برسوں کی کھیتی
سید عارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :
———–
گنجا ہونا کچھ ایسی بری بات بھی نہیں مگر دولتمند ہوئے بغیرگنج پالنا خاصا معیوب ہے،،،کچھ مالدار گنجوں کےدلوں کو ٹٹولا جائے تو ان میں تمام مفلس گنجوں کو پولیس کے حوالے کردینے کی تمنا چھپی ہوئی ملے گی کہ آخر کیوں یہ لوگ بحالت ناداری بھی خواہ مخواہ تمغہء گنج سجائے پھرتے ہیں،،، اّول اّول جب ہمارے کچھ بالوں نے اوپری منزل سے راہ فرار اختیار کی تھی تب ہمیں اچھن میاں کی ان باتوں سے بڑی ڈھارس ملی تھی کہ یہ دولت آنے کی نشانی ہے،،،اور ہم زیادہ سینہ تان کرچلتے ہوئے دیکھے بھی گئےتھے مگر جب گاڑی کا ٹائرپنکچر لگواتے ہوئےدیکھا کہ پنکچر لگانے والا نہ صرف گنجا ہے بلکہ بے تحاشہ فارغ البال ہےتویوں لگا کہ گویا پنکچر گاڑی کا نہیں، ہمارا ہواہے۔۔۔ اور پھرجب ایک حلیم فروش اور ایک سبزی والے کو بھی اسی طرح کے”آسودہ”حلیئے میں پایا تو طبیعت بہت بدمزہ ہوئی اوراپنے گنج سمیت صاحب ثروت طبقے میں براجمان ہونے کی امکانی مسرت کی کلی دفعتاً مرجھا کر رہ گئی ۔۔۔۔
ایسے اکثر چوٹیں اس وقت زیادہ نہیں درد کرتیں کہ جیسے ہی کہ وہ لگا کرتی ہیں۔۔۔اسی طرح بالوں کی رخصتی اس وقت تک آپکی زندگی میں وہ احساس محرومی نہییں جگاتی جبتک کہ آپکو ان ان لوگوں سے "انکل” سننے کو نہ ملے کہ جن سے آپ نے کبھی ایسی توقع نہیں کی تھی۔۔۔ آرزؤیں یکایک حسرتوں کا مزار بن جائیں یہ بھلا کسے مرغوب ہے۔۔۔ آپکو ناحق بزرگ بننا پڑتا ہے اورایک سنجیدہ سا مگر نہ نظر آنے والا ٹوپا سا ہر وقت اوڑھے رھنا پڑتا ہے۔۔۔۔ کسی کوبھلا کیااندازہ کہ جب سامنےمودب ہوکریکایک جھکے ہوئے سروں پردست شفقت رکھنے سے بچنے کی کوئی راہ فرار بھی نہ دسجھائی دے تو دل میں کیسا کیسا کہرام نہیں مچتا۔۔۔اسطرح کےانتہائی غیرمطلوب احترام کےہاتھوں کچھ صدمات تو ایسے بھی اٹھائے ہیں کہ انکی پرسش تو ممکن ہی نہیں۔۔۔۔اور آپ خود سوچیئےکہ جن غموں کے نصیب میں تعزیت تک نہ ہو وہ کسقدر لائق نفرین ہوتے ہیں۔۔۔
بالوں کی رفتہ رفتہ محرومی کا احساس جب کبھی بھی آپکو آدبوچے، آپکی مسکراہٹ کودفعتاً پھیکا کردیتا ہےاور تھوڑی تھوڑی بزرگانہ سی نقاہت آپکے اندر در آتی ہے۔۔۔۔ بس اچانک ایسا لگتا ہےجیسےآپ کچھ کچھ لقوے اورکچھ کچھ تقوے سے دوچار ہو رہے ہیں اورشاید آپ اپنی زات سےایکاایکی اوپراٹھ رہے ہیں۔۔۔ اگر ایسے لمحے آپ کسی آئینے کے روبرو جا کھڑے ہوں تو وہ کمبخت اسکی تصدیق کرنے میں زرا دیر نہیں لگاتا کیونکہ آپ بچشم خود اپنے بالوں میں سے خود کو اوپر ابھرتا دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ بعضے لوگوں پر اس طرح کےعمودی سفر کے اثرات زرا مختلف بھی ہ یکھے گئے ہیں،،مثلاً کچھ لوگ اس سفرکے بالجبرہونے کے باعث گرم مزاجی بھی اختیا ر کرلیتےہیںجسکی وجہ سورج سے فاصلہ کم ہوجانا بھی بیان کی جاتی ہے۔۔۔
گنج کےجنم کے حوالے سے دنیا بھر میں بہت سے الجھے ہوئے بالوں والے مفکرین اور سائنسدان رات دن اس مسئلے کی کھوج میں اب بھی لگے رہتے ہیں کہ یہ کیوں ہوتا ہےکیسے ہوتا ہے اور اس ناپسندیدہ ولادت کوکسطرح روکا جائے… اورپیہم اسی خشک غور و فکر میں انکے رہے سہے بال بھی اڑ جاتے ہیں… ابتک جو تھوڑا بہت نتیجہ سامنے آسکا ہے اسکی رو سے سارا الزام دو وٹامنوں کے سر ڈالا گیا ہے..بتاتے ہیں کے وٹامن K کی فراوانی یا پھر وٹامن Hکی ارزانی ہی گنج کےبکھیڑے کو جنم دینے کی ذمہ دار ہے جبکہ زیادہ تر یہ موروثی ہوا کرتاہے یعنی کوئی مسّلّمہ گنجا جوبھی ترکہ چھوڑتاہےاس میں کم ازکم یہ ان چاہا اثاثہ تو یقینی موجود ہوتا ہے… اچھن میاں اس باب میں ساری تحققیق کو لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے گنجے سر کوفاضلانہ بے نیازی سے جھٹکتے ہوئے، یہ فرماکر اکثر بات کو ختم کردیتے ہیں کہ
"میاں یہ سب ان ماہرین کے الجھاوے ہیں،،،صاف بات تو یہ ہے کہ جس کے نصیب میں گنجا ہونا لکھا ہے وہی گنجا ہوتاہے….” اس
دوران وہ لفظ نصیب کو اس طرح وارفتگی سے چوس کر ادا کرتے ہیں کہ سننے والا اس سے خوش نصیبی کے سواء کوئی معنی مراد لینے کی جسارت کر ہی نہیں سکتا،،
اچھن میاں کے لئے انکا گنج بلاشبہ مالی طور پرآسودگی کا سبب ضرور ثابت ہواہے۔۔۔ عرصہ دراز سے بستر مرگ پر دراز انکے والد کافی دن کی نیم بیہوشی کے بعد جب ایک دن کچھ ہوش میں آئے تو انکے سر پر ایک جزیرےکو دریافت کرتےہی پھر بیہوش ہوگئے اور پھر کبھی ہوش میں نہ آئے۔۔۔ شاید ایک گھرمیں بیک وقت دو مرد بزرگ کم ہی پنپتےہیں۔۔۔ صدمہ کسی طرح کا کیوں نہ ہو، شروع شروع میں دل و دماغ تسلیم کرنے سے انکاری رہتے ہیں ایک سناٹا سا رگ و پے میں چھایا سا رہتا ہے۔۔۔ ہم بھی کئی دن اس سے زیادہ بولائےبولائے سے پھرے جیسا کہ کبھی کبھی مہینے کی آخری تاریخوں میں پھرتے دیکھے جاتے ہیں۔۔۔ پھر صدمہ کی نوعیت بھی تو دیکھئے،،، صدمات کی جدید دور کی تشریحات میں تو بالوں کا گزر جانا کسی قریبی کے گزر جانے سے زیادہ باعث رنج ٹہرایا گیا ہےبلکہ قریبی کا لفظ بھی ہم نے مرّوتاً ہی ڈالا ہے مبادا کئی بزرگ روکھی سچائی کی تاب نہ لاسکیں
خیر جب ہم اس سانحے سے دوچار ہوئےبہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔جیسا کہ ہمارے باب میں ہمیشہ ہی ہوتا ہےاور ہماری بیگم تو باقائدہ افسوس کرتی ہیں کہ منیر نیازی کی نظم "ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں”ہم سے کیوں نہ لکھی گئی جبکہ اسکے لئے ہم سے موزوں کوئی نہ تھا ۔۔۔ تاخیر کی دیرینہ روایت کو نباہتے ہوئے ہمیں اپنےگنج کی ناگہانی کا صحیح طور پر علم اس وقت ہوا جب کہ کاروان زلف خاصی حد تک لوٹا جاچکا تھا۔۔۔ تاہم اس بارہمیں کسی حد تک شک کا فائدہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ اگے بالوں کےلشکر کی چند لٹیں تومستحکم رہیں مگر انکے پیچھےصفوں کی صفیں الٹتی رہیں حتٰٰیٰ کہ تقریباً صفایا ہو گیا۔۔۔ آئینے پرسےتوہمارا پشتوں سےقائم اعتماد ہی جاتا رہا۔۔۔ کمبخت نے نظر کو پیش منظر میں ہی الجھائےرکھا اوروہاں برسوں کی کھیتی ہی اجڑ گئی –