پروفیسر بیگ احساس اورشورِ جہاں
ڈاکٹر قطب سرشار
موظف لکچرر، محبوب نگر، تلنگانہ
موبائل : 09703771012
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ حکیم کے جود وکرم کی بے پناہ تخلیقات کی مظہر یوں تو ساری مخلوقات ہے پر ساری مخلوق میں قبیل انسانی کمالیات الہیہ کی باکمال اور خوبصورت نمائندہ ہے اور پھر دنیائے علم وادب کی مخلوق میں اللہ نے کسی کو شاعر کسی کو ادیب اور کسی کو نقاد کسی کو فلسفی کسی کو انشاء پرداز تو کسی کو مترجم بنایا ہے۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی شخصیت سے بیک وقت شاعر ادیب نقاد محقق استاد اور ماہر تعلیم جیسی صفاتی تنویریں یکساں توانائی کے ساتھ پھوٹتی نظر اتی ہیں۔ ہمارے شہر اردو حیدرآباد میں ایسی مثالیں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ جیسے ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور ؔ (نقاد، شاعر ، ادیب ، محقق جہد کار ادبی صحافی) پروفیر وحید اختر (شاعر، محقق ، نقاد ، استاد) پروفیسر مغنی تبسم (محقق، نقاد، استاد، شاعر، ادیب ، صحافی)پروفیسر اشرف (محقق، نقاد استاد ، ماہر تعلیم ) پروفیسر یوسف کمال (محقق، نقاد ، استاد ، صحافی ،مترجم) پروفیسر محمد علی اثرؔ
(محقق، نقاد، استاد، شاعر) پروفیسر خالد سعید (محقق ، نقاد، ماہر تعلیم استاد، شاعر) جناب مضطر مجاز (شاعر ادیب نقاد، مترجم ادبی صحافی) ، جناب اقبال متین (افسانہ نگار شاعر ادیب) اورعثمانیہ یونیورسٹی و حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر بیگ احساس جو بیک وقت محقق، نقاد ، استاد ادیب اور مقرر ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور گذشتہ تین دہائیوں میں انہوں نے جدیدڈکشن میں ایسی کہانیاں لکھیں ہیں کہ اردو جدید افسانہ کے موضوع پر گفتگو بیگ احساس کے حوالے کے بغیر ادھوری رہ جائے گی۔ ’’ حنظل‘‘ (کہانیوں کا مجموعہ) ان کے فن کا روشن نمائندہ ہے۔ تدریسی صلاحیت میں یہ اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ایم اے ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کی سطح پر ان کے شاگردوں میں چند ایک نامور شاعر وادیب بھی ہیں۔ ان کے مقالہ ’’ کرشن چندر شخصیت اور فن ‘‘ کے حوالے سے بیگ احساس کے تحقیقی معیار کو دنیائے ادب نے تسلیم کیا ہے۔ جامعہ عثمانیہ کی فاصلاتی تعلیم کے نصاب کی ترتیب اور دیگر اداروں کی نصابی کتب کی ترتیب کے حوالے سے بیگ احساس کو ماہرین تعلیم کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ فن افسانہ نگاری کے میدان میں اپنے آپ کو منوانے کے بعد بیگ صاحب نے تنقید کے میدان میں قدم رکھتے ہی اپنی سنجیدہ متوازن ، متنی تنقیدکے پیمانوں سے معمور مدلل اور بصیرت افروز نکات کے حوالے سے ہندوستان کے شمال اور جنوب دونوں سمتوں میں اعتبار واحترام کے حامل ہوگئے۔
انہوں نے مختلف ریاستوں کی جامعات کے سمیناروں میں بحیثیت مقالہ نگار جامعہ عثمانیہ کی نمائندگی کی۔
سمیناروں کے لئے تحریر کردہ مقالے عموما سرسری ہلکے پھلکے اور رسمی قسم کے ہوتے ہیں۔ اس کی وجوہات بھی ہیں۔ لیکن بیگ احساس کے ساتھ ایسا نہیں ہے کیوں کہ وہ خود لکھتے ہیں ’’سمیناروں میں پڑھے جانے والے مقالوں کے بارے میں عام طور پر اچھی رائے نہیں ہوتی۔ میں نے ہر مقالہ بڑی ذمہ داری سے لکھا ہے ‘‘۔ (شور جہاں ۔ بیگ احساس ، صفحہ ۱۰) انہو ں نے سمیناروں کے لئے بھی مقالے سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ لکھے ہیں ان مقالوں سے سمیناروں کی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ان کے معیار نقد اور فنی بصیرت کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ بیگ احساس کے تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ ’’ شورِ جہاں ‘‘ ان کے طرزِ انتقاد کی معتبر علامت ہے۔ وجدانی اور جمالیاتی طرز کے افسانوں کی رہگذر سے شروعات کرتے ہوئے جدید ڈکشن اپنالیا اور افقی سمتکا رخ کرتے ہوئے اپنی پہچان بنائی۔ افسانہ نگاری سے تنقید کی طرف میلان کیسے ہوگیا اس کا جواب بیگ صاحب نے خود دے دیا ہے۔ حیدرآباد کی، تخلیق اور تبصرہ والی روایت نے فن پارے کا تجزیہ کرنا سیکھایا۔ پروفیسر مغنی تبسم نے تنقید کی اہمیت اور اسرار ورموز سمجھائے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ سے میرا پہلا تعارف میرے تحقیقی مقالے ‘‘ کرشن چندر، شخصیت اور فن ‘‘ کے ذریعہ ہوا۔ انہوں نے میرے مقالے کو پسند کیا اور کہا میں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقید پر بھی توجہ دوں،اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو خود اپنے پر سخت ظلم کروں گا۔ (شور جہاں از پروفیسر بیگ احساس ۔ ۹) یہ الفاظ دراصل تنقید کے مہارشی پروفیسر گوپی چند نارنگ کی مردم شناسی کے حوالے سے ایک ذمہ دارانہ پیشین گوئی کی تھی جو بعد کو ’’شورِ جہاں‘‘کی صورت سچ ہوگئی۔ شور جہاں کل ۲۱ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس کو چار الگ الگ مختلف عنوانات کے تحت چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں ’’ زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے ‘‘ عنوان کے ذیل میں چھ بلند پایہ شاعروں امیر مینائی، امجد حیدرآبادی، علامہ اقبال، مولانا حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری کی شخصیت اور شاعری کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا ہے۔ ساتواں مضمون پریم چند کی فکر کے عنوان سے پریم چند کے تخلیقی اور سماجی زاویہ فکر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرا باب بہ عنوان ’’ پھول کی پتی سے ‘‘ تین مضامین پر مشتمل ہے اس میں پہلا مضمون قرۃ العین حیدر کے ناول ’’ آگ کا دریا‘‘ کے تجزیاتی مطالعہ پر مبنی ہے۔ آگ کا دریا پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے بیگ احساس نے اپنی انفرادیت کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کا اظہار آگ کا دریا کے فنی تاریخی اور تکنیکی پہلوؤں سے مدلل انداز میں کیا ہے۔ دوسرا مضمون ’’ جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ جوادا جعفری کی خود نوشت ہے۔ اس پر ایک سیر حاصل گفتگو کے بعد بیگ احساس اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ادا جعفری کی یہ خود نوشت اردو نثر کا بہترین نمونہ ہے۔ تیسرے مضمون میں عصر حاضر کی شاعرات نسائی حسیت کے فلسفے کی ترجمان شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے ہندوو پاک کی نمائندہ شاعرات کے تعلق سے اردو تنقید نگاروں کی یہ روایت رہی کہ وہ اپنے مضامین اور مقالوں میں حیدرآبادی قلمکاروں کے حوالوں سے ہمیشہ دامن بچاتے ہیں بیگ احساس نے اس بددیانت روایت سے گریز کرتے ہوئے حیدرآباد کی شاعرہ پروفیسر اشرف رفیع کا تذکرہ کیا ہے۔
تیسرے باب کا عنوان ’’ ولولہ روح میں افسانہ در افسانہ اٹھا ‘‘ ہے اس کے پانچ مضامین میں جدید افسانے، کا بھر پور احاطہ کیا گیا ہے۔ جدید افسانے کاافقی سفر کے ضمن میں انتظار حسین کے افسانے ’’ زر د کتا ‘‘ کا تفصیلی تنقیدی تجزیہ کیا ہے اور ’’ نیا افسانہ ‘‘ کی تشکیک سے تشکیل تک ‘‘ کے عنوان سے نئے افسانے کی تکنک اور موضوع اور وسیلہ اظہار پر بحث کی ہے۔ چوتھا مضمون ہے ’’ جذبۂ حب الوطنی اور اردو افسانہ ‘‘ کے تحت ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹ویں صدی کے اختتام تک افسانے کے موضوع اور سماجی تناظر کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’معاصر اردو افسانہ۔ نئے تنقیدی تناظر ‘‘ ۔ اس مضمون میں نئے افسانے کی زمینی حقیقت کی جانب بڑے توازن کے ساتھ قدم اٹھائے گئے ہیں۔ معاصر اردو افسانہ ہندوستان کے حوالے سے اس موضوع پر بیگ احساس نے کم وبیش اپنے سارے معاصر افسانہ نگاروں کا احاطہ کیا ہے۔ ساتھ ہی بحیثیت افسانہ نگار خود کو بھی موضوع بنا کر سچے اور دیانت دار تنقید نگار کا رول ادا کیا ہے۔ ۱۰؍ صفحات پر محیط اس مقالے میں عصر جدید کے افسانہ نگاروں کے حوالے سے افسانے کے جدید ڈکشن اور قوت اظہار پر مدلل گفتگو کی گئی ہے اس سے مقالہ نگار کی دیدہ ریزی اور موضوع پر گرفت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ صفحہ نمبر ۱۹۳ سے ۲۰۱ تک آٹھ صفحات پر بلراج کومل کی شاعری کا جائزہ ہے۔ بلراج کو مل ۱۹۶۰ء کے بعد کے جدید شاعروں کی صف میں اک نمایاں چہرہ ہے جن کی نظمیں ان کی غزلوں سے زیادہ اثر پذیر ہیں۔ ۶۰۔۸۰ کے دہوں میں انہیں بہت پڑھا جاتا رہا ہے۔
بیگ احساس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ غیر اہم موضوعات کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ موضوع شعر سے گریز کے بعد ان کے نشانے پر دو مزاح نگار یوسف ناظم اور نریندر لوتھر آگئے عموماً ہوتا یہی ہے کہ مزاح نگار سب کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں تو تنقید نگار مزاح نگاروں کا۔ پوسٹ مارٹم ظاہر ہے لاشوں کا کیا جاتا ہے مزاح نگار یوسف ناظم کا فن تو ان کی سانس لیتی ہوئی تحریروں میں دھڑکتا ہے۔ بیگ احساس نے اپنے مقالے میں یوسف ناظم کی جاندار اور اچھل کروار کرنے والی برچھیوں کو چن چن کر اکٹھا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نریندر لوتھر کی مزاح نگاری کا مکمل جائزہ لینے کے بعد مقالہ کا اختتام ان پر الفاظ پر کیا ہے ’’ داشتہ اور منکوحہ کے بارے میں لب کشائی نہیں کروں گا۔ میں لوتھر صاحب کا احترام کرتا ہوں ‘‘۔ ’’ شورِ جہاں‘‘ مزاح نگاروں کے بعد ڈرامہ نگار غلام جیلانی کے ڈراموں کے پہلے مجموعے ’’دوسراکنارہ‘‘ پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈراموں پر تنقیدپر تنقید عموماً کم کم ہی پڑھی جاتی ہے ڈرامہ پڑھنے سے زیادہ دیکھنے میں مزہ دیتا ہے۔ آخری بارہ صفحات اردو کے ’’آخری داستان گو ‘‘ یعنی مظہر الزماں کے حصے میں آئے ہیں۔ آخری داستان گو کے حوالے سے مظہر الزماں کے فنی رموز، اسلوب نگاری علامات اور کرداروں کا جائزہ عمدگی سے لیا گیا ہے۔ بیگ احساس لکھتے ہیں وہ ( مظہر الزماں خاں) جانتے ہیں۔ مظہر کی قوت متخیلہ بہت طاقتور ہے وہ دنیا کے بکھرے ہوئے جاندار اور بے جان چیزوں سے ایک الگ دنیا تخلیق کرتاہے جو ہماری دنیا ہوتے ہوئے بھی الگ دنیا ہے جو ہمیں اپنی کبھی اجنبی زمین لگتی ہے ۔ ( ’’شور جہاں ‘‘) ۔
شور جہاں کا ۲۱ واں مضمون افسانہ نگار حمید سہروردی کی افسانہ نگاری کا مختصر سا جائزہ ہے جس میں افسانوں کے نئی گوشوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ پروفیسر بیگ احساس کی تصنیف ’’شور جہاں ‘‘ ۲۳۶ صفحات پر پھیلے ہوئے کل ۲۱ مقالوں کا گراں قدر مجموعہ ہے۔ قیمت عمدہ ، طباعت کاغذ بہترین جلد بندی اور ضخامت کے لحاظ سے ۲۵۰روپئے زیادہ لگتی ہے تاہم اچھی تنقید کے اس مرقع کی قیمت کیا لگانا۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اردو دنیا ممنون ہے کہ انہوں نے بیگ احساس کے پیکر میں تنقید نگارکی دریافت کی ہے۔ شور جہاں کے مطالعہ کے بعد اردو ادب کا طالب علم یہ ضرور چاہے گا کہ بیگ احساس کی تنقیدی بصیرت سے اردو تنقید نگاری، کے سرمائے میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہے۔
تبصرہ کا دامن بہت تنگ ہوتا ہے اور ہمارا بیان طول پکڑگیا۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔’’ شور جہاں ‘‘ اس امر کا متقاضی ہے کہ اس پر ایک سیر حاصل اور طویل مضمون لکھا جائے۔
کتاب حاصل کرنے کا پتہ : مکتبہ شعر وحکمت ۲؍۶۵۹۔۳۔۶
کپاڈیہ لین، سوماجی گوڑہ، حیدرآباد ۵۰۰۰۸۲۔
– – – – –
Dr.Qutub Sarshar
One thought on “پروفیسربیگ احساس اورشورِجہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر قطب سرشار”
کولکاتا { انڈیا } سے شایع ہونے والا ادبی رسالہ ” مژگاں ” جو گزشتہ ١٧ برسوں سے ادب منڈی میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب رہا ہے -اس کا اگلا شمارہ "صدی کتھا کہانی ” نمبر ہو گا – کہانی قبیلہ کے سبھی زندگی رنگ چہروں سے گزارش ہے کہ اپنا مختصر تعارف ، افسانے کے ساتھ مدیر کو بھیجیں –
&