طنزومزاح : غصّہ گردی
نعیم جاوید ۔۔ سعودی عرب
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سنا ہے موسیقی اور راگوں میں چند گھرانوں کا غلبہ ہے اسکے بر عکس گھریلو موسیقی یاگرہستی کی پاپ میوزک اور اسکے پکے راگوں میں کسی کی اجارہ داری نہیں تھوڑا بہت ٹوہ میں لگے رہنے سے سماج کے کئی خوش پوش کھل کر سامنے آئیں گے۔ بلکہ انکے چبوتروں پر آپ کسی بہانے نہ صرف بیٹھیئ بلکہ دیکھیے اور اونچے اونچے سروں میں سنیئ بھی۔۔۔دھڑام۔۔۔چھن۔۔آآ۔۔تو ۔تڑاخ۔۔۔ تیری تو۔۔بچاؤ۔۔وغیرہ وغیرہ ۔
ہمارے خیال میں غصہ میں گھرکے سڈول مٹکے توڑناغیرعاشقانہ عمل ہے کہ یہی وہ مٹکا ہے جس نے ہیرؔ کواپنے رانجھاؔ سے ملنے کی آس دلائی تھی۔اس ایک مٹکے کے ڈوبنے پر شاعروں نے پانی کی ہر ایک لہر کو کوسا ہے۔اس بحری Scam پراور مٹکے کی بے وفائی پر جانے کتنے بے بحر شعر اُردو کے قارئین پڑھ کرڈوب کر مرنے کوتیارہیں۔اکثر گھروں میں مٹکے منہ لٹکائےسنکی شوہروں کی اچھل کود پر پجرتے ہوئے سُن کھڑے رہتے ہیں۔ جانے کوئی گھریلو ں دہشت گرد شوہر کس جانب سے آئے اور قیام و رکوع میں کھڑے معصوم مٹکوں کو (مساجدوں میں گھس کر کسی بم دھماکوں کی طرح) دھڑام سے پھوڑدے اور بکھرتا ہوا مٹکا اپنی آخری ہچکی لے کرگھریلونا اتفاقی پر شہید ہوکربے غسل دفنادیا جائے۔
ہم نے ایک بار ایک سنگاڑہ صفت (دکن کا ایک نوکیلاپھل) شوہر کو دیکھا جو چبھتی ہوئی گالیاں فضاوں میں اچھال کر فضائی آلودگی پھیلارہا تھا۔ گالیوں کا موضوع تھا‘ عورت کومرد کی ڈانٹ پر آہستہ رونا چاہئے ورنہ عورت کی آواز‘ شرافت کی چلمن سے شقیں ہٹا کر سسکیاں لیتے ہوے باہر تانک جھانک کرتی ہے۔ اور ہرآدمی کو دوسروں کی بیوی سے زیادہ ہی ہمدردی ہوتی ہے اصلأ مرد‘ عورت کوکھل کررونے کا اختیار دینے کا رسک بھی نہیں لے سکتا ۔غالباً اسے ہی کہتے ہیں’’ مردانہ کمزوری ‘‘۔ایک خونخوار شوہر نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ بعض فقہاأنے اسلام میں حسبِ ضرورت یامقدار بھر بیوی کی کُٹائی اور پٹائی کی گنجایش نکال لی ہے۔ ویسے یہ انکا کام ہے جنکے حوصلے ہیں زیاد۔۔۔بلکہ ’’گرہستی زیور ‘‘ نامی کتاب میں پٹائی اور کُٹائی کی مقدار میں فراخدلی کااشارہ ملتا ہے۔
ہم نے ایک مرتبہ اسی طرح کے فقہ زدہ فرد ‘جو آفس میں تو گزیٹیڈ رینک کا افسر تھا۔غور سے اسکے گھر کے سامان کو دیکھا توایسا لگا جیسے جدید آلات کوایکبار ہڑپہ و موہنجوداڑو کی کھایوں میں ڈال کر پھر سے کھدائی کرکے برآمد کیا گیاہے۔کیونکہ انکے گھرکی ہر چیز ٹیڑی میڑی تھی۔جیسے ٹیبل فیان اسطرح گردن گھماتا تھا جیسے کوئی صوفی ’’حق ہو حق ہو ‘‘کی ضربیں لگا رہا ہو۔
نئی استری کا ہینڈل استری کو چھوڑکر آگے آگے جاتا تھا۔ڈریسینگ ٹیبل کاایک پایہ استقامت اکھڑچکا تھا ۔وہ سنگھارمیز اپنے روشن شیشہ سے چھاتی کے داغ دکھاتا تھا بلکہ ماڈرن آرٹ کیطرح پچکے ہوئے بے وجود منظر بتارہا تھا۔چٹخے ہؤ شیشے کے نقوش گرہستی کے راز کھول رہے تھے۔ دروازے ایسے جھول رہے تھے جیسے آخری پہر تک نشہ میں دھت رہنے والا میکش جوذرا ساچھونے پر بھی گھوم جاتا ہو۔خوبصورت شوکیس میں خوش رنگ کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوےتھے۔ پلاسٹک کی کئی چیزیں اس گھرکے مہان پتی دیو کے بے جا شک کی اگنی پریکشا سے گذر کرچرکوں کے نشان لیکراپنا ڈیل ڈول بدل چکے تھے۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ گھریلو مہابھارت صرف آفس و تفریح کے درمیانی وقفہ میں برپا ہوتی تھی۔صبح دونوں تیارہوکر آفس جاتے اور شام کو سج دھج کر فلم یا شاپینگ جاتے۔گھرمیں داخل ہوتے ہی مردانہ شعلہ پوش قماش کی گالیاں اورنسوانی تیل چھڑکاؤ والی گرہ یا جواب آں غزل سے کہرام مچ اٹھتا۔بلکہ میاں اپنی بیگم سمیت سسرال کا (واجدہ تبسم کی نثرکو) جدید تر اسلوب دیکرسراپابیان کرتے اور پوری جزیات نگاری سے خود کو آسودہ کرتے۔ وقت اگر میسر نہ ہو تو علامتی افسانچہ اور آزاد طرز پر’’ واسوخت ‘‘ کہکر گھریلومشاعرہ لوٹ لیتے۔محلے کی بڑی بوڑھیاں انکی گھریلوہاو ہو سنکراپنے گذرے ہوے خونخور شوہروں کو سر پر پلو اوڑھ کر یا د کرتیں۔اور اپنی بہووں کو طعنہ دیتیں کہ’’ دیکھو۔۔۔۔ گرہستی کا جوکھم کسطرح سے جھیلا جاتا ہے۔ ہم نے تو مسکرانے کی گھڑیاں تک الگ سینت کے رکھیں تھیں جبکہ آ ج کل کے چھچورے جوڑے سرے عام بزرگوں کے سامنے ٹھٹولیاں کرتے رہتے ہیں‘‘۔
جدید اصطاحیں گھڑنے والے ادارے کہتے ہیں کہ اُونچی آواز میں بولنا صوتی دہشت گردی ہے۔منہ سے جھاگ اُڑانا۔
آنکھوں سے لیزرکی شعائیں خارج کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ تن من کے بن مانس کو یہ شخص قابو نہ کرسکا یااخلاقی دہشت گردی
کہیں باہر سے سیکھ کر آیا ہے اور اپنے گھرکے سکھ چین کا دشمن ہے۔ ایسی انوکھی اخلاقی اقلیت کا ہر عمل غیر جمہوری گرداناجائے گا۔
ایسے سفلی صفات کا تعلق کسی نہ کسی نظری یا مذہبی مافیہ یا انڈرورلڈ سے ہوگا انھیں کسی فرضی انکاونٹر میں ہلاک کردینا چاہیے۔
اُف ! کیا غصہ واقعی ایساہوتا ہے ہم نے اپنے دوست شوشہؔ خان سے پوچھا تو بولے کہ اسکا انحصار سامنے والے کی کمزوری پرمنحصر ہوتا ہے۔غصہ کرنے والے سے پوچھیئ تووہ کہیے گا کہ ہم نے کبھی نہیں کیا۔ہمیں آتا ہے نہیں ہے۔ ۔۔اور کبھی آبھی جاے تو ہم نے کب مانا کہ وہ غصہ تھا۔بلکہ وہ تو کھرا سچ تھا۔
جلالی پیروں(بزرگوں) کی بد خلقی جس معاشرے میں وضع داری اور کج کلاہی کا بانکپن ٹہرے ایسے میں مسیحا نفسی تو مجہول گردانی جاے گی۔ جبکہ انورؔ مسعودنے برہم مزاج سماج کے تشخص میں بے جا قناعت سے کام لے کر صرف ’’ایک ‘‘ مجرم کھوجا ہے
آئی ہے ایک بات بہت کھل کے سامنے ہم نے مطالعہ کیا ہے سماج کا
اک مألہ ہے سارے گھرانوں میں مشترک ہرگھرمیں’’ ایک ‘‘فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا
اب تو صورتحال بہ ایں جا رسید کہ گھرتو گھر‘ پوری بستی میں ایک فرد نہیں جوسیدھے مزاج کاہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ’’ غصہ ‘‘ ترقی کرکے ماہرینِ نفسانفسی جو پختہ تر ‘خام کا ر اور غلط اندیش ہوتے ہیں وہ اس باب میں کیا کہتے ہیں۔ پہلے کبھی غصّہ قومی غیرت بن جاتا تو قومیں اپنی تاریخ بنادیتیں یا جغرافیہ بڑھادیتیں تھیں۔ اب تو قومی غیرت یا قومی مسایل پر ہمیں غصہ بھی نہیں آتا۔زیادہ سے زیادہ کاتب تقدیر کو کوس کراپنی شخصیت کو جلاب دے کر اپنے ذہن وبدن ہلکا کرلیتے ہیں۔ اب تو غصّہ گھریلو صنعت کیطرح ایک محدود سرگرمی ہوگئی ہے۔
علامہ اقبالؔ نے اپنی ڈایری ’بکھرے خیالات ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’افراد کا ضبطِ نفس خاندان بناتا ہے اور قوموں کا ضبطِ نفس ملکوں کی سرحدوں کو وسیع کرتا ہے‘‘۔
اب تو خونخوار سیاست کاروں نے انسانوں کی بندر بانٹ نظریات کی چاٹ کوہر پارٹی کے ٹھیلوں پر رکھ کر جلوس ویاترائیں نکال کر ملکوں ملکوں بانٹے ہیں۔ان خونخوار فضاوں میں جی لینا ہی فنکاری ہے۔