جنوبی ہندوستان کی شاعری میں جذبہء حب الوطنی
مہرافروز
دھارواڑ ۔ کرناٹک انڈیا
موبائل :09008953881
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جنوبی ہندوستان اردو کی وہ گودی ہے جس میں اردو کا زمانہء طفلی گزرابچپن پروان چڑھا اور اردو ایک الہڑ دوشیزہ کے روپ میں قلی قطب شاہ کے کلام میں اپنےناز و انداز دکھانے لگی. ولی دکنی کے کلام میں درد کی راگنی اور پختہ زبان بن کر نکھر آیء, پھر یہ لکھنو کے درباروں میں پہنچی تو خواجہ میردرد نے اسکو درباری زبان کے عہدے پر فایز ہونے کے لایق بنایا, اسکے لب و چشم نکھارے اور گیسوؤں کو سنوارا… غالب نے اس زبان کو اعتماد اور اعتبار بخشا.. اقبال اور جوش جیسے شاعروں نے اسے شاہانہ جلال وجاہت اور وقار بخشا اور اس قابل بنایا کہ یہ زبان بے ساختہ شدتِ اظہارکے زندہ جاوید لہجہ میں آزادی کےنعرے لگانے لگی …
میرا احاطہء تحریر سب ہم عصر شعراء جو آج استاد ِ سخن کے درجہ پر فایئز ہیں،اور ساتھ ہی کچھ وہ جواں سال شعراء ہیں ،جن کی اٹھان کہہ رہی ہے ،کہ آیئندہ آنے والے دس سال میں وہ خود کو ثابت کردیں گے…
دکن میں اردو شاعری کا ذکر ہو اور جناب سلیمان خطیب کو یاد نہ کیا جاےء تو نا انصافی ہوگی,چنانچہ خراج ِ عقیدت کے طور پر انکا کچھ کلام ہدیہء تبرک کی طر ح پیش خدمت ہے….
آخری تمناّ(پنڈت نہرو کی آخری وصیت )
میرے وطن کے پیارو
اے دوستو عزیزو
جو پیار تم نے بخشا
کیاشکریہ ادا ہو
میرے جنم جنم کی
گنگا ہے ایک ساتھی
فردوس گمشدہ کی
تصویر ہے سہانی
کچھ راکھ میری لے کر
گنگا میں تم بہادو
ممکن ہے کویء پیاسا
گنگا کے تٹ پہ آےء
میں موج بن کےابھروں
اور تشنگی بجھادوں
پھر مادر وطن کے
ساحل کو جا کے چوموں
میرے وطن کے پیارو
اے دوستو عزیزو
جو پیار تم نے بخشا
کیا شکریہ ادا ہو
کچھ راکھ میری لے کے
اونچے اڑو پون میں
جیسے وچار میرے
جیسے وچار میرے
جیسے مرے عزایم
جیسے مرا ہمالہ
جیسے ترنگا پیارا
مرجھایء کھیتیوں کے
آنچل میں کچھ گرادو
اس دیش کی ہوں مٹی
اس دیش میں ملا دو
پھوٹے گی جو بھی کونپل
اگلے گی لعل و گوہر
موتی یہاں لٹیں گے
لٹ جایئں گے جواہر
بھوکا نہ مر سکےگا
بھارت کا کویء پیارا
میرے وطن کے پیارو
اے دوستو عزیزو
جو پیار تم نے بخشا
کیا شکریہ ادا ہو…( سلیمان خطیب کیوڑے کا بن صفحہ نمبر 238)
اسکے علاوہ پنڈت نہرو کی وفات پر لکھی گیء نظم” آخری کرن "(صفحہ 236).”آہ ڈاکٹر زور "..”رستہ بتانے والا کھوگیا جی "..لال بہادر شاستری کی وفات پر "سفیر ِ امن "….
…بہادر بیٹا…. کیپٹن عبدالحمید کی وفات پر لکھی گیء نظم قابل قراءت ہے.. جو خالص دکنیّ لہجے میں لکھی گئی ہے ۔
کالے دِلاں کی کالک راتاں میں کھل گیء تھی
اندھے تھے سارے رستے دھوکے کی جیسی رسی
پاواں میں جیسے سانپاں
بھوتاں کے جیسے ہاتھاں
جھوٹے کے مکری باتاں
راتاں کے سب مسافر
اک اک کرن کو ترسے
کیا گھور ہے اندھیارا
جگنو تو کویء چمکے
آنسو تو کویء ٹپکے
پھر کیا کتے سو اک دم
ٹیپو کا ویر بیٹا
ارجن کے دیش والا
طوفان سرکا اٹھیا
بادل کی ناد گرجیا
تلوار جیسا پھڑکیا
دھرتی پو خون چھڑکیا
عنبر کی باس مہکی, جلنے لگے چراغاں
چلنے لگے مسافر, ہور سامنے تھی منزل
پن کی وہ چھپ گیا تھا
عبدالحمید کیا کی
اچھا تھا ناوں اس کا
(صفحہ 244 کیوڑے کا بن جناب سلیمان خطیب )
"آہ ڈاکٹر زور "آخری دیدار ” "تازہ پھولاں”…”لوک دوانہ "کچھ ایسی نظمیں ہیں جن میں قومی یک جہتی کا احساس اور جذبہ بولتا نظر آتا ہے…
حب الوطنی کا بیان کچھ یوں ہوسکتا ہے کہ:ہم اپنے وطن کی ثنا خوانی کریں وطن سے محبت کا اظہار کریں, اسکی جغرافیایء وسعت کو سراہیں،، خصوصیات کو بیان کریں اور اسکی تاریخی ،تمدنی اور تہذیبی اقدار کو بیان کریں. موجودہ حالات کو تاریخی حالات اور وقعات سے موازنہ کریں… اسکے رہنے بسنے والوں کے درمیان محبت، اخوت کے جذبوں کو بیان کریں جیسے کہ ہماری اپنی تہذیب گنگا جمنی تہذیب کے عنوان سے ساری دنیا میں مشہور ہے ،اس جذبہء خیر سگالی کو اجاگر کریں. چونکہ ہندوستان ہمہ مذہبی، ہمہ لسانی، ہمہ تہذیبی ملک ہے اسلیےء اسکے باسیوں کا آپس میں مل جل کر رہنا بہت ضروری ہے، مگر بہ صورت بدامنی ،خانہ جنگی کی صورت حال ملک کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ بنے گی، جسے ہم قومی یک جہتی کا نام دیتے ہیں…
حب الوطنی کی تاریخ شاید بہت قدیم ہو مگر قومی یک جہتی کی کوششیں ،ہندوستان میں ہمیشہ شعوری رہی ہیں. خاصکر دوران انگریزی حکومت ، جنہوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کہ فارمولہ پر عمل کیا اور ہندوستان کی بڑی قوموں کو ہمیشہ آپس میں لڑایا اور حکومت کی….برصغیر کی آزادی کے وقت یہ آگ بہت زیادہ بھڑکی اور مذاہب کے نام پر ملک کی تقسیم ہویء.. جسکا خمیازہ دونوں طرف کے انسانوں بھگتنا پڑا اور اب بھی اکثر گاہے بگاہے جسکی قیمیت ہندوستانی اقلیتی قوموں کو چکانی پڑتی ہے…
اس وقت قومی یک جہتی کا درس اکثر عوام کو یاد دلانا پڑتا ہے.. کویمپو یونیورسٹی کی یہ شعوری کوشش قابل داد ہے کہ انہوں نے ایسے ماحول میں جب عدم برداشت کا ماحول گرم ہے……
اج کےاس ماحول میں ار دو شاعری کا لہجہ کچھ بدلا ہے جس میں شعراء کو اپنے مادرِ وطن سے کچھ شکایت ہے. کچھ دکھ ہے، جسے وہ کھل کر جتا رہے ہیں. حب الوطنی اور قومی یک جہتی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کو انکا بھولا در سِ صداقت, یاد دلوایا جاےء… اپنی مذہبی رواداریوں کا درس دہرایا جاےء, ،اور جدید لہجہ میں اس عظیم مقصد کو در لانا آسان کام نہیں ہے…. مگر ہمارے شعراء نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے اور دے رہے ہیں …..
اگلے شاعر جنکا ذکر میں کر رہی ہوں جناب مصحف اقبال توصیفی ہیں، جو نہ صرف کہنہ مشق ہیں، بلکہ انکی تجربہ کار آنکھوں نے تین نسلوں (پیڑھیوں) کو دیکھا پڑھا اور اپنے کلام سے اثر انداز کیا ہے. آپکے آج تک چار مجموعہ کلام نکل چکے ہیں :فائزا 1977،گماں کا صحرا 1994 دور کنارہ 2005،کے بعد ابھی چوتھا مجموعہ کلام ستارہ یا آسمان 2012میں منظر عام پر آیا ہے… انکی حب الوطنی کی نظموں میں ستیہ سایء بابا بہت اہم ہے…
صدیوں کی راکھ
تری مٹھی میں
دھرتی کے ہر دکھ کا بوجھ
ترے کاندھوں پر
تیرامن اک اُچل ّ گہرا پریم کا ساگر
تیری بانہیں
ساگر کے کنارے
چاند ،ستارے
ایک دشا کے مارے
( گھوم کر تجھ کو دیکھیں)
گھوم گھوم کر تجھ کو دیکھیں
آپس میں جب بولیں ،
پوچھیں –"ِاس دھرتی پر
کون آیا،رے…… ؟
ستیہ سائی بابا مسلمان گھر میں پیدا ہوےء اور ایک ہندو جولاہے نے انکی پرورش کی دو مذہبوں کے درمیان یگانگی کی خواہش ،انہیں سچ کی تلاش میں بھٹکاتی رہی اور فقیر بن کر نگری نگری ندیاندیا گاتا جاےء ایک بنجارہ کے مصداق ،آپ بس ایک نعرہ لیکر دکھی انسانیت کی خدمت کرتے گزرگیےء "سب کا مالک ایک ہے "انکے اسی سچ کی وجہ انکو ستیہ سایء بابا کہا جاتا ہے. جنہیں سب فقیر ،اوتار اور داتا مانتے ہیں.، اور سب انکے در پر پہنچتے ہیں…. اس دور ُپر فشاں میں ستیہ سایء بابا کو دوبارہ یاد کرنا شاعر کا یہ لاشعوری پیغام ہے ،کہ یہ فساد ختم کرو ،سب کا مالک ایک ہے، اور سب کو مر کر خاک ہی ہونا ہے، اور اسی کے پاس جانا ہے….
گجرات کے فسادات کے پس منظر میں انکی یہ نظم دیکھیں ……………
"زرا سوچا نہیں تھا ”
زرا سوچا نہیں تھا
کبھی دن اسقدر تاریک ہونگے
کہ راتیں سہم جایئں گی
زمیں پر گھور اندھیرا
آسماں پر سرخ بادل
ادھر اُ ن کی سیہ بارش
ادھر میری یہ ویراں خشک آنکھیں
اور ان انکھوں کے دو ٹیومر
اور ان میں ایک ہی منظر
جو اخباروں میں ہر صبح
اک نیء سرخی میں چھپتا ہے
کبھی یہ سوچتا ہوں
(میں اک بدبخت انساں )
بس اک چوہا –اور اپنے بل میں رہتا….!!!!!
کیا اس نظم میں معکوس سوچ کے زریعہ، درس قومی یک جہتی، چیخ چیخ کر دیا جارہا ہے ،اور مادر وطن کو یہ نوحہ سنایا جارہا ہے، کہ ماں تیری گود میں چوہے محفوظ ہیں اور انسان تیری آغوش رحمت سے محروم ہیں…..
اسی لہجہ کی ایک اور نظم دیکھیں
"مرا کویء بھایء نہیں ”
وہ کہتے ہیں ،
میرا کویء دیس نہیں ہے
اور تم سب سن لیتے ہو ؟
ایسا تھا تو ساتھ مرے
ایک ہی مکتب میں کیوں بیٹھے
ایک ہی گیند اور بلےّ سے کیوں کھیلے
ایک ہی بارش میں کیوں بھیگے ؟
اور وہ میری رادھا بٹیا
جو تم دونوں کو چرنوں کو چھونے سے پہلے
میرے چرن چھوتی ہے
کیا وہ میری جایء نہیں ہے
وہ کہتے ہیں
میرا کویء دیس نہیں ہے
میرا کویء بھایء نہیں ہے
اور یہ سب تم سن لیتے ہو…..!!!
یہ شاعر کا اپنی ماں کے دوسرے بیٹے سے ،کھلا شکوہ اور شکایت ہے کہ میرے بھایء تم کیوں بدل گیےء ؟
ملکی فسادات کے پس منظر میں کہی گیء اک اور نظم
"یوں قصہ آگے بڑھتا ہے ”
نفرت کا پھل کالا
مغز کسیلا
بیج بہت کڑوا ہوتا ہے
ہوگا -لیکن مجھ کو یہ پھل اچھا لگتا ہے
آپ اس پر اپنے دشمن کے لہو کا اک قطرہ چھڑکیں
اب چکّھیں ……..
دیکھیں -کیسا نشہّ ہوتا ہے
پھر آنکھ مری کھلتی ہے
وہ اک پل تھا ،ایک برس یا ایک صدی
یہ راز کہاں کھلتا ہے
اب میرے دشمن کے ہاتھوں میں وہی پھل
اب دہشت کی عفریت کا سایہ مجھ پر جھکتا ہے
یوں قصہ آگے بڑھتا ہے….!!
کیا شاعر کسی صدی کے ہلاکو اور چنگیزی بربریت کو یاد کر رہے ہیں اور آج کے ہلاکو کو اس ساتھ، تشبیہ دے رہے ہیں… کیا مادر وطن سے شاعر کی یہ شکایت جایز اور واجب نہیں ہے ؟
ایک اور منظر نامہ "فساد”کے عنوان سے
یہ آگ ہے صحرا کی
لیکن یہ دھواں کیا ہے
اس آگ کے ہاتھوں پر
انسانوں کے سر کیسے ؟
اس آگ کے قدموں میں
یہ راکھ کے گھر کیسے ؟
یہ نیم دوکاں کیا ہے
صحرا میں کھنڈر کیسے ؟
کیا یہ شکایت بجا نہیں ہے ؟
حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایک نظم انکے اپنے وطن حیدر آباد کی ثنا خوانی میں پیش ہے……
یہ شہر ہے کہ کسی خواب کی امانت ہے
وہ خواب جس کی زمیں بھی ہے آسماں کی طرح
محیط ہے مری راتوں پہ سایئباں کی طرح
اسی کی خاک میں پوشیدہ میری جنت ہے
وہ ایک خواب کہ محور ہے چار صدیوں کا
وہ اک ستارہ بنا جو طلوع صبح کا باب
سفر پہ اپنے روانہ ہے مہر عالم تاب
سفر مدام سفر بے شمار صدیوں کا
ہزار آنکھیں اسی ایک عکس کی تصویر
جو دل کا نور ،دماغوں کی روشنی بھی ہے
اسی سے میرے چراغوں کی روشنی بھی ہے
ہزار خواب اسی ایک خواب کی تعبیر …….
ممبیء فسادات کے تناظر میں لکھی گیء ایک اور نظم جو انکے ستارہ اسمان سے لی گیء ہے…. ممبیء 2008(دہشت گرد حملوں کے دن لکھی گیء نظم )
میں چاےء پی رہا ہوں
بچوں سے کہتا ہوں خاموش رہو
مجھے لایئو کرکٹ دیکھنا ہے
لیکن میچ نہیں ہورہا ہے –کیوں ؟
ارے یہ تاج اوبراےء ہوٹل ،اے کے رائفل گرینیڈ
یہ سب کیا ہے ؟
یہ کیسی دلخراش چیخیں ہیں
اور یہ ارانوَ بھٹا چاریہ ،یہ سہیل ،راج دیپ سردیسایء یہ کون ہیں
(کیا کہہ رہے ہیں –کیا سچ بولنا اتنا ہی ضروری ہے )
یہ کمانڈوز کہاں جارہے ہیں –تینتالیس گھنٹے گزر چکے ہیں
خود کو ایک کمرے میں بند کرکے وہ کیسے جیا
اور —وہ جو مرگیا
پاگل ہے –نارمان ہاؤس میں کیا کر رہاتھا
یہاں بیٹھ کر میرے ساتھ چاےء پیتا-
میں چینل بدلتا ہوں
سلمان خان ناچ رہا ہے
رانی مکرجی اپنی کھنکھناتی آواز میں ہنس رہی ہے
ہاں –یہ ٹھیک ہے
لیکن میرے ہاتھ میں یہ ریموٹ
ارے –پھر وہی چینل
میں ٹی وی بند کرتا ہوں
تاکہ سب کچھ اس کے اندر گھٹ کر مرجاےء
میں کتنا خوش ہوں
ہم سب مرچکے ہیں
میں ،ارانو ،راج دیپ ،سنجنا ،سہیل ،سلمان،رانی مکھرجی
لیکن یہ کیا…..
ٹی وی سے پھر کچھ آوازیں نکل کر باہر آرہی ہیں،
کچھ چہرے ،کچھ نام
جیسے کرکرے ،کامٹے ،اُنی کرشنن
اور انکے پیچھے بھی ایک ہجوم ہے
(یہ لوگ مرتے کیوں نہیں )
اور میں –ہم سب تو مرچکے ہیں
تو کیا ہم دوبارہ زندہ ہوگیےء ؟
یہ بہت برا ہوا
ممبیء حیدرآباد…. اور اس سے بھی آگے…. بہت آگے
ایک چٹیل میدان ہے
تو کیا یہ عرفات کا میدان ہے
تو کیا اب ہمیں اپنا حساب دینا ہوگا……!!!
کیا شاعر بے بسی کے عالم میں روزِ قیامت کو یاد کر خود کو تسلیّ دے رہے ہیں ؟یا پھر کسی کو خوف دلارہے ہیں ؟کسے ؟سرکش شیطانوں کو ؟کہ انسانوں کو؟مگر سارے انسان تو مرچکے ہیں….. کیا یہ مایوسی کا وہ مقام ہے جہاں قومی یک جہتی کا تصور بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے…. مصحف اقبال توصیفی…. ستارہ یا آسمان …….سے
آیئں شہر حیدر آباد کے ایک اور شاعر کہنہ مشق شاعر جناب رووف خیر کے کچھ اشعار دیکھین
پنجرے کے پرندوں کو صیاد نے مارا ہے
زنجیر غلاموں کو آزاد نے ماراہے
بیٹے کو کسی کے یوں بدزاد نے مارا ہے
جیسے کسی بھٹو کو جلاد نے مارا ہے
جب جب بھی جنھیں زعم ِ تعداد نے مارا ہے
ایسوں کو تو مٹھی بھر افراد نے مارا ہے
ماں باپ کا سینہ ہے یا شہرِ خموشاں ہے
بچوں کی ہلاکت کی روداد نے ماراہے
کچھ اور اشعار
گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے
نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے
مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے
کچھ اور اشعار
یہ احترام یہ اکرام کیسے نکلےگا
مرے قلم سے تیرا نام کیسے نکلے گا
اگر شہید نہیں ہے تو پھر تو غازی ہے
وہ کار زار سے ناکام کیسے نکلے گا
بھگت رہے ہیں سزائے گناہِ نا کردہ
ہمارے سر سے یہ الزام کیسے نکلے گا
جو لامکاں ہے اسی کو نکالنا ہوگا
ایودھیا سے بھلا رام کیسے نکلے گا
کچھ اور اشعار
ہم اس زمینِ ِشر پہ بھی ہیں خیر کی طرح
ہم کو نہ بانٹیےء حرم و دیر کی طرح
ہم ایک دوسرے کے حوالے سے ہیں یہاں
ہم کو نہ دیکھےء گا کبھی غیر کی طرح
کچھ اور اشعار
وہ مردِ حق ہے جو اکثر شہید ہوتا ہے
حریِف حق تو جہنم رسید ہوتا ہے
کیا گیا انہی فرضی لڑایئوں میں ہلاک
کہ جن کی ذات سے خطرہ شدید ہوتا ہے
اسی کی آج وفاداریاں ہویئں مشکوک
جو سرحدوں پہ بھی عبدالحمید ہوتا ہے
(روؤف خیر حیدر آباد تلنگانہ…. )
اب چلیں ریاست کرناٹک کی طرف جو دکن کا وہ حصہ ہے جہاں میراں جی نے اور دیگرصوفیائے کرام نے اپنے وقت کی عوامی زبان کو اپنی تعلیمات اور اظہارِ خیال اورشاعری کے لیے استعمال کیا… دکن کی سرزمین گلبرگہ اور بیجاپور کو یہ اعزاز حاصل ہے، کہ وہ اردو کی پیدایشی سر زمین کا اعزاز رکھتی ہے شہر گلبرگہ سے شروعات کریں ۔
کلام اکرم نقاش :
تیری سانسوں میں جو گھلتی ہے وہ مہک ہے میری
میری تہذیب شب وروز مرے ہیں تیرے
میری انکھوں میں جو تصویر رہا کرتی ہے
تیری انکھیں بھی وہی دیکھ رہی ہیں منظر
توجسے کہتا ہے ،جاگیر تیرے پرکھوں کی
میں سمجھتا ہوں اسے، اپنی بھی میراث کہن
تو جہاں رہتا ہے بستا ہے اے ہمزاد مرے
مری مٹی مرا مسکن بھی وہی تھا، وہی ہے
تو مخالف نہیں مرا میں نہیں تیرے خلاف
تو مرا سایہ مرا آیئنہ ہم زاد مرا
یہ من و تو کی فضا کس نے بکھیری دیکھیں
درمیاں کس نے یہ دیوار اٹھایء سوچیں
ہم میں ہی کویء چھپا ہے جو نہیں ہے اپنا
ہم میں در آیا ہے کویء جو نہیں ہے اپنا
درمیاں کس نے یہ دیوار اٹھایء سوچیں
اکرم نقاش گلبرگہ ممبر اردو اکیڈمی کرناٹک ……..
موجودہ حالات کے پس منظر میں انکا ایک شعر
سہمی ہویء فضاےء غزالاں کے روبرو
جنگل تھا، قہقہے تھے ،خدا تھا، میں دنگ تھا
بیجاپور کے کہنہ مشق و کہن سال شاعر جناب سلیمان خمار کے دو قطعات اسی موضوع پر ………..
دوستو زہر فسادات کا بویا نہ کرو
آپسی جھگڑوں سے اس دیش کو رسوا نہ کرو
مذہب و دھرم کے ناموں پہ مرے ہم وطنو
خوں اہنسا کے اصولوں کا بہایا نہ کرو….
سوچ تخریب جب جگاتی ہے
غم کی تاریکیاں ہی لاتی ہے
ذات پات اور زباں کے جھگڑوں سے
قومی ایک جہتی چوٹ کھاتی ہے
ریاست کرناٹک کی ادبی لحاظ سے زرخیز زمیں شیموگہ رہی ہے کنڑی ادب کے مشہور قدآور ہستیوں نے اس سرزمین پر جنم لیا اور ریاست کے ادبی معمار کہلاےء، ریاستی ترانہ اسی سرزمین کے لعل جناب کویمپو کا لکھا ہوا ہے، جنکے نام سے یہ یونیورسٹی منسوب ہے…. جے بھارت جننی تنوجاتے…..
اردو میں ریاستی ترانے کے لکھنے والے شاعر بیشک و شبہ جناب ساجد حمید کہلانے کے حقدار ہیں، ساجد حمید اردو ادب کی جدید نظموں کا ایک معتبر نام ہیں، جنہوں نےخود کو ثابت کیا ہے، چھ مجموعہ کلام پر بسیط انکی نظمیں بہت زیادہ حب الوطنی اور قومی یک جہتی کا حصہ رکھتی ہیں… ساجد حمید جدید لہجہ کی شاعری کا علامتی لہجہ اور نمایندہ نام ہیں، جنہوں نے ساری دنیا کے قرطاس اردو ادب پر خود کو منوایا اور ثابت کیا ہے…. انکا حال ہی میں شایع شدہ دیوان” تھوڑا سا بہت زرا سا.”…. ہے جو میری بات کو ثابت کرتا ہے… جو ترانہء کرناٹک انہوں نے لکھا ہے وہ کسی بھی صورت میں کنڑی نظم سے کم نہیں ہے ،بلکہ بڑھ چڑھ کر ہے اور اس میں غنایت, بلاغت, فصاحت اتنے اعلیٰ پیمانے پر ہے ،کہ اگر اسکو موسیقی کے ساتھ باترنم گایا جاےء اور اسکی سی ڈی بنا کر ہر اسکول میں گوای جاےء تو اردو والوں کی طرف سے سرزمین کرناٹک کی شان میں بیش بہا اضافہ ہوگا …..اردو اکیڈمی سے درخواست ہے کہ اس عظیم نظم کو ترانہء کرناٹک کے طور پر اعلان کرے….. نظم بصارتوں کے لیےء حاضر خدمت ہے ،جو ساری کرناٹکی تاریخ, اشخاص، اور تاریخی مقامات کا احاطہ کرتی ہے…. جغرافیائی وسعتوں کو بیان کرتی یے اور اسکی تہذیبی صفات اور تمدنی محاسن کا تذکرہ کرتی ہے…… نظم
تری جے کار ہو, جے ہو مرے محبوب کرناٹک….
.ترے ہر جزو کو تصور کرنا چاہتا ہوں میں
مگر محسوس ہوتا ہے کہ ہیں ہر رنگ ناکافی
تجھے گیتوں میں, نغموں میں سمونا چاہتا ہوں
مگر ہیں لفظ ناکافی, سرو آہنگ ناکافی
میں آیئنہ تجھے کرنے چلا ہوں میرے کرناٹک
چکانا فرض تیرا چاہتا ہوں میرے کرناٹک
تیرے سینے پہ لہراتی مچلتی اور بل کھاتی
ہیں وردا،تنگا،کاویری ،کرشنا،بھدرا اور بھیما
بہ صورت آبشارِ جوگ اور ابےّ میں جلوہ گر
ترے دریا کہ جن کے حسن کی کویء نہیں سیما
بڑی زرخیز ہےمٹیّ تری اور تو ہے سایہ دار
ترے کہسار ِ مغرب،نندی ،چامنڈی ہیں پہرےدار
ترے دشت و دمن اورلالہ زاروں میں وہ جادو ہے
مسافر ان میں کھوکر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں
کہاں باہوش رہ سکتا ہے کوئی جب نگاہوں میں
مصفاّ تتلیاں ،جگنو،ستارے جھلملاتے ہیں
نہیں دیکھا تجھے ورنہ وہ شاید یہ نہ فرماتے
کہ ہے کشمیر جنتّ اگر روےء زمیں پر ہے
ترے سرسبزمنظر ،وادیاں تیری سبحان اللہ
وہ دیکھو ناریل ،چائے ،سپاری ،چائے کے باغات
یہ ہیں تربوز ،خربوزے ،سپوٹے ،آم کی فصلیں
یہاں شہتوت اور امرود کی بھی ہوتی ہے برسات
ہے جنگل میں ترے صندل اور شیشم کی فراوانی
ترے سینے میں سونے موتیوں کی خیابانی
برنداون ہے ،کبنّ باغ ،احمر باغ ہے تجھ میں
ہیں بندی پور ،انشی ،کدرے مکھ ،ناگر ہولے تجھ میں
تلا کاویری ،رنگن تٹوّ،اور ہیں ککُّرے بلوّر
مہاجر طائروں کی دلربائ کے لیےء تجھ میں
ترے در وا ہیں سب کے واسطے انساں ہوں یا پنچھی
ہے تقلید کے قابل تری یہ وسعت ِ قلبی
حقائق،حسن اور سچایئوں کو اپنے اپنے لفظوں میں
سمویا تھا پُرندر ،تلسی ،سروجنا ،کمارا نے
کویمپو ،پمپا،رناّ،بیندرے کا تھا الگ انداز
تخیل کا جگایا تھا فسوں پر نرپتنگا نے
ترے فنکاروں نے پہنایا ایسا پیرہن تجھ کو
تکا کرتا ہے حسرت سے بڑی نیلا گگن تجھ کو
تھے چندر گپت ،اشوکا ،گنگا ،چانکیہ ترے معمار
جنہوں نے روپ بخشا اور تری صورت گری کی تھی
کدمبا،ہویسلا ،وجیانگر تھے ترے تزیئں کار
جنہوں نے اوج پر پہنچا دیا تہذیب کو تیری
ترا اپنے سپوتوں پر بجا ہے ناز کرناٹک
کبوتر توُ ہے ،پرڈرتے ہیں تجھ سے باز کرناٹک
یہاں بسویشور ،اکاّ مہادیوی ہیں اور پربھو
یہ مٹّی سنت ،سادھو ،گیانی دھیانی ،جوگیوں کی ہے
یہ ہے خواجہ کا مسکن ،زیر سایہ جس کے ایک دنیا
یہ مٹّی اولیاکی،شاعروں کی ،صوفیوں کی ہے
ترے دامن میں ہیں موجود کتنے گوہرِ نایاب
کہ پیاسی روحیں جن کے فیض سے ہوتی رہیں سیراب
یہ ابراہیم روضہ ،گول گنبد ،عین شاہد ہیں
کہ تیری خاک کو وہ اپنی ہی مٹّی سمجھتے ہیں
یہ لا تعداد مندر اور مساجد دال ہیں اس پر
نہیں تھا بھید بھاؤ اور سب مل جل کے رہتے تھے
ترے ذروں میں ہے تنویر ممتا کے تقدس کی
یہی قانون ہے تیرا یہی تہذیب ہے تیری
ہےنفرت غلامی ،ہیں آزادی کے کیا معنی
حمیت کس کو کہتے ہیں ،محبت نام ہے کس کا
عمل اور قول سے سلطان ٹیپو نے تھا سمجھایا
دلوں پہ کیوں نہ ہوتا نقش،ہر اک لفظ سچاّ تھا
شجاعت،جراءت وہمت ّکا دوجا نام ہے ٹیپو
صداقت ،منصفی،انسانیت کا نام ہے ٹیپو
وہ ہے کتّور چنّما،یہ ہے بلواڈی ملّما
جنہوں نے جنگ کے میدان میں دکھلاےء تھے جوہر
محبت میں تری کٹوادیےء تھے سر ہزاروں نے
میں گلہاےء عقیدت پیش کرتا ہوں سلام اُن پر
بڑا ہے سہل مال و زر کسی کو دان دے دینا
کلیجہ چاہےء آساں نہیں ہے جان دے دینا
بڑے باذوق تھے وڈیر پرستارانِ فنکاراں
بنا رکھا تھا گہوارا فنون و علم کا تجھ کو
یہ پنڈت بھیم سین جوشی ،وہ گنگو بایء ہنگل ہیں
جنہوں نے اپنے فن کی وسعتوں میں بھر لیا تجھ کو
تری شفاف صبحیں میرا سرمایہ ہے کرناٹک
تری رنگین شامیں میرا سرمایہ ہے کرناٹک
تھے تیرے عاشقوں میں جتیّ ،نجلنگپاّ،منجپاّ
سپوتوں میں ترے تھے ہنُمنتیّا اور ارس دیوراج
تجھے پہنایا ایسا تاج پر ویسویشوریا نے
جڑے ہیں جس میں نیلم ،لاجورو،یاقوت اور پکھراج
زمیں پر کھینچ لانا چاند تاروں کو عبادت ہے
اندھیروں میں جیےء جانا حماقت ہے، جہالت ہے
تری عظمت ،تری حشمت ،تری رفعت ودھاں سودھا
تری عفت ،تری عزتّ،تری حرمت ودھاں سودھا
ہے تیری آبرو ،تعبیر خوابوں کی،ترا سورج
تری نصرت ،تری طاقت ،تری شوکت ودھاں سودھا
بلندی سرخ روئ کی علامت ہے ودھاں سودھا
فراست ،فہم و حکمت اور ذکاوت ہے ودھاں سودھا
تجھے دیکھوں تو لگتا ہے کہ تیرا حسن دائم ہے
تجھے سوچوں تو لگتا ہے سراپا تو شفقت ہے
انوکھا ہے یہ رشتہ آدمی کا اپنی مٹّی سے
ہے قائم رونقِ ہستی محبت کی شریعت سے
یونہی پیدا کشش ہوتی نہیں کچھ بات ہے تجھ میں
صبا یونہی کبھی رکتی نہیں کچھ بات ہے تجھ میں
تجھے ہر آن ہر پل سوچتا ہوں کرناٹک
عزیز از جان ہر موسم ترا رکھتا ہوں کرناٹک
میں خون ِ دل سے ماتھے پر ترے ٹیکہ لگاتا ہوں
معنوں نام تیرے اپنا کل کرتا ہوں کرناٹک
تجھے پرنام کرتا ہوں مرے محبوب کرناٹک
تری جے کار ہو ،جے ہو مرے محبوب کرناٹک
(از ساجد حمید ساکن شیموگہ "جگنو لمحے "…..کی آخری نظم ……)
انکی اگلی نظم جو انکے مجموعہ کلام نکہت رقصاں کے صفحہ نمبر 45 پر موجود ہے
"میری محسن تو ہے ”
تیری آغوش محبت میں جو ملتا ہے سکوں
وہ کسی غیر کی بانہوں میں کہاں اے ملناڈ
تیری گاتی ہویء چتون سے جو اٹھتی ہے مہک
وہ کسی اور کی آنکھوں میں کہاں اے ملناڈ
تیرے سینے پہ مچلتی ہویء تنگا لہریں
کہ.شراوتی کا وہ لہراتا شگفتہ آنچل
کہ وہ بھدرا کا فسوں ساز امڈتا جوبن
یا کہ وردا کا سبکسار مصفاّ جھرنا
سب تیرے نام کی خوشبو کی قسم کھاتے ہیں
گیت عظمت کے تری صبح مسا گاتے ہیں…..
یہ اس سرزمین کی ثنا خوانی ہے جو انکی پیدایشی زمین اور ماں ہے
نیکیوں کو پکارتی گنگا جمنی تہذیب کو یاد دلاتی ہے…..
نظمیت کی نیء اونچایئوں کو چھوتی انکی اس نظم کو دیکھیں جہاں پر یک جہتی کا سبق انہوں نے کس انداز میں یاد دلایا ہے…..
"زمیں پہ دندناتے یہ سکندر”
جب میسر نہیں تھا انکو کویء ٹھکانہ جب انکی انکھوں کی پتلیوں میں کرن نہیں تھی
جب انکے بازوؤں کی مچھلیوں تڑپ نہیں تھی
جب انکے ذہنوں میں تیرگی کے سوا نہیں تھا کویء اجالا
وہ ناتوانی
وہ خستہ حالی
وہ بے زبانی
بھلا چکے ہیں
زمیں کے سینے پہ دندناتے ہوئے سکندر
بھلا چکے
ثقافتوں اور روایتوں کی دھنک جوانی
جو ذہن و دل کے طلسمی آنگن میں چاندنی کو بکھیرتی ہے
جو جسم و جاں میں ثواب لمحے نچوڑتی ہے…….
ایک سطر سارا منظر نچوڑتی ہے اور آب حیات کا وہ قطرہ دے جاتی ہے جو صدیوں کو جِلانے کے لیے کافی ہے……
ایک اور نظم جسکا لہجہ بیشک شکایتی ہے لیکن سارا نچوڑ اور پیغام بے شک و شبہ قومی یک جہتی ہی ہے…..
ہشیار باش (نکہت رقصاں صفحہ 98،99)
خدا جانے یہ کس کی بدعا ہے
شجر کی ڈالی ڈالی سوختہ ہے
اہنسا کی زمیں کہتے تھے جس کو
وہ اب آسیب مسکن بن گیا ہے
مگر یہ دیکھ کر دل رو رہا ہے
کہ تم مصروف ہو ہشکارنے میں
زمیِن دل میں بو کر تخم نفرت
اگانا چاہتے ہو شجر الفت
یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے
بھڑک جایئں نہ پھر شعلے جنوں کے
کلیجے پھٹ نہ جایئں پھر گلوں کے
کویء چپہ نہ بھیگے اب لہو سے
کویء اب زندگانی سے نہ کھیلے
تشدد سے پرے سوچو کویء حل
اسی میں آدمیت کی بقا ہے
نیء سوچیں, نےء سپنے تراشو
نیا آہنگ جینے کا تلاشو
جو کتا اپنے اندر بھونکتا ہے
اگر تم اس کو زنجیروں میں جکڑو
تو سچ کہتا ہوں گوتم کی زمیں پھر
اجالوں کی مہک سے کھل اٹھے گی
نہ بھونچال آیئگا پھر اس زمیں پر
نہ ہونگے بم دھماکے بھی کہیں پر
ساجد حمید نے ملک کے بدلتے منظر نامے پر نےء لہجہ میں کیء نظمیں لکھی ہیں ان میں "ابابیلیں نہ آیئں گی "بہت اہمیت رکھتی ہے
ظلم اسوقت پنپتا ہے جب قوموں کی فکری,عسکری, اور قوت کا توازن بگڑتا ہے، تب طاقتور قوم اپنے نّشہ میں کمزور کو کچل کر حظ اٹھاتی ہے، جیسے کسی صدیوں پہلے کیےء گیےء ظالماتی لمحات کا بدلہ چکایا ہو، اور مکافاتِ عمل کا دایرہ بھول جاتی ہے…. ساجد حمید کی یہ نظم کمزور قوم کو کچھ سمجھا رہی ہے کہ اٹھو اور اپنی بصارتوں اور بصیرتوں سے کام لو…. نظم دیکھیں
ابابیلیں نہ آیئں گی (نکہت رقصاں صفحہ 61)
جو انہونی تھی
کیونکر ہوگیء!؟
میں اکثر سوچتا ہوں
ہوس کی آگ نس نس میں لیےء
جنونی سازشی افواج لیکر
فقط چند ساعتوں میں ابرہہ نے
مٹا ڈالی
جلا کر راکھ کردی
مرے اسلاف کی روشن نشانی
مرے ماضی کی تابندہ نشانی
مرے ماضی کی تابندہ کہانی
وہ جاےء ضوفشانی
میناروں نے بہت دیں بدعایئں
دریچوں اور محرابوں کی آہیں
دروبام اور منبر کی آہیں
سنیں جب!
روپڑی تھی فاختایئں
دسمبر 6
ابابیلیں نہ.آیئں
دسمبر 6
نہ کویء قہر ٹوٹا آسماں سے
مگر ایک آتش ِ سیال تھا جو
فلک کی چشم تر سے بہہ رہا تھا
(جسے محسوس ہم سب نے کیا تھا )
کہہ رہا تھا:
ابابیلیں نہ ایئں گی کبھی اب
نہ کویء قہر ٹوٹیگا فلک سے
تمہیں اب چاہیےء از خود:
مینارے اور گنبد
دریچے اور محراب
دروبام اور منبر
سراپا سجدہ گاہ بننا پڑے گا
حریف جبر اور استبداد بن کر
سامنے آنا پڑیگا
یہ ثابت کرنا پڑے گا
کہ
اُس رب کے ہو بندے
جس نے تم کو
کیا اُمتّ میں شامل اسکی
جسکے
تصور سے مہک اُٹھتے ہیں لمحے
عنایت سے سنور جاتی ہیں سوچیں
شفاعت سے جلا پاتی ہیں روحیں….
انکی ایک اور نظم "گماں غالب ہے ” یہ بھی اسی طرح کے جذبوں کو درشاتی ہویء درس ِ اخوت کو آواز دے رہی ہے ……
چھ دسمبر کے عنوان سے ایک اور نظم انکے مجموعہ کلام میں موجود ہے …..
ملک کے بدلتے منظر نامے پر جہاں قومی یک جہتی پر اعتماد کم ہوتا اور یقین گم ہوتا دکھایء دے رہا ہے، یہ ایک قوم کی سوچ کی ترجمانی ہے ،جسے کبھی ہندوستان کی دایئں آنکھ کہا گیا ،اور جو ہزار سال تک اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے اسکی تہذیبی اقدار کو سنوارتی رہی ہے….. جسکے نشان اب بھی اسی دھرتی کو خوبصورت اور قیمتی بناےء ہوےء ہیں… نظم کا عنوان ہے
"امتحان ”
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جاییگا
ہم اپنی بند مٹھیوں میں بند جگنو آزمایئں گے
جو سناٹوں کا لشکر پھیلتا جاےء گا بستی پر
فلک آنکھیں چرا لے گا
صداےء خامشی کو قید کرلیں اپنی انکھوں میں
ہم اپنے ذہن ودل کے سب دریچوں کو کھلے رکھیں
یہ کیوں بے حس ہوا جاتا ہے ہر لمحہ نگاہوں میں
یہ کیوں کھویا ہوا سا لگ رہا ہے منظر فردا
لٹیرا سبز موسم کا پھر اس بستی میں آیا ہے
لٹیرا سبز موسم کا صبا کو قید کرلیگا
اندھیرا اور گہرا اور گہرا ہوتا جایےء گا
ہم اپنی مٹھی میں بند جگنو آزمایئں گے ……
نکہت رقصاں کی بہت ساری نظمیں انہی جذبوں کی عکاس ہیں، اور لفظ فاختہ کو انہوں نے امن کے پیامبر کی حیثیت سے کیء جگہ برتا ہے، جس سے وہ قومی یک جہتی کا بھولا درس یاد دلانے کی کوشش کرتے دکھایء دیتے ہیں…. ساجد حمید کی حب الوطنی، امن کی تلاش اور خواہش، میں چلتے ایک صحرایء مسافر کو نیکیوں کے جتنے سبق یاد آتے ہیں انکو یاد کرتے ،پسپا ہوتی قوم کی ،حوصلہ افزایء کرتے، مثبت سوچ اور حوالوں کا درس دیتے، ایک خاموش قلم کے سپاہی کو، جو مسلسل مدام سفر ہے، اج کی یہ محفل عقیدت مندانہ سلام عرض کرتی ہے……شاعر کرناٹک تجھے سلام …….
ہبلی کے ایک کہن سال اور کہنہ مشق شاعر جناب مظہر محی الدین نے جذبہء حب الوطنی اور قومی یک جہتی پر کیء نظمیں کہی ہیں انکا مجموعہء کلام” لفظ لفظ روشنی "سے دو نظمیں حاضر خدمت ہین
یک جہتی…… صفحہ 117لفظ لفظ روشنی
اُ ٹھو پھر دیپ یکتا کے جلایئں
اندھیروں کو نفرت کے دل سے مٹایئں
کنہیا کی مرلی تمہیں ڈھونڈتی ہے یشودا کی لوری تمہیں ڈھونڈتی ہے
یہ گوتم کی لوری تمہیں ڈھونڈتی ہے
یہ روحِ بلالی تمہیں ڈھونڈتی ہے
اٹھو دیپ جلایئں… اندھیروں کو مٹایئں
کہاں ہے وہ اب ایکتا جس کے بل پر
فرنگی نے اپنا لپیٹا تھا بستر
زبانیں پنپتی ہیں بنتی ہیں اکثر
زبانوں کی خاطر اٹھاؤ نہ خنجر
اٹھو دیپ جلایئں…. اندھیروں کو مٹایئں
اٹھو خوابِ باپو کی تعبیر بن کر
اٹھو وید و قرآں کی تفسیر بن کر
اُٹھو بھیم وارجن کی تقدیر بن کر
اُٹھو رام لچھمن کی تصویر بن کر
اُٹھو دیپ جلایئں… اندھیروں کو مٹایئں
اُٹھو ابن آدم کی للکار بن کر
حسین ابنِ حیدر کی تلوار بن کر
بشر کی حفاظت کی دیوار بن کر
بشر کی محبت کا اقرار بن کر
اُٹھو دیپ پھر ایکتا کے جلایئں
اندھیروں کو نفرت کے دل سے مٹایئں…
انکی دوسری نظم یوم جمہوریہ کر عنوان سے صفحہ 119 پر موجود ہے
شہر بلگام میں یوں تو کیء شعراء موجود ہیں, مگر ایک جواں سال شاعر جو پیشہء تدریس سے جڑے ہیں انکے لہجے نے متاثر کیا ہے جناب محمد یٰسین راہی… جنکا مجموعہ کلام "قطرہ قطرہ دریا دیکھوں” دستیاب ہے
قطرہ قطرہ دریا دیکھوں
زّرہ زرّہ صحرا دیکھوں
اندھا ہے قانون یہاں کا
ہر پل عدل ادھورا دیکھوں
اس دنیا میں ان انکھوں سے
اور بتا میں کیا کیا دیکھوں
ساری دنیا اردو بولے
ایسا خواب سنہرا دیکھوں
کب آیئگا دن وہ جب میں
سب کا ہنستا چہرہ دیکھوں
یاد کا مرہم زخم بنا ہے
زخم کو گہرا گہرا دیکھوں
کالی رات ترے ماتھے پر
روشن ایک سویرا دیکھوں
راہی سلیم کے دل پر اب بھی
اکبر کا وہ پہرہ دیکھوں
یٰسین راہی
دوسری غزل وطن کی عظمتیں سناتی ہویء
آنکھوں میں جلوہ گر ہے صورت مرے وطن کی
اور دل میں جاگزیں ہے چاہت مرے وطن کی
قربانیوں کے بدلے قدرت نے ہے بڑھایء
دھرتی سے آسماں تک عظمت مرے وطن کی
عیسایء ہوکہ سکھ ہو ہندو ہو یا مسلماں
ہر قوم سے رہی ہے .نسبت مرے وطن کی
مقبولیت ہماری آپس کا بھایء چارہ
دشمن بھی کر رہا ہے عزت مرے وطن کی
ہر زرہ اس زمیں کا شمس وقمر ساروشن
مٹی ہی قدرتاً ہے دولت مرے وطن کی
مہروفا کی شمعیں ہیں تاج سی فروزاں
دنیا میں کیوں نہ ہوگی شہرت مرے وطن کی
کیا خواب ہم سے راہی شاعر یہ کہہ گیا ہے
کشمیر ہے زمیں پر جنت مرے وطن کی……… یٰسین راہی
نظم.. میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
گنگا جمنی ِریت جہاں پر
پریم جہاں پر پریت جہاں پر
بچے بوڑھے ملکر گایئں
یکتایء کے گیت جہاں پر
میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
یک دوجے کا بوجھ اٹھایئں
سکھ میں دکھ میں ساتھ نبھایئں
لوگ جہاں دل ہاتھ بڑھا کر
یکتا کی زنجیر بنایئں
میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
دین دھرم کی بات جہاں کی
یک جہتی سوغات جہاں کی
مٹی جسکی سونا اگلے
دن جیسی ہے رات جہاں کی
میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
ہندو مسلم رنگ جمایئں
عید اور ہولی ساتھ منائیں
نانک اور اقبال جہاں پر
وحدت کے نغمات ہیں گایئں
میرادیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
پرچم جسکا من بھاتا ہے
امن کی چاہت درشاتا ہے
دیکر درسِ محبت راہی
عدل کو قایم کرتا ہے
میرا دیش وہی ہے بھایء
میرا دیش وہی ہے بھایء
یٰسین راہی…. بلگام.
بلگام سے آگے بڑھ کر ہم ممبیء کرناٹک کے ان علاقوں میں داخل ہونگے جو کبھی ممبیء کرناٹک یا سطح مرتفع دکن کا حصہ کہلاتا ہے ۔
ممبیء ہندوستان کی قومی یکتا کا جیتا جاگتا شہر جس نے قوم کے دو بیٹوں کو رنگوں کی ہولی دیوالی اور عید مناتے بھی دیکھا ہے اور دونوں بھایئوں کو خون کی ہولی کھیلتے بھی دیکھا ہے….
شکیل اعظمی :
انکا اصل وطن تو آعظم گڑھ ہی ہے لیکن خود کو فلم انڈسٹری سے جوڑ انہوں نے ممبیء کو اپنا وطن ثانی بنا لیا ہے.. انکے مجموعہء کلام "مٹی میں اسمان ” سے کچھ کلام جو نظموں کی شکل میں ہے
"میں ہندوستانی ہوں ”
مجھے اپنے وطن سے
کس قدر اپنایئت ہے
عشق ہے
میں کہہ نہیں سکتا
بس اتنا جانتا ہوں
اس سے کٹ کر رہ نہیں سکتا
یہاں کی خاک
میرے جسم کی مٹیّ میں شامل ہے
پہاڑوں کی ندی سے جڑی ہے میری اونچایء
درختوں کے تنے ہیں پاؤں میرے
ہاتھ ہیں شاخیں
ندی ّ
جھرنے
سمندر
میرے تن میں خون کی مانند
مرے اندر وطن میرا
مرے باہر وطن میرا
میں زرے ّ زرےّ پہ
لکھی وفاؤں کی کہانی ہوں
میں ایک ہندوستانی ہوں
(مٹیّ میں آسمان صفحہ 95.96)
ہمہ جہت معنویت کی علامت اور استعاراتی زبان بولتی ،گہرے معنوں کو درشاتی ایک اور نظم دیکھیں…. جسکا عنوان ہے
مٹی ّ کا دکھ
نامٹّی سے
نا موسم سے رشتے ہیں
سردی
گرمی
بارش
سب ایک جیسے ہیں
کچےّ رستے
ننگے پاؤں پہ روتے تھے
اب پاؤں میں جوتا پہنے
سب پتھر پر چلتے ہیں
کھیتوں میں بھٹے بوتے ہیں
دھرتی کا دل جلتا ہے
اینٹیں بنتی ہیں
روزانہ شاداب زمیں کی
کچھ زرخیز تہیں کٹتی ہیں
ریزہ
ریزہ
مٹی ہونے والے پربت
اپنی قربانی پہ بیٹھے روتے ہیں
مٹّی ہی مٹّی کو زخمی کرتی ہے….
یہ نظم مٹی کے ٹکڑوں کا نوحہ ہے ایک کٹ رہا ہے دوجا کاٹ رہا ہے پربت ریزہ ریزہ مٹی ہوکر اپنی قربانی پہ روتے ہیں اور دھرتی ماں کا دل جل رہا ہے کویء بھٹے بورہا ہے
حب الوطنی اور قومی یک جہتی کی یہ بھی ایک استعاراتی تصویر ہے شاعر کا لہجہ افسردہ اور دکھی ہے
"مٹّی میں اسمان "یہ نظم دیکھیں کتنی گہری ہے
وہ جہاں جس میں تم تھے اور میں تھا
جس کو ہم نے بہت سجایا تھا
جس میں ہم نے رچی تھی ایک دھرتی
اور اک آسماں بنایا تھا
اک چھوٹی سی بات پر کیسے
اشک بن کر وہ آیا پلکوں پر
اور پلکوں پہ آکے ٹوٹ گیا
کھوگیا وہ جہان مٹی میں مل گیا آسمان مٹی میں
یہ میں اور تو کی بات نہیں ہے بلکہ اس ہ ہندو م مسلمان ہم کی بات ہے جو الگ الگ ہوکر اپنا اسمان مٹی میں ملا بیٹھے ہیں…..
سید ریاض رحیم :
دھارواڑ کی پیدایش…. ممبی کو اپنا وطن ثانی بنانے والے مہاراشٹرا اردو اکیدمی کا ایوارڈ لوٹانے والے خاموش طبع مگر گہرے اور بہت اچھے شاعر اور بھایء کی ایک غزل ۔
کوئی ہندو ہے کویء مسلمان ہے
آدمی کی یہی ایک پہچان ہے
مولوی اور پنڈت کا فرمان ہے
ان کے فرمان سے اپنا نقصان ہے
دھرم کو کویء خطرہ نہیں ہے جناب
اب تو خطرے میں ہم سب کا فرمان ہے
آدمی ہو رہو آدمی کی طرح
یہ سمجھتا نہیں جو وہ شیطان ہے
غیر فطری ہے سرحد یہ بالکل ہے سچ
جیسا اندور ہے ویسا ملتان ہے
سید ریاض رحیم…” جب تک منظر بدل نہ جائے "جنوری 2007
دوسری غزل
جیسے سب ہیں میں بھی ویسا ہوسکتا تھا
میرے چہرے پر بھی چہرہ ہوسکتا تھا
مل جل کر ہم لڑ نہ سکے اندھیاروں سے
کم سے کم دن میں تو اجالا ہوسکتا تھا
بیچ میں دنیا حائل تھی یہ بات الگ
میں بھی اس کا وہ میرا ہوسکتا تھا
ہم سب نے سمجھوتا کیا ہے دنیا سے
ورنہ پورا خواب ہمارا ہوسکتا تھا
مٹھی بھر لوگوں کے گھر ہیں عالیشان
تیرا،میرا،اس کااُس کا ہوسکتا تھا
ممبیء کا ذکر ہو اور فلم انڈسٹری کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری رہ جایئگی ویسے تو پوری فلم انڈسٹری ہی گنگا جمنی تہذیب کا مرکز بنی ہے ۔تمام خان صاحبان چلتی پھرتی قومی یک جہتی کی مثالیں ہیں
مگر جب ادب کی بات آئے تو دو لوگوں کا ذکر کیئے بنا آگے بڑھنا مناسب نہیں..
ایک ہیں جناب جاوید اختر ولد جانثار اختر جن کی قومی یک جہتی کی شاعری اپنی مثال آپ ہے
جاوید صاحب کا بیشتر کلام قومی یک جہتی کا نمایئندہ کلام ہے
فلم لگان کا ایک گیت
او پالن ہارے نرگن ونیارے
تیرے بن ہمرا کویء ناہی
ہمری الجھن سلجھاؤ بھگون
تمرے بن ہمرا کویء ناہی
جاوید اختر کی ایک اور نظم
یہ کھیل کب ہے
یہ جنگ ہے جس کو جیتنا ہے
تو سوچتا ہوں
یہ مہرے سچ مچ کے بادشاہ و وزیر
سچ مچ کے ہیں پیادے
اور ان کے آگے ہے
دشمنوں کی وہ فوج
رکھتی ہے جو کہ مجھ کو تباہ کرنے کے
سارے منصوبے
سب ارادے اس میں اس طرح کا اصول کیوں ہے
پیادہ جو اپنے گھر سے نکلے
پلٹ کے واپس نہ جانے پائے
اگر یہی ہے اصول
تو پھر اصول کیاہے
اگر یہی ہے کھیل
تو پھر یہ کھیل کیاہے
میں ان سوالوں سے جانے کب سے الجھ رہا ہوں
مرے مخالف نے چال چل دی ہے
اور اب میری چال کے انتظار میں ہے………
گلزار صاحب کی پوری زندگی اردو کی خدمت میں گزری. 1939میں پاکستان میں جنمی یہ ہستی بٹوارے کے بعد، اپنے وطن کی کمی ہر لمحہ محسوس کرتی، سانس لیتی، ہندوستان میں جیتی ہے، وطن کی محبت اب بھی انکے نغموں میں بولتی ہے ،اور گونجتی ہے. گلزار صاحب اردو سے محبت ،مٹّی سے محبت ،وطن سے محبت ،اور قومی یک جہتی کے لیےء جیتی, جاگتی, روتی مسکراتی, چلتی پھرتی, دنیا ہیں. جنکا دل ہندوستان کے لیےء دھڑکتا ہے ،خواب پاکستان کے دیکھتے ہیں. جنکے گیتوں میں پنجاب کی سوندھی مٹی کی خوشبو, مکےّ کی روٹی اور سرسوں کے ساگ کا ذایقہ, گڑ کی مٹھاس اور لسیّ کی ٹھنڈک بولتی ہے… یک جہتی کے لیےء خاموشی سے ایوارڈ لوٹانے والے اس عظیم انسان پر دکن کی دھرتی بجا طور پر فخر کرتی ہے اور سلام کرتی ہے..
دکن کے ایک اور جواں سال شاعر جو مہاراشٹر کی سرزمین پر جنمے اور ناگپور کو اپنا وطن بنائے رکھا دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو سے جڑے ہیں, نام ہے شمشاد شیخ اور تخلص ہے شاد. انکی شاعری بہت سادہ، سلیس اور آسان زبان میں ہے، جو عام قاری کو اپیل کرتی ہے ،مگر انکی یہ خصوصیت ہے کہ انسان کے ہر اس جذبے اور نفسیات کو اس گُر سے بیان کرتے ہیں، کہ بےبساختہ واہ نکلتی ہے… لگتا ہے وہی لکھا ہے جو قاری ابھی ابھی سوچ رہا تھا.. وہی الفاط جو قاری سوچتا ہے اور ان لمحوں کو جیتا ہے ،اسلیےء میں انہیں عوامی شاعر کہتی ہوں….
شمشاد شاد کا جذبہء حب الوطنی ان اشعار اور نظموں میں دیکھیں…
ہند کی زمیں ہے یہ ,ہم ہیں قدردان اسکے
ہم ہی اس کے والی ہیں ہم ہی پاسباں ا س کے
اپنے خوں سے سینچا ہے ہم نے اس کی مٹّی کو
ہندو بھی مسلماں بھی, سب ہیں باغباں اسکے
شان و شوکتیں اسکی کم نہ کرسکا کویء
آےء اور گیےء کتنے یوں تو حکمراں اس کے
عزتیں ہمیں دیں ہیں, ہم کو دی جلا اس نے
گیت اسکے گایئں گے ہم ہیں نغمہ خواں اس کے
ڈال دی کمند اس نے اب تو چاند تاروں پر
کہکشاں اسی کی ہے اور ہیں آسماں اس کے
امن اور بھایء چارے کا ملک میرا گہوارہ
بن گیےء پڑوسی ہی کیوں وبال جاں اس کے
میرے اس چمن کا اب گل نہ کویء مرجھاےء
خوشبووں سے بھر جایئں شاد گلستاں اس کے (شمشاد شاؔد)
ہند کی زمیں ہے یہ، ہم ہیں قدرداں اسکے
ہم ہی اس کے والی ہیں، ہم ہی پاسباں اسکے
اپنے خوں سے سینچا ہے ہم نے اس کی مٹی کو
ہندو بھی مسلماں بھی سب ہیں باغباں اسکے
شان و شوکتیں اس کی کم نہ کر سکا کوئی
آۓ اور گئے کتنے یوں تو حکمراں اس کے
عزّتیں ہمیں دی ہے، ہم کو دی جلا اس نے
گیت اسی کے گائیں گے ہم ہیں نغمہ خواں اس کے
ڈال دی کمند اس نے اب تو چاند تاروں پر
کہکشاں اسی کی ہے اور ہیں آسماں اسکے
امن و بھائی چارے کا ملک میرا گہوارہ
بن گئے پڑوسی ہی کیوں وبال ِجاں اس کے
میرے اس چمن کا اب گل نہ کوئی مرجھاۓ
خوشبوؤں سے بھر جائیں شاؔد گلستاں اس کے (شمشاد شاؔد)
دوسری نظم ملاحظہ ہو
مل کے سب خوشیاں مناؤ، جشن آزادی ہے آج
گیت آزادی کے گاؤ، جشن آزادی ہے آج
نفرتوں سے باز آؤ، جشن آزادی ہے آج
دیپ چاہت کے جلاؤ، جشن آزادی ہے آج
دل کسی کا بھی نہ ٹوٹے تم رکھو اس کا خیال
سب کو سینے سے لگاؤ، جشن آزادی ہے آج
بخش دو اک دوسرے کی لغزشوں کو دوستو
جو ہوا وہ بھول جاؤ، جشن آزادی ہے آج
مر مٹیں جو ملک کی خاطر تم ان کی قبر پر
گل عقیدت کے چڑھاؤ، جشن آزادی ہے آج
شاد ہر کوئی رہےآباد اپنے ملک میں
ایسا نسخہ لے کے آؤ، جشن آزادی ہے آج (شمشاد شاؔد)
تیسری نظم دیکھیں نظم
کیسی کیسی ظلمتیں کیسی پریشانی کےبعد
ہم کوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
فرقہ وارانہ فسادوں کو بہت جھیلے ہیں ہم
خون مظلومین کی ہولی بہت کھیلے ہیں ہم
سرحدوں پر اب لڑینگے، عزم اپنا ہے یہی
ملک کی خاطر مرینگے اب تو سپنا ہے یہی
اب نہ فرقوں میں بٹینگے ، اتنی منمانی کے بعد
ہمکوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
سر زمیں خواجہ کی ہے یہ اور ہے نانک کا وطن
دل کلام میر ہے، آنکھیں ہیں میرا کے بھجن
ہر کسی کو اب یہاں ملتا ہے پورا احترام
نام پھر دارا ہو اسکا یا ہو کوئی احتشام
دل منوّر ہو گئے ہیں عشق روحانی کے بعد
ہم کوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
جو بھی آیا ہر کسی نے فیض پایا ہے یہاں
ایک روحانی سکوں ہر سمت چھایا ہے یہاں
چاہے وہ منگول ہو تاتاری ہو، انگریز ہو
ہو سکندر یا ہلاکو یا کوئی چنگیز ہو
کوئی بھی تو ٹک نہ پایا اذن درمانی کے بعد
ہم کوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
ہیں دل و جاں سے بھی پیاری ہم کو اپنی سرحدیں
لانگھ کر دشمن دکھاۓاب ہماری سرحدیں
ہم بھی اب منہ توڑ دینگے اپنے دشمن کو جواب
آزما لے جب بھی ہم کو، لینگے گن گن کے حساب
عزم والے کب رکے ہیں دل میں طغیانی کے بعد
ہم کوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
کیسی کیسی ظلمتیں کیسی پریشانی کےبعد
ہم کوآزادی ملی ہےکتنی قربانی کےبعد
کچھ متفرق اشعار دیکھیں جہاں شاعر کا لہجہ بدل رہا ہے اور کچھ شکایتی لہجہ در آیا ہے
چوتھی نظم دیکھیں
جاں تلک قربان کی ہے شاد جس نے ملک پر
چند سکّوں کے لئے وہ کیسے مکّاری کرے
کچھ اور اشعار
چلی ہے کیسی یہ ظلمت کی آندھیاں لوگو
تڑپ رہی ہے خود انسانیت یہاں لوگو
ہم اور تم یہاں رہتے تھے بھائیوں کی طرح
یہ کون آ گیا رشتوں کے درمیاں لوگو
سب ایک دوجے پہ کیچڑ اچھالے پھرتے ہیں
دلوں میں بھر گئیں کیسی یہ تلخیاں لوگو………
کچھ اور اشعار جو قومی یک جہتی کے عنوان پر ہی ہیں مگر لہجہ بدل رہا ہے…..
معلوم ہی نہیں تھا کہ جھٹلاۓ جائیں گے
حق بات کی تو دار پہ لٹکاۓ جائیں گے
کتنی بدل گئی ہے زمانے کی یہ روش
غدّارِوقت تخت پہ بیٹھاۓ جائیں گے
کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں
میری آنکھوں سےسراسر نہیں دیکھا جاتا
ظلمت و جبر کا منظر نہیں دیکھا جاتا
چاہے انساں پہ ہو، یا ہو وہ کسی موذی پر
ظلم ہم سے تو کسی پر، نہیں دیکھا جاتا
زمانے بھر کے رنج وغم ہمیٖں پہ ہورہے نازل
ہمیں پر ہو رہی ہر سمت سےیلغار، اے ساقی
کریں جَور و جفا چاہے میرے سر کو قلم کر د یں
مگر ہوگی کہاں ایسے زمیں گلزار، اے ساقی
ستائی جا رہی میٖرا ، اٹھائی جا رہی سیٖتا
اترتے کیوں نہیں دنیا میں اب اَوتار، اے ساقی
ہمیں پر کس لئے ہوتی ہے یہ الزاموں کی بارش
ستاۓ ہم ہی کیوں جاتے ہیں یوں ہر بار اے ساقی
کچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں….
حاصل ہی بھلا کیا ہے ان کھوکھلے نعروں سے
ہاں جہد مسلسل سے تقدیر بدلتی ہے
انصاف یہاں تُلتا سونے کے ترازو میں
رشوت سے عدالت کی تحریر بدلتی ہے
کچھ اور اشعار دیکھیں شاعر کتنا دکھی ہے بدلتے حالات سے
کچھ اور اشعار
مخلص جو قیادت ہو، بے داغ سیاست ہو
کچھ وقت نہیں لگتا سرکار بدلنے میں
لالچ کے بیاباں میں ہرکوئی بھٹکتا ہے
مصروف یہ دنیا ہے دستار بدلنے میں………
وقت کی بات شاعر نے کن آسان لفظوں میں تَلخیوں کو لکھ دیا ہے……
آئیے اب چلتے ہیں ملناڈ اور مالیگاؤں کی طرف جہاں کے ایک جواں سال ابھرتے شاعر جناب خان حسنین عاقب نے دھوم مچا رکھی ہے
یہ دو زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اردو اور انگریزی، انکا جدید کارنامہ ایک لفظ کی ایجاد ہے جو نعت کا انگریزی نعم البدل ہوسکتا ہے یہ لفظ ہے propheme…… گوگل پر جب اس لفظ کو لگایا گیا تو انگریزی جاننے والے مختلیف مذاہب کے لوگوں نے اپنے اپنے پیغمبران کی تیئں اظہار عقیدت کے طور پر کیء نظمیں لکھ کر لگادیں، جب کہ حسنین عاقب اسے صرف حضور پر انگریزی نعتیں لکھنے کے لیےء استعمال کرتے ہیں….
عاقب حسنین کی شاعری میں جذبہء حب الوطنی اور قومی یک جہتی کو تلاش کرنے کی کوشش کریں….. عاقب حسنین خان…. حُبِ وطن پرکلام ۔۔۔ از خان حسنین عاقبؔ
غزل کا شعر :
جیسے وطن میں ہو کوئی ، ہوں ذات میں تری
سب کچھ مجھے عزیز ہے لیکن وطن کے بعد
نظمیں
جنوری چھبیس، انیس سو پچاس
دن ہماری زندگی میں ہے یہ خاص
ہوچکے تھے گرچہ ہم آزاد تب
ملک اپنا خوش تھا اور تھا شاد تب
لیکن اک دستور تھا مطلوب بھی
جو موافق سب کے ، محبوب بھی
جس سے آساں ہو چلانا ملک کو
ایک آئیں تھا بنانا ملک کو
جس میں سارے ہی مذاہب ہوں شریک
ہو سماجی ڈھانچہ بالکل ٹھیک ٹھیک
سلسلے آزادیوں کے ڈھب پہ ہوں
حق ملیں سب کو،فرائض سب پہ ہوں
جنوری چھبیس اسنیس سو پچاس
آگیا دستور اس دن سب کے پاس
ہو گیا جمہوریت کا ظے نظام
حکم،محکوم اور حاکم سب عوام
بس اسی دن ہوگیا اعلان یہ
یعنی سیکولر ہے ہندوستان یہ
جنوری چھبیس انیس سو بچس
اس لئے دن اپنی خاطر ہے یہ خاص
نظم 2۔
پندرہ اگست کا ہے یہ اسارا
آزادی کا دیکھو نظارا
چلو پکڑلو ہاتھ ہمارا
اور لگاؤ زور سے نعرہ
ہندوستاں ہے ملک ہمارا
دن بھی یہی تھا ، سال یہی تھا
اپنی خوشی کا حال یہی تھا
جان اور اپنا مال یہی تھا
یعنی کآزادی کا ستارا
ہندوستاں ہے ملک ہمارا
بھول کے سب کچھ ملک کی خاطر
ذادی کے جشن میں آخر
مسلم ہوندو، مسجد ، مندر
سب نے نل کر یہی پکارا
ہندوستاں ہے ملک ہمارا
جشن منائیں آزادی کا
بھول کے ہم دکھ ماضی کا
خواب سجائیں خؤش حالی کے
اور بہائیں یپار کی دھارا
ہندوستاں ہے ملک ہمارا
آزادی تو اک رانی ہے
اس کا تقاضہ قربانی ہے
بات سبھی نے یہ ٹھانی ہے
اس کی خاطر سب ہے گوارا
ہندوستاں ہے ملک ہمارا
نظم 3۔
آؤ ، مل کر سب کو بتاتئں
آزادی ہم کیسے منائیں
ایک حسینہ، اک شہزادی
کہتےہیں جس کو ہم آزادی
روپ حسیں ہے، خوب ہے صورت
یک جہتی کی ہے یہ مورت
دیش یہ سارا اس کا سنہاسن
پیار محبت اس کا جیون
اس شہزادی نے ہے پہنا
پیار کا کنگن ، پیار کا گہنا
سب کے دلوں میں ہے یہ سمائی
ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی
نیل گگن پر جیسے تارے
اس کی نظر میں ایک ہیں سارے
یہ آزادی ہم بھی منائیں
یک جہتی کو دل میں بسائیں
پیار کا ہر آدیش ہو پہلے
سب باتوں مین دیش ہو پہلے
پہلے ہم بھارت کے واسی
پھر ممبئی، پنجاب نِواسی
دھرم الگ ہے ریت الگ ہے
گیت وہی، سنگیت الگ ہے
ترقیوں میں ہاتھ بٹائیں
سب اپنا کردار نبھائیں
سر کو جھُکا کر ہاتھ اُٹھائیں
اور خدا سے دُعا یہ مانگیں
بات ہے اپنی سیدھی سادی
رہے سلامت یہ آزادی
نظم 4۔
سنو ترنگا بول رہا ہے
میرے پیارے بھارت واسی
آزادی ہے تیری داسی
سوچ نہ کچھ ، کر دور اداسی
یہ ہے تیری ماں اور ماسی
بھید دلوں کے کھول رہا ہے
سنو ترنگا بول رہا ہے
اللہ بولو، بولو ایشور
راج اسی کا سب کے دلوں پر
مسجد ، مندر، یا گرودوارا
ایک خدا کو سب نے پکارا
زباں پہ یہ سچ رول رہا ہے
سنو ترنگا بول رہا ہے
گلی گلی اور چپہ چپہ
آکر گھوما ابنِ بطوطہ
عظیم بھارت دیکھ کے بولا
سَو ملکوں میں ملک یہ اچھا
ماضی بھی انمول رہا ہے
سنو ترنگا بول رہا ہے
لئے خوشی کے جلوے گھر گھر
اک دوجے کے دل میں رہ کر
مذہب ہے اک عظیم ساگر
اس سے بھرو ایمان کی گاگر
کتنا بدل ماحول رہا ہے
سنو ترنگا بول رہا ہے
ملک تھا اپنا سونے کا پنچھی
پھر سے کرے گا خوب ترقی
اب وہی پہلے والا ساتھی
اب وہی پہلے والا پنچھی
اُڑنے کو پر تول رہا ہے
سنو ترنگا بول رہا ہے۔…..
کچھ متفرق اشعار بدلتے لہجہ میں بھی….. بے جرم بے گناہ اسیروں کی خیر ہو
آتی ہیں دم بدم یہ صدائیں تہاڑ سے
بد نام ہوتا ہے وہ جو آگے دکھائی دے
جلوہ دکھاتا اور ہی کوئی ہے آڑ سے
اک دو کروڑ تھے جو کراچی چلے گئے
پچیس کروڑ اب بھی ہیں ہندوستان میں
ہر اک فساد ضرورت ہے اب سیاست کی
ہر اک گھوٹالے کے پیچھے وزیر رہتے ہیں
کچھ کتابیں زعفرانی ہو گئیں
بچ گئیں جو وہ پرانی ہو گئیں
قتل کو قتل جو کہتے ہیں غلط کہتے ہیں
کچھ نہیں ظل الہی کی یہ نادانی ہے
سہم جاتے ہیں اگر پتہ بھی کوئی کھڑکے
جانتے سب ہیں ترا ذمہ نگہبانی ہے
انصاف کو تلاش ہے پھر بے قصور کی
بکھرے ہوئے سراغ ہیں قاتل کے آس پاس
خان حسنین عاقب…مہاراشٹرا
مالیگاؤں کے ایک استاد کہنہ مشق شاعر کا ایک قومی یک جہتی کا گیت ہے…. جناب صدیقی عبدالمجید مظہر
کس کے گیت سنوگے
شام اودھ کے اور صبح بنارس کے متوالے میت
کس کے گیت سنوگے
یک جہتی کی موسیقی یا ایکتا کا سنگیت
کس کے گیت سنوگے
دھوپ کی دوشیزہ پیروں میں باندھے بوند کی پائل
محوِ رقص فضا میں ہے اوڑھے دھنک رنگ کا آنچل
نیلے پیلے لال بنفشی سب رنگ اسکے میت
کس کے گیت سنوگے
تنہا بوند ہے بارش کب کب اس سے جھرنے پھوٹے
بوندوں کی یک جہتی سے سنگیت کے چشمے پھوٹے
کل کل چشمے جھر جھر جھرنے بوندوں کا سنگیت
کس کے گیت سنوگے
تنہا گھنگرو کی چھن چھن پر کب آےء پیار
پائل کی چھن چھن پہ ناچے انگ انگ سوبار
ایک گھنگرو کی چھن چھن یا پھر پائل کا سنگیت
کس کے سنوگے گیت
اک پتی کو پھول جو سمجھے ہے یہ اسکی بھول
پنکھڑیوں کی یک جہتی کو ہی کہتے ہیں پھول
پھول پھول ہے پتی پتی ہے یہ دنیا کی ریت
کس کے سنوگے گیت
ہندو ,مسلم, سکھ ,عیسایء مل کر ہندوستان
مندر مسجد گردوارہ گرجا,ہیں اسکے نشان
بیل,شنکھ, گردوانی اذانیں ہیں اسکے سنگیت
کس کے سنوگے گیت
(22ستمبر 1977…..مالیگاؤں مہاراشٹرا… جناب صدیقی عبدالمجید مظہر.. )
واپس چلتے ہیں شہر دھارواڑ کی طرف جہاں کے ایک جواں سال شاعر جناب ثناء اللہ اشرفی کا کلام حب الوطنی اور قومی یک جہتی کے نام…..
گیت
تم بھی سنو ہم بھی سنیں سب کی پریشانی آؤ ڈھونڈلیں آسانی
تم نے ہم کو جانا ہم نے تم کو جانا
جو تمہارا کھانا ہے وہ ہمارا کھانا
ایک بن کے رہنا سب نے اسکو مانا
ایک سا ہی جینا ہے ایک ساہی مرنا ہے
مل کے سب لکھیں آؤ پیار کی کہانی
آؤ مل بیٹھ کر ڈھونڈ لیں آسانی
آل یہ ہماری آل ہے تمہاری
اپنی اپنی اولادیں ہر کسی کو پیاری
اپنے پیارے بچوں کو پیار کا سبق دینا
ہندو اور مسلم کا انکو نہ ورق دینا
انکی زندگانی میں بھردو شادمانی
آؤ مل بیٹھ کر ڈھونڈ لیں آسانی
ماضی کی مثالوں کو روشنی کے جھالوں کو
اس کے سب دیوانوں کو امن کے متوالوں کو
ٹیپو جیسے لالوں کو دیش کے جیالوں کو
نہرو اور گاندھی کے ان حسیں خیالوں کو
تم نے بھلا ڈالا ہے کرلو یاد دہانی
آؤ مل بیٹھ کر ڈھونڈ لیں آسانی
جو عمل ہمارا ہے رب کو کب گوارہ ہے
خود کو بدل ڈالو وقت کا اشارہ ہے
عیش اور عشرت کی زندگی نے مارا ہے
رب کے پاس جانا ہے کیا عمل تمہارا ہے
کیوں ثنا نہیں کرتے خود پہ نظر ثانی
آؤ مل بیٹھ کر ڈھونڈ لیں آسانی
ثناء اللہ اشرفی دھارواڑ……
آگے چلیں ضلع دھارواڑ کے شہر شاہ نور میں بسے بھایء َخالد روشن خانزادے کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں اور قومی یک جہتی اور حب الوطنی کے نیےء لہجہ کو پہچان لیں….
ہمارے لمس کا مرہم نہ ہوگا
یہ شعلہ قطرہء شبنم نہ ہوگا
ستم ناکامیوں کا کم نہ ہوگا
مگر اشکوں سے دامن نم نہ ہوگا
نہیں آتی ہمیں غیرت فروشی
یہ سر کٹ جاییگا پر خم نہ ہوگا
جدا ہوتے ہوےء تھوڑا جھگڑلے. بچھڑنے کا کسی کو غم نہ ہوگا
ہماری عمر کو دیمک لگی ہے
مگر جینے کا جذبہ کم نہ ہوگا
وطن کی خاک تو ہوگی بدن پر
میرے کپڑوں میں لیکن بم نہ ہوگا
وہ کیا جلوے وہ کیا دیدار روشن
کہ جب آنکھوں میں کویء دم نہ ہوگا
یہ غنایت سے بھرپور غزل ہے!شکوہ ہے! شکایت ہے! وطن کا درد ہے! مادر وطن سے شاعر کا وعدہ ہے! مرمٹنے اور جانثاری کا اعلان ہے! یا پھر اردو والوں پر مسلمانوں پر لگاےء جانے والے الزاموں کا جواب ہے…. کہ وطن کے لیےء سر کٹا دیں گے مرًمٹ جایئں گے مگر تخریب کا رنہیں ہیں, نہ بنیئں گے, کا اعلان کرتی اس خوبصورت غزل کے شاعر کو صد سلام ہے…
اردو نے وطن کی محبت میں جتنے نغمے گاےء ہیں ,شاید ہی کسی نے گاےء ہوں… اردو نے قومی یک جہتی کے کلام سے جن خزانوں کو بھرا ہے شاید ہی کسی زبان نے بھرا ہو…
اردو ہندوستان کی زبان ہے یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پلی بڑھی ہے اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے یہ قومی یک جہتی کا زندہ ثبوت اور کبھی نہ مٹنے والا جاوداں اور وہ میٹھا لہجہ رکھتی ہے جو سب کو لبھاتا ہے ہماری تہذیبی ثقافت اسی کے دم سے آباد ہے… یہ زبان وفاداریاں سکھاتی ہے وطن پر مرمٹنے کی سرشاری جتاتی ہے اور جانثاری کاعہد وپیمان بھی رکھتی ہے…
مہر افروز
الرحمٰن ۔ تھرڈ فیز کے ایچ بی کالونی
ڈی این کوپہّ ۔ دھارواڑ 580008 ۔ کرناٹک انڈیا
موبائل :09008953881
ای میل :
۱۱ thoughts on “جنوبی ہندوستان کی شاعری میں جذبہء حب الوطنی ۔ ۔ ۔ مہرافروز”
نہایت وقیع اور محنت سے تحریر کردہ تحقیقی مقالہ ہے ۔۔ محترمہ مہر افروز باجی نے موجودہ ادبی پس منظر کو اس مضمون میں سمیٹنے کی نہایت کامیاب کوشش کی ہے۔
میراکہنا یہ ہے کہ افروز صاحبہ کا مضمون مقالہ کے اصول پر نہیں لکھا گیا ہے ۔جنوب ہند میں مدراس بھی شامل ہے ۔ میسور بھی اتا ہے وہاں سے ایک بھی شاعر کو شامل نہی کیا گیا حوالہ مستند کتاب کا دینا چاہیے۔ محمود ایاز کا رسالہ ’’سوغات‘‘میں سے قومی شاعری حب الوطنی پر بہت سی نظمیں ملتی ہیں بنگلورے کے حمید الماس بہت اچھے شاعر تھے ان کے پاس حب الوطنی پر بھی نظمیں ہیں ۔ صرف کرناٹک کے تین شاعر کو شامل کیا ہیں ١٩٣٦ کے بعد کلاسک شاعری نہیں لکھی جارہی ہے۔ اکثر عصر حاضر شعرا علم عروض سے واقف نہیں ہیں انہیں کہنہ مشق نہیں کہا جاسکتا۔ مقالے میں ایک کے بعد علاقے کو شامل کر ناچاہیے تھا۔ ترتیب صحیح نہیں ہے ۔مقالہ نگار شائد جلد بازی میں مقالہ تحریر کیا ہے ۔ ایک تو غیر ضروری طویل نظم مقالے کے سر منڈھ دی گئی ۔ پھر بھی مبارک
ڈاکٹرعطا اللہ خان
شکاگو
حب الوطنی ہر انسان کی گُٹّھی میں پڑی ہیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دنیا کے کسی کونے میں جاکر بس جائیںاور وہاں کے گُن گانے لگیں ‘ کہیں کوئی ہم وطن مل جائے خوشی کے ٹھکانے نہیں رہتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر افروز آپی!! آپ کا مقالہ بہت ہی محنت سے لکھا گیا ہہے اس کےلئے مبارکباد قبول کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے خوشی ے کہ مجھے آپ نے اپنی دوست بنایا ہوا ہے
حب الوطنی کا درس حکومت وقت کی جانب سے نصابی کتابوں کے زرئے طلبہ کو ذہن نشین کروانا ہو تا ہے جس میں نہ صرف ہماری تہذیب بلکہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کی تاریخ کو اجاگر کیا جانا چاہئے جس سے نئی نسل میں ایک دوسرے کے مذہب کی قدر ہو عزت ہو تو تب ہی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا جا سکتا ہے ، مگر اجکل یہ دیکھا جا رہا ہے کہ NCPUL جہاں تمام درسی کتابیں طباعت کی جاتی ہیں اس میں نئی نسل کے ذہن میں زہر گھولا جا رہا ہے جس کی وجہ سے حب الوطنی کا خواب بے معنی بن کر رہے گیا ہے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔ جس کی وجہ سے حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے میں محترمہ مہر افروز صاحبہ کے خیالات کی قدر کرتا ہو ں اک اچھی فکر ہے کاش ائیسا ہو ۔
ڈاکٹر مہر افروز صاحبہ کا یہ مقالہ بہت بہترین ہے؛ اس مقالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جنوبی ہند کے ہم عصر شعراء کے کلام میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے عناصر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے-
آپا نے جب یہ مقالہ کوئمپو یونیورسٹی، شیموگہ کے نیشنل اردو سمینار میں پیش کیا تو اس مقالہ کی بہت پذیرائی ہوئی-
"جہانِ اردو” پر اس مقالہ کی اشاعت پر مہر افروز آپی Mehar Afroz صاحبہ کی خدمت میں پُر خلوص مبارکباد
ماشاءاللہ مہر افروز آپی کا مضمون بہت ہی جامع اور معلوماتی ہے۔ بہت خوشی ہوئی یہ مضمون پڑھ کر اور مبارکباد پیش کرتا ہوں مہر افروز آپی کو اللہ تعالٰی سلامت رکھے۔۔۔۔۔
علی نثار ۔ کینیڈا
مہر افروز کا مضمون دیکھا کچھ عجیب اھ معلوم ہوا جنوب ی ہند کے عنوان سے وہ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔ مضمون میں اساتذہ کے اشعار نہیں دیے گئے ۔غیر معروف شاعر کو سند کے طور پر استعمال نہیں کیاجاسکتا۔ دوسری بات مضمون میں طویل نظموں کو دینے سے مضمون بوجھلپن کا شکار ہوگیا۔
عطااللہ خان ۔ شکاگو
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کیا باور کروانا چاہتے ہیں ؟
غیر معروف شاعر کو سند کے طور پر کیونکر استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے؟
کیا جنوبی ہند کے اساتذہ نے ہب الوطنی پر اشعار کہے ہیں؟
محرافروز صہبا کا مضمون خوب ہے میریاشعار شامل کرنے کے لئے ممنون ہوں روف khair
بہت بہترین مضمون ہے -میں نے اس کی کاپی لےلی ہے – آپ کا مطالعہ قابل تعریف ہے – آپ کے مضامین کی منتظر رہوں گی
صالحہ بیگم
مبصر: جاں نثارمعین ( ریسرچ اسکالر،ڈپارٹمنٹ آف ویمن ایجو کیشن،مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیور سٹی،گچی باؤلی ،حیدآباد۔500032 )
محبان و تشنگانِ اردو کے نام ایک پیغام!
زیر تبصرہ مضمون’’ جنوبی ہند وستان کی شاعری میں مذبہء حب الوطنی‘‘ از۔ محترمہ مہر افروز
محترمہ مہرافروزعصر حاضر کی منفردمحققہ ،ممتازاور زبان کے رمز آشنا ہیں۔قومی یکجہتی کی اہمیت و افادیت اردو ادب کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں میں بھی ہے۔ جب کہ اردو قلم کاروں نےباقاعدہ مختلف اصناف میں بہترین قومی مشترکہ کلچر پر اظہارِ خیال کیاہے۔ مصنفہ نے اپنے فہم و ادراک اور و سیع النظر ی سےاردو شعرا کی روشنی میں حقائق کی راست آگہی کے ساتھ ساتھ خود کو جدید افکار میں ڈھانے کی کوشش کی ہے۔خاص کر الفاظ اور مصرعوں کی ہیر پھیر سے قومی یکجہتی کی خوبصورت تصویر کو پیش کیا ہے۔یہ مضمون اپنے آپ میں ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلوب معیاری،طرز نگارش دل کش، زبان و بیان نقص سے پاک،درست ترتیب،فکر انگیز،امتیازی و جاذبِ نظر ،پُر لطف معلوماتی، جامع سلیس اور عام فہم جملوں کا استعمال کیا۔ جو شائد بڑی محنت سے کئی بار تراش خراش اور کئی بار نظر ثانی کے بعد مخصوص اشعاریا دیگر اصناف کے مضامین کی کو قومی یکجہتی کےلیے معروضیت وصداقت سے پیش کیا۔
مصنفہ نے ادب کے دانشور شعرا کے علاوہ دیگرشعراکے اشعار کا انتخاب اور جامع تجزیہ کیا۔جو سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔ یہ تمام علوم و فنون سے جڑے افکار کی عکاس ہے،ادبی مورخین کے مزاحیہ کلمات کی پیروڈی کا انعکاس ، مضمون میں کار فرما سنجیدہ ادب کے پہلو کو اجاگر کیا اورادمشترکہ تہذیب کے پوشیدہ پہلوؤں کی عکاسی ہے۔ مصنفہ نے جو طرز نگارش میں مبالغے اوربےجا جذباتیت کو ہدفِ طنز بنا یاہے۔اس فن میں نکتہ چینی ہے تو دوسری جانب خراج تحسین بھی ہے۔اردو ادب میں قومی یکجہتی کا رواج کم ہے۔ مصنفہ کا یہ مضمون مشترکہ کلچر کا بہترین نمونہ ہے۔ انہوں نے ایک توانا گم گشتہ پہلو کی بازیافت اورہندوستانی کلچر شناسی کی عمدہ کووش کی ہے۔زیرِ تبصرہ مضمون’جنو بی ہندوستان کی شاعری میں جذبہء حب الوطنی‘میں ادبی جہات کو جس مربوط انداز میں پیش کیا گیاہے۔ وہ مصنفہ کے وسیع مطالعے، گہرے تفکر اورتحقیقی کدو کاوش کا بین ثبوت ہے۔ توقع ہے کہ محترمہ محرافروز کا یہ تحقیقی مقالہ علمی حلقہ میں تحسین کی نظر سے دیکھا جائےگا اور ہندوستان میں بھائی چارگی پرغور فکر کے نئے دریجے کھلیں گے۔
مصنفہ نے مضمون کے ابتدا میں ہی مضمون سے متعلق اور اس ملک میں اردو کے شعرا کی اہمیت کو اس طرح وضاحت کی ہے:
’’جنوبی ہندوستان اردو کی وہ گودی ہے جس میں اردو کا زمانہء طفلی گزرابچپن پروان چڑھا اور اردو ایک الہڑ دوشیزہ کے روپ میں قلی قطب شاہ کے کلام میں اپنےناز و انداز دکھانے لگی. ولی دکنی کے کلام میں درد کی راگنی اور پختہ زبان بن کر نکھر آیء, پھر یہ لکھنو کے درباروں میں پہنچی تو خواجہ میردرد نے اسکو درباری زبان کے عہدے پر فایز ہونے کے لایق بنایا, اسکے لب و چشم نکھارے اور گیسوؤں کو سنوارا… غالب نے اس زبان کو اعتماد اور اعتبار بخشا.. اقبال اور جوش جیسے شاعروں نے اسے شاہانہ جلال وجاہت اور وقار بخشا اور اس قابل بنایا کہ یہ زبان بے ساختہ شدتِ اظہارکے زندہ جاوید لہجہ میں آزادی کےنعرے لگانے لگی۔‘‘