” پاتھ ” تو اچھے ہوتے ہیں
تحریر : خان زادہ خان
پشاور ۔ پاکستان
ای میل :
موبائل : 03149874447
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی فطرت کے وائرلیس سٹیشن سے جڑی رہتی ہے اگر اُسے اُمید حوصلے اور قوت کے سگنل کا پاتھ ملتا رہے، بالکل ویسے ہی جیسے کمپیوٹر میں کوئی فائل اُسی وقت کھُلتی ہے جب اُسے مطلوبہ ریڈر سوفٹ وئیر کا پاتھ مل جائے۔قدرت نے حضرت آدم کے کالبدِ خاکی میں روح پھونک کر اُسے فردوسِ بریں بخش دیا مگر گندم کی سلطانی سے بچنے کی تلقین کی تا کہ اُسے جنت میں نئے سے نیا پاتھ ملتا رہے لیکن آدم اپنی نسیانی جبلّت کے حصار میں آ گیا اور سب بھول بیٹھا ۔
کام لیا ہے تو نے ایک سوچی سمجھی نادانی سے
نام مٹایا تو نے اپنا جنت کی پیشانی سے
اونچی ہے انسان کی عظمت گندم کی سلطانی سے
اے آدم کی پہلی بھول
تیرا میرا ایک اصول
پروردگار کے حوصلے لامحدود ہیں قدرت نے انسان کو ایک نئے امتحان سے گزارنے اور بطورِ خلیفہ آزمانے کے لیے اُسے کرۂ ارضی کا پاتھ دے دیا ۔ انسان ظلوماً جہولا ہونے کی بنا پر منتقم مزاج بھی ہے جب اس نے دیکھا کہ اسے فردوس بریں سے کرۂ ارضی پر منتقل کر دیا گیا ہے تو اُس نے اپنے زمین پر منتقل ہونے کا انتقام خود زمین سے لیناشروع کر دیا اور بجائے خود زمین پر منتقل ہونے کے اس کے جامد قطعات کو اپنے نام پر انتقال کرنا شروع کر دیا۔لیکن یہ پاتھ اس کی ہوس کو کسی تسکین کی منزل پر نہ پہنچا سکا۔لامحدود کی خلش اور ھل من مزید کی تڑپ اُسے ایک سے ایک نئے موڑ سے ہمکنار کرتی رہی ۔ انسانی فکر جب راست پاتھ پر رہی تو وہ نظری بلندی اور عظمت کے نئے سر چشموں کا کھوج پاتی رہی لیکن جب پست فکری کا شکار ہوئی تو نمرود اور فرعون کی راہ پر چل نکلی اور اُس وقت تک چلتی رہی جب تک کہ کسی فریادی کی آہ کو اُس کے مقابل پاتھ نہ مل گیا ہو۔
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ ، دے دو راہ جانے کیلئے
آغا حشر کاشمیری کے مذکورہ بالا شعر کے وزن کا ہی ایک شعر جو اکثر اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے اُس میں ایک ایسے عقاب کا ذکر ہے جو تندئ بادِ مخالف سے گھبرایا ہوا ہے اور بادلِ نخواستہ ہی اپنی اُڑان جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ اقبال کا شاہین جدہر کا رخ کرتا ہے وہاں نیا سے نیا پاتھ اُس کا استقبال کرتا ہے۔
صحرا است کہ دریا است
تہ بال و پرِ ما است
اقبال کا شاہین کسی پاتھ کا خوف نہیں کھاتا بلکہ اپنے سنگِ میل خود وضع کرتا ہے۔جب یہ شاہین چالیس سال تک اُڑان بھرچکتا ہے تو اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پر بوسیدہ اور بوجھل ہو رہے ہیں اُس کی چونچ کنڈلی ہو چکی ہے اور اس کے پنجے پس ہو چکے ہیں جو اسے پلٹنے جھپٹنے اور شکارِزندہ کی لذت سے کہیں بے نصیب نہ کر دیں تو یہ شاہین ایک فیصلہ کرتا ہے یہ ایک بلند وبالا چٹان کا انتخاب کرتا ہے اُس پر بیٹھ کر اپنے پر نوچ ڈالتا ہے،اپنی چونچ اور پنجوں کو رگڑ کر ختم کر ڈالتا ہے اور پھر تین ماہ تک انتظار کرتا ہے جب تک کہ اُسے نئے بال وپر ،نئی چونچ اور پنجے حاصل نہ ہوجائیں۔یوں وہ پُر دم ہو کر ایک نئے جنم کے ساتھ ایک نئی زندگی کے پاتھ پر شاہین وار اُڑان بھرتا ہے اور اسے تیس سال کے لیے زندگی کا ایک نیا پاتھ میسّر آ جاتا ہے۔
ایں سعادت قسمتِ شہباز وشاہیں کردہ اند
پرانے وقتوں کے بادشاہ جمہور میں نیک نامی پانے کے لیے اپنے محلات اور قلعوں کے پچھواڑے پروان چڑھنے والی طوائفوں کو بھی ریاست بدری کا راستہ دکھایا کرتے تھے ،یہ کام خالص عوامی مفاد میں کیا جاتا تھا حالانکہ اُن بادشاہوں کے اپنے شاہین بچوں کی بلند پروازی کوصحبتِ زاغ سے متاثر ہونے کے شدید خطرات پیدا ہو جاتے تھے ۔معاشرے کی تطہیرِ مسلسل کے لیے طوائفوں کی طرح کرپٹ طبقے کو بھی محفوظ پاتھ ملتا رہنا چاہیے تا کہ عام پاکستانی معاشرہ اس ریہہ سے محفوظ ہوتا رہے،بھلے طوائفوں کی طرح یہ بھی الگ بستیاں اور شہر ہی کیوں نہ بسا لیں۔
جس طرح زندگی کو اپنا پاتھ آکسیجن ،پانی اور خوراک کے ذریعے ملتا ہے، ایسے ہی قوموں اور ملتوں کو اُن کا پاتھ اقدار، روایات،قانون اور آئین کی سربلندی سے ملتا ہے۔حکومتوں کی ذمہ داری صرف اِتنی ہی نہیں ہوتی کہ وہ آئین و قانوں کی بالا دستی قائم رکھیں بلکہ اِس سے بڑھ کر یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نئی نسل کو نظری وفکری پاتھ بھی دیتی رہیں تاکہ جمہور کے نئے سے نئے ہیرو اس پاتھ پر چل کر منصۂ شہود پر آتے رہیں جو اُنہیں فرقوں سے نکال کر اھدناالصراط المستقیم*والے پاتھ پر ڈالتے رہیں۔پاتھ ملتے رہنے چاہیں کیونکہ پاتھ تو اچھے ہوتے ہیں ۔