افسانہ : چمچے ‘ اسٹیل کے
حنیف سیّد
موبائل : 09319529720
http://hanifsyed.weebly.com
پاگل ہے دنیا۔دنیانہیں، تومیں۔میں نہیں، تووہ؛یعنی کہ میری بیوی ،رجنی۔ہم تینوں میں،ہے ضرورکوئی پاگل۔ تینوں بھی ہوسکتے ہیں۔یہ توفلاسفرز کا کہنا ہے، اور ڈاکٹرز کابھی:’’دنیا کاہرشخص پاگل ہے۔کوئی کم،توکوئی زیادہ۔‘‘
میں نے جب اپنے الیکشن کی کنویسنگ میں اسٹیج پرکہا:’’امریکہ وغیرہ تو چاند پر پہنچے ،اگرہماری سرکاربنی ،توہم سورج پرجائیں گے۔وہاں بھی جیون ہے۔‘‘اتنا کہنا تھاکہ ٹماٹروں کی بارش ہونے لگی اورمجھ کودُم دبا کربھاگناپڑا۔
بس اُسی دِن سے سمجھ گیا کہ دنیا پاگل ہے ،اورجاہل بھی۔اِس کواتنا تک نہیں معلوم، کہ ہنڈرڈ پرسینٹ جیون ہے سورج پر۔ اگرہم سمندرمیں نہ اُترے ہوتے، تو کیا تصور کر سکتے تھے ،کہ پانی کے اندربھی جیون ہوسکتاہے اوراگرپانی کے اندرجیون ہوسکتا ہے، ہوا میں جیون ہوسکتا ہے،مٹّی کے اندرجیون ہوسکتا ہے، تو آگ میں کیوں نہیں…؟ یعنی کہ سورج میں ۔اور پھر لغت تو چیخ چیخ کرکہتاہے، کہ آتش پرستوں کے آتش کدوں میں چوہوں جیسی شکل کے کیڑے پائے جاتے ہیں،جِن کو سمندرکہتے ہیں جو صرف آگ کھاتے ہیں اورآگ سے باہرنکلنے پرمرجاتے ہیں۔اِس کے متعلق حالیؔ نے بھی کہاہے :
آگ سے جب ہواسمندر دور
اُس کے جینے کا پھر نہیں مقدور
جب اُن چھوٹے چھوٹے آتش کدوں میں سمندرہیں، توسورج میں توکروڑوں برسوں سے آگ دہک رہی ہے،وہاں نہ جانے کتنے طرح کے جیودھاری ہوں گے اور آکسیجن توہے ہی وہاں۔کیوں کہ آکسیجن کے بِناآگ ہوناممکن نہیں: آکسیجن ہے جہاں، جیون ہے وہاں۔بس اُسی روز سے لوگ پاگل کہنے لگے مجھ کواورمیری بیوی نے لاکھوں ووٹوں سے مجھ کوہراکرالیکشن نکال لیا۔حالاں کہ پاگل تووہ تھی پوری طرح۔اَب سے نہیں، بچپن سے۔
جب مجھے زیادہ ترلوگ پاگل کہنے لگے،تومجھے خودپرشک ہوا اورمیں فوراً پی۔جی۔آئی ۔جاپہنچا۔پہلے تو نیروسرجن اورمریضوں کے درمیان کی گفتگو سنتا رہا۔ جب میرانمبرآیا، تومیں نے نیرو سرجن سے فلاسفرزاورڈاکٹرز والی بات دُہرادی ۔
’’توکیا، میں بھی پاگل ہوں.؟‘‘نیروسرجن سنجیدہ ہوگیا۔
’’جی ہاں ….!‘‘میں نے وثوق سے جواب دیا۔
’’وہ کیسے ….؟‘‘اُس کے تیور چڑھ گئے۔
’’میں دیکھ رہاہوں،آپ مریضوں سے ،مریضوں کے اِستر کی بات نہ کرکے؛ اپنے استرکی بات کررہے ہیں:جب کہ ڈاکٹرز کولازم ہے ،کہ وہ مریض اورمرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں کے استرکی بات کرے ۔‘‘بات چوں کہ سچ تھی، لہٰذاوہ بناحرکت مجھے گھورنے لگا،جیسے: اُس کاہارٹ فیل ہوگیاہو۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو،ہرشخص تھوڑابہت پاگل ضرورہوتاہے ،میں بھی ہوں۔‘‘اُس نے کمپیوٹرپرکچھ فیڈکرتے ہوئے کہا۔میں نے سوچا:’’میں پاگل توہوں، لیکن نہیں کے برابر؛یعنی کہ دنیااوررجنی کی بہ نسبت بہت کم۔‘‘اب رجنی اورساری دنیا کاعلاج کروانا تو میرے بس کا تھانہیں۔ہاں، میں ضرورتھوڑے بہت علاج کا مستحق تھا۔ لہٰذاخودکوتھوڑابہت پاگل سمجھ کرپی۔جی۔آئی۔ سے اپنے ہی شہرکے نیروسرجن کے پاس آگیا۔
جب میں نے ڈاکٹرکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نمستے کیا ۔ پہلے تو اُس نے اپنا چہرہ اُٹھاکر مجھے غورسے دیکھا،پھرکھڑے ہوکرنمستے کاجواب دیتے ہوئے ہاتھ جوڑکر،میرے آنے کاسبب دریافت کیامجھ سے۔
’’ڈاکٹرکے پاس مریض ہی آتاہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پہلے تواُس نے میری بات ہنسی میں اُڑادی ،پھرمیری تواضع کے واسطے اپنے ملازم کوآوازدی، کیوں کہ میں معمولی انسان توتھانہیں،بل کہ ایک پرائم منسٹر کاشوہر تھا۔ بہ ہرحال میری ضدپر ڈاکٹر صاحب نے دوچارسوالات کرنے کے بعدمجھ کومیرے بالکل ٹھیک ہونے کا یقین دِلا دیا،پھرمیراذہن رجنی کی جانب لپکا،لیکن بے سود۔کیوں کہ اُس کے الیکشن جیتتے ہی میں نے اُسے پاگل ڈکلیئرکرکے مقدمہ کردیاتھا،کیوں کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ کھیلے اورپڑھے بھی تھے۔میں نے ایم ۔ایس۔سی ۔کرلیاتھااوروہ آٹھویں کلاس میں فیل ہوگئی تھی۔
وہ اکثرپاگل پن کی حرکتیں کرتی تھی،مثلاًایک بارہم دونوں کے بچپن میں یوں ہواکہ جب اُس نے کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا:’’ارے! کنویں میں ہاتھی….!‘‘ اس کے کہنے پر جیسے ہی میں نے کنویں میں جھانکا،اُس نے دھکّادے دیااوراُچھل اُچھل کر تالیاں بجاتی ہوئی بھاگ گئی ۔وہ تویہ کہوکہ پانی کم تھا،ورنہ اُسی روزمیراکام تمام ہوجاتا۔
ایک بارہم دونوں نے کھیل کھیل میں گھروندے بنائے۔جب اُس کے گھروندے سے میراگھروندابہتربنا؛تووہ میرا گھروندابگاڑکربھاگ لی۔
ایک باراُس کی ماں نے میرے لیے کھیربھیجی،جیسے ہی میں نے پہلاچمچہ، مُنہ میں رکھا؛تونمک ہی نمک۔وہ بڑے اہتمام سے ڈھانپ کرلائی تھی۔اِس طرح کبھی برتنوں میں اینٹ پتھرنکلتے ،توکبھی اُچھلتے ہوئے مینڈک۔ایسی حرکتوں پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتی وہ، اور میں ہکّابکّا رہ کراُس کو تاکتا رہ جاتا۔
وہ کبھی کسی کی ہانڈی میں نمک جھونک آتی، توکبھی مرچ۔موقع دیکھ کرعورتوں کے مجمع میں گھُس جاتی۔کبھی کسی کے نیچے پانی سے بھیگا کپڑا رکھ دیتی ،توکبھی دوعورتوں کی چوٹیاں باندھ دیتی؛کبھی کسی کے بیٹھنے کے مقام پرچُپکے سے پان کی پیک اُگل دیتی۔اِن سب حرکتوں کے بعدخوب اُچھل اُچھل کرتالیاں بجاتی،اورہنستی ہنساتی نکل جاتی۔
محلّے کے شاطرسے شاطرکُتّے، اُس کودیکھتے ہی دُم دباکربھاگ نکلتے۔اگرکبھی کسی سوتے ہوئے کُتّے پراُس کی نظر پڑجاتی،توفوراًاُس کی پچھلی ٹانگیں پکڑتی،گھماتی اورپھینک دیتی۔ پھرتودوردورتک قیوں قیوں کی آوازیں ہی سنائی پڑتیں۔
چڑیاں ،اُس کودیکھتے ہی اُڑ جاتیں، کبھی کوئی چڑیا، اُس کودیکھنے میں چوک جاتی ، تب تواُس کانشانہ نہ چوکتا؛بس غلیل میں غُلّہ لگایااورچڑیانیچے۔
کبھی کوئی بکری یابکرانظرآیا،کان پکڑااورپیٹھ پرسوار۔جہاں کسی دھوبی نے اپنا گدھاباندھنے کی چوک کی؛اُس نے فورااُس کی دُم میں ٹوٹاہواپیپاباندھ دیا۔
لڑکوں کی گلّی ڈنڈے میں وہ شامل،کبڈّی میں اُس کودخل،کرکٹ میں چوکے چھکے ،تیراکی میں وہ ماہر،پتنگ بازی میں تو لڑکوں کواُس کاہُچکا تھامتے ہی بنتا؛ورنہ ڈور توڑی اورپتنگ چھوڑدی۔
پان ،ہروقت چبائے رہتی وہ۔لڑکوں کانئے کپڑے پہن کرنکلنامحال تھا۔ جہاں کوئی چوکا،فوراًپان کی پیک ماردی۔
ماسٹر صاحب ،اُس کواسکول کے دروازے پردیکھتے ہی، ڈنڈاسنبھال لیتے، ورنہ اسکول میں داخل ہو کربچّوں کی کتابوں پر چیل، کوّے بناڈالتی۔
رکشے والوں نے محلّے میں آنابند کردیاتھا۔کبھی کوئی آنکلا،تواُس کے رکشے کے پہیّے کی تیلیوں میں ڈنڈا جانے دیا۔سائکل والے تودورسے ہی دیکھ کراُترلیتے۔
راستہ چلتے کسی کو مُنہ چڑادیا،کسی کے لتّی ماردی اورکسی کو دھکا دے دیا۔لوگوں نے اُس کی گلی سے نکلنا بندکردیا تھا۔ وہ اکثردیوارپرلٹکی رہتی۔کوئی بھولے سے اُدھرآگیا فوراً ٹوپی اُتار کرزنّاٹے دارٹیپ جانے دی۔
خوانچے والا ،جیسے ہی گلی سے گزرا،مال غائب۔پھرتوخوب اُچھل اُچھل کر سارا مال بچّوں کوبانٹ بانٹ کرکھاتی کھلاتی۔
شیرخواراکثراُس کی گودمیں کھیلتے کھیلتے اُس کے چٹکی لینے سے چیخ پڑتے ؛ سمجھدار بچے تواُس کودیکھتے ہی اپنی ماؤں کوبلبلاکرچمٹ جاتے۔جس گلی میں نکل جاتی کہرام مچ جاتا۔ بچّے ،اپنے گھروں میں سہم جاتے۔لوگوں کے گھروں کے پیڑپودے نوچ ڈالتی؛ بھگائی جاتی۔
پڑوسن تھی وہ میری؛اورکچھ کچھ دورکی رشتے داری کے ساتھ ساتھ ٹھیکرے کی منگیتربھی۔حالاں کہ میں اُس کے ساتھ شادی کرنے سے انکارکرتارہا،لیکن ماں کے آگے ایک نہ چلی اورمیری ماں، اُس اکلوتی کودولت کی رانی کے ناتے بیاہ لائیں۔دولت کا انبار تو میرے یہاں بھی تھا؛لیکن وہ ہرمعاملے میں مجھ سے سِواتھی۔پہلی ہی رات میں اُس نے مجھ کوناکوں چنے چبوادِیے۔اُس نے کہا:’’آدمی اورعورت برابرکادرجہ رکھتے ہیں میاں۔ تم بھی میری ہی طرح کپڑے اورزیورات پہن کرسنگارکرو…!‘‘ میں نے انکارکیاتووہ چیخنے لگی۔ مجھے اپنی عزت بچانی تھی؛لہٰذااُس نے جوکہا:مجھے وہ سب کرناپڑا۔حالاں کہ صبح ہوتے ہی میں نے اپنی ماں سے بہت احتجاج کیا،کہ میں اُس سے نباہ نہ کرسکوں گا،لیکن اُن کی گھڑکی نے میری زبان میں تالا ڈال دیا،آخر کارماں کو ایک دن ماں کوکہناپڑا:’’تھی توپاگل، لیکن میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے گی،اب ٹھیک نہ ہوئی ؛توتیری قسمت۔چراغ جلانے اورخاندان چلانے کو دو بیٹے توہوگئے۔گھرمیں کام کاج کے لیے ہیں توچارچار نوکرانیاں؛ سمجھ لے ایک پاگل پڑی ہے،گھرمیں۔ خدا نے دوکان اِسی لیے تودِیے ہیں؛ایک سے سُن اوردوسرے سے نکال۔اِسی میں عافیت ہے ،اب تیری۔اُس کے والدخود نہ لڑکراب کے تجھ کواُتاریں گے الیکشن میں۔‘‘
جب الیکشن آیاتوآزاداُمیدوارکی حیثیت سے تال ٹھوک کرمیرے مقابل میدان میں اُترآئی وہ۔میرے خاندان کے علاوہ اُس کے والدین نے بھی بہت سمجھایا،لیکن رہی کتے کی دم، آدم کی پسلی؛یعنی کہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی۔یہ میں خوب جانتاتھا کہ جیتوں گامیں ہی الیکشن،کیوں کہ اُس کے والد میرے ہی سپورٹرتھے ۔میں یہ بھی سمجھتاتھا کہ اُس کے جیتنے سے میری عزت سرِعام نیلام ہوجائے گی،کیوں کہ میری بیوی پاگل ہے ۔ حالاں کہ جب سے بیاہ کرمیرے گھرآئی تھی۔میں نے علاج میں کوئی کسرنہ چھوڑی اُس کے، لیکن اُس کاپاگل پن ،دِن دُونارات چوگنابڑھتاہی گیا؛بھرشٹ آچار کی طرح، آتنک وادکی مانند۔
آخرکاراُس نے اپنی گاڑی سنبھالی اور کنویسنگ کونکل پڑی۔میرے پاس پانچ کی پانچ ہی رہیں گاڑیاں،اُس کی مدد کوتیس چالیس گاڑیاں اورہولیں۔
میں الیکشن کی تقریرمیں،سورج پرجیون ہونے کی بات کرتا،توٹماٹربرستے۔وہ کچھ بھی کہتی، تولاددی جاتی پھولوں سے، تالیوں کے ساتھ۔کہنے کواُس نے چھوڑاہی کیاتھا،وہ وہ باتیں کہیں،کہ جِن کے سرنہ پیر،مگرتالیوں کی گونج نے دوسری پارٹیوں کے دِل دہلادِیے۔ اُس نے کہا :’’ زمین کوآسمان پرلے جاؤں گی۔‘‘تب تالیاں،’’عورتوں کو مردوں کااورمردوں کوعورتوں کالباس پہنواؤں گی۔‘‘تب تالیاں:’’کسی عورت کو بچّے پیداکرنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے گی۔بچّے،ٹیسٹ ٹیوب میں تیارہوں گے یاپھرامپورٹ کیے جائیں گے۔اوراُن کی پرورش مردکریں گے۔‘‘تب تالیاں:’’جھاڑوبرتن سے لے کر کھانابنانے تک کے گھرکے سارے کام ،مردوں کوکرناپڑیں گے۔‘‘تب تالیاں:’’مچھلیوں کوپیڑوں پراور پرندوں کوپانی میں رہنا پڑے گا۔‘‘تب تالیاں:’’ہرشخص دن کی گرمی میں نہیں بل کہ رات کے ٹھنڈے موسم میں کام کرے گا۔‘‘تب تالیاں:’’سڑکوں اورٹرین کی پٹریوں میں اربوں کاخرچ آتاہے،اُن کی جگہ نہریں کھدوائی جائیں گی، جن میں کشتیاں چلیں گی۔‘‘تب تالیاں:’’اَب کوئی دُلھن بیاہ کردُلھے کے یہاں نہیں جائے گی،بل کہ دُلھے کودُلھن کے یہاں آناپڑے گا۔‘‘تب تالیاں:’’ہرشخص کواُڑنے والی مشین دی جائے گی۔‘‘تب تالیاں:’’اب جانوروں کے بیاہ بھی کیے جائیں گے ،کیوں کہ بچّوں کی پیدایش کے بعدنرآزادگھومتے ہیں۔بچّے، بے چاری ماداؤں کوپالنے ہوتے ہیں۔ اب مادائیں ، صرف دودھ پلائیں گی اوراُن کی خوراک نرمہیّاکرائیں گے۔‘‘تب تالیاں:’’ ہرجیودھاری کو جینے کا حق ہے یعنی کہ مچھراورمکھّی کواَب مارانہیں جائے گا۔‘‘تب تالیاں:’’اب تعلیم کی ضرورت نہیں،صرف انگوٹھالگاکرپرکھوں کی تہذیب کوبرقرار رکھاجائے گا۔‘‘تب تالیاں۔ تالیاں بجانے کااندازبھی نرالاتھااُس کا۔بات کہی اورخودتالیاں بجاتے ہوئے لوگوں سے کہا:’’بجاؤ تالیاں.!‘‘پھرتوایسی بجیں تالیاں کہ پرندے ترس گئے پیڑوں پر بیٹھنے کے لیے۔
اُ س کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کہا :’’ اگر میں الیکشن جیت گیاتوزمین کے نارتھ پول کے نگیٹواور ساؤتھ پول کے پازِیٹوکرنٹ کوفریکوانسی میں تبدیل کرا کر بناتاروں کی الیکٹرک عوام کو فری فراہم کراؤں گا۔ میرے خیال سے جب خلاء میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زمین کے دونوں پولوں کے نگیٹو، پازیٹوکرنٹ،اُس نمی میں فلو ہو کرآپس میں ٹکراتے ہیں: تب تیز چمک کے ساتھ دھماکہ ہوتا ہے، جس کو سائنس داں بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہو نے والی بجلی کہتے ہیں۔‘‘میری اِس دلیل کو سراہنے کے بجاے انڈوں اورٹماٹروں کی بارش کی گئی مجھ پر۔اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب میں نے اپنی ذہانت کا لوہامنوانے کے لیے آسمانی اِندر دھنک کو زمین پرسیکڑوں گانو والوں کے درمیان دھوپ میں نمی پیداکرکے دکھا یا، تب بھی ٹماٹروں اورانڈوں کی بارش کے ساتھ جادوگر کے خطاب سے نوازا گیامیں۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے،کہ میرے زیادہ تردوست مجھ سے ٹوٹ کراُس سے جاملے اورآگے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے بولنے کی جگہ میرے پہنچنے سے پیشتر ہی وہاں انڈوں،ڈنڈوں اورٹماٹروں کا انتظام ہوجاتا،پھرمجھ میں کہاں ہمّت کہ وہاں پہنچ پاتا۔ جب کہ اُس کے ابّونے اُس کو پاگل ڈکلیئر کر دیاتھا،جس کانتیجہ یہ ہوا کہ مجھ کوسات سودس ووٹ ملے اوراُس کوپانچ لاکھ ،تریپن ہزار، چار سو، انتیس ۔میرے ساتھ ساتھ سبھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔سونے پرسُہاگا یہ کہ ایک پارٹی نے اپنے میں شامل کر کے پرائم منسٹربنادیااُس کو۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ میں اُس پر کیا گیامقدمہ بھی ہار گیا۔اَب تو میں شرمندگی کے باعث مکان کے اندراوروہ بڑے بڑے نیتاؤں کے درمیان ؛مکان کے باہر۔پھرجیسے کہ جنتاسے اُس نے وعدے کیے تھے:ایوان کی توثیق حاصل کرکے یکے بعددیگرے اُن کانفاذبھی شروع کردیا۔پانی ،سرسے اُوپرہوتا دیکھ کرمیں بھڑک گیا۔انجام یہ ہواکہ مجھے پاگل قراردے کرایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیااس نے ۔ حویلی کے باہرہنگامے ہوتے رہے اورمیں قیدخانے میں اپنی قسمت کو روتارہا۔ کھانا پانی مل جاتا،وہ بھی وقت بے وقت۔باہرکیاہورہاہے اُس سے پوری طرح بے خبررہتا۔ہاں، کبھی کبھارکوئی ملازم رحم کھاکراخبارڈال جاتا۔اخبارمیں اُس کے احمقانہ رویّے پڑھ کرمن ہی من کڑھتا میں۔ لیکن پبلک، اُس کوبڑی گرم جوشی سے سراہتی،تالیاں بجاتی۔
میری ماں جب کبھی میرے قید خانے کی جانب آجاتی ،میں اُس کے کیے کا رونا روتا۔کسی طرح اِس کااُس کوعلم ہوا،تومیری ماں کوبھی مجھ سے الگ ایک کمرے میں ٹھونس دیا۔اُس کے والد نے احتجاج کیا تواُن کابھی میرے جیسا حشرہوا۔ایک روز،جینزشرٹ پہنے ایک ملازمہ مجھ کوشلوار جھمپر تھما گئی، جومجھ کوپہنناپڑا۔تھوڑی دیربعدساڑی بلاؤزپہنے ایک فوٹو گرافر میرا فوٹو لے گیا۔ دوسرے روزاخبارمیں اپنی ماں کونیکرشرٹ اورخسر کو اِسکرٹ ٹاپ میں دیکھ کرہنسی آئی، اور رونابھی۔ساڑی بلاؤز، شلوار کرتے،اسکرٹ ٹاپ میں بڑے بڑے حاکموں کے درمیان اُس کوجینزشرٹ میں دیکھ کربچپن سے اَب تک کے اُس کے پاگل پن کے سارے کارنامے یادآگئے اورمیں خون کے آنسوروتارہا۔
دن گزرتے گئے اوراُس کے پاگل پن کی حرکتیں بڑھتی گئیں؛جن کودنیا والے گرم جوشی سے سراہتے رہے۔
ایک روزاچانک خبرملی کہ اُس کا پلین کریش ہوا،اوراُس کی موت ہوگئی۔ دوسرے دِن اخبار میں تھاکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق :وہ پوری طرح پاگل تھی ۔ میںیہ فیصلہ کرنے سے آج بھی قاصرہوں کہ آخرپاگل تھاکون..؟:میں…؟وہ …؟یاکہ چمچے؛ اسٹیل کے..؟
*****
حنیف سیّد
حنیف سیّد ،۳۴ ؍ ۱۲۔سوئی کٹرہ۔ آگرہ ۲۸۲۰۰۳۔(یو،پی)
.HANIF SYED, 12\ 34,SUI KATRA, AGRA 282003 (U.P)
One thought on “افسانہ : چمچے ‘ اسٹیل کے ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد ۔ آگرہ”
کسی خوفناک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیئے جس بہادری کی ضرورت پڑتی ہے ، اس افسانے کو پڑھنے کیلیئے اس سے بھی بڑھکر کلیجہ درکار ہے ،،، جو ہر2 سطر کے بعد منہ کو آتا تھا ۔۔۔ افسانے کے اس گنبد اس میں کہانی تو کہیں گونجی ، محض ذہنی خلجان ہی خوب گونجا،،، آخری سطور آتے آتے تو میرے رہے سہے بال اور رونگٹے تمامتر کھڑے ہوچکے ہیں اور میں اپنے بالوں کو بری طرح سے نوچنے لگا ہوں ۔۔۔