جہانِ اردو کا پہلا سال ۔ ۔ ۔ ۔ قلمکار و قارئین کے نام

Share

جہانِ اردو

جہانِ اردو کا پہلا سال
قلمکاروقارئین کے نام

’’جہانِ اردو ‘‘کے معز ز قلمکار اورقارئین کرام کی خدمت میں سالِ نو کی مبارکباد اور ساتھ ساتھ جہانِ اردو کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ۔ مجھے قطعی اس بات کا احساس نہیں ہورہا ہے کہ جہانِ اردو کے شروع ہوئے صرف ایک سال کا عرصہ ہی گذرا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ آپ اور ہم برسوں سے جہانِ اردو سے وابستہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کے بیشتر اساتذہ ابھی بھی انٹرنیٹ دنیا سے بہت دور ہیں۔ میں نے اس عزم کے ساتھ’’ جہانِ اردو‘‘ کا آغاز کیا تھا کہ اردو سے نہ صرف نوجوان نسل بلکہ بزرگ حضرات ‘خواتین ‘ بچے اور طلبا و طالبات غرض ہر کوئی انٹرنیٹ سے جُڑا رہے بلکہ وہ اس توسط سے اردو زبان و ادب ‘ تہذیب وثقافت سے بھی وابستہ رہے۔یہ بتانے میں مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ جہانِ اردو کے تقریباً ساٹھ فیصد قارئین کی عمر چالیس سال سے کم ہے ۔پچیس تا تیس فیصد خاتون قارئین ہیں۔یونیورسٹی کے طلبا و ریسرچ اسکالر مسلسل اس سائٹ کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ نوجوان طبقہ عموماً سائٹ کا موبائل ورژن اور موبائل ایپ کو استعمال کرتا ہے۔بہت سے ایسے افراد ہیں جنھوں نے ای میل اور فون کے ذریعے بتایا کہ وہ جہانِ اردو کی بدولت نہ صرف کمپیوٹر کا استعمال سیکھا ہے بلکہ اردو میں ٹائپ کرنا بھی سیکھ لیا ہے۔

الحمد اللہ ! دنیا کے بیشتر ممالک میں’’ جہانِ اردو‘‘ دیکھا جاتا ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں سے قلمکاروں کا تعاون حاصل رہا ہے جن کے ہم ممنون ہیں۔ خواتین قلمکاروں کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے۔ گزشتہ سال آٹھ سو(۸۰۰) مضامین یعنی روزانہ تقریباً دو سے زائدمضامین مختلف زمروں کے تحت شامل کیے گئے ہیں ۔ جن میں نظم و نثر ‘ تحقیق و تنقید‘سائنس و طب ‘ ر وزگار ‘ طفل ونسواں ‘ صحافت ‘ شخصیت سازی ‘ تبصرۂ کتب ‘ علمی و ادبی محفلوں کی رپورٹ اور دیگر موضوعات پر مشتمل تھے۔میں نے اردو عوام تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں چھوڑا ۔ فیس بک ‘ٹوئٹر ‘ گوگل پلس ‘ہائک ‘ائی ایم او مسینجر ‘وہاٹس ایپ ‘ لنکڈن ‘ ای میل ‘ پنٹرسٹ ‘ ایس ایم ایس ‘ ٹمبلر ‘انسٹاگرام ‘ لائن اور سینہ بہ سینہ’’ جہان اردو‘‘ کو پہنچانے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوا۔بے شمار دوست و احباب کا تعاون شامل حال رہا جن کا ممنون و مشکور ہوں۔
اس سال ’’ادبِ عالیہ‘‘ کا ایک زمرہ کا اضافہ کیا جائے گا اور یہ کوشش کی جاے گی کہ ہر ہفتہ کلاسیکی ادب سے کم از کم ایک مضمون شامل کیا جاسکے ۔اسی طرح تحقیق و تنقید ‘ شخصیت سازی‘طفل ونسوان ‘افسانوی ادب ‘غیر افسانوی ادب‘صحافت‘تہذیب و ثقافت اور سائنس و طب پر بھی ہر ہفتہ مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔ بہت سے احباب نے شکوہ کیا جہانِ اردو پر شاعری شامل نہیں ہے ۔اس ضمن میں بھی قدیم و جدید شعرا ء کا تعارف نمونہ کلام کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔دیگر فنونِ لطیفہ پر بھی مضامین کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔
جو قلم کار ہیں ان سے قلمی تعاون حاصل ہوتارہتا ہے جو قلمکار نہیں ہیں وہ خود کو کمتر نہ سمجھیں ‘ وہ مختلف موضوعات کے تحت اچھے اچھے مضامین جوانٹر نیٹ پرموجود نہیں ہیں ‘ انہیں کمپوزکرواکے ہمیں بھیجیں ان کے نام کے ساتھ مضمون شامل کیا جائے گا ۔کیا آپ مہینے میں ایک مضمون کمپوزنہیں کر سکتے یا کرواسکتے؟جو قلمکار اپنی کتاب پر تبصرہ لگوانا چاہتے ہیں وہ بھی کم از کم ایک مضمون خودکمپوزکریں یا کروائیں اورایک مضمون کا عطیہ جہانِ اردو کو دیں۔اگر اردو سے محبت کرنے والا ہر شخص یہ نیک کام کرناشروع کردے تو انٹرنیٹ پر یونیکوڈ میں سالانہ ہزاروں مضامین پیش کیے جاسکیں گے۔اگر آپ آن لائن شاپنگ کے خواہش مند ہیں تو جہانِ اردو کی سائٹ پر فلیپ کارٹ اور امیزان کے اشتہار ہیں‘اسے کلک کرکے شاپنگ کریں۔ایسا کرنے سے شاپنگ کی رقم کا ایک فیصد حصہ جہانِ اردو کو ملے گا جو بہترین مضامین کو کمپوز کروانے میں معاون ہوگا۔ویسے یہ واضح کردوں کہ اب تک اس مد سے کوئی آمدنی نہیں ہوئی ہے اور نہ جہانِ اردو کو آمدنی کا ذریعہ بنایا جاے گا۔تا حال میں اپنے طور پر اس سائٹ کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہوں ۔اس ضمن میں مجھے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں لیکن اس کامیابی کے پیچھے آپ تمام احباب کی حوصلہ افزائی اور تعاون پوشیدہ ہے۔
آج جمعہ ہے اور پچھلے چھبیس ہفتوں سے ہر جمعہ کو محترم علامہ اعجازفرخ صاحب کا ساتھ رہا ہے ۔آپ نے بہترین مضامین ہمیں عنایت کیے۔آپ نے اپنے منفرد اسلوبِ بیان سے ساری اردو دنیاکو متاثر کیا۔لفظوں کا انتخاب اور ان کے برتنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔آج کل وہ ’’مرقع حیدرآباد‘‘ کی چھپوائی میں مصروف ہیں ۔انشااللہ بہت جلد علامہ کے مضامین کاسلسلہ شروع کیا جائے گا۔اس جمعہ کو علامہ نے مضمون نہ سہی ’’جہانِ اردو ‘‘کی پہلی سالگرہ پر ایک نوٹ عنایت کیا ہے جو ہمارے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ہم ان کے ممنون ہیں۔
محترم علامہ اعجازفرخ کا نوٹ ملاحظہ ہو:
مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ جہانِ اردو کی آج سالگرہ ہے۔لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ یہ پہلی سالگرہ ہے۔ میں تو اسے کوئی پرانا جریدہ سمجھ رہا تھا جس نے شائد اب انٹر نیٹ کی دُنیا میں قدم رکھا ہو۔عزیز من ڈاکٹر فضل اللہ مکرم جوکہ پروفیسر رحمت یوسف زئی کے شاگرد رشید ہیں اور ساتھ ہی پروفیسر سید مجاور حُسین رضوی صاحب کے بھی شاگرد رہے ہیں۔پروفیسر رحمت یوسف زئی ،پروفیسر حبیب نثار ،پروفیسر بیگ احساس،اور بہت سارے لائق اساتذہ کی طویل فہرست ہندوستان بھر سے مرتب کی جاسکتی ہے جو مجاور صاحب کے شاگرد رہے ہیں۔عجیب اتفاق دیکھئے کہ مجھ جیسے کم علم،ہنر بے ہنری میں یکتائے روزگار کو پروفیسر مجاورحسین صاحب اپنا برادر خورد سمجھتے ہیں۔چہ نسبت خاک را با عالم پاک، کہاں وہ لسانیات کے ماہر، اور کہاں میں زبان کا پھوہڑ۔لیکن اس نسبت سے میں کسی کا اُستاد بھائی، کسی کا چچا اُستاد اور کسی کا دادا اُستاد ضرور بن گیا۔بس یہی وجہ ہے کہ” پھرے ہوں اِتراتا،،وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے،،” ۔ اس رشتہ سے ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کو عزیزی، نورچشمی،برخوردار،قرۃالعین،طولعمرہُ نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟یوں بھی وہ میرے سب سے چھوٹے بیٹے کے ہم عمر ہونگے،رہی اُنکی لیاقت علمی،دانشمندی، دانشوری،ادب رسی،صحافت،نکتہ رسی، نکتہ سنجی،نکتہ شناسی،نکتہ دانی ،تو میں کیا! ایک عالم معترف ہے
جہان اردو ، پچھلے چھ ماہ سے میری نظر میں ہے۔اس چھ مہینے کی مختصر سی مدت میں یہ جریدہ جس بام عروج پر پہنچا ہے،وہ قابل رشک ہے۔مختلف اصنافِ سخن ،دلچسپ موضوعات،بلند پایہ اہل قلم کی نگارشات،کلاسیکی ادب،اسلامیات،نقدونظر،تبصرہ،خاکے،شعروسخن،بہر نوع ہر شعبے نے یکساں جگہ پائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر کے لکھنے ولے اہل قلم نے اپنی نگارشات سے اس جریدے کی زینت بڑھائی ۔ میں ڈاکٹرفضل اللہ مکرم کی دلجمعی،اور محنتوں کی ستائش تو کروں لیکن میں اس امر کی بھی داد دینا چاہوں کہ وہ اپنی کاوش کو کاہش جاں بنالیتے ہیں۔ گردش لیل ونہار ،ستم ہاے روزگار،فلک کج رفتار،ناساززمانہ،اور تیشہ زنی! یہ تو اُسوقت تک ممکن نہیں جب تک عشق نہ ہو۔ کہتے ہیں،ہوا کی آوارگی عشق ہے،پانی کی سرگردانی عشق ہے،زمین کا قرار عشق ہے،بگولوں کا رقص عشق ہے،سمندر کا مدو جزر عشق ہے،سحر کا چاک گریباں عشق ہے،بوئے گل ،نالہ دل دود چراغ محفل عشق ہے۔ میں اگر جہانِ اردو کوڈاکٹر فضل اللہ مکرم کا عشق کہوں تو شائد غلط بھی نہیں۔
میں ناصح نہیں،مجتہد نہیں ،پیرنہیں۔۔۔لیکن ڈاکٹر فضل اللہ مکرم سے یہ کہنا چاہوں گاکہ وہ اپنے جریدے کو تنازعات سے دور رکھیں۔ صحت مند مذاکرات اور علمی مباحث اور ہیں، انا کی کہر اور صنعت قدآوری اور ہے۔میری خواہش ہے وہ اس بات کا خیال رکھیں۔۔
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لئے 
ہے کجی عیب مگر خوب ہے ابرو کے لئے
زیب ہے خال سیہ چہرۂ گلرو کے لئے
سُرمہ زیبا ہے فقط نرگس جادو کے لئے
داند آن کس کے فصاحت بہ کلامے دار
ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد
اسی کو صحافت بھی کہتے ہیں ،ادارت بھی۔میری نیک تمنائیں اور دعائیں آپکے اور جہانِ اردو کے ساتھ ہیں ۔ اللہ ا س جریدے کو اور پروان
چڑھائے۔جب تک زمین پر متاع لوح و قلم باقی ہے آپکا جریدہ سرسبزوشاداب رہے۔

allama

Share

۱۴ thoughts on “جہانِ اردو کا پہلا سال ۔ ۔ ۔ ۔ قلمکار و قارئین کے نام”

Comments are closed.

Share
Share