نام کتاب : جنوبی ہندمیں ڈھولک کے گیتوں کی روایت
مصنفہ: ثمینہ بیگم
مبصر: ڈاکٹربی بی رضا خاتون(اسسٹنٹ پروفیسر)
شعبۂ اُردو، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی۔
۔ ۔ ۔ ۔
لوک گیت ہماری تہذیب و ثقافت کے ترجمان ہیں اور تہذیب و ثقافت ہی ایک قوم کو دوسری قوم سے ممیّزوممتاز بناتی ہے۔ کسی قوم کی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے اس معاشرے کے افراد میں تہذیبی قدروں کا علم ضروری ہوتا ہے۔ تھوڑی سی غفلت یا بے توجہی زوال آمدگی کی طرف لے جاسکتی ہے اور اس قوم کی شناخت اور انفرادیت مشکوک ہوجاتی ہے۔ آج ہندوستانی معاشرہ اسی تشوشناک صورت حال سے دوچار ہے۔ دورِ حاضر کے Globalization کی آندھی میں جس تیز رفتاری سے مشرقی تہذیبی نقوش دھندلے پڑتے جارہے ہیں اسی تہذیبی انتشار میں ذہنی و قلبی تسکین کا سامان فراہم کرنے والے لوک گیت ، ڈھولک کے گیت اپنے وجود کی بقا کے لیے مضطرب ہیں۔ یہ صرف گیت نہیں ہیں یہ انسانی زندگی اور معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔جنوبی ہند کے ڈھولک کے گیتو میں مذہبی ، موضوعات ، پندونصائح، اخلاقیات ، رسم و رواج، رشتوں کی نوک جھونک، ہنسی مذاق ،لباس، زیورات، پکوان وغیرہ کا بیان اس خطّے کی معاشرتی زندگی کی ترجمان ہیں۔
ڈھولک کے گیت جو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہتے ہیں موجودہ دور میں متعدد تفریحی ذرائع کی موجودگی اور مغربی تہذیب کے بڑھتے تسلط کے پیش نظر مستقبل میں ان گیتوں کے وجود وبقا سے متعلق خطرات و خدشات پیدا کردیئے ہیں۔ ثمینہ بیگم نے زیرِ نظر کتاب میں بڑی محنت و جستجو اور عرق ریزی سے جمع کرکے صفحہ قرطاس پر محفوظ کردیئے ہیں۔ انھوں نے شہر حیدرآباد کے علاوہ مختلف شہروں، قریوں، دیہی علاقوں میں گھوم گھوم کر بڑی جانفشانی دیدہ ریزی اور کوشش و کاوش سے بہت سارے ڈھولک کے گیت اکٹھا کیے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت اس کتاب میں چند ہی گیت شامل کیے ہیں۔ امید کہ باقی گیتوں کے سرمایے کو بھی وہ کتابی شکل میں جلد ہی پیش کریں گی۔
زیرِ نظر کتاب ثمینہ بیگم کے ایم فل کی ڈگری کے لیے لکھے گئے مقالہ پر مبنی ہے۔ جس کا موضوع ’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت‘‘ ہے۔ مصنفہ نے اس کتاب کو سات ابواب میں منقسم کیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان ’’گیت فن اور تکنیک‘‘ ہے، اس باب میں گیت کی تعریف کرتے ہوئے مختلف محققین و ماہرینِ علم و ادب کے خیالات کو بھی پیش کیا ہے اور گیت کے فن کے حوالے سے بحث کی ہے جس سے بحیثیت صنف اس کی فنی خصوصیات کی وضاحت ہوتی ہے۔
باب دوم ’’گیتوں کے اقسام‘‘ ہے اس باب میں گیت کی قسموں پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور گیت کی تمام قسموں کی تعریف مع مثالوں کے پیش کی ہے۔ مصنفہ نے گیتوں کی تقریباً 18قسموں کا ذکر اس باب میں کیا ہے۔ جن میں مذہبی گیت، ڈھولک کے گیت، محنت کشوں کے گیت، تہواروں کے گیت، مناظرِ فطرت کے گیت، پنگھٹ کے گیت، میلے ٹھیلے کے گیت، حب الوطنی کے گیت، الاوے کے گیت، کھیل کے گیت اور بچوں کے گیت وغیرہ شامل ہیں۔باب سوم ’’گیتوں کی اہمیت‘‘ ہے اس باب کے تحت مصنفہ نے گیتوں کی مذہبی، سماجی و تہذیبی ، معاشرتی اور لسانی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
باب چہارم ’’گیتوں کی روایت‘‘ ہے اس باب کے پہلے حصے میں گیتوں کے آغاز و ارتقاء کا جائزہ لیا ہے۔ اور دوسرے حصے میں گیتوں کی روایت کی زوال پذیری کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے اسباب بیان کئے ہیں۔ مصنفہ کے مطابق گیتوں کی روایت کی زوال پذیری کی سب سے اہم وجہ تہذیبی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں۔ مغربی کلچر کی تقلید میں شادی بیاہ کے موقعوں پر مراثنوں اور گھریلوخواتین کی ڈھولک کے گیتوں کی جگہ جدیدطرز کے آرکسٹرانے لے لی ہے۔
باب پنجم کا عنوان ’’ ڈھولک کے گیت: امتیازات‘‘ ہے اس باب میں جنوبی ہند کی تہذیب و ثقافت پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈھولک کے ان گیتوں میں اس علاقے کے تمام رسم و رواج، زیورات ، بناؤ سنگار اور پکوان کی مختلف اقسام وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔ جس سے جنوبی ہند کے علاقے کی معاشرتی و تہذیبی زندگی کی عکاسی ہوتی ہے۔ باب ششم ’’ڈھولک کے گیت : مطالعہ ‘‘ کے تحت اس باب میں مصنفہ نے منتخب گیتوں کی تشریح و تفہیم کی ہے۔
باب ہفتم ’’ڈھولک کے گیت‘‘ کے تحت مصنفہ نے بڑی تحقیق و جستجو سے فیلڈ سروے کرکے اکٹھا کئے ہوئے گیتوں کو پیش کیا ہے۔ جس میں تقریباً 151ڈھولک کے گیت شامل ہیں۔ جسے مصنفہ نے مزید تین حصوں میں تقسیم کرکے پہلے حصے کا عنوان ’’شادی بیاہ کے گیت ‘‘ دیا ہے جس میں 37گیت شامل ہیں۔ اس کے ذیلی اقسام میں (الف) مذہبی گیت (ب) رومانی گیت (ج) مزاحیہ گیت (د) واسوخت کی طرز کے گیت (ھ) متفرق گیت شامل ہیں۔متفرق گیتوں میں مختلف النوع موضوعات پر گیت ہیں۔ اس میں ماں کی عظمت میں گائے جانے والے گیتوں کے علاوہ ایک گیت ایسا بھی ہے جو موسیٰ ندی میں آئی طغیانی پرلکھاگیا ہے۔ یہ گیت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دوسرے حصے میں بچے کی پیدائش کے گیت اور تیسرے حصے میں تہواروں کے گیت شامل ہیں۔
زیرِ نظر کتاب کے موضوع ’’جنوبی ہند میں ڈھولک کے گیتوں کی روایت ‘‘ کا تعلق ادب کے ساتھ ساتھ تہذیبی زندگی سے بھی ہے۔ لہٰذا یہ ایک طرح سے بین العلومی تحقیقی موضوع ہے۔ جس کے ذریعے ادب کے پس منظر میں سماج اور تہذیب کا مطالعہ کیاگیاہے۔ یہ موضوع ادب میں انفرادی اہمیت کا حامل ہے۔ مصنفہ نے اپنی تنقیدی صلاحیتوں اور تحقیقی کاوشوں سے اس موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ انھوں نے معروضی نقطہ نظر اور تحقیق کے جدید طریقوں کی پابندی کی ہے۔
اس کتاب کے ذریعے ڈھولک کے گیتوں کے تہذیبی ورثے کوآنے والی نسلوں تک پہنچانے کی یہ کوشش فالِ نیک ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں ثمینہ بیگم کو صمیمِ قلب سے مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ کرے ہو زورِ قلم اور زیادہ۔
نمونہء گیت : رومانی گیت:۔
چلے آؤ سیّا رنگیلے میں واری رے ‘-چلے آؤ سیّاں رنگیلے میں واری رے
چلے آؤ سیّا رنگیلے۔۔۔۔۔۔
سجن موہے تم بن بھائے نہ گجرا سجن موہے تم بن بھائے نہ گجرا
نہ موتیا، چنبیلی، نہ جوہی، نہ موگرا نہ موتیا، چنبیلی، نہ جوہی، نہ موگرا
چلے آؤ سیّا رنگیلے۔۔۔۔۔۔
سجن موہے تم بن بھائے نہ زیور سجن موہے تم بن بھائے نہ زیور
نہ جھمکے، نہ کنگن،نہ جھومر،نہ جھانجر نہ جھمکے، نہ کنگن،نہ جھومر،نہ جھانجر
چلے آؤ سیّا رنگیلے۔۔۔۔۔۔
سجن موہے تم بن بھائے نہ سنگار سجن موہے تم بن بھائے نہ سنگار
نہ کاجل، نہ سُرخی، نہ مسّی، نہ مہندی نہ کاجل، نہ سُرخی، نہ مسّی، نہ مہندی
چلے آؤ سیّا رنگیلے۔۔۔۔۔۔
مزاحیہ گیت:
سمدن کھوگئی ماں ،چارمینار کی سڑک پو
سمدن کھوگئی ماں ،چارمینار کی سڑک پو
سمدن کھوگئی ماں۔۔۔۔۔
اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی لارڈ بازار کی گلیاں
اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی لارڈ بازار کی گلیاں
سمدن مل گئی ماں، چوڑی والے کی دوکان پو
سمدن مل گئی ماں، چوڑی والے کی دوکان پو
سمدن کھوگئی ماں۔۔۔۔۔
اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی مدینہ کی گلیاں اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی مدینہ کی گلیاں سمدن مل گئی ماں، کپڑے والے کی دوکان پو
سمدن مل گئی ماں، کپڑے والے کی دوکان پو
سمدن کھوگئی ماں۔۔۔۔۔
اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی چار کمان کی گلیاں
اِدھر دیکھی اُدھر دیکھی چار کمان کی گلیاں
سمدن مل گئی ماں، سونے چاندی کی دوکان پو
سمدن مل گئی ماں، سونے چاندی کی دوکان پو
سمدن کھوگئی ماں۔۔۔
۔ ۔ ۔
سنِ اشاعت اوّل:2015ء
قیمت :250/-روپے
ملنے کا پتہ:مکان نمبر42-910 ‘ باغِ حیدری، مولاعلی، حیدرآباد500040- ،تلنگانہ اسٹیٹ
سل نمبر:9700115517
ای میل :
– – – –
Sameena Begum
۲ thoughts on “کتاب:جنوبی ہندمیں ڈھولک کے گیتوں کی روایت – مبصر:ڈاکٹربی بی رضاخاتون”
ثمینہ بیگم کی کتاب پر بی بی رضا خاتون کاتبصرہ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ڈھولک کے گیت پر اچھا کام کیا گیا ہے جس کے لیے ثمینہ بیگم کو بہت بہت مبارک ہو
عطااللہ. شکاگو
تبصرہ تو اچھا ہے لیکن بغیر ڈاکٹر ارجمند نظیر کے ذکر کے یہ کتاب ادھوری ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کتاب میں ان کا ذکر موجود ہے ؟