) نہ جلنے والی اشیاء ۔ وہ اشیاء جو حرارت اور روشنی پیدا کرتے ہیں ،وہی مکمل طورپر جل جاتی ہیں اور شعلہ پیدا کرنے والی اشیاء کہلاتی ہیں۔ بعض اشیاء ایسی ہوتی ہیں جو اس وقت تک جلتی رہیں گی جب تک ان کو آگ میں رکھا جائے۔ جب انہیں آگ سے باہر لایا جاتا ہے تو تھوڑی دیر بعد وہ خود بخود بجھ جاتی ہیں۔ ایسی اشیاء خود کار بجھنے والی اشیاء کہلاتی ہیں۔ لکڑی کاجلنا اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ تیسرے زمرے کی اشیاء وہ ہیں جو کسی صورت میں نہیں جلتیں۔ خواہ انہیں دہکتی ہوئی آگ ہی میں کیوں نہ ڈال دیا جائے۔ جہاں تک اشیاء کے جلنے کے عمل کا تعلق ہے وہ تین شکلوں میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس کی ایک شکل وہ ہے جس میں شئے جلتی تو ہے لیکن شعلہ پیدا نہیں کرتی۔ جلنے کی یہ شکل Condenced Phase کہلاتی ہے۔ اگر بتی کا جلنا اس کی ایک مثال ہے۔ جلنے کی دوسری شکل وہ ہے جس میں شعلہ پیدا ہوتا ہے ۔جلنے کی یہ نوعیت Gas Phaseکہلاتی ہے۔ جب کہ تیسری شکل میں شعلہ بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ Condenced Phase میں بھی جلتی ہے۔
مختلف ایندھنوں کو جب جلایا جاتا ہے تو ان سے پیدا ہونے و الے شعلے کی تپش مختلف ہوتی ہے کیونکہ مختلف ایندھنوں کے جلنے پر مختلف مقدار کی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک گرام ایندھن کے جلنے پر جو حرارت پیدا ہوتی ہے وہ اس ایندھن کی حراری قیمت (Calorific Value)کہلاتی ہے۔ مثال کے طورپر ایک گرام کمیت کی لکڑی ، کوئلہ اور پڑول کے مکمل طورپر جل جانے پر بالترتیب 2500, 7500اور 11400کیلوریز حرارت پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ غذا کا ہضم ہونا بھی احتراقی عمل ہے۔ اسی لئے مختلف غذاؤں کے ہضم ہونے پر مختلف مقداروں کی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم بعض غذاؤں کو سرد اور بعض کو گرم ظاہر کرتے ہیں۔ ایندھن کی طرح غذاؤں کی بھی حراری قیمتیں معلوم کی جاتی ہیں۔ یہ دراصل حرارت کی وہ مقدار ہوتی ہے جو ایک گرام غذا کے ہضم ہوجانے پر پیدا ہوتی ہے۔ غذاؤں کی حراری قیمتوں میں تربوزکی 26، دودھ کی 65، چاول کی 109، انڈے کی 163اور شہد کی 304کیلوریز فی گرام ہوتی ہے۔
جلتی ہوئی اشیاء کو مختلف طریقوں سے بجھایا جاتا ہے۔ چونکہ جلنے کے لیے حرارت اور آکسیجن دونوں ضروری ہوتے ہیں۔ اس لیے آگ بجھانے کے لیے یا تو حرارت میں کمی کردی جاتی ہے یا آکسیجن کی فراہمی کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ آگ بجھانے کا ایک عام طریقہ پانی کا استعمال ہے۔ جلتی ہوئی آگ پر جب پانی ڈالا جاتا ہے تووہ آگ سے حرارت حاصل کرکے بھاپ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں پانی کو بہت زیادہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے ایک گرام کھولتے ہوئے پانی کو بھاپ بننے کے لیے 540کیلوریز حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ڈھیر سارے پانی کو پہلے 100ڈگری سنٹی گریڈ تک گرم ہونا پڑتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ بھاپ میں تبدیل ہوتا ہے۔ پانی ڈالنے پر جلنے والی شئے کی حرارت کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے ، اس لیے آگ بجھ جاتی ہے۔
پٹرول کے کنویں میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے جہاں دوسرے کئی طریقے اختیار کیئے جاتے ہیں، وہیں کنویں کی گہرائی میں دھماکے کے ذریعہ ہوا کے جھکڑ بھی پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ گہرائی میں موجود ٹھنڈا پٹرول اوپر کے حصہ میں اور اوپر کا گرم پٹرول گہرائی میں چلا جائے۔ اس عمل سے ہوتا یہ ہے کہ پٹرول کی سطح کے اوپر اس کے گرم بخارات کا تعلق شعلوں سے ٹوٹ جاتا ہے اس طرح کنویں کی آگ بجھ جاتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو اکثر ہم جلتی ہوئی مختلف اشیاء کو پھونک مار کر بجھا دیتے ہیں۔ جیسے جلتی ہوئی موم بتی کو بجھانا۔ ہمارے مشاہدے میں کبھی کبھی یہ بھی آتا ہے کہ پھونک کی وجہ سے جلتی ہوئی شئے بجھ نہیں سکتی ۔ کیوں کہ پھونکی گئی ہوا کی رفتار شعلہ کی رفتار سے کم ہوتی ہے۔ جب پھونکی گئی ہوا کی رفتار شعلہ کی رفتار سے زیادہ ہوگی ،تب شعلہ کا تعلق جلنے والی شئے سے ٹوٹ جاتاہے اور وہ بجھ جاتی ہے۔ چنانچہ شعلوں کا تعلق توڑنے کی خاطر ہی یہ ہدایت دی جاتی ہے کہ اگر کپڑوں میں آگ لگ جائے تو زمین پر لوٹنا چاہیئے۔
جلتی ہوئی اشیاء کو آکسیجن کی فراہمی روکنے کے لئے کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ جیسے آگ پر ریت ڈالنا،جلتے ہوئے لوگوں کو کمبل یا بلانکٹ سے لپیٹ دینا وغیرہ۔ جنگل میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے جہاں کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں ،وہیں آکسیجن کو منقطع کرنے کی خاطر جنگل میں آگ بھی لگائی جاتی ہے۔ جنگل کی آگ کو جس سمت سے فضا ء کی آکسیجن فراہم ہوتی ہے ۔ وہیں پر کنٹرول کے قابل آگ لگائی جاتی ہے۔ اس سے نکلنے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ، آکسیجن کی بجائے جنگل کی آگ کو فراہم ہوتی ہے۔ اس طرح آکسیجن کے نہ ملنے پر اور آتش فروشئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے جنگل کی آگ بجھنے لگتی ہے۔ ان تمام طریقوں کے علاوہ آگ بجھانے کے لیے کئی ایک آتش فرو کیمیائی اشیاء بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ، کاربن ٹٹرا کلورائیڈ، سوڈیم بائی کاربونیٹ اور سوڈیم کیلشیم بوریٹ قابل ذکر ہیں۔
One thought on “سائنسی مضمون : جلنا بجھنا :ایک احتراقی عمل ۔ ۔ ۔ ڈاکٹروہاب قیصر”
وہاب قیصر صاحب کو سائینسی مضامین لکھنے میں انفرادیت حاصل ہے اور رو زنامہ سیاست میں ان کے مضامین کا موضوع بھی سائینس ہی ہوا کرتا تھا ۔خدا کرے زور قلم اور زیادہ ۔