تصنیف : معجزۂ فن
مصنف : ڈاکٹرلئیق صلاح
مرتب : محمد انورالدین
مبصر : ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ
تبصرے، مراسلے ، پیش لفظ، تقریظ، مقدمے واداریئے لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سارے لوگ اسے آسان سمجھتے ہیں۔ اس میں قلمکار کوبڑی احتیاط سے کام لینا پڑتاہے اور اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ جس کی تصنیف پر یا تحریر پر قلم اٹھارہا ہے اس میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ شامل ہے ۔ آئے دن ہماری نظروں سے ایسے پیش لفظ، تبصرے اور جائزے گذرتے ہیں جن میں مبصر مصنف کی صرف تعریف ہی کرتے نظر آتے ہیں اور کتاب کے بڑے بڑے عیبوں کی پردہ پوشی کرکے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ ایسا کرکے وہ نہ صرف مصنف کے ساتھ بلکہ خود اپنے آپ کے ساتھ بھی ناانصافی کرتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ آج بھی ایسے بہت سارے معتبر، مستند وانصاف پسند مبصر و قلمکار موجود ہیں جو اپنی سلجھی ہوئی بصیرت افروز تحریروں کے ذریعہ ادب کے چراغ کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی معتبر و مستند قلمکاروں میں ایک نام ڈاکٹر لئیق صلاح کا ہے ۔ ڈاکٹر لئیق صلاح صاحبہ نے بحیثیت صدر شعبہ اردو گلبرگہ یونیورسٹی میں برسوں اپنی بہترین خدمات انجام دی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے قلم کے سفر کو بھی جاری رکھا، تحقیق و تنقید پر ڈاکٹر لئیق صلاح کی گہری نظر ہے ان کا قلم جب بھی اٹھاتعمیری ادب کیلئے اٹھا۔ بیجا تنقیدوں اور فضول تبصروں سے انہوں نے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھا۔ ان کی تصانیف و تحریروں کے نام اور عنوانات گنوانے بیٹھ جاؤں تو یہ صفحات کم پڑجائیں گے ۔ ادب کے میدان میں وہی ادیب اور قلمکار زندہ رہتے ہیں جن کی تحریروں میں قاری کو باندھے رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ اور جن کا مطالعہ ومشاہدہ وسیع ہوتاہے۔2008ء میں ، میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں ایم فل کا ریسرچ اسکالرتھا۔ میرا تحقیقی موضوع طنزومزاح تھا اور میرے گائیڈ پروفیسر نسیم الدین فریس صاحب تھے۔ فریس صاحب کے مشورے پر میں اپنے تحقیقی مواد کے سلسلے میں ڈاکٹر لئیق صلاح سے ان کی قیامگاہ واقع آصف نگر پر ان سے ملاقات ہوئی۔ نہایت ہی خوش اخلاقی وخندہ پیشانی سے انہوں نے مجھ سے ملاقات کی ان کی پروقار ومتاثرکن شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہواکہ بڑے فنکاروں کی یہی تو خاصیت ہوتی ہے کہ ان کے قدم ہمیشہ زمین سے جڑے رہتے ہیں۔
معجزۂ فن ڈاکٹر لئیق صلاح کی ایک خوبصورت تصنیف ہے جس میں انہوں نے کوئی اٹھائیس(28) نظم و نثرکے قلمکاروں کی تصانیف وتحریروں پر تبصرے کئے ہیں بقول مصنف کہ ان میں چند مطبوعہ وغیر مطبوعہ تحریریں بھی شامل ہیں انہوں نے جن صف اول کے قلمکاروں کی تصانیف ومضامین پر تبصرے کئے ہیں ان میں ڈاکٹر مصطفےٰ کمال، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، ڈاکٹر صغریٰ عالم ، وہاب عندلیب، ڈاکٹر خالد سعید، فریدہ زین، شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر آمنہ تحسین،نیاز گلبرگوئی وغیرہ کے شامل ہیں۔ مندرجہ بالا قلمکاروں میں افسانہ نگار، شعراء، نقاد، دانشور سبھی شامل ہیں ان حضرات کا شمار چوٹی کے قلمکاروں میں ہوتاہے ۔یہ اتنے ماہر وقابل قلمکار ہیں جن کا ادب میں کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ایسے فنکاروں کی تحریروں پر قلم اٹھانا گویا آگ میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ہے ۔ان قلمکاروں پر وہی شخص قلم اٹھاسکتاہے جو اپنے آپ میں ایک مکمل قلمکار ہو۔ بلاشبہ ڈاکٹر لئیق صلاح اپنے آپ میں نہ صرف ایک مکمل ادبی شخصیت ہیں بلکہ ان کی سینکروں لاجواب تحریریں ادب میں ان کے مرتبے و مقام کی گواہی دیتی ہے ۔انور الدین معجزۂ فن کی تحریروں سے متعلق لکھتے ہیں ’’معجزہ فن میں جو تحریریں زیر بحث رہی ہیں راقم الحروف کے خیال میں ان کا شمار ایسے ہی شاہکاروں میں کرنا چاہئے ۔‘‘ میں انورالدین کے خیال سے پوری طرح سے متفق ہوں۔ تصنیف معجزہ فن میں شامل تقریباً سبھی تبصرے ، جائزے ، پیش لفظ وغیرہ کو نہایت ہی عرق ریزی اور مکمل تحقیق کے بعد تحریر کیاگیاہے۔ جس کی وجہ سے ان تحریروں میں ادبی وعلمی مہک کو صاف طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر لئیق صلاح کی بکھری ہوئی تحریروں کو یکجا کرکے اسے کتابی شکل دینے کا اہم فریضہ محمد انور الدین نے ادا کیاہے۔ انور الدین ایک محنتی اسکالر و قابل مصنف ہیں۔ موصوف ہر کام کو بڑے سلیقے سے انجام دیتے ہیں اور یہ کمال ہمیں معجزہ فن میں صاف صاف نظر آرہاہے۔ انہوں نے ڈاکٹر لئیق صلاح صاحبہ کے بھروسے کی مکمل لاج رکھی اور ایک خوبصورت تصنیف کو مرتب کیا۔ کتاب میں موجود(28)تبصرے ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہیں۔تمام تبصروں کا احاطہ کرنا مشکل ہے لحاظہ یہاں چند بے حد خوبصورت تبصروں کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔’’کھیل کہاوت‘‘ پروفیسر خالد سعید صاحب کی پہلی تصنیف ہے اور اس تصنیف پر ڈاکٹر لئیق صلاح کا تبصرہ بڑا جاندار اور جامع ہے ، مختصر سے تبصرے میں انہوں نے کتاب کے مقصد کو اور اس کی اہمیت کوواضح کردیا تبصرے میں مصنف کی ہمہ رنگی شخصیت کے سارے پہلوؤں کو قاری سے روبرو کرواتے ہوئے ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ’’بچوں کے ادب کی اس کمی کو دور کرنے کا بیڑا اعلیٰ تدریسی جماعتوں کے استاد خالد سعید نے اٹھایا ہے ۔ان کی مخلصانہ مساعی کا اعتراف کرنا اور سراہنا کرناچاہئے۔ ‘‘ڈاکٹر لئیق صلاح نے وقف کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے بچوں کے ادب پر زور دیاہے۔ بہت سارے مصنف آج بچوں کے ادب سے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ نیازگلبرگوی کی تصنیف ’’حرف وفا کا شاعر‘‘ پر تبصرہ خوب ہے۔ نیازگلبرگوی کا شمار ہندوپاک کے نامور شعراء میں ہوتاہے ۔ بنیادی طورپر نیاز گلبرگوی المیہ شاعری کے شاعر کہلائے جاتے ہیں اس کی وجہ شاید زندگی کی وہ تلخ اور کڑوی حقیقتیں ہیں جو انسان سے اس کے لبوں کی مسکراہٹ اور دل کا چین چھین لیتی ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی کی خوشیوں سے اپنامنہ موڑ کر غموں اور شکوؤں کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتاہے۔ ڈاکٹر لئیق صلاح نے نیاز گلبرگوی کی شخصیت پر اور ان کے فن پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے اپنے قلم کا حق ادا کردیا اور ساتھ ہی نیاز گلبرگوی کے خوبصورت اشعار کو بھی اپنے تبصرے کا ایک حصہ بنالیا ملاحظہ کریں۔
سرخ رو اور دل شاد تھے ہم ۔۔۔فکر دوراں سے آزاد تھے ہم
ایسی حالت ہماری نہیں تھی۔۔۔اپنی دنیا میں آباد تھے ہم (ص46)
زیر تبصرہ کتاب میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کے شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرآسماں‘‘ پر ڈاکٹر لئیق صلاح نے تفصیل سے تبصرہ کیا ہے اور ان کا یہ تبصرہ غالباً خبرنامہ شب خون اگست1990ء اور ماہنامہ ’’بزم سہارا‘‘ نئی دہلی اکتوبر2009ء میں شائع بھی ہواہے ۔ راقم نے شمس الرحمن فاروقی کا یہ خوبصورت ناول پڑھا تو نہیں ہے ۔ لیکن ڈاکٹر لئیق صلاح کے جامع اور فکر انگیز تبصرے کے بعد ناول کوپڑھنے کا اشتیاق بڑھ گیاہے ۔ فاروقی صاحب کے قلم سے متعلق کچھ کہناگویا سورج کوروشنی دکھانے جیساہے۔ فاورقی صاحب کی ہر تحریر قاری کو دعوتِ فکر دیتی ہے ۔ قاری کے ساکت وجود کو جھنجھوڑ رکھ دیتی ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قلم سے متعلق ڈاکٹر لئیق صلاح لکھتی ہیں ’’شمس الرحمن فاروقی نے تہذیب کے کسی گوشے اور زاویے سے صرف نظر نہیں کیاہے ۔ لباس کے تعلق سے جب ان کا قلم اٹھتا ہے تو مختلف ملبوسات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ مشرق اور مغرب کے لباس کے فرق کے علاوہ ہندوستان کے مختلف شہروں کی جداگانہ نوعیت کا ذکر صراحت سے کیاگیا ہے۔(ص106)ڈاکٹر صفدر علی بیگ کے شعری مجموعہ ’’شمع ایمن‘‘ پر ڈاکٹر لئیق صلاح نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیاہے ۔تبصرے سے پتہ چلتاہے کہ ڈاکٹر بیگ نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کیلئے مذہبی شاعری کو اپنا وسیلہ بنایاہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ڈاکٹر صفدر علی بیگ نے رباعی گو شاعر حضرت امجد حیدرآباد کے آگے زانوے ادب تہہ کیاتھا۔اکثر شاگرد کی شاعری میں استاد کی شاعری کا رنگ آہی جاتاہے۔ ڈاکٹر صفدر کے یہ اشعار دل کو چھولیتے ہیں۔ملاحظہ کریں
ہر رنگ میں ہر حال میں جی لیتاہوں۔۔۔امرت ہو کہ زہر پی لیتاہے
کانٹوں سے گریزاں نہ گلوں کی مسرت۔۔۔جو دیتی ہے دنیا میں پی لیتاہوں(ص71)
اپنے تبصروں میں اشعار کا انتخاب بھی ڈاکٹر صاحبہ نے بڑے سلیقے سے کیاہے۔ خوبصورت اشعار اکثر تبصروں ومضامین کے حسن میں نکھار پیدا کردیتے ہیں۔ تصنیف معجز فن میں معروف شاعرہ سیما آفریدی کے ’’مجموعہ کلام‘‘ منظر موسم اور خواب‘‘ پر ڈاکٹر لئیق صلاح نے اظہار خیال کیا ہے ۔ عصری حسیت سے مزین خوبصورت نسوانی جذبات کی بہترین تشریح سیما آفریدی کے کلام میں موجود ہے ۔ سیما آفریدی کے بعض اشعار نے مرحومہ پروین شاکر کی یاد دلایتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ کریں۔
اسی کے نام سے چاہت کے جذبے۔۔۔ہمیشہ جس نے ٹھکرایا ہے دل کو
بہاریں گل بہ داماں ہوگئی ہیں۔۔۔وہ ظالم جب بھی یاد آیاہے دل کو(ص143)
ڈاکٹر لئیق صلاح نے اپنے تبصرے میں سیماآفریدی کے ان گمنام شعری گوشوں کو بھی کھول کر رکھ دیاہے جس سے شاید سیما آفریدی بھی آشنا نہیں ہوں گی۔ معروف افسانہ نگار فریدہ زین کے افسانوی مجموعہ ’’سسکتی چاندنی‘‘ پر بھی زیر نظر کتاب میں تبصرہ موجود ہے۔ لیکن تبصرہ نہایت ہی مختصر ہے دس گیارہ سطروں پر محیط ہے ۔ فریدہ زین ایک قابل اور مشہور افسانہ نگار تھیں۔ اگر تبصرہ قدرے طویل ہوتاتو تشنگی کا احساس باقی نہیں رہتا۔ انیسہ سلطانہ کی تصنیف’’حیدرآباد میں طنزومزاح کی نشوونما‘ ‘پر ڈاکٹر لئیق صلاح کا تبصرہ بڑا پرمغز اور معلوماتی ہے۔ انیسہ سلطانہ نے اپنی تصنیف میں مزاحیہ ادب کی تاریخ رقم کرکے اپنی ادبی صلاحیتوں کا ثبوت دیاہے۔ انیسہ سلطانہ نے اپنے ایل فل کے مقالے کو کتابی شکل دی ہے ۔ طنزومزاح انکاپسندیدہ موضوع رہاہوگا تب ہی تو انہوں نے اپنی تحقیقی وتنقیدی صلاحیتو ں کو اس موضوع کیلئے استعمال کیا اورڈاکٹر لئیقصلاح نے ان کی تصنیف پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے ان کی تصنیف کی توقیر میں اضافہ کیاہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں شامل دیگر تصانیف پر کئے گئے تبصرے بھی بہترین ہیں۔ تمام ہی تبصرے اپنی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں بس ایک ہی بات میں کہنا چاہوں گا اس موقع پر تبصروں میں مبصر نے مصنفین کا خوب حوصلہ بڑھایاہے اوران کی ادبی صلاحیتوں کی ان کے قلم کی تعریف بھی کی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی کمیوں اور غلطیوں پر بھی روشنی ڈالی جاتی تو مناسب تھا۔جس طرح سکہ کے دو پہلو ہوتے ہیں اسی طرح سے ادب کے بھی دو پہلو ہوتے ہیں ایک تعریف کا اور دوسرا تنقید کا۔ بعض وقت مبصر کو مصنف کے جذبات اور اس کے احساسات کابھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں وہ تنقید سے برا نہ مان جائے بعض دفعہ مصنف اور مبصر کے قریبی دوستانہ تعلقات تبصرے کی راہ کا روڑا بن جاتے ہیں اور مبصر چاہتے ہوئے بھی اپنے قلم کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اس نکتہ کے علاوہ کتاب تمام نقائص سے پاک ہے ۔ ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع شدہ (168) صفحات پر مشمل اس تصنیف کا کاغذ عمدہ ،سرورق جاذب نظر ہے۔
ڈاکٹر لئیق صلاح صاحبہ کی جب بھی کوئی تصنیف منظر عام پر آتی ہے اسے ادبی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیاجاتاہے۔ اس تصنیف کو بھی یقیناًادبی دنیا میں خوب مقبولیت حاصل ہوگی کتاب کی قیمت دوسوپچاس(250)روپیئے ہے۔ ان پتوں سے کتاب کوحاصل کیاجاسکتا ہے ۔
(۱) 10-2-354، محمود باغ ، آصف نگر حیدرآباد500028(فون 040-23348055)
(۲)اردو بک ڈپو، گلشن حبیب، اردو ہال ، حمایت نگر حیدرآباد(فون040-2322919)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Dr. Zamin Ali Hasrath