مصری ادیب احمد امین کی خود نوشت کا اُردو ترجمہ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمجید بیدار

Share

مصری ۔۔۔ مجید بیدار

زندگی میری
مصری ادیب احمد امین کی خود نوشت کا اُردو ترجمہ
مترجم: ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی

از: پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد

موجودہ دور میں جدید ترقیات کی وجہ سے تحقیق و تنقید اور ترجمہ کی روایت میں حد درجہ تیزی رونما ہونے لگی ہے۔ مادی ترقیات اپنی جگہ مسلمہ‘ لیکن کتاب اور اُس کی اہمیت سے سرمو انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ عصر حاضر میں علم و فن کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کے جدید وسائل جلوہ گر ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کتابوں اور مطالعہ سے دُوری کی وجہ سے انسان کے اخلاق میں گراوٹ اور تہذیب و شائستگی میں فرق پیدا ہورہا ہے‘ بلاشبہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اصلاحات اور اور مشاہدے اور مطالعہ سے انسان کو صاف ستھری زندگی گذارنے کا موقع ملتا ہے۔ اِس قسم کی اجتماعی کوششیں بھی اپنی جگہ مسلمہ ہیں لیکن انفرادی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

شہر حیدرآباد کی سرزمین بڑی ذرخیز واقع ہوئی ہے اس سرزمین میں بسنے والے باشندے نہ صرف علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہیں بلکہ اُن میں بے کم و کاست خداداد صلاحیت موجود ہے کہ دنیا میں پیش ہونے والی ہر اچھی کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُسے عوام الناس کی بھلائی کے لئے پیش کرنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر محمد امین نے اپنی آخری زندگی میں یہ محسوس کیا کہ تمام تر زندگی پر محیط اپنے حالات اور کارناموں پر مشتمل خود نوشت تحریر کی جانی چاہئے‘ چنانچہ انہوں نے عربی زبان میں ’’حیاتی‘‘ جیسی خود نوشت سوانح عمری لکھ کر زندگی کے تجربات اور علمی و فطری خصوصیات کو اُجاگر کیا۔ عربی زبان و ادب کی تاریخ کے پس منظر میں یہ بات ثابت ہوتیہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں ڈاکٹر محمد امین کی ’’حیاتی‘‘ اور طہ حسن کی ’’الایام‘‘ کو معیاری سوانح عمریوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ عربی کے ان دو ادیبوں نے ادب و اِنشاء کے معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادبی معیارات قائم کئے۔ عربی زبان میں لکھی ہوئی ’’حیاتی‘‘ کے معیار کو عربی کے پروفیسر محسن عثمانی نے ’’الایام‘‘ سے بلند تر ادبی خود نوشت کا درجہ دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین نے اپنی خود نوشت سوانح میں فکر و عقل کی غذا فراہم کرتے ہوئے شعور و فراست کے موتی لٹائے ہیں۔ ان کی جدید عربی کوزے میں دریا کو سمونے کے مترادف ہے۔ ’’حیاتی‘‘ جیسی کتاب کے قیمتی علمی و ثقافتی تحفے کو اُردو میں منتقل کرنا آبِ حیات کے چشمے کی دریافت سے کچھ کم کارنامہ نہیں تھا۔ اُردو کے بیشتر ماہرین نے اِس کتاب کی ستائش کی لیکن ٹھیٹ محاوراتی اور انشاء پردازاز اسلوب سے مالا مال اِس کتاب کا اردو میں ترجمہ سخت دشوار تھا۔ اِس دشواری کا حل تلاش کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی نے نہ صرف ڈاکٹر محمد امین کی خود نوشت سوانح حیات کا اردو میں با محاورہ ترجمہ کیا بلکہ مصنف کے فکر و فلسفے کی ترسیل کا حق ادا کرکے یہ ثابت کردیا کہ عربی سے اردو زبان میں ترجمہ کرنے کا فن درحقیقت اُن کی فطرت کا خاصہ ہے۔
مولانا عارف الدین فاروقی نے اِس سے قبل بھی کئی کلاسیکی عربی زبان کی کتابوں کے اردو ترجمے پیش کرکے شہرت حاصل کی ہے۔ پیشے سے انجینئر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے اور آبائی پیشہ طبابت سے بھی خصوصی شفقت رکھتے ہیں۔ عربی و فارسی میں مولانا عارف نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے عربی زبان میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے مقالہ کا عنوان ’’احمد امین اور اُن کی تصانیف‘‘ کا انتخاب کیا تھا اور تحقیقی مقالہ بھی لکھا۔ اسی دوران انہوں نے احمد امین کی خود نوشت ’’حیاتی‘‘ کا مطالعہ کیا اور محسوس کیا کہ مصنف نے اپنی سرگزشت صرف تقریح طبع کے لئے نہیں لکھی بلکہ اس خود نوشت کتاب میں حیاتِ انسانی کے مختلف ادوار اور روایتی علم سے لے کرنصاب تعلیم کے جدید انداز اور بیماری و حادثات کے علاوہ بیرونی ملکوں کے سفر اور مشاہدات کو حد درجہ حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جس کے دوران مشرقی و مغربی تہذیبوں کے موازنے کے علاوہ خود احتسابی کا انداز بھی شامل ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنف کا دل کو چھولینے والا اسلوب دل پر گہرے نقوش چھوڑ کر قاری کے دل کو مسخر کرلینے کی صلاحیت سے وابستہ ہے۔ اِسی خصوصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا عارف الدین فاروقی نے احمد امین کی خود نوشت کو اُردو کے پیرہن میں منتقل کرنے کا ارادہ کیا اور حد درجہ کامیاب ترجمہ پیش فرمایا۔ مولانا عارف نے احمد امین کی پیدائش کی تفصیلات پیش کرنے کے ساتھ مئی ۱۹۵۴ ؁ء میں مصنف کے انتقال کا ذکر کیا ہے۔ ترجمہ کے دوران پیش آمادہ مسائل کو ’’عرض مترجم‘‘ کی حیثیت سے نمایاں کیا ہے۔ جس کے بعد دیباچہ مصنف کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ احمد امین کی خود نوشت کا آغاز ۱۹۵۰ ؁ء میں ہوا۔ ’’زندگی میری‘‘ جیسی خود نوشت کے دوران ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی نے ترجمہ کے فن کی عمدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کیا ہے۔ جس کا اظہار پروفیسر محسن عثمانی ندوی نے ترجمعے کے مقدمہ کے دوران کیا ہے۔ مترجم نے عربی سے سلیس اور شگفتہ ترجمہ پیش کرکے علم و حکمت کے موتیوں کو اہل ذوق حضرات کے روبرو پیش کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا عارف نے اس کتاب کے ترجمے کے ۳۴ سال بعد اُس کی اشاعت پر توجہ فرمائی۔ خود مولانا عارف نے یہ وضاحت کی ہے کہ انہوں نے عربی اسلوب کو رعایتِ لفظی کے ساتھ اِس انداز سے ڈھالنے کی کوشش کی ہے کہ اصل کا لطف آجائے۔ اس طرح عربی سے اُردو میں ترجمہ کرنے کے دوران مولانا عارف نے لفظی یا مرادی یا پھر آزاد ترجمہ کے بجائے فطری ترجمہ پر توجہ دی ہے‘ جس کے نتیجہ میں ترجمہ کا ایک ایک جملہمعنویت اور اظہاریت کا پیکر قرار پاتا ہے۔ عربی کے نامور استاد پروفیسر محسن عثمانی نے مطبوعہ کتاب کے مقدمہ میں مولانا عارف فاروقی کے ترجمہ کی ستائش کی ہے جس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس ترجمے میں مترجم نے زبان و فن اور اظہار کی ادبی و فنی نزاکتوں کو مصنف کے فن کی مناسبت سے نمایاں کیا ہے۔ اُس طرح اصل نسخہ کی تمام خصوصیات کو ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی کے ترجمے کے دوران واضح کردیا ہے جس سے ترجمہ کے فن پر حضرت عارف فاروقی کے عبور کا پتہ چلتا ہے۔
مصری ادیب احمد امین کی خود نوشت ’’حیاتی‘‘ کے ترجمہ کی ضرورت اور ادبی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی نے یہ لکھا ہے کہ احمد امین عربی کے بہترین نثر نگار‘ فنکار‘ سوانح نگار‘ معلم و مورخ‘ یونیورسٹی کے اُستاذ اور عربی ادب کے نقاد گذرے ہیں۔ وہ اپنی ہمہ جہت قابلیت کے باوجود عبقریمجدد و مصلح نہیں تھے‘ وہ کسی اعتبار سے انقلابی شخصیت کے حامل بھی نہیں ہے۔ ان کی مثال اس موسیقی کار کی طرح ہے جو کسی بستی میں آگ لگنے کے باوجود آگ بجھانے کی فکر نہ کرے اور بستی کے نزدیک درخت کے سائے میں بیٹھ کر بانسری بجاتا رہے۔ ان کے والد نے اسی انداز سے تربیت کی تھی۔ وہ درسی کتابوں کی تدریس و تدوین کے ماہر تھے‘ لیکن اخبارات کے مطالعے اور سیاست سے گریزاں رہتے تھے۔ اطراف و اکناف میں کوئی بیماری پھیل جائے یا سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے‘ وہ ان سب سے بے نیاز مطالعہ میں یا اپنے معمولات میں یا گھریلو فرائض میں مشغول رہتے تھے۔ احمد امین نے اسلامی تاریخ اور اُس کے مد و جزر کا تفصیلی لیکن معروضی مطالعہ کیا تھا اور ایک نہیں بلکہ متعدد کتابیں اس موضوع پر لکھیں۔ ان کا مزاج خالص عقلی‘ علمی و فکری تھا۔ اس بیان سے خود احمد امین کی فطرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ غرض مولانا عارف نے احمد امین کی خود نوشت سوانح عمری کے ترجمہ کرنے کے دوران وہی عنوانات برقرار رکھے ہیں‘ جو اُن کی عربی تصنیف کا وسیلہ ہیں۔ تمام تر کتاب اڑتیس موضوعات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس کے بعد ضمیمہ اور باب واری حواشی بھی شامل کئے گئے ہیں۔
احمد امین نے اپنی نسل اور خاندان کے علاوہ قاہرہ میں پیدائشی مقام اور بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے محلے کے معاشرے اور تعلیم گاہ سے لے کر محلے کی حالت اور جامعہ ازہر میں تعلیم کے علاوہ طالب علمی کے دوران دوستی اور اسکندریہ میں ملازمت کے دوران نقشبندی رفیق کے فیضان کے ذکر کے ساتھ اخبار کے مطالعے سے بے نیازی اور ساتذہ کامل کا طریقۂ درس کے علاوہ ادب و انشاء میں قدر و منزلت کا ذکر کرتے ہوئے طالب علمی کے دور میں اپنے گھر کا مختصر حال درج کیا ہے۔ جس کے بعد مدرسہ قضاباتمیں بہ حیثیت مددگار تقرراور تصنیف و تالیف کے علاوہ قاہرہ کے کتب فروش سے وابستگی کے علاوہ شادی کی تفصیلات بھی درج کی ہیں۔ اس طرح حقیقت اور تصور کا ایک واقعہ بھی درج کیا ہے جس کے بعد تحریک آزادی اور والد کے انتقال اور آرٹس کالج میں ملازمت کے علاوہ ترکی کی سیر اور شام و فلسطین ہی نہیں بلکہ ایران و عراق اور یورپ کی سیاحت کی تفصیلات کا ذکر کیا ہے۔ جس کے بعد آرٹس کالج میں پروفیسر شپ اور والدہ کے انتقال کے بعد پرنسپل‘ ادارۂ ثقافت کی نظامت اور وظیفہ پر علحدگی کی تفصیلات سے خود نوشت کو آراستہ کیا ہے۔ مصنف نے ’’حیاتی‘‘ خود نوشت میں آنکھ کے آپریشن ‘ انعامات اور شاہی فرمان کے ذریعہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری‘ فالج اور ذیابطیس کے حملے کے بعد اپنے اوصاف و خصائل کے جائزہ کے بعد کے خود نوشت میں تنوع پیدا کرنے کی خاطر اپنی زندگی کے رات دن اور اجتماعات سے دوری کو دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے تصوف کی طرف جھکاؤ کی حقیقت بھی واضح کردی ہے خود نوشت کے آخر میں زندگی کے آغاز و انجام کو بھرپور نمائندگی کرتیہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ احمد امین نے زندگی سے جو کچھ بھی نتائج اخذ کئے‘ انہیں اپنی خود نوشت سوانح عمری میں شامل کردےئے ہیں ‘چنانچہ احمد امین کی خوو نوشت ’’حیاتی‘‘ کا اردو ترجمہ ’’زندگی میری‘‘کے مطالعہ سے دنیا کی بے ثباتی کا اندازہ ہوتا ہے اور انسان وقار و وجاہت رکھنے کے باوجود قدرت کے روبرو اس کی مجبوری اور بے بسی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی نے ایسی اہم عربی خود نوشت اردو میں ترجمہ کرکے قاری کے ہاتھ میں ایک کتاب ہی نہیں تھمائی بلکہ زندگی کے عروج و زوال کے فلسفۂ کو عام انسان کے روبرو پیش کردیاہے‘ جس کے لئے انہیں دلی مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ اِس کتاب کو ’’البلاغ‘‘ پبلی کیشن ابوالفضل انکلیو جامعہ نگر نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اہل ذوق حضرات کے لئے کتاب کی قیمت /-۲۵۰روپئے مقرر کی گئی ہے‘ جو دور حاضر کے تقاضوں اور کتاب کے مواد کے اعتبار سے انتہائی مناسب ہے۔ مجلد اور سادہ سرورق سے مزین عمدہ کتابت اور طباعت سے آراستہ اِس کتاب کے ذریعہ شخصیت کی تشکیل اور کردار میں شامل خصوصیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کی کتابوں کے مطالعہ سے شخصیت کی ہمہ جہت ترقی اور کردار کی اصابت کو قبول کرنے کا موقع دستیاب ہے۔ اس لئے ہر اہل فکر و فن کے لئے اس کتاب کا مطالعہ شخصیت میں نکھار اور کردار میں وقار پیدا کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس مزاج کو پسند کرنے والوں کی شخصی کتابوں میں ’’زندگی میری‘‘ کا شامل کیا جانا ضروری ہے۔ ادب دوستوں کی جانب سے اس قدر جامع اور وقیع عربی کتاب کو اردو میں دلکش انداز سے منتقل کرنے پر ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ یہ کتاب عربی اور اردو جیسی زبانوں کے آپسی اتحاد کا ضامن نبتی ہے۔

Share
Share
Share