بچوں کا ادب کیا ہے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

Share

asrar اسرار

بچوں کاادب کیا ہے ؟ ۔

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
لکچرر گورنمنٹ جونیر کالج ‘ شاد نگر ‘تلنگانہ
موبائل : 09346651710
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انسان دنیا کی سب سے عظیم ترین مخلوق ہے‘ دنیا کی ساری نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں‘ اس دنیا میں انسان کا وجود بچہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے‘ بچہ جو پھول کی شکل میں رونما ہوتا ہے‘ جس کی آمد پر پورا گھرانہ مسرت سے کھل اٹھتا ہے‘ جس کی صحت ‘ حفاظت اور غذا کا خیال تمام گھر والے رکھتے ہیں‘ اور جس کے رونے اور چیخنے کی آواز پر سب گھر والے متوجہ ہوجاتے ہیں‘ بچوں کے رونے پر مائیں انہیں موزوں اور ہم وزن الفاظ میں چپ کراتی ہیں‘ اور بچوں کو سلانے کے لئے مائیں اپنی اپنی زبان میں منظوم لوریاں گاتی ہیں‘ جو بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں‘ اور بہت آسانی سے بچے نیند کی آغوش میں پہونچ جاتے ہیں۔

دراصل ان ہی لوریوں سے بچوں کے ادب کی ابتداء ہوتی ہے‘ اس طرح انسان لاشعوری طور پر ماں کی گود ہی سے ادبِ اطفال سے مانوس ہوجاتا ہے‘ ہمارے معاشرہ میں ماں کی گود کو پہلا مدرسہ قرار دیا جاتا ہے‘ اور مہد سے لحد تک یعنی گود سے گور تک تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ہم اپنی ذاتی زندگی میں بچوں کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں‘ کھانے‘ پینے‘ رہنے سہنے‘ کھیل کود اور سیر و تفریح میں ان کی پسند ‘ خواہش اور شوق کا خاص خیال رکھتے ہیں‘ لیکن ادب تحریر کرتے وقت بچوں کو نظر انداز کردیتے ہیں‘ اور بچوں کا ادب تحریر کرنے کو اپنی کسر شان سمجھتے ہیں‘ بلکہ بچوں کا ادب اور بچوں کے شاعر و ادیب کو حقیر اور معمولی خیال کرتے ہیں‘ ہمارے بہت سے ادیب اور شاعر کو بچوں کے ادب کا شعور ہی نہیں ہوتا‘ جو ادب بڑوں کے لئے لکھا گیا‘ وہ اسی کو بچوں کے سر پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں‘ نہ انہیں بچوں کے ادب سے متعلق کوئی شعور ہوتا ہے‘ اور نہ ہی وہ ادبِ اطفال کی اہمیت‘ ضرورت اور افادیت سے واقف ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے یہ رجحان بڑا خطرناک اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے بہت نقصان دہ ہے‘ کیوں کہ جس ملک میں بچو کی تعداد ۴۲ فی صد ہو ۱؂ اور جن پر ملک کی تعمیر و ترقی کا دارومدار ہو‘ ان کی زبان و ادب سے متعلق غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا یقیناًتباہ کن ہے‘ کیوں کہ تعلیمی ترقی کا انحصار زبان و ادب میں مہارت حاصل کرنے پر ہے‘ اور جب ہمارے چوٹی کے شاعر و ادیب بچوں کے لئے ادب تحریر کرنے کو اپنی شان سے فروتر سمجھیں گے‘ تو بچوں کے لئے اچھا ادب وجود میں نہیں آسکتا ہے‘ اور نہ ہی ادب کی نصابی کتب کو مرتب کرنے کے لئے معیاری ادب کو جمع کیا جاسکتا ہے‘ اور نہ بچوں کے ذوق و نفسیات کے مطابق زبان و ادب کی اعلیٰ تعلیم انہیں فراہم کی جاسکتی ہے۔
چھ سال سرکاری مدرسہ میں پڑھانے کی وجہ سے ذاتی طور پر مجھے اس کا تجربہ ہے‘ آج اسکول کی سطح پر بچوں کو جو زبان و ادب کی کی تعلیم دی جارہی ہے اور جو نصاب مرتب کیا جارہا ہے‘ اس کا تقریباً نصف حصہ غیر دل چسپ اور بچوں کے معیار‘ ذوق اور نفسیات سیمیل نہیں کھاتا ہے‘ اور بچے زبردستی اور بے دلی سے انہیں پڑھتے ہیں ‘ اس لئے اس رجحان کو ختم کرنے اور بچوں کے ادب کو لائق توجہ بنانے کی ترغیب و تحریک کے طور پر میں نے مقالہ کے لئے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
۱۔بچوں کے ادب کی تعریف:
بچوں کے ادب کی تعریف مختلف اہل علم و ادب نے اپنے اپنے طور پر کی ہے‘ پروفیسر اکبر رحمانی نے بچوں کے ادب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’وہ ادب جس کے ذریعہ بچوں کی دل چسپی اور شوق کی تسکین ہو‘ اور جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات‘ ضرورتوں‘ دل چسپیوں‘ میلانات اور ان کی فہم و ادراک کی قوت کو پیشِ نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو‘ صحیح معنوں میں ’’بچوں کا ادب‘‘ کہلانے کا مستحق ہے‘‘۔ ۲؂
ادب اطفال کی یہ تعریف بہت حد تک واضح اور جامع ہے‘ اس میں فنی طور پر بچوں کے ذوق ‘ فہم و ادراک‘ ضرورت‘ عمر کے مختلف مدارج اور نفسیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر جاوید احمد نے بھی تقریباً اسی طرح کی تعریف کی ہے‘ تاہم انہوں نے اس میں توسیع کرتے ہوئے اس میں سی ڈی‘ ڈی وی ڈی اور ویڈیو گیم کو بھی شامل کیا ہے‘ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
’’بچوں کے ادب سے نثر و نظم کا وہ ذخیرہ مراد ہے جنہیں بطور خاص بچوں کے لئے تخلیق کیا گیا ہو‘ انہیں بچوں کے مزاج‘ عمر‘ نفسیات‘ احساسات و جذبات اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تحریر کیا جاتا ہے‘ یہ تحریر یں نصابی ہوسکتی ہیں یا غیر نصابی بھی‘ رسائل و جرائد بھی اس زمرے میں آتے ہیں‘ الکٹرانکس کے اس دور میں سی ڈی‘ ڈی وی ڈی‘ تدریسی ویڈیو گیم وغیرہ کا بھی ان میں شمار ہوتا ہے‘‘۔ ۳؂
سی ڈی ‘ ڈی وی ڈی اور تدریسی و یڈیو گیم کو بچوں کے ادب میں شمار کیا جاسکتا ہے‘ لیکن چونکہ یہ تحریری صورت میں نہیں ہوتے ہیں‘ اس لئے ہماری تحقیق سے باہر ہیں‘ ڈاکٹر جاوید احمد کی تعریف کے مطابق بچوں کی نصابی کتب بھی بچوں کے ادب میں شامل ہیں‘ اور یہی صحیح با ت ہے‘ لیکن کچھ حضرات بچوں کی نصابی کتب کو بچوں کے ادب میں شامل نہیں کرتے ہیں‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کے ادب کی ابتداء درسی کتب سے ہوتی ہے اور بچے سب سے پہلے درسی کتب کے ذریعہ ادب سے متعارف ہوتے ہیں۔
پروفیسر سید محمد حسنین مرحوم نے بچوں کے ادب میں توسیع کرتے ہوئے بچوں کے والدین کی خاطر لکھی جانے والی کتب کو بھی اس میں شامل کیا ہے‘ نیز انہوں نے بچوں کی تحریروں اور تصویروں کو بھی ادبِ اطفال میں شامل کیا ہے‘ وہ لکھتے ہیں:
’’چلڈرن لٹریچر کے لئے جب اردو لفظ استعمال کرنا چاہتا ہوں،’’ادبِ اطفال‘‘ کی ترکیب پر شبہ سا ہوتا ہے کہ کیا اس سے وہ جامعیت اور وسعت ظاہر ہوجاتی ہے جو انگریزی الفاظ میں موجود ہے؟ CHILD LITERATURE سے مراد وہ ذخیرۂ کتب ہے جو بچوں سے متعلق ہوتا ہے‘ یعنی ادب کا یہ شعبہ ان تمامشعری اور نثری نگارشات پر مشتمل ہے جو بچوں کے لئے اور بچوں کے والدین کی خاطر لکھی جاتی ہے‘ نیز وہ تحریریں اور تصویریں بھی اس ادب میں شامل ہیں جو بچوں کے قلم سے عالمِ وجود میں آتی ہیں‘‘۔ ۴؂
اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے قلم سے نکلی ہوئی اچھی تحریروں کو بچوں کے ادب میں شامل کیا جانا چاہئے‘ کیوں کہ یہ بچوں کی پسند‘ ذوق اور دل چسپی کا براہِ راست ثبوت ہے‘ اسی طرح بچوں کی پسندیدہ تصاویر بھی بلاشبہ بچوں کے ادب کا حصہ ہیں‘ لیکن بچوں کے والدین کی خاطر لکھی گئی تحریر یں جن میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور نفسیات جیسے سنجیدہ موضوعات سے بحث کی گئی ہو‘ بہر حال ادبِ اطفال میں اس کی شمولیت محلِ نظر ہے‘ کیوں کہ ادبِ اطفال کے براہ راست مخاطب بچے ہیں نہ کہ ان کے والدین۔
اب تک کی تعریف میں ان ذخائر ادب کو بچوں کے ادب میں شامل کیا گیا ہے جو بہ طور خاص بچوں کے لئے لکھے گئے ہیں‘ لیکن بچوں کے شاعر شفیع الدین نیّر نے ان تحریروں کو بھی بچوں کے ادب میں شامل کیا ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لئے موزوں ہوں‘ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
’’بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جو خاص طور پر بچوں کے لئے لکھا گیا ہو‘ یا اپنی معنویت اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لئے موزوں ہو‘ یا یوں سمجھئے کہ جو ادب چار پانچ سال کی عمر سے تیرہ چودہ برس تک کے بچوں کے لئے مخصوص ہو‘ اسے ہم بچوں کے ادب سے تعبیر کرتے ہیں‘‘۔ ۵؂
بچوں کے ادب کی یہ تعریف متوازن ہے‘ اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے‘ تو وہ ذخیرہ ادب جو بہ طورِ خاص بچوں کے لئے تو نہیں لکھا گیا ہے‘ لیکن جسے بچے شوق اور دل چسپی سے پڑھتے ہیں‘ جیسے: پنچ تنتر کی کہانیاں‘ الف لیلیٰ کی کہانیاں وغیرہ‘ انہیں بچوں کے ادب سے خارج کرنا پڑے گا۔
شفیع الدین نیّر کی تعریف کی تائید برٹانیکا جونیر انسا ئیکلو پیڈیا کی تعریف سے بھی ہوتی ہے‘ جونیر انسا ئیکلو پیڈیا کے مطابق بچوں کے ادب میں وہ تمام کتابیں شامل ہیں جو لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے بہ طور خاص لکھی گئی ہیں‘ نیز وہ کہانیاں اور کتب بھی اس میں شامل ہیں جو بڑوں کے لئے لکھی گئی ہیں‘ مگر بچوں نے ان کو اپنا لیا ہے:
"By Children literature,is meant three kind of writings,important in the lives of young people as they grow up. In the first place the term includes all of different kinds of stories, specially for boys and girls….secondly,it refers to traditional or folk literature,the collection of fairly tales.Finally,it includes the books written for adults which children have
claimed as their own”.(6)
یہ بات یاد رہے کہ بچوں کے لئے لکھی جانے والی ہر کتاب بچوں کے ادب میں شمار نہیں کی جاسکتی‘ صرف بڑوں کی باتوں کو آسان زبان اور اسلوب میں پیش کرنے سے بچوں کا ادب نہیں بن جاتا‘ زیادہ تر یہ ہوا کہ بڑوں کی باتوں اور واقعات کو آسان زبان میں پیش کیا گیا اور اسی کو بچوں کا ادب مان لیا گیا‘ اسی طرح بچوں کے ذوق‘ شوق‘ دل چسپی‘ جذبات اور رجحانات کو ملحوظ رکھے بغیر بڑوں کے ادب سے انتخاب کردہ ادب کو بھی بچوں کا ادب نہیں کہا جاسکتا۔
للین اسمتھ بچوں کا ادب اور بچوں کے لئے لکھی جانے والی کتابوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"All books written for children are not necessarily literatures,does the adult conception of what constituties a children’s book coincide always with that of a child’s.There are those who think of a child’s as just a simpler treatment of an adult theme.This point of view consider children,only as dominating adults and arises from misunderstanding of child-hood itself,for children are a race whose eperience of life is different from that of adults.Their is a different world- a child’s world in which values are expressed in children’s terms,and not in those which belong to adult experience”.(7)
للین اسمتھ کے خیال کے مطابق بھی وہ تمام کتابیں جو بچوں کے لئے لکھی گئی ہیں۔ لازمی طور پر بچوں کے ادب میں شمار نہیں کی جاسکتیں‘ یعنی جن کتابوں میں بڑوں کے مضامین کو آسان الفاظ میں بیان کردیا گیاہے‘ اور اسی کو بچوں کا ادب مان لیا گیا ہے‘ یہ نقطۂ نظر بچوں کو بڑوں کی ایک اکائی قرار دیتا ہے‘ اور یہ بچوں کی فطرت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے‘ جب کہ بچوں کی دنیا بڑوں سے بہت مختلف ہے‘ اور بچے بڑوں کے جیسے تجربات نہیں رکھتے ہیں۔
ادب کو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے‘ ورنہ ادب بے رنگ اور روایتی ہوکر رہ جائے گا‘ ادبِ اطفال میں تو اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جاتی ہے‘ آج بچہ کا شعور بہت پختہ ہوچکا ہے‘ وہ اب ہر چیز کی حقیقت اور اصلیت جاننا چاہتا ہے‘ وہ اب جنوں‘ پریوں‘ دیومالائی‘ طلسماتی اور محیر العقول کہانیوں سے زیادہ دیر تک بہلنے والا نہیں ہے‘ وہ اب چاند ‘ ستاروں اور مریخ کے بارے میں سوچتا ہے‘ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعہ وہ پوری دنیا کی سیر کرتا ہے‘ ادبِ اطفال کو ان جدید تقاضوں‘ ضرورتوں اور رجحانوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بچوں کی ادیبہ و شاعرہ ڈاکٹر بانو سرتاج نے ادبِ اطفال کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’وہ ادب جو بچوں میں جستجو‘ فکر و عمل کو فروغ دے کر زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے‘ بچوں میں باہمی الفت‘ قربانی‘ انسانیت‘ بے لوث خدمت اور حب الوطنی کی صفات کو فروغ دیتا اور مشکلوں سے لڑنا سکھاتا ہے‘ وہ ادبِ اطفال ہے‘‘۔ ۸؂
اس تعریف میں ادیبہ نے موضوعاتی اعتبار سے بچوں کے ادب کی وضاحت کی ہے کہ بچو ں کا ادب ایسا ہونا چاہئے جو بچوں میں صالح فکر و عمل‘ تحقیق و جستجو‘ الفت و محبت‘ ایثار و قربانی‘ خلوص‘ محنت اور حب ا لوطنی جیسی اعلیٰ صفات پیدا کرتا ہو‘ یعنی بچوں کا ادب ایسا ہونا چاہئے جو بچوں کی حقیقی زندگی سے قریب ہو‘ اور بچوں کو فکر و عمل کا پیغام دیتا ہو۔
ادب میں نفسیاتی امور کو ملحوظ رکھا جاتا ہے‘ خاص طور پر بچوں کے ادب میں بچوں کی نفسیات و فطرت کا خیال رکھنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ کچھ حضرات نے بچوں کے ادب کی تعریف میں بچوں کی نفسیات کو لازمی جزو کے طور شامل کیا ہے‘ احسن شفیق لکھتے ہیں:
’’نظم و نثر کے پیرایہ میں وہ تحریریں جن میں مفید معلومات سلیس الفاظ اوردل پذیر اسلوب میں اس طرح بیان کی گئی ہوں جن سے بچوں کو مسرت حال ہوسکے اور ان کی نفسیاتی تسکین بھی ہو‘ بچوں کا ادب کہلاتی ہیں‘‘۔ ۹؂
احسن شفیق نے اپنی تعریف میں تحریر کا لفظ لکھ کر تقریر اور سی ڈیز وغیرہ کو خارج کردیا ہے‘ اور ادب کی لفظی و معنوی خوبیوں (استحسانِ ادب) پر زور دیا ہے۔
اس طرح ادبِ اطفال کی جامع تعریف اس طرح ہوگی:
ادبِ اطفال سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے:
(۱) جو خاص طور پر بچوں کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہو‘ یا جو بچوں کے لئے تو نہیں لکھا گیا ہو‘ مگر بچوں کے لئے مفید اور دل چسپ ہو۔
(۲) جو بچوں کے ذوق ‘ پسند‘ دل چسپی‘ شوق‘ فہم و ادراک اور جذبات و احساسات کے مطابق ہو۔
(۳) جس میں بچوں کی نفسیات‘ ان کی ذہنی سطح اور ان کے تدریجی ارتقاء کا خیال رکھا گیا ہو۔
(۴)اور جو بچوں کی تفریح طبع کے ساتھ ان کو فکر و عمل کا پیغام دے‘ ان کے شعور کو بیدار کرے‘ ان میں اچھے برے کی تمیز پیدا کرے‘ ان کے نفس کی تہذیب کرے‘ اور ان کو ایک اچھا شہری اور ایک مفید انسان بنانے میں مددگار ثابت ہو۔
مگر اس کے باوصف قطعی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ یہی بچوں کا ادب ہے‘ اس کا فیصلہ شاعر‘ ادیب‘ اساتذہ‘ مصنف اور محقق نہیں کرسکتے‘ بلکہ اس کا فیصلہ بچے کی عدالت میں ہوسکتا ہے کہ جس ادب پارے کو بچے پسند کریں تو وہ بچوں کا ادب ہے‘ اور جسے بچے کا ذہن قبول نہ کرے وہ بچوں کا ادب قرار نہیں دیا جاسکتا ہے‘ جیسا کہ بچوں کے ادب کے تعلق سے انگریزی کے نقاد ہنری اسٹیل گومیکر نے بھی وضاحت کی ہے۔ ۱۰؂
بچوں

Share
Share
Share