خبر سازی بھی فن ہوئی
نعیم جاویدؔ ۔ دمام
ای میل ۔
خبر سازی کے جتنے امکانات ہماری دسترس میں ہیں وہ تمام نتیجہ خیزہوسکتے ہیں۔دراصل اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کام کا از سرِنوجایزہ لیں۔ واقعات بظاہر یکسانیت لیئ ہوے ہوتے ہیں لیکن دیکھنے اور پیش کرنے والے کی نقئ نظرسے غیر معمولی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔مثلاً:گھر کی تعمیر اگر موسم کا اندازہ کرتے ہوے سمتوں کا فطری رخ کا لحاظ
رکھتے ہوے کی جاے تو فطری طاقتیں آپکے ساتھ ہوجاتی ہیں اور وہ گھرروشنی کا مسکن اور فرحتوں کی جاے بن جاتا ہے۔
جبکہ سب گھر زمین پر ہی ہوتے ہیں۔بظاہر سب گھرخاصے محنت اور سرمایہ سے تعمیر ہوتے ہیں۔ میری دانست میں یہی بات ’’خبر سازی‘‘ کے فن کی ہے کہ آپ اپنی سرگرمی کا ’’ھدف ‘‘کسیے بناتے ہیں۔ جذبات کو ‘ شعور کو ٗ شخصیت کو یا مقاصد کی عظمت کوجبکہ ہردرد مند ذہن جانتا ہے کہ بقا صرف اعلی مقاصد کو حاصل ہے باقی عوامل اس کے حاشیہ میں سانس لیتے ہیں نہ شخصیت کا جلال باقی رہیگا نہ دولت کا جمال ٗ سب بھک سے اُڑجاینگے یہ سارے کے سارے مقاصدکی چاکری کرتے ہیں۔ اب جبکہ اشتہارات کی دنیا نے یہ ثابت کیا کہ کسی بھی خیال اور Product کی کھپت اور فروغ کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔تو پھر خبروں کا مثبت پہلو کیوں نہیں فروغ پاسکتا۔ دنیا بھر کی ہزاروں منتظر سعید روحیں ہماری غیر متعصبانہ سرگرمی کی منتظر ہیں۔ اس وقت مغربی دنیا کے استعمار کے فروغ کا طاقتورذریعہ’’خبر سازی‘‘ ہی ہے جس میں حقائق کی دنیا سے دانستہ ابہام ‘ اداروں کے جال سے دنیا میں اُن کے products اور نظریاتی فروغ وغیرہ شامل ہے۔ خبر سازی کا مرکزی حسن اس کی سنسنی خیزی ٗ جمالیاتی تحیر ٗ خوف کی نفسیات کا تحریر میں پیدا کرنا ہے۔اکثر خبریں اتفاقا ت زمانہ اور اسبا ب وحوادث کی پیداوار ٗ عام ذہنوں میں اہم کہلانے والی (غبی سیاستدانوں)جیسی شخصیات کے طواف میں صفحے سیاہ کرنے سے بھی ’’خبریں گرم‘‘ رہتی ہیں۔
مذہبی ذہن نے خبرسازی کے معاون ذرائع موسیقی ٗتمثیل (ڈرامہ) ٗ مشاعرہ اور لوک گیت پینٹنگزاور مصوری ٗکارٹون اور Folk Dance کے صحت مند امکانات کو عصر شناسی کے بارودی تقاضوں کوپوری طرح سے سمجھے بغیر رد کردیا ۔ اب ایک طرف ہر صحت مند ذہن خاموش اور دوسری طرف شرپسند ذہن خلاقیت کا ثبوت دیتے ہوے پورے ذریعۂ ابلاغ پر چھاچکے ہیں۔
اب’’ فلمی دنیا یا بازارِحسن کی خبریں ‘‘ ہمیں ہماری رسائی اور کوتاہ ذہنی کا طعنہ دیتی ہیں۔کیونکہ ہم ان کی خبر کو تماشہ کہنے میں ناکام ہوگئے۔ مغربی دُنیا کی خبریں چاہے مقامی ہوں یا عالمی جب جب اخبا ر کی سُرخی بنتی ہیں تب وہاں کی تجارتی منڈیا ں کپکپانے لگتی ہیں۔خبر کی اہمیت کی اساس ہی پر شخصیت سازی ہنر ٹہری ٗ جہاں Image building اور Personality projection کی اہمیت پر مغربی ذہن کو اصرار ہے۔ حساس اور اہم موضوعات کو اس انداز میں پھیلایا جاتاہے کہ’’پردۂ زنگاری‘‘ کے پیچھے چھپے پردہ نشینوں کا آخر تک پتہ نہیں چلتا۔زیادہ سے زیادہ اداروں کے نام تکرار سے آتے ہیں۔ تاکہ اختلافات کی زد میں ’’موضوع ‘‘ رہے شخصیت نہیں۔ یہی منظر نامہ آج کی خبر سازی کا ہے۔