تحقیقی مقالہ ۔۔۔۔ تعارف اور طریقہ کار
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دارالعلوم حیدرآباد ۔ دکن
E-mail:
Mob: 07207326738
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحقیق اور اصول تحقیق کے موضوع پر عربی اور انگریزی زبان کے علاوہ اردو میں بھی کافی لکھا جا چکا ہے ،اور آئے دن تحقیق کے موضوع پر کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں ،لیکن اردو زبان میں چند کتابیں اس موضوع پر بہت اہم ہیں جن میں ڈاکٹر گیان چند کی کتاب ‘‘ تحقیق کا فن ،، ابواب ومضامین کے اعتبار سے اپنے موضوع کو محیط ہے ؛بلکہ اردو زبان میں اس موضوع پر مرجع کی حیثیت رکھتی ہے ،ڈاکٹر جمیل جالبی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
اس کتاب میں نہ صرف ان کی زندگی کے علمی وتحقیقی تجربوں اور وسیع گہرے مطالعے کا نچوڑ آگیا ہے ،بلکہ ترتیب کے ساتھ فن تحقیق کے وہ سارے پہلو آگئے ہیں جو تحقیق کرنے والے طالب علم ،استاذ اور سب محققوں کے لئے نہایت مفید ہے ۔میری نظر سے اس موضوع پر ابھی تک کوئی ایسی کتاب نہیں گزری جس میں تحقیق کے سارے پہلوؤں اور طلبہ کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر کتاب لکھی گئی ہو ،یہ کتاب تحقیق کے سلسلے میں اسی لئے ایک بنیادی حوالے کی کتاب کا درجہ رکھتی ہے ( ڈاکٹر گیان چند،تحقیق کا فن ، ص:۲،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،۲۰۱۲ء)۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے جامع ہے،اس لئے میں اپنے عنوان کو اسی کتاب کے حوالے سے پیش کروں گا گویا میرا مضمون’’تحقیق کا فن‘‘ کے بعض ابواب کا خلاصہ ہے البتہ بعض دوسری کتابوں سے بھی استفادہ کرتے ہوئے اس موضوع کو مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرونگا ۔
تحقیق کی تعریف
لغت میں تحقیق کے معنی چھان بین ،کھوچ اور تفتیش کے ہیں ۔تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے اس کے اصلی حروف ح ۔ق ۔ق ۔ہیں اس کا مطلب ہے حق کو ثابت کرنا ،حق کی طرف پھیرنا ،حق کے معنی سچ کے بھی آتے ہیں اور حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے یعنی تحقیق سچ یا حقیقت کی دریافت کا عمل ہے۔ اصطلاح میں ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جائے ۔ڈاکٹر عبد الحمید عباسی تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
تحقیق کے معنی ہیں کسی مسئلہ(موضوع)کے بارے میں ایسے اسلوب سے کھوج لگانا کہ اس کی اصلی شکل خواہ معلوم ہو یا غیر معلوم اس طرح نمایاں ہو جائے کہ کسی قسم کا ابہام نہ رہے (عبد الحمید خاں عباسی ،اصول تحقیق ص:۷۷،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد ۲۰۰۲)
تحقیق کے مقاصد
تحقیق کے بنیادی طور پر چار مقاصد ہیں (۱)غیر موجود حقائق کی دریافت (۲)موجود حقائق کا دوبارہ جائزہ لینا (۳) حدود علم کی توسیع (۴) مناسب اسلوب ، ڈاکٹر ناگیندر ،جو ہندی کے مشہور ناقد ہیں انہوں نے دو مقاصد کا اضافہ کیا ہے (۵) مواد کی تنقیح (۶) فکر کی مدد سے اصول کی تلاش
تحقیق کی قسمیں :
تحقیق کا عمل زندگی کے ہر شعبے میں ملتا ہے ،بنیادی طور پر تحقییق کی دو قسمیں کی جاتی ہیں (۱)ٖخالص یا نظریاتی تحقبق (۲) اطلاقی تحقیق ۔
خالص تحقیق کو بنیادی تحقیق بھی کہتے ہیں ،جس کا مقصد معلومات کا دائرہ وسیع کرنا ہوتا ہے ،اس تحقیق میں بہت سے سوالات اور موضوع سے متعلق بہت سے گوشے کو بے نقاب کیا جاتا ہے ،نئے حقائق کی فراہمی اور مختلف عوامل کے نظریات کے بارے میں تصوراتی ڈھانچے کی ترتیب بھی اس کے مقاصد میں شامل ہیں ۔اطلاقی تحقیق کا مقصد نتائج کی روشنی میں خالص تحقیق کو پرکھنا ہے ،یعنی اس میں صرف معلومات کو حاصل کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ نتائج کو عملی شکل میں دیکھنا بھی مقصود ہوتاہے (عبد الحمید خاں عباسی ،اصول تحقیق ص:۱۳۵،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلامی آباد ۲۰۰۲)
تحقیق کیے مختلف میدانوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو تحقیق کی دو قسمیں سامنے آتیں ہیں (۱)تجزیاتی تحقیق (۲) تاریخی تحقیق ۔لسانیات میں بھی یہی دو قسمیں اہم ہیں ،زبانوں کا عہد بہ عہد ارتقاء دیکھنا تاریخی لسانیات ہے اور کسی زبان یا بولی کا ایک دور میں مطالعہ کرنا تجزیاتی تحقیق ہے ۔
موضوع سے ہٹ کر تحقیق کی دو قسمیں ہیں (۱) سندی تحقیق (۲) غیر سندی تحقیق ۔سندی تحقیق وہ ہے جو یونیورسٹیوں میں ڈگری کے حصول کے لئے کی جاتی ہے ،اور غیر سندی تحقیق ڈگری کے حصول کے لئے نہیں کی جاتی ہے، اسے عام طور پر ڈگری یافتہ اساتذہ یا دوسرے اہل شوق کرتے ہیں ۔سندی تحقیق کے لئے تین چیزیں لازم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے یہ غیر سندی تحقیق کے مقابلہ میں ناقص ہوتی ہے (۱) اس کی تکمیل کے لئے مدت متعین ہوتی ہے (۲) اس میں نگراں کی ضرورت ہوتی ہے (۳) اس تحقیق کو ممتحنوں کے سامنے سے گزرنا ہوتا ہے جبکہ غیر سندی تحقیق میں اسکالر بالکل آزاد ہوتا ہے اور اس کے لئے کوئی مدت نہیں ہوتی ہے ۔
تنقید کا مفہوم
تنقید کے لغوی معنی ہیں جانچ ،پرکھ ،تمیز ،اور اصطلاحی معنی کسی مسئلہ میں اس انداز سے تحقیق کرنا کہ اس کے قوی یا ضعیف ،یا اچھے یا برے پہلو سامنے آجائیں او رقاری پڑھ کر کہے کہ واقعی جانچ ،پڑٹال کے بعد ایک بات کہی گئی ہے ، اصول تحقیق کے مصنف نے ڈاکٹر سید عبد اللہ کے حوالے سے تنقید کی یہ تعریف نقل کی ہے ۔
کسی موجود مواد کی خوبی یا خرابی،حسن وقبح اور جمال وبد صورتی کے متعلق چھان بین کرنا اور فیصلہ دینا نقاد کا کام ہے (عبد الحمید خاں عباسی ،اصول تحقیق ص:۷۷،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسلام آباد ۲۰۰۲)
تحقیق،تنقید کے درمیاں ربط وتعلق
تحقیق وتنقید کے درمیان مختلف اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے چند فرق یہاں درج کیا جاتا ہے(۱)تحقیق کا مقصد علم میں اضافہ ہے اور تنقید کا مقصد علم سے واقف کرانا ہے(۲) تحقیق میں دریافت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور تنقید میں پرکھ پر ڈاکٹر چندربھان دونوں کے درمیان فرق کے تعلق سے لکھتے ہیں :
(۱)نقاد اپنی ذاتی پسند تک محدود رہ کر لکھ سکتا ہے محقق ذاتی پسندیدگی سے اوپر اٹھ کر ہی کامیاب ہو سکتا ہے (۲) نقاد موضوعی رہ کر ہی لکھ سکتا ہے محقق کو معروضی رہنا ضروری ہے (۳) محقق ایک مسئلہ پیش کرتا ہے اور اس کا ذہنی حل فراہم کرتا ہے نقاد صرف حقیقت کے انکشاف پر قانع ہو سکتا ہے اس کے لئے حل پیش کرنا ضروری نہیں (۴) محقق جملہ حقائق کو جمع کر کے اس کا تجزیہ کرتا ہے ،نقاد کو جملہ حقائق پیش نظر رکھنا ضروری نہیں (۵) نقاد کا کام تشریح وتاویل ہے جبکہ محقق حقائق کی عملی طریقے سے گروہ بندی کرتاہے( ڈاکٹر گیان چند،تحقیق کا فن ، ص:۲۴،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،۲۰۱۲ء)۔
محقق کے اوصاف:
تحقیق کا مقصد حقائق کو منظرعام پر لانا ہے اور یہ پورا کام محقق کو ہی انجام دینا ہوتا ہے اس لئے محقق کو تحقیق کے بنیادی لوازمات اور اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے ،ان اوصاف کو چند زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
اخلاقی اوصاف:
محقق کے اندر اخلاقی طور پر مندرجہ ذیل اوصاف کا ہونا ضروری ہے (۱)سچائی وحق گوئی :ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ ہ حق گوئی کی صفت سے متصف ہواور روزانہ کی زندگی میں بھی سچائی کو اپنا شعار بنائے (۲) غیرجانبداری :محقق کو غیر متعصب اور غیر جانبدار ہونا چاہئے ،تحقیق کے دوران جو حقیقت بھی سامنے آئے اسے منظرعام پر لانا چاہئے چاہے اگر چہ اس کے گروہ ،مذہب ،جماعت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،(۳)ضدی اور ہٹ دھرم نہ ہو :تحقیق سے پہلے اس نے جو مفروضہ قائم کیا ہے ،تحقیق کے دوران اگراس کے خلاف دلائل مل جائیں تو اپنا موقف تبدیل کرنے میں اسے کوئی تامل نہ ہو (۴)تحقیق سے دنیوی فائدہ مقصود نہ ہو :تحقیق برائے علم ہونی چاہئے ،دنیوی فائدے ،عہدے یا منصب کے حصول ،یا کسی انعام کی لالچ میں نہیں ہونی چاہئے(۵) تحقیق کی طرف ر غبت ہو اور مزاج میں ڈٹ کر محنت کرنے کا جذبہ ہو :تحقیق وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں محقق کو موضوع سے خوب دلچسپی ہو اور خوب لگن سے محنت کرنے کا جذبہ ہے (۶) بے صبری اور عجلت نہ ہو: تحقیق ایک مشکل مرحلہ ہے بعض مرتبہ عجلت اور جلد بازی سے تحقیق کا مطلوبہ معیارحاصل نہیں ہوپاتا ہے اس لئے محقق جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے (۷)معتدل مزاج ہونا چاہئے :ایسا نہ ہو کہ جسے پسند کرے اسے آسمان پر پہونچا دے اور جسے نا پسند کرے اسے زمیں بوس کردے (۸)علم کا غرور نہ ہو: بلکہ طبیعت میں انکساری ہو کسی کی بات دلیل کی بنا پر قوی معلوم ہو تو اسے قبول کرنے میں تامل نہ ہو (۹)اخلاقی جرأت ہو:کسی کے خوف سے حق گوئی سے باز نہ رہے ۔
ذہنی اوصاف:
ذہن اور فکر کے اعتبار سے محقق میں در ج ذیل اوصاف ہونے چاہئے(۱)مزاج تقلیدی نہ ہو :ہر محقق کو چاہئے کو خود تحقیق کرے وہ کسی کی تقلید نہ کرے ،(۲)ضعیف الاعتقاد نہ ہو :توہمات ،خرافات سے باہر نکل کر سوچنے کی اس میں صلاحیت ہو (۳) استفہامی مزاج ہو :کسی تحریر کو قبول کرنے سے پہلے اس کا تجزیہ کرے (۴) اس کے مزاج میں سائنس داں کی سی قطعیت ہو (۵) حافظہ اچھا ہو (۶) سکون کے ساتھ ذہن کو کام پر مرکوز کرسکے ۔
علمی اوصاف :
(۱)نامعلوم کو معلوم کرنے کا جذبہ ہو (۲) جس زبان میں تحقیق کر رہا ہے اس کے علاوہ دوسری زبان سے بھی واقفیت ہو تاکہ دوسری زبان کے مواد سے بھی استفادہ کر سکے (۳) تاریخ سے گہری واقفیت ہو :تاریخ داں محقق اپنے ماضی سے جڑاہوتا ہے اور تحقیق میں تاریخ کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے (۴)بعض دوسرے علوم سے بھی واقفیت ہو :مثلا قرآن پر تحقیق کرنے والے کو علم حدیث سے بھی واقف ہونا ضروری ہے ۔
نگراں کے اوصاف :
سندی مقالے میں نگراں کا ہونا ضروری ہے اور نگراں کے اوصاف کا اسکالر کی تحقیق پراثر پڑتا ہے اس لئے نگران کے اندر بھی وہی اوصاف ہونے چاہئے جو ایک محقق کے اندر ہوتے ہیں اس کے علاوہ نگران میں مزید یہ صفات ہونے چاہئے (۱) نگراں کا مزاج تحقیقی ہو (۲) جس موضوع پر اسکالر سے کام کرائے اس کے بارے بہت کچھ جانتا ہو (۳) تدریس و تصنیف کے علاوہ نگراں کے پاس اسکالر کی رہنمائی کے لئے وقت ہو (۴) نگرا ں میں استادانہ فیاضی ہو (۵) اس کے دل میں اتنی وسعت اور فراخ دلی ہو کہ اسکالر کو اپنے سے اختلاف کی آزادی دے ۔
نگران کے فرائض :
نگراں کے چند فرائض یہ ہیں (۱)موضوع کی تلاش میں امید وار کی رہبری کرنا (۲) موضوع کا خاکہ بنا کردینا یا خاکہ بنانے میں مدد کرنا (۳) ابتدائی کتابیات اور ماخذ کی طرف رہنمائی کرنا (۴) ایک بزرگ دوست کی طرح اسکالر کے تحقیقی سفر میں ساتھ چلنا (۵) مقالے کے مختلف ابواب کے پہلے مسودے کو سرسری طور پر پڑھنا او راس کی اصلاح وترقی کے مشورے دینا۔
تحقیقی مقالہ:
تحقیقی مقالہ کی د و قسمیں کی جاتی ہیں (۱)مختصر مضمون جو کسی مجموعہ مضامین یا کسی یادگاری مجلہ کے لئے لکھا جائے (۲) طویل مقالے جس کی مزید دو قسمیں کی جاتی ہیں: (الف)متوسط حجم جو تقریبا سو دیڑھ سو صفحات کے ہوتے ہیں ،(ب) طویل حجم کے مقالے جو کئی سو صفحات کے ہو سکتے ہیں ،ایم فل کے مقالے متوسط حجم کے ہو تے ہیں اور پی ایچ ڈی کے مقالے طویل حجم کے ہو تے ہیں جو ساڑھے تین سو سے سات سو صفحات کے ہو سکتے ہیں پی ایچ ڈی کے مقالے کی مدت دو سال اور زیادہ سے زیادہ پانچ مقرررہو تی ہے ،اگر کوئی تحقیق مکمل نہیں ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دار تین اشخاص و عوامل ہوتے ہیں (۱) طالب علم کی کوتاہی (۲) نگراں کی کم التفاتی (۳) موضوع کا غیر مناسب ہونا ،تحقیقی مقالے کی تعریف مولانا کلب عابد نے یہ کی ہے :
زیر بحث مسئلہ کے متعلق ریسرچ اسکالرکی سعی وکوشش کے وہ مدونہ نتائج جس کو تمام مالہ اور ماعلیہ اسناد و دلیلوں کے ساتھ پیش کیاگیا ہو (مولانا کلب عابد ،عماد التحقیق ،ص :۱۷،بحوالہ تحقیق کا فن مصنفہ ڈاکٹر گیان چند ص:۵۷،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،۲۰۱۲ء)
تحقیق کی منزلیں :
ایک ریسرچ اسکالر کو تحقیق کے دوران کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔مختلف مصنفین نے تفصیل سے اس کا تذکرہ کیا ہے ذیل میں اختصار کے ساتھ ان مرحلوں کا ترتیب وار تذکرہ کیا جاتا ہے ،(۱) اسکالر کے لئے ضروری ہے کہ اچھااور مناسب موضوع کا انتخاب کرے (۲) نآخذ اور کتابیات کی ابتدائی فہرست بنانا (۳)خاکہ یعنی فہرست ابواب کا نقش اول بنانا (۴) مواد کی فراہمی (۵) پڑھنا اور نوٹ لینا (۶) نوٹوں کو پرکھنااور مرتب کرنا (۷) پہلا مسودہ لکھنا اوراس کے ساتٖھ حسب ضرورت خاکہ میں ترمیم کرنا (۸) مسودے پر نظر ثانی کرکے اس تبیض(۹) اگر سندی مقالہ ہے تو اس کی کئی کاپی کراکر داخل کرنا (۱۰) موافق فیصلے کی صورت میں زبانی امتحان دینا (۱۱) مقالے کو شائع کرانا ۔
تحقیقی مقالے اجزاء:
تحقیقی عمل کے بعد جب اسکالر اپنے مقالے کو تربیب دے گا تو اسے مقالے کے اجزاء پر بھی غور کرنا چاہئے ،اصول تحقیق پر جن حضرات نے کتابیں لکھیں ہیں انہوں نے تحقیقی مقالے کے اجزاء کا بھی تذکرہ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ کہ مقالے کو ان اجزاء پر مشتمل ہونا چاہئے ،بعض حضرات نے اسے تین حصے پر ترتیب دیا ہے (۱)پہلا حصہ :اس میں سرورق ہوتا ہے اس کے بعد اندرونی صفحہ ہوتا ہے جسے کاپی رائٹ صفحہ کہتے ہیں جس میں ناشر اور ایڈیشن وغیرہ کی تفصیل ہوتی ہے ،اس کے بعد انتساب ہوتا ہے اور یہ اختیاری ہوتا ہے اس کے بعد فہرست مضامین اور فہرست تصاویر دی جاتی ہے اس حصے کے بعد دیباچہ ،اظہار تشکر اور اگر کسی دوسرے صاحب کا مقدمہ ہو تو اسے ذکر کیاجاتا ہے (۲)دوسرا حصہ:اس میں موضوع کا تعارف ،مختلف ابواب اور نتائج ہوتے ہیں (۳)تیسرا حصہ :اس میں فہرست معاون کتب یعنی کتابیات حواشی اور اشاریے درج کی جاتیں ہیں ۔
موضوع:
تحقیق میں سب سے اہم منزل اور مرکزی نقطہ موضوع کے انتخاب کا ہے ،نئے اسکالر کو انتخاب موضوع میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ موضوع کے سلسلے میں تین باتیں ا ہم ہیں (الف)موضوع کیسا ہونا چاہئے (ب)موضوع کیسا نہیں ہونا چاہئے (ج) موضوع کس طرح تلاش کیا جائے مختصراتینوں کی وضاحت کی جاتی ہے ۔
موضوع کیسا ہونا چاہئے :
(۱)موضوع ایسا ہونا چاہئے جس سے اسکالر کو دلچسپی ہو ،سندی تحقیق میں بعض مرتبہ اسکالر کو صدر شعبہ یا نگراں سے مفاہمت کرتی پڑتی ہے ،اور اس موضوع پر کام کرنا پڑتا ہے جس سے اسکالر کو مناسبت نہیں ہے ،اور تحقیق نامکمل رہ جاتی ہے ،اس لئے ضروری ہے اسکالر کے مزاج کی مکمل رعایت کی جائے (۲) موضوع ایسا ہو جس پر پہلے کام نہ ہوا ہو (۳)موضوع ایساہو جس پرتحقیق کی جاسکے(۴)موضوع ایسا ہو جس پراس علم میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو سکے،اگر کوئی ایسے موضوع پر تحقیق کرے جس میں صرف موجودہ مواد کو ترتیب دے تو اس تحقیق سے کیا فائدہ ؟(۴)موضوع ایسا ہو کہ اشاعت کے بعد قارئین کو اس میں دلچسپی ہو (۵)موضوع ایسا لیا جائے جس کو سر کرنے کی اسکالر میں صلاحیت ہو (۶) سندی تحقیق کے لئے ایسا موضوع لینا چاہئے جس پر کافی مواد مل سکے۔
کن موضوعات کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے :
(۱)موضوع خالص تنقیدی نہ ہو ،خالص تنقیدی موضوع تحقیق کے لئے غیر مناسب ہے (۲)موضوع بہت زیادہ وسیع نہ ہو ،ورنہ موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکے گا (۳) ایسا موضوع نہ ہو جس کا پورا مواد کسی ایک کتاب میں مل جائے (۴) ایسا موضوع نہ ہو جس پر آپ پہلے کام کرچکے ہیں (۵) موضوع بہت تنگ نہ ہو کہ اس پر مواد ہی نہ ملے (۶) ایسے موضوع یا شخصیات کا انتخاب مت کیجئے جس پر آزادی سے تحقیق نہ کر سکیں (۷) کسی زندہ شخصیت کو تحقیق کا موضوع بنانا ان سے فائدے کی امید پر نامناسب ہے (۸) نئے مسائل کو بھی تحقیق کا موضوع بنانا بہتر نہیں ہے اس لئے اس پر زیادہ مواد رسالوں میں ہی مل سکتاہے کتابوں میں نہیں (۹)ایسے موضوع کا بھی انتخاب نہیں کرنا چاہئے جس کے بارے میں امید ہو کہ بعد میں دلچسپی برقرار نہیں رہے گی (۱۰) مناظراتی موضوع بھی مناسب نہیں ہے (۱۱) ایسا موضوع بھی غیر مناسب ہے جس سے شدید جذباتی لگاؤ یا عناد ہو (۱۲) اگر موضوع سے متعلق مواد کسی دوسری زبان میں ہو اور اسکالر کو اس زبان سے واقفیت نہ ہو تو اس موضوع کا انتخاب نہیں کرناچاہئے (۱۳)موضوع کے مواد تک پہونچنے کے مادی وسائل نہ تو ایسے موضوع انتخاب نہیں کرنا چاہئے (۱۴) جس موضوع کی تسویدمیں فحاشی ،عریانی ،اور جنسی تصاویر دینے کی ضرورت ہو ایسے موضوع سے احتراز کرنا چاہئے (۱۵) ایسا موضوع نہیں ہونا چاہئے جس میں کام صرف تذکرے کے انداز کا ہو مثلاکسی فرقے یاعلاقے کے افراد کی خدمات کا جائزہ (۱۶)ایسا موضوع نہیں ہونا چاہئے جسے تکمیل کے بعد شائع کریں تو ہماری دریافت بالکل غیر اہم معلوم ہو ۔
موضوع کی تلاش
ایک نیا اسکالر موضوع منتخب نہیں کرسکتا ہے ،اسے یہ شعور نہیں ہوتا ہے کہ کو ن سا موضوع پی ایچ ڈی کے معیار کا ہے اور کون نہیں ہے ،سندی تحقیق میں عام طور پر نگران اور صدر شعبہ کی موافقت کے بعد ہی موضوع متعین ہوتا ہے ، بعض مرتبہ اسکالر کے مزاج کے خلاف بھی موضوع منتخب ہوجاتا ہے اور وہ تحقیق یا تو تکمیل کو نہیں پہونچتی یا اپنا معیار برقرار نہیں رکھ پاتی ،اس لئے انتخاب موضوع کے وقت اسکالر کے مزاج کی رعایت بہت ضروری ہے بعض یونیورسٹیوں میں انتخاب موضوع کا یہ طریقہ ہے کہ اسکالر، تمام اساتذہ اور صدر شعبہ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور طویل تبادلہ خیال کے بعدموضوع اور نگراں کا ایک ساتھ انتخاب کر دیا جاتا ہے ،ایک انگریزی مصنف راتھ نے انتخاب موضوع کا یہ طریقہ بیان کیا ہے کہ پہلے ایک وسیع میدان لیجئے پھر اس کے بعد اس کی تحدید کرتے جائے اس سلسلے میں پانچ 249249ک،( انگریزی میں حرف w)بہت اہم ہوتے ہیں ،کون ،کیا ،کب ، کہاں ، کیوں ۔پہلے ایک وسیع میدان لیجئے اس کے بعدان حروف استفہام کے ذریعہ زمانی مکانی اور موضوعاتی تحدید کرتے چلے جائیے ،فرض کیجئے کسی کی تحقیق کا وسیع میدان ناول ہے تو تحقیق کار اسے یوں محدود کرسکتا ہے
ناول
کون ، کیا، کب ، کہاں ، کیوں
خواتین سماجی ، آزادی کے بعد ، دکن میں ، عوامی دلچسپی کے لئے
اب موضوع ہوگا 249249آزادی کے بعد دکن میں خواتین کے عوامی دلچسپی کے ناول ،،موضوع کے سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے موضوع کا انتخاب کیا جائے جس پر مواد آسانی سے مل سکتا ہو ۔
خاکہ:
تحقیقی مقالہ کے لئے خاکہ بنیادی ضرورت ہے ،بغیر خاکہ تیار کئے متعین سمت میں ترتیب دینا ایک مشکل کام ہے ،خاکہ انگریزی میں synopsis کا ترجمہ ہے ،اس کے لغوی معنی ہیں ایک ساتھ نظر ڈالنا ،انگریزی مصنف اے جے راتھ نے خاکہ کا مفہوم بیان کیا ہے کہ خاکہ مختلف تصورات کی تقسیم ،ترتیب اور باہمی رشتے کا نام ہے ، کتاب میں ہی نہیں زندگی کے تمام کے شعبے میں کام سے پہلے جو منصوبہ تیار کیا جاتا ہے وہی اس کا خاکہ ہے جس طرح مکان بنانے سے پہلے کاغذ پر اس کا نقشہ بنانا ضروری ہے اسی طرح تحقیقی مقالہ لکھنے سے پہلے خاکہ بنانا ضروری ہے ،مطالعہ کے پہلے خاکہ لکھنا چاہئے یامطالعہ کے بعد اس سلسلے میں دو رائے ہیں ایک رائے ہے مطالعہ سے پہلے خاکہ مرتب کرنا چاہئے لیکن اس کے لئے دو صلاحیتیں درکار ہیں ،اول یہ کہ علمی استخضار اتنا ہو کہ پہلے ہی مواد اور مآخذ کا اندازہ ہوجائے دوسرے یہ کہ ذہنی اور فکری صلاحیت اتنی پختہ ہو کہ مواد کو دیکھنے سے پہلے ہی اسے ذہنی ترتیب کر سکے ،بعض حضرات کی رائے یہ کہ خاکہ بنانا مقالہ کی تیاری کی طرح ایک مسلسل عمل ہے مطالعہ شروع کرنے پہلے ذہن میں اس کے بارے میں کوئی تصور ہونا چاہئے اورا گر نہیں ہے پہلے اپنے تخیل پر زور دے کر کوئی نہ کوئی شکل متعین کرنی چاہئے اس کے بعدمواد اکھٹا کرکے مطالعہ شروع کرنا چاہئے اور اسے ترتیب دینا چاہئے ،صحیح خاکہ ترتیب دینابہت مشکل کام ہے بڑے بڑے مصنفین بھی اس جگہ فنی غلطی کرجاتے ہیں ،خاکہ ترتیب دینے کیلئے کوئی متین اصول نہیں ہے کبھی موضوع وار اور کبھی زمانی ترتیب اور صنف کی ترتیب پر خاکہ مرتب کیا جاسکتا ہے ،خاکہ میں کن امور کا عموماتذکرہ کیا جاتا ہے اس حوالے عبدالحمید خاں عباسی لکھتے ہیں :
عموما درج امور بیان کرنے ہوتے ہیں (۱) موضوع کو اختیار کرنے کے اسباب و محرکات (۲)متعلقہ مواد کے مطالعہ کے بعد نتائج کا بیان اس میں طالب علم کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ موضوع پر پہلے کام کی نوعیت کیا تھی اور اب وہ خود کیا کرے گا (۳)موضوع کی اہمیت (۴) مقالہ کی تکمیل کے بعد علمی و تحقیقی دنیا میں اس کی افادیت (۵)مقالہ کی ترتیب و تالیف کا اسلوب (عبد الحمید خاں عباسی ،اصول تحقیق ص:۱۰۵،نیشنل بک فاؤنڈیشن ، اسلام آباد ۲۰۰۲)
مواد کی فراہمی :
مقالہ ترتیب دے نے کے لئے مواد کی فراہمی کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے بغیر مواد کے مقالہ کے ترتیب دینے کا تصور محال ہے اس لئے مقالہ نگار کو مواد کے حصول کے ذرائع کا معلوم ہونا ضروری ہے ،دو مختلف بنیادوں پر مواد کی دو قسم کی جاتی ہے (۱) اولین primary اور ثانوی (۲) داخلی اور خارجی ،ایک ادیب کے سلسلے میں زیر تحقیق ادیب کی جملہ تحقیقات اولین مواد ہے اور بقیہ ثانوی مواد ہے۔ اسی طرح مصنف کی نگارشات کے مشمولات داخلی مواد ہیں بقیہ سب خارجی مواد ہے ، ماخذی مواد کو ذیل کی قسموں میں بانٹا جاسکتا ہے (۱)کتابیں جس کی دو قسمیں ہیں (الف) مطبوعہ (ب) مخطوطہ ،(۲) جریدے اس میں رسالوں کے علاوہ اخبارات بھی شامل ہیں (۳) دوسرے کاغذات جیسے کسی مصنف کے منتشر کاغذات ،خطوط، تاریخی دستاویزیں (۴) بصری مواد مثلا فلم ،ٹیلی ویزن وغیرہ جیسے غالب پر فلم (۵)مائکرو فلم ،جس میں زراکس اور دوسرے عکس آتے ہیں (۶)سمعی مواد ، جیسے ریکارڈ ،کیسٹ ،تقریریں (۷) ملاقات (۹) مراسلت کے ذریعہ استفسار ۔سوال نامے ،ان میں ۶۵ فیصدی مواد کتابوں سے اور ۳۰ فیصدی رسالوں سے اور ۵ فیصدی دوسرے مآخذ سے حاصل ہوتا ہے، اپنے موضوع سے متعلق جن سنئر محققوں سے کسی جان کاری کی توقع ہے ان سے رابطہ کرنا مواد کی فراہمی میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔
مطالعہ اور نوٹ لینا:
تحقیقی مقالہ ترتیب دینے کے لئے بہت زیادہ مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مطالعہ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے نوٹ لینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے ،مطالعہ اور نوٹ لینے کے لئے کچھ اصول ہیں اس لئے کہ لائبریریوں میں کتابوں کے ازدحام کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی عمر نوح بھی لے کر آئے تو نا کافی ہوگا،اس لئے ہر تحقیق کار کے اندر اتنی صلاحیت ہونی چاہئے کہ کتابوں کی فہرست اور کتابوں کی الماری دیکھ کر اپنی ضرورت کی کتابوں کو فورا پہچان لے اور بڑی سرعت سے یہ فیصلہ کرلے کہ اس میں ہمارے کام کا کچھ مواد ہے یا نہیں ،اسکالر کو کتابوں کو بڑی تیزی سے پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے ،اگر کسی موضوع پر کام نہیں ہوا ہے تو زیادہ امید یہ کہ اس کے متعلق مواد مختلف کتابوں میں تھوڑا تھوڑا بکھرا ہوا ہوگا ،ایک کامیاب اسکالر کے لئے اپنے موضو ع کی مفید کتابوں اور ان میں بھی اپنے کام کی عبارت کو محفوظ کرنا اور نوٹ لینابہت ضروری ہے ،نوٹ لیتے وقت یہ خیال بھی بہت ضروری ہے آپ ایک نیا مقالہ اور نئی کتاب لکھ رہے ہیں ،پہلے سے موجود کتاب کی تلخیص نہیں کررہے ہیں آپ کو اپنی طرف سے کچھ لکھنا ہے اور اس طرح کہ نیا معلوم ہو ،کہتے ہیں کہ اگر آپ نے نو کتابیں پڑھ لی تو دسویں کتاب ترتیب دے سکتے ہیں ؛لیکن اس میں تحقیق کا رنگ نہیں آسکتا ہے ،اس میں تحقیق کی چاشنی محسوس نہیں کی جاسکتی ہے سیمول جانسن کا قول ہے کہ ایک کتاب لکھنے کے لئے آدھی سے زیادہ لائبریری پڑھ ڈالے،اتنے زیادہ ماخذ کو دیکھا جائے تو یقیناًتحقیق میں جان پیدا ہوگی ،اسکالر کے لئے ضروری ہے تیزی سے زیادہ سے زیادہ کتابیں دیکھ جائے اور سونگھ کر مواد ڈھونڈلینے کی مشق کریے ،کتابوں میں ابواب کے عنوان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس باب کوو دیکھنا چاہئے اور کس کو پورا چھوڑ دینا چاہئے ،اسی طرح رسالے کی فہرست مضامین سے اپنے کام کا مضمون اور پھر مضمون سے اپنے کام کے اجزاء تلاش کئے جاسکتے ہیں ،مطالعہ کا آغاز کس کتاب سے کیا جائے اس سلسلے میں لوگوں کی مختلف رائیں ہیں بعض حضرات کی رائے ہے کہ اولین مواد دیکھے جائیں دوسری رائے ہے موضوع پر سب سے اچھی کتاب سے مطالعہ کاآغاز کیا جائے ایک تیسری رائے یہ ہے کہ پہلے نئی تحریروں کو پڑھا جائے یہ پرا نی تحریروں سے بے نیاز کردیگی ،ایک رائے یہ ہے کہ جس میں سب سے زیادہ مواد ملنے کی امید ہو پہلے اسے پڑھا جائے ۔
نوٹ لینا:
جتنا مطالعہ کیا جائے اس میں سے چند مفید اجزاء کا نوٹ تیار کرلینا مفید ہے اس لئے کہ ہر کتاب ہر وقت آپ کے پاس نہیں رہتی ہے اور تمام باتیں حافظہ میں مستحضر نہیں رہتیں ہیں اس لئے نوٹ لینا ضروری ہے ،نوٹ کس طرح لینا چاہئے اور کس پرلینا چاہئے اس بارے میں محققین اصول تحقیق نے جو باتیں ذکر کی ہیں ،اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے ،(۱) نوٹ کسی موٹے اور عمدہ کاغذ پر لینا چاہئے مجلد کاپی پر نوٹ لینا مفید نہیں ہے (۲)ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک کتاب کا نوٹ ایک کاغذ پر لیا جائے دوسری کتاب کا نوٹ دوسرے کاغذ پرلیا جائے لیکن یہ طریقہ قدیم ،دشوار اور غیر مفید ہے بہتر طریقہ یہ ہے ایک مضمون یا ایک نکتے کا نوٹ ایک کاغذ پر لیا جائے اور دوسرے مضمون کا نوٹ دوسرے کاغذ پرلیا جائے (۳) نوٹ صاف ستھرا لکھئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک ہفتہ بعد خود ہی پڑھنا دشوار ہوجائے (۴) ماخذ اور حوالجات کا صحیح اندراج کرنا چاہئے کیوں کہ لائبریری چھوڑنے کے بعد اسی نوٹ پر تکیہ کرنا پڑتا ہے (۵) نوٹ مکمل لینا چاہئے بعض مرتبہ نوٹ لیتے وقت یہ خیال ہوتا ہوتا ہے کہ ہم ضروری نکات لکھ لئے لیکن تسوید کے وقت محسوس ہوتا ہے کہ فلاں نکتہ اور دیکھنا چاہئے (۶) کسی کتاب یا مضمون سے بہت زیادہ نوٹ لینا بہتر نہیں ہے (۷)جیسے جیسے مطالعہ کریں ساتھ ہی نوٹ لیتے جائیں یہ مت سوچئے کہ پورا مضمون پڑھ کر اخیرمیں نوٹ لکھ لیں گے (۸) نوٹ میں لفظ بلفظ لکھنا مناسب نہیں نکات کو اپنے الفاظ میں لکھ لینا کافی ہے (۹)حقائق اور رائے میں فرق ہونا چاہئے ،حقائق کا نوٹ لینا چاہئے رایوں کو لکھنا ضروری نہیں (۱۰) لفظ بلفظ اقتباس کم صورتوں میں نقل کرنا چاہئے (۱۱) بعض انگریزی مصنفین نے کارڈ اور نوٹ کے پرزوں کی دو قسمیں کی ہیں ماخذی کارڈ اور نوٹ کارڈ ،نوٹ کا رڈ کا مطلب تو واضح ہے اوپر جس نو ٹ کی با ت ہو رہی ہے وہی نوٹ کارڈ ہے اور ماخذی کارڈ وہ نوٹ ہے جس میں ابتدائی کتابیات تیار کرتے ہیں ،شروع میں لائبریری میں دیکھنے پر جو کتاب یا مضمون کا نام اور مصنف کا نام اور نمبر ایک پرزے پر نقل کردی جاتی ہے وہ ماخذ ی کارڈ کہلاتا ہے ۔
مواد کا جائزہ :
مطالعہ اورنوٹ لینے کے بعد مقالہ کی تسوید سے پہلے ایک مرتبہ مواد کا جائزہ لینا اور مواد کو پرکھنا ضروری ہے اس لئے کہ ہر لکھی ہوئی بات صحیح نہیں ہوتی ہے،ہر تحقیق سے پہلے کچھ تحقیق موجود ہوتی ہے بعد کے تحقیق کار لئے پہلے سے موجود تحقیق یعنی پہلے سے موجود مواد کو پرکھنا او ر چھانٹنا ہوتا ہے مواد کی فراہمی اور مواد کی تسوید کے درمیان کا مرحلہ ہے مواد کا جانچنا اور پرکھنا ،یہی تحقیق کی شہ رگ ہے ،ماضی کے مواد کی صحت کے لئے یہ دیکھنا پڑتا ہے لکھنے والا اور بیان کرنے والا کون ہے ،انگریزی کے ایک مصنف نے مواد کے جائزے او رمعتبر ماخذ کے کچھ اصول بتائے ہیں (۱) جس ماخذ میں سب سے زیادہ مواد ملے وہ زیادہ بہتر ہے (۲) جو مواد کئی کتابوں میں ملتا ہے وہ اہم ہے (۳) جو مصنف آپ کے موضوع کاماہر ہے اس کی بات زیادہ معتبر ہے (۴) کتاب کے اسلوب سے بھی کتاب کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے (۵)معاصر ین میں بھی غیر جانبداری کا امکان ہوتا ہے اس لئے کہ ہر مصنف اہل خانہ ،رشتہ دار ،دوست ، شاگرد ،عقیدت مندچھوڑ کرمرتے ہیں اس لئے وہ لوگ ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لے سکتے ہیں ،چشم دید گواہوں کے بیانات پر بھی آنکھ موند کر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے وہ مشاہدے کی کمی ،یا کسی جذبے یاکسی مقصد کے تحت غلط بیانی کر سکتے ہیں ۔(۶)ماضی کے اہل قلم کو کتابوں اور ان کے مصنفوں کے ناموں کے بارے میں التباس اور اشتباہ ہو سکتا ہے ایک محقق کو اس کا خیال رکھنا چاہئے (۷)اگر کسی ماضی کے بڑے مصنف کی کوئی نئی کتاب یا ان کی زندگی کی کوئی تحریر تلاش کرکے منظر عام پر لائی گئی تو اسے پورے شک کے ساتھ جانچنے کی ضرورت ہے۔
مقالے کی تسوید:
مطالعہ، نوٹ ،مواد کے جانچ کے بعد مقالے کی تسوید کا مرحلہ آتا ہے ،اور یہ چیزیں درحقیقت مقالے کی تیاری کے زینے ہیں اصل مقصد مقالہ ترتیب دینا ہے ،اس آخری عمل کی دو منزلیں ہیں (۱) تسوید :مقالے کا پہلا مسودہ تیار کرنا (۲) تبییض:پہلے مسودے کو ضروری اصلاح وترمیم کے ساتھ صاف نقل کرنا اس نقل کو مبیضہ کہتے ہیں ،مطالعہ کرنے اور نوٹ تیار کرلینے بعد ذہن میں مقالہ کی تسوید کے لئے آمادگی ہوجاتی ہے ؛لیکن پہلا پیراگراف لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے انگریزی کے ایک مضمون نگار نے لکھا ہے دنیا کا سب مشکل کام پہلاپیراگراف لکھنا ہے ،ڈاکٹر جمیل جالبی ،گیان چند ،لنڈا ،واٹسن وغیرہ نے مقالہ کی تسوید کے چند اصول ذکر کئے ہیں اختصارا نمبروار ان ہدایات کو ذکر کیا جاتا ہے ،(۱) مقالہ کی تسوید سے پہلے ضروری ہے کہ آپ نے اپنے موضوع کے بارے پوری واقفیت حاصل کرلی ہو (۲) آپ نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے حوالے جمع اور مرتب کر لئے ہوں (۳) آپ اس موضوع میں اس قدر منہمک ہو گئے ہو ں کے اس کے اظہار کے لئے آپ کے اندر بے چینی پیدا ہورہی ہو (۴) آپ ایک چیز لکھ رہے ہوں تو اس عرصے میں کوئی دوسری چیز نہ لکھیں؛ بلکہ اسی کے ساتھ اٹھنا ،بیٹھنا ،سونا ،اسی کے ساتھ زندگی بسر کریں (۵) مقالہ لکھنے کا وقت اور مقام متعین کریں اور اہتمام کے ساتھ کے اس وقت میں اس جگہ پر وہ کام کریں (۶) اگر لکھنے کا بہاؤ کم ہوجائے تو جو کچھ لکھاہے اس کو از سر نو پڑھیں تو دوبارہ انشراح ہوجائے گا اور طبیعت کھل جائے گی (۷) ایک نشست ختم کرنے سے پہلے کچھ خیالات قلم بند کرلیجئے تاکہ اگلی نشست میں کام کرنا آسان ہو (۸) حقائق سادہ اور عام فہم اسلوب میں ذکر کیجئے عبارت آرائی سے گریز کیجئے اور بے جا ایجاز و اختصار بھی اچھی چیز نہیں ہے (۹)اقتباسات او رمقولے مختصر ہوں (۱۰) آپ کو خواہ اپنی تحریر پر شک ہو لیکن اس اظہار مت ہونے دیجئے ۔
اخلاقیات تحقیق :
تحقیق دیانت داری کا عمل ہے ،اس کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے جو خاص طور پر تسوید میں سامنے آتا ہے ،اس سلسلے میں چند باتیں قابل ذکر ہیں (۱) اعتراف:جو اہم بات جس کتاب یا مضمون سے ملے اس کا اعتراف کرناچاہئے(۲)جو معلومات کسی سے زبانی گفتگومیں ملی ہو انہیں اس شخص کے شکریے کے درج کیجئے (۳) کسی سے معلومات کے علاوہ کسی دوسری قسم کی مددلی ہو تو اس کا بھی اعتراف کیجئے (۴) اپنے فرقے یا گروہ کی بے جا حمایت محقق کی شخصیت کو مجروح کردیتی ہے (۵) تحقیق کے دوران اگر اپنے گروہ یا فرقے کے خلاف کوئی بات ملے تو اسے چھپانا دیانت کے خلاف ہے (۶) جو کتاب آپ نے دیکھی نہیں ؛بلکہ کسی او رماخذ کے ذریعہ آپ کو اس کے بارے میں علم ہو ا تو آپ اسی ماخذ کا حوالہ دیجئے اصل کتاب کا نہیں ،(۷) اپنی غلطی یا کوتاہی کے اعتراف سے انسان چھوٹا نہیں ہوتا اس لئے غلطی کے اعتراف میں تامل نہیں ہونا چاہئے (۸)کسی سے بازی مارنے کے لئے تحقیق میں عجلت کرنا۔ تحقیق کے ساتھا آنکھ مچولی کا کھیل ہے ۔
زبان وبیان کی درستگی :
مسودہ تیارکرنے کے بعد سب سے اہم مرحلہ زبان و بیان کی درستگی کا ہے ،مسودہ تیار کرتے وقت اسکالر اپنی رائے کو بلاکم وکاست کے نقل کردیتا ہے ، لیکن زبان و بیان کی درستگی کا خیال نہیں کر پاتا ہے ،مقالہ ترتیب دیتے وقت اسکالر کو چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور پھر نظر ثانی کرتے وقت بھی چند امور کی طرف توجہ دینی چاہئے (۱) تحقیقی تحریر میں محقق کو اپنی رائے صاف لفظوں میں تحریر کرنا چاہئے، ادبی لفاظی کے بنا پر بعض مرتبہ ان الفاظ سے وہ مفہوم ادا نہیں ہوپاتا جو اسکالر کہنا چاہتا ہے یا قاری کو اس مفہوم کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے (۲)ز بان کی صحت او رالفاظ کی قطعیت پر خصوصی توجہ ہونی چاہئے بالخصوص کتابوں کے ناموں کی صحت کا خیال رکھنا چاہئے (۳)مخففات کا استعمال وہیں مناسب ہے جہاں آسانی سے قاری کا ذہن اس کی طرف منتقل ہو سکے مثلا مقالات شیرانی کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہو تو اسی صفحہ میں صرف مقالات یا صرف شیرانی لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ،(۴)کسی بھی علاقے یا زمانے یا ما
حول ماحول میں جو مخصوص الفاظ رائج ہو جاتے ہیں ایسے اصطلاحی الفاظ کا استعمال تحقیق میں غیر مناسب ہے ،اس لئے کہ آج جو لفظ بطور فیشن رائج ہے کل وہ متروک ہو سکتا ہے ،(۵)تحقیق کی زبان کا اسلوب سادہ اور سہل ہونا چاہئے اور مبالغہ آمیزی سے گریز کرنا چاہئے ۔
نظر ثانی :
تحقیقی مقالہ کا آخری مرحلہ نظر ثانی کا ہے او ریہ بہت ضروری ہے اس لئے کہ نظر ثانی کے ذریعہ تحقیق کار کو اپنی تحقیق کے دوبارہ جائزہ کا موقع ملتا ہے اور بعض مرتبہ غلطی کا احساس بھی ہوتا ہے ،نظر ثانی میں کئی پہلوؤں پر توجہ دی جاتی ہے (۱)حذف واضافہ :مسودے کی تکمیل کے بعد جب دوبارہ دیکھا جاتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسودے کے کچھ حصے حذف کردیے جائیں او ر کچھ حصے کا اضافہ کردیاجائے (۲)ترتیب نو :حذف واضافہ کے ساتھ ساتھ نظرثانی کی وجہ سے ترتیب نو قائم ہو جاتی ہے ترتیب میں اس بات کا خیال ہونا چاہئے کہ ایک باب دوسرے باب سے اور ایک ذیلی جز دوسری ذیلی جز سے زنجیرکی کڑیوں کی طرح منسلک ہو اور نظر ثانی میں اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے ،(۳)بہتر زبان:نظرثانی میں آخری کام جملوں کی ساخت کو بہتر بنانے اور زبان کو سنوارنے کا ہوتا ہے پہلی تسوید میں ساری توجہ خیالات کو کاغذ کے پرزوں پرمنتقل کرنے پرہوتی ہے نظر ثانی میں زبان اور اسلوب کو بہتر بنایا جاتا ہے ۔
رموز اوقاف:
تحقیقی تحریروں میں رموز اوقاف کی رعایت بہت ضروری ہے ،اس سے قاری کو پڑھنے میں سہولت ہو تی ہے ،رموز اوقاف کا مفصل بیان دو جگہ ملتا ہے ،سرسید کا رسالہ علامات قرأت اور مولوی عبد الحق کی قواعد اردو میں ایک باب رموز اوقاف کا ہے یہاں پر چند رموز اوقاف اور اس کے محل کا تذکرہ مختصراکیا جاتا ہے ،
فل اسٹاف:انگریزی میں نقطہ کی شکل میں ہوتا ہے،اور اردو ڈیش کی شکل میں لکھاجاتاہے(۔)یہ جملے کے آخر میں ہوتی ہے نیز عنوانات ،فہرست ،حوالوں اور کتابیات کے اندراج کے ختم ہونے کو ظاہر کرتی ہے ۔
کاما(،):ضمہ سے الٹا لکھا جاتا ہے ،اس سے فقروں کو الگ کرنے کا کام لیا جاتا ہے ،اگر ایک شئی کی انواع کا بیان ہو تو آخری نوع سے پہلے اورلگاتے ہیں اور باقی کو اسی کاما سے جدا کرتے ہیں مثلا نثر کی چار قسمیں ہیں سلیس سادہ،سلیس رنگین ،دقیق سادہ اور دقیق رنگین ۔
کولن(:)اردومیں اس کا استعمال ذیل کے موقعوں پر ہوتا ہے ۔(۱)اقتباس دینے سے پہلے تعارفی جملوں کے اخیر میں مثلا ارسطو کا قول ہے :انسان تعقل پسند حیوان ہے ۔(۲)کسی مصنف کے نام کے بعد کولن لگا کر اس کے تصنیف کا تذکرہ کیا جاتا ہے مثلا رشید احمد خاں :ادبی تحقیق،مسائل اور تجزیہ (۳)اس بات کو بتانے کے لئے کہ بعد کی عبارت ما قبل کی تشریح یا تفصیل ہے ۔
علامات استفہام (؟):انگریزی کے برعکس اردو میں دائیں طرف سے لکھی جاتی ہے ۔اس کے ذریعہ کوئی سوال مقصود ہوتا ہے یااپنے شک کو ظاہر کیا جاتا ہے ۔
فجائیہ یا ندائیہ(!)اردو میں اس کا استعمال نداکے طور پر ہوتا ہے مثلادل ناداں!تجھے ہوا کیا ہے ۔
قوسین یا چھوٹا بریکٹ( )قوسین میں اس لفظ لکھا جاتا ہے جو جملوں کے بیچ میں جملہ معترضہ کے طور آجاتا ہے ۔اس کا دوسرا استعمال متن میں حوالہ درج کرنے کے وقت ہوتا ہے ۔
واوین:(’’‘‘)اس کا استعمال دو موقعوں پر کیا جاتا ہے (الف)اقتباس یا قول نقل کرتے وقت (ب)کسی جملے میں کسی لفظ یا فقرے کو نمایاں کرنے کے لئے ۔
اکہرے واوین(’‘)اگر کوئی اقتباس دوہرے واوین میں بند ہو اور اس بیچ میں کوئی مقولہ دینا ہو تو اسے اکہرے واوین میں دیا جاتا ہے جیسے قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے 249249خدا نے 249کن،کہا اور دنیا پیدا ہوگئی ۔یہ چند رموز اوقاف اور اس کے مختصر مواقع استعمال کا تذکرہ کیا گیاہے اس کے علاوہ اور بھی رموز اوقاف اور دیگر علامات ہیں جس کا مطالعہ اسکالر کے لئے مفید ہے ۔
خلاصہ :
تحقیقی مقالہ کے تعارف اور طریقہ کار کے سلسلے میں یہ چند ابتدائی اور ضروری باتیں ہیں جس کا ہر تحقیق کار کو اہتمام کرنا چاہئے اور ان امور کی رعایت کی بنا پر تحقیق میں پختگی اور اس کے معیار میں بلندی پیدا ہوگی ۔