راجہ نرسنگ راج عالیؔ (1889۔1957)
آصف جاہی عہد کا شیریں زبان شاعر
ڈاکٹرمحمد عبدالعزیزسہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر
حیدرآباد کے ایک کائستھ خاندان کی اردو دوستی کا سلسلہ آصفیہ عہد میں شروع ہوا جس کا آغاز سوامی پرشاد اصغرؔ 1813ء سے ہوتاہے اور یہ سلسلہ پانچ پشتوں تک جاری رہا، جس سے ان کی اردو زبان سے دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز شاعر راجہ نرسنگ راج عالیؔ بھی جنہوں نے ایوان شادؔ کے مشاعروں میں خوب داد وتحسین حاصل کی تھی۔
راجہ نرسنگ راج عالیؔ کی حیات و شخصیت سے متعلق سید رفیع الدین قادری اپنے مضمون ’’ راجہ نرسنگ راج عالیؔ ‘‘ میں جو معلومات فراہم کی ہیں، ملاحظہ ہوں:
’’راجہ نرسنگ راج بہادر عالی حیدرآباد کے ایک قدیم کائستھ گھرانے میں 13؍نومبر 1889ء میں پیدا ہوئے ،آپ راجہ گردھاری پرشادباقیؔ کے چوتھے فرزندتھے، کم عمری میں ہی والد کے سایہ سے محروم ہوگئے ، آپ کی تعلیم مدرسہ عالیہ میں ہوئی اور السِنہ فارسی، ہندی، مرہٹی خانگی طورپر گھر ہی پرسیکھے،آپ کی شادی کنہیا لال ساکن بھوپال کی دختر سے ہوئی تھی، جس میں راجہ کاشی نریش مہاراجہ نسویلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ کے اچانک انتقال سے اعلیٰ حضرت غفران مکان نواب میر محبوب علی خان بہادر کو بہت صدمہ پہنچاتھا ،اس لئے انہوں نے راجہ نرسنگ راج عالی ؔ کو برحم خسروانہ رسم پرسہ میں سفید دوشالہ سے سرفراز فرمایا تھا نیزاسٹیٹ کورٹ آف وارڈ علاقہ صرف خاص کی نگرانی پر مقرر فرمایا اور بہ الطاف شاہانہ تمام خدمات دیوانی و علاقہ صرف خاص مبارک بحال فرمایا، آپ کو بموقع دربار جشن غفران مکان 1905ء پیشگاہ خسروی راجہ بہادر کا خطاب عطا ہوا،آپ کی اعلیٰ ذہانت کو دیکھتے ہوئے، 1905ء میں دفتر معتمد افواج سرکاری عالی میں بطور مددگار اعزاز مقرر کیاگیااور پھر حقوق خاندانی مددگار محلات کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے،آپ کو علم و ادب ورثہ میں ملا تھا، آپ نے جو بھی اشعار لکھے ،اس میں حدیث دل کی ترجمانی کی۔ ‘‘
راجہ نرسنگ راج عالی کو ادبی بصیرت و تنظیمی صلاحتیں وراثت میں ملی تھیں ۔انہوں نے ایک طرف تو اپنی پہچان ایک منتظم کی حیثیت سے بنائی اور دوسری طرف وہ عمدہ لب ولہجہ کے بہترین شاعر تھے ۔اکثروہ وزیراعظم سر مہارجہ کرشن پرشاد شادؔ کے گھر میں منعقدہ محافل میں شریک ہوتے بلکہ ان محفلوں کے انعقاد میں بھی انہوں نے بہترین کردار انجام دیا۔ مہارجہ کرشن پرشاد شادؔ کو ان سے بہت زیادہ انسیت تھی وہ انہیں نہایت عزیز رکھتے تھے، عالیؔ بھی مہاراجہ کی قدرومنزلت اپنے حقیقی بزرگوں کی طرح کیا کرتے تھے، تبھی یو مہاراجہ شاد ایوان شاد کا کوئی مشاعرہ ان کی شرکت کے بغیر مکمل خیال نہ کرتے تھے ۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید سابق پروفیسر سری وینکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے خاندان کی ادبی روایات سے متعلق رقم طراز ہیں :
’’راجہ نرسنگھ راج عالیؔ اس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس کے ارکان آصفی سلطنت میں اعلیٰ مناصب پرفائز ہی نہیں تھے بلکہ سلطنتِ شعر و ادب پربھی جنہوں نے حکمرانی کی،عالیؔ کا سلسلہ رائے دولت رائے سے ملتا ہے جو نظام الملک آصف جاہ کے ہمراہ اورنگ آباد اور پھر حیدرآباد آئے، راجہ نرہری پرشاد کے بڑے صاحبزادے راجہ گردھاری پرشاد محبوب نواز ونت باقیؔ تھے ان کو بھی سلطنتِ آصفی میں اعلیٰ مدارج حاصل رہے، شعر و ادب کا نکھرا ستھرا ذوق تھا۔ انکی یادگار نظم و نثر کی کئی تصانیف ہیں،باقیؔ کی اولاد میں تین صاحبزادیوں کے علاوہ دو صاحبزادے راجہ نرسنگ عالیؔ اور راجہ محبوب راج محبوبؔ رہے ،راجہ محبوبؔ راج بھی کلیدی عہدوں پر فائز تھے، ان کا شمار سلاطین آصفی کے جاں نثاروں میں ہوتا تھا۔ راجہ نرسنگ راج عالی ؔ بھی اردو کے شاعرتھے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ ‘‘
اردو ادب سے کائستھ خاندان کو بہت زیادہ دلچسپی تھی۔آج بھی حیدرآباد کے کائستھ گھرانوں میں اردو زندہ ہے۔راجہ نرسنگ راج عالیؔ پوتے ڈاکٹر نارائن راج بھی اردو زبان سے اپنے خاندانی وابستگی کی روایات کو جاری رکھے ہوئے انہوں نے ایک ٹرسٹ نر ہر ی پرشاد چیرٹیبل ٹرسٹ قائم کیا ہوا ہے جس کے تحت انگریزی کتابوں کے ساتھ ساتھ اردو کی کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر حبیب نثار نے دیوان عالی پر تبصرہ کرتے ہوئے راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے خاندان کی تفصیلات کو پیش کیا ہے،وہ رقمطراز ہیں۔
’’راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے خاندان میں اردو شاعری کی شمع پانچ پشتوں سے روشن تھی ،سکندر جاہ کے دورحکومت میں سوامی پرشاد اصغرؔ ، ناصر الدولہ اور افضل الدولہ کے عہد میں راجہ نرہری پرشاد، نواب میر محبوب علی خاں کے زمانہ حکومت میں راجہ گردھاری پرشاد باقی ؔ بنسی راجہ اور نواب میر عثمان علی خان کے زمانہ اقتدار میں راجہ نرسنگ راج عالیؔ اور ان کے بھائی راجہ محبوب راج محبوبؔ نے دربار آصفی میں اس شمع کو فروزاں رکھا۔ ‘‘ ۳
ڈاکٹر شیلا راج نے عہدآصفی کے معروف شعراء محبوب راج محبوبؔ اور راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے کلام کو جو کہ بیاضوں میں محفوظ تھا بڑی محنت و جستجو اور تحقیقی و تنقیدی بصیر ت کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے ۔
راجہ نرسنگ راج عالیؔ ایک ایسے دور میں پیدا ہوئے جب تعصب و تنگ نظری نے ہندوستان کے مطلع کو زہر آلود نہیں کیاتھا، ہندوؤں اور مسلمانوں کی متحدہ کوششیں ایک ایسے ادب کی تیاری میں مصروف تھیں جو دونوں قوموں کی فکر اور اتحاد و اتفاق کا آئینہ دار ہو اور اس دور کے دانشوران علم و ادب ان کوششوں کو اصل رنگ یعنی صداقت اور حق کی نظر سے دیکھتے تھے۔
راجہ نرسنگ راج عالیؔ کا مجموعہ کلام ’’دیوان عالیؔ ‘‘ کوڈاکٹر شیلا راج نے مرتب کیا ہے جو 12؍فروری 2009ء کو نرہری پرشاد چیارٹیبل ٹرسٹ حیدرآباد کی جانب سے شائع ہوا، اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہی محترمہ ڈاکٹر شیلا راج اس دنیا سے رخصت ہوگئیں،ان کے انتقال کے بعد یہ کتاب منظر عام پر آئی، اس کتاب کی طباعت ایس ۔ اے آفسٹ پرنٹرز حیدرآباد پر عمل میں آئی۔ ڈاکٹر شیلار اج کی یہ مرتبہ تصنیف جملہ 216صفحات پر مشتمل ہے، اس کتاب میں ڈاکٹر شیلا راج نے اپنے دادا خسر راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے کلام کو ڈھونڈنکالا اور نہایت محنت اور عرق ریزی سے مرتب کرکے اس کی اشاعت عمل میں لائی، دراصل راجہ نرسنگ راج عالیؔ آصف جاہی دور کے آخری فرمان رواں میر عثمان علی خان آصف سابع کے دربار سے وابستہ دکن کے مشہور و معروف شاعر تھے، اس مجموعہ میں جملہ 62غزلیں، 3قصیدے ،2مرثیے ،66 رباعیاں اور 23قطعات،4تاریخیں اور اہم عنوانات پر مشتمل نظمیں شامل ہیں، دیوان عالیؔ کاپیش لفظ نامور صحافی جناب زاہد علی خان مدیر سیاست حیدرآباد نے تحریر کیا ہے
بہرحال راجہ نرسنگ راج عالیؔ ایک علم دوست شاعر ،ملی جلی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کے ایک بہترین نمونہ تھے۔ آپ کے کلام میں سادگی اورصوفیانہ زندگی کی جھلک نمایاں تھیں،آپ کے متعلق کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ
راجہ نرسنگ راج کو شیریں زباں دیکھا کئے
حضرت عالیؔ میں کیا کیا خوبیاں دیکھا کئے
راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے کلام میں حسن و عشق ،ہجر ووصال ،گل و بلبل اور لب و رخسار جیسے موضوعات پائے جاتے ہیں۔ ان کی عاشق مزاجی، شوخی ، خوش طبعی اور نگینی خیال دیدنی بھی اشعار میں نمایاں محسوس کی جاسکتی ہے۔
دیکھا تھا اس کو آنکھ نے دل ہوگیا فگار
کس کی خطا تھی اورچلا کس پہ وار ہے
جانے کیا آنکھ میں بھرا جادو
ایک دنیا اسی میں بستی ہے
پڑجاتی ہے جس پر اسے کردیتی ہے بے خود
یہ آنکھ تمہاری ہے کہ جادو ہے بلا ہے
راجہ نرسنگ راج عالیؔ نے اپنی شاعری میں غزلوں ،نظموں کے علاوہ رباعی پر بھی طبع آزمائی کی ہے جس کے ذریعے انہوں نے سماج میں پھیلنے والی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی، جوئے سے تباہی اور بربادی کے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی، ان خیا لات کی عکسی کرتی انکی یہ رباعیاں
جوئے میں ہے قتل اور لڑنا زیادہ سنبھلنا ہے کم اور اجڑنا زیادہ
کہیں اور کیا مختصر ہے یہ عالیؔ کہ بننا ہے کم اور بگڑنا زیادہ
ہر اک گھر میں ہوتا شوالا نہیں ہے اندھیرے میں ہرگز اجالا نہیں ہے
نہ کھیلے جوا کوئی ہے حکمِ مذہب دیوالی ہے یہ کچھ دیوالا نہیں ہے
راجہ نرسنگ راج عالی ؔ بھی قومی یکجہتی کے علمبردار انسان تھے، وہ انسان دوستی کے شاعر تھے، انہوں نے ہندو مسلم میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا اور وہ حب الوطن شاعر تھے ان کی اس رباعی سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے دیکھیں۔
حق والو بتاؤ دیر و حرم کہاں جب ایک وطن میں ہوتو پھر بیر کہاں
خالق دونوں کا جب نہیں دو عالیؔ ہندو مسلم ہیں ایک غیر کہاں
ان کی ایک مشہور نظم جو جشن آزادی کے سلسلہ میں9؍اگست1950ء کو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے مشاعرے میں پڑھی گئی تھی:
مبارک ہند والو آپ کو یہ جشن آزادی دلوں پر جوش عشرت ہے لبوں پر نغمہء شادی
مبارک سارے نیتاؤں کو اب امید برآئی ہوئے خوش پارسی ہندو مسلماں اور عیسائی
سلامت رہ تو آزادی کہ سب تجھ سے سلامت ہیں غلامی ٹل گئی آزاد اب ہم تاقیامت ہیں
بہت محنت سے برسوں کی بہت کاوش سے صدیوں کی بجھی ہے پیاس بھارت کی امیروں کی غربیوں کی
آخری زمانے میں آپ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہوئے اور مختصر سی علالت کے بعد بتاریخ ۲۳؍جون سنہ ۵۷ ۱۹ء کو بروز ایکادسی جو ہندوؤں کے لئے ایک مبارک دن ہے آپ کا انتقال ہوا،راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے انتقال کے بعد ان کی –
واضح رہے کہ پون کماری ‘نے ’’راجہ گردھاری پرشاد باقی ؔ کے خاندان کی ادبی خدمات‘‘ پر عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم ۔فیل،ڈاکٹر عزیز سہیل نے ’’ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات ‘‘پرعثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے پی ایچ ڈی اور حالیہ عرصہ میں محمد خالق نے’’ راجہ نرسنگ راج عالیؔ ‘‘ پر یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کی تمکیل کی ہے۔راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے خاندان کے مختلف لوگوں کے نام سے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں فیلو شپ اور گولڈ میڈل ریسرچ کے میدان میں عطا کئے جاتے ہیں۔
راجہ نرسنگ راج عالیؔ کے دیوان ’’دیوان عالیؔ ‘‘ سے منتخبہ کلام:
مرے ہوش باقی رہتے مجھے کچھ قرار ہوتا
مرا کچھ پتہ تو بتا جو تو غم گسار ہوتا
میں یہ جانتا کہ مجھ سے جو تجھے بھی پیار ہوتا
یہ مرا نصیب ہوتا کہ گلے کا ہار ہوتا
آستاں پر تیرے جس دن سے جھکا سر اپنا
یاد مسجد ہے نہ ہے دھیان میں مندر اپنا
شاہِ عثماں سے ہے سب عزت ووقعت عالیؔ
حضرت شادؔ سے آباد سدا گھر اپنا
دل حزیں ناحق تیرا میں اعتبار کیا
توہی نے مجھ کو جہاں میں ذلیل و خوار کیا
گناہ میں نے کیا اور بے شمار کیا
میں صدقے تیرے کہ تو عفو بار بار کیا
نام تیرا ہے خدایا عاصیوں کا ناخدا
ڈوبنے والوں کا آخر یہ سہارا بن گیا
شاعری کا فن ہے عالیؔ نازک اور مشکل بہت
سرسری کہہ کر نہ سمجھو شعر اچھا بن گیا
سناؤں کسے داستانِ محبت
نہیں والدہ جو تھیں جان محبت
برادر کا بیوی کا صدما تھا لیکن
تھی مادر سے تسکین جانِ محبت
گلستاں میں بہار آئی ہے بلبل کی فغاں ہوکر
گل وخار چمن خاموش ہیں سب بے زباں
نگاہ شوق میں میری جو ہے ایک یاس کا عالم
یہ بہتر تھا میرے حق میں بہار آئی خزاں ہوکر
کدھر ہے راہ طریقت کسی کو کیا معلوم
ہے کیسا راز حقیقت کسی کو کیا معلوم
رہے جلیلؔ کا آباد میکدہ عالیؔ
کہ ہر شراب کو شیریں بنا کے پیتا ہوں
اہل دل ملتے ہیں ہشیار بھی دیوانوں میں
تم سکوں چاہو ملے گا وہ بیابانوں میں
انسان وہ کیا نظر میں اہل نظر نہ ہو
سر کیا وہ تیرے سامنے سجدے میں گر نہ ہو
کبھی لغزش نہیں کھاتے ہیں قرآن دیکھنے والے
کبھی دھوکہ نہیں دیتے ہیں ایماں دیکھنے والے
حق کو باطل کرسکے طاقت کہاں انسان کی
کیا ہوا انجام آخر پوچھئے شداد سے
شعر کہنا ہے کٹھن عالیؔ سے ممکن تھا کہاں
فیض جو کچھ بھی ملاوہ سب ملا استاد سے
جلیلؔ سا کوئی اتنا ہے اب کہاں عالیؔ
ملا ہے فیض یہ مجھ کوجلیلؔ منزل سے
دنیا میں نیک لوگ ہی کچھ کام کرگئے
یوں تو بہت سے آئے بہت بے خبر گئے
:رباعیات:۔۔۔
دن میں ہمیں چین نہ رہے راتوں میں
تحریر میں کچھ لطف ہے نہ باتوں میں
کیا عرض کریں ضبط سررشتہ کامال سے
ہے مرگ و حیات اپنی تیرے ہاتھوں میں
شوکت رہتی ہے اور نہ ثروت رہتی
منصف رہتا ہے اور نہ خدمت رہتی
عالیؔ رہتا ہے نیک نام انسان
جو نیک عمل ہیں ان کی شہرت رہتی
ان کی ایک مشہور نظم جو جشن آزادی کے سلسلہ میں9؍اگست1950ء کو ہندوستانی کلچر سوسائٹی کے مشاعرے میں پڑھی گئی تھی:
مبارک ہند والو آپ کو یہ جشن آزادی
دلوں پر جوش عشرت ہے لبوں پر نغمہء شادی
مبارک سارے نیتاؤں کو اب امید برآئی
ہوئے خوش پارسی ہندو مسلماں اور عیسائی
سلامت رہ تو آزادی کہ سب تجھ سے سلامت ہیں
غلامی ٹل گئی آزاد اب ہم تاقیامت ہیں
بہت محنت سے برسوں کی بہت کاوش سے صدیوں کی
بجھی ہے پیاس بھارت کی امیروں کی غربیوں کی
ہر اک دل میں ہے جذبہ اور اس کا ولولہ باقی
ہر اک نازاں ہے قسمت پر رہے گا یہ صلہ باقی
وقار اپنا بڑھاتا ہے بھروسہ کرکے ہمت پر
وہ کچھ پاتے نہیں تکیہ جو کرلیتے ہیں قسمت پر
نہ بل بوتہ پر اترانا نہ ہرگز تم ہوس کرنا
ہوا و حرص کو بھولے سے دامن میں نہ تم بھرنا
نہ ہوگا کام باتوں سے عمل کرکے دکھا دینا
یہی ہے نفس سچا سارے جگ کو تم بتا دینا
دعا ہے اور یہ عالیؔ صمیم قلب سے یارب
پھلے پھولیں رہیں خوش اور خرم ہند والے سب