ڈاکٹروزیرآغا سے ایک انٹرویو۔ ۔ ۔ ۔ انٹرویونگار: ابنِ عاصی

Share

وزیرآغا

ڈاکٹر وزیر آغا سے ایک انٹرویو

انٹرویونگار: ابنِ عاصی
جھنگ ۔ پاکستان

۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹروزیرآغا کی ادبی شناخت کے لیے کوئی ایک حوالہ شاید ناکافی ہو گا کیونکہ موصوف کو اردو ادب کے نام لیوا ایک محقق،نقاد،انشائیہ نگار،شاعر، دیباچہ نگار،مدیراورمصنف کے طور بھی اپنی یادوں میں بسائے ہوئے ہیں اردو ادب کا کوئی بھی سمن زاران کے لیے اجنبی نہیں ہے یہ بتا عام کہی جاتی ہے کہ اردو ادب میں انشائیہ کو متعارف کروانے میں ان کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے اور جدید نظم نگاری میں ان کے سے قدو قامت کے لوگ شازو نادر ہی پائے جائیں گے انہیں ،امتزاجی تنقید کا بانی، بھی قرار دیا جاتا ہے ان کی تحقیقی کاوش ،اردوادب میں طنزومزاح،کاادبی مقام ان کے مخالفین بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اسی طرح ان کی کتاب ،تخلیقی عمل، بھی ایک چونکا دینے والی حیثیت رکھتی ہے ڈاکٹر وزیر آغا نے اول الذکر کتاب میں ادب کو تہذیب اور کلچر کے حوالے سے جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے اور ناقدین مانتے ہیں کہ وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھے اورنہ صرف شعر وادب بلکہ نفسیات اساطیر اور تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ان کے خاص میدان تھے ان کی تحریروں میں ان کے کثیر المطالعہ ہونے کے،اثرات، واضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ،

ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک طویل عرصہ تک اپنا ادبی پرچہ،اوراق، نکالے رکھا(جو کہ اب ان کی وفات کے بعد بند ہو چکاہے)اس پرچے کے ذریعے انہوں نے انشائیہ کے فن کو اردو ادب میں زیادہ سے زیادہ متعارف کرانے کے لیے نئے اور پرانے لکھنے والوں کی خوب حوصلہ افزائی کی اور ان کی اس کوشش سے انشائیہ لکھنے والوں کی ایک قابلِ قدر تعداد سامنے آئی اور اسی پرچے کے ذریعے انہوں نے مغربی ادب کے مطالعے کی تحریک بھی چلائی اور اس کی تشریح کا کٹھن کام بھی سر انجام دیا ،اس دوران ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگے اور کہا گیا کہ وہ،دبستانِ سرگودھا،کی راہ ہموار کر رہے ہیں ان کے مخالفین میں احمد ندیم قاسمی کاپرچہ،فنون، اور ان کے احباب کی ایک کثیر اور طاقتور تعداد موجود تھی حتیٰ کہ نامور نقادڈاکٹر سلیم اختر(جو آج کل خاصے علیل ہیں )بھی ان کے خلاف تلوار سونتے دکھائی دیتے تھے اور ڈاکٹر وزیر آغا کا اسمِ گرامی سامنے آتے ہی وہ کسی لحاظ کے بغیر ان کے بارے انٹ شنٹ بول جاتے تھے ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی بہت زیادہ چھپنے والی کتاب ،اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ، میں بھی مرحوم کو نہیں بخشا ہےلیکن ڈاکٹر وزیر آغا کا اصل مسئلہ احمد ندیم قاسمی اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ رہا،آخر وقت تک یہ دونوں ادبی شخصیات ایک دوسرے سے دور ہی رہیں احمد ندیم قاسمی گروپ ڈرامہ،کہانی،افسانہ،غزل میں آگے رہااور ڈاکٹر وزیر آغاگروپ تنقید ،نظم اور انشائیہ میں ،
آج صورتِ حال یہ ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی ان کا ادبی پرچہ،فنون،پھر سے شروع کر چکی ہیں لیکن ڈاکٹر وزیر آغا کے صاحبزادے اپنے والدِ محترم کی نشانی،اوراق، کو بوجوہ جاری نہیں کر سکے ہیں ۔
خاکسار نے ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ انٹرویوممتاز شاعر فرحت عباس شاہ کے ماہنامہ،پولیٹیکل سین، کے لیے کیا تھااور مقصد صرف ارود ادب کے کچھ معاملات بارے جناب وزیر آغا کی ذاتی رائے لینااور اس پر اہلِ ادب کے ردعمل کا جائزہ لیناتھامجھے یہ بھی اعتراف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ابتداء میں اپنی صحت اور دیگر مسائل کی وجہ سے جناب وزیر آغا نے اینٹرویو دینے سے معذرت کر لی تھی لیکن بعد میں میرے کہنے پر میرے عزیز دوست اور اردو کے نوجوان نقاد پروفیسر ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ڈاکٹر وزیر آغا سے اس انٹرویو کے لیے بات کی اور ان کو انٹرویو کے لیے راضی کیا(جس پر میں آج بھی ان کا ممنون ہوں )۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوال1:ڈاکٹر صاحب!دنیا کی تقریبا 37زبانوں کو ادب کا نوبیل انعام مل چکا ہے لیکن اردو زبان ابھی تک اس بڑے انعام سے محروم ہے آپ کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟نوبیل انعام دینے والوں کا کوئی تعصب یااردو زبان ہی میں کوئی کمی ہے؟

ڈاکٹر وزیر آغا:اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان ابھی تک نوبیل انعام کے اعزاز سے محروم ہے جب ٹیگور کو نوبیل انعام ملا تھا تو توقع تھی کہ علامہ اقبال کو بھی یہ اعزاز ملے گا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا،جس کا اردووالوں کو آج تک افسوس ہے اقبا ل کے بعد اردوکی ادب کی دو اصناف کے حوالے سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید نوبیل انعام والوں کی نظرِ انتخاب کسی اردو ادیب پر بھی پڑ جائے ،لیکن ایسا نہیں ہوا،یہ دو اصناف ناول اور نظم تھیں،غزل کا معاملہ یہ ہے کہ یہ اتنی لطیف صنف ہے کہ ترجمہ کی صورت میں اس کا جادو قاری تک منتقل نہیں ہو پاتا،جب کہ افسانے کو فی الوقت مغربی ادبیات میں محض ثانوی اہمیت حاصل ہے اردو ناول کی صورت یہ ہے کہ ابھی تک اردو کا کوئی ناول عالمی معیار کو نہیں چھو سکا،اس لیے نوبیل انعام تو ایک طرف اردو کے کسی ناول کو کسی بھی عالمی انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا،لے دے کے جدید اردو نظم باقی ہے جس کا معیار یقیناًعالمی سطح کا ہے اور اسی حوالے سے اردو نظم گو شعرامیں سے کسی نہ کسی کو نوبیل انعام کے لیے زیرِ غور لایا جا سکتا ہے لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ اردو نظم کے معیاری تراجم پر مشتمل کتابیں مغربی ادب کی مین سٹریم میں شامل ہوں مگر ایسا نہیں ہوسکا،ہماری اکادمیوں اور دیگر اداروں کا فرض ہے کہ وہ اردو کے ان بہترین نظم نگاروں کو جو بقیدِ حیات ہیں تراجم کے ذریعے مغرب کے ادبی حلقوں میں متعارف کروائیں تاکہ نوبیل انعام کے اعزاز کے لیے ان میں سے کسی ایک کے کام کو زیرِغور لایا جاسکے۔
سوال2:دنیا کے دیگر ممالک میں شاعر ادیب اور دانشور لوگ سیاسی،سماجی،مذہبی غرض ہر قسم کی تحریکوں کی حمایت یا مخالفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،لوگ ان کی سنتے بھی ہیں اور مانتے بھی،لیکن ہمارے ہاں اول تو کوئی کسی تحریک وغیرہ میں حصہ ہی نہیں لیتا اور لیتا بھی ہے تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے ہیں ،پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے؟اور یہ بھی بتائیے کہ اہلِ ادب اپنے کس، complexکی وجہ سے ایسی تحریکوں میں حصہ لینے سے گریز کرتے ہیں؟

ڈاکٹر وزیرآغا:ہر ادیب اور شاعر کی دو حیثیتیں ہیں ایک تو ملک کے باوقار شہری کی اور دوسری ایک تخلیق کارکی،ملک کے شہری ہونے کے ناتے وہ اپنے ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے اپنے ملک کی سیاسی،سماجی،مذہبی تحریکوں کے حوالے سے اپنے موقف کو پیش کر سکتا ہے،دیگر ممالک کے ادباء اور شعرا کی طرح ہمارے ملک کے ادباء اور شعرابھی اپنے نکتہ نظر کا برملا اظہار کرتے آئے ہیں ،اقبال،ظفر علی خان،فیض،مولانا صلاح الدین اور حبیب جالب کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں مگر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ ہر ادیب لازمی طور پر ملک کی سیاسی،سماجی اور مذہبی تحریکوں پر اظہارِ خیال کرے ،تخلیق کار ہونے کے ناتے ادیب ملک کی ہر سیاسی سماجی کروٹ کوحتیٰ کہ واقعات اور سانحات سے متحرک ہونے والے ردعمل کو بھی اپنی ذات میں جذب ہونے دیتا ہے جہاں وہMetamorphosisکے عمل سے گزر کر تخلیق کی بنت میں شامل ہوجاتا ہے لہذا یہ کہنا درست نہیں کہ ادباء اور شعرا اگر اپنے ردعمل کا برملا اظہار نہ کریں تو وہ کوتاہی کے مرتکب تصور کیے ؂جائیں گے ادب کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں روحِ عصر پوری طرح جذب ہوجاتی ہے لہذا ملک میں ابھرنے والی تمام تر سیاسی اور سماجی کروٹیں ادیب کی ذات میں جذب ہو کر جب اس کے فن میں منعکس ہوتی ہیں تو ان کی صورتیں بدل جاتی ہیں تاہم ان کی تفہیمات پر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو ادیب کی ترجیحات کے بارے میں خاصا مواد مل سکتا ہے۔
سوال:غربت،سیاسی گھٹن،آمریت،فرقہ واریت اور بد امنی اور ایسے دیگر مسائل ،بڑا ادب، تخلیق کرواتے ہیں ،دیکھا جائے تو اس لحاظ سے ہمارے ہاں ہمیشہ ہی سے،آئیڈیل ماحول، رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں اعلیٰ مکمل اور خوبصورت ادب تخلیق نہیں ہو پارہا،اس میں ہماری کوئی ،ادبی نااہلی ہے؟یا ابھی تک وہ،آئیڈیل ماحول،ہی سامنے نہیں آیا ہے؟

ڈاکٹر وزیر آغا:اول تو یہ بات ہی محلِ نظر ہے کہ ہمارے یہاں اعلیٰ مکمل اور خوبصورت ادب تخلیق نہیں ہو پارہا، سب جانتے ہیں کہ اردو نظم، غزل،،افسانہ،،انشائیہ اور تنقیدمیں اعلیٰ ادب پیدا ہوا ہے دوم اس بات کو بھی محلِ نظر قرار دینا چاہیے کہ غربت، سیاسی گھٹن،آمریت،فرقہ واریت اور بد امنی وغیرہ ہو تو اعلیٰ ادب کی تخلیق کے امکانات روشن ہوتے ہیں ،دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے پھر بھی وہاں اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہو رہا ہے دراصل اعلیٰ ادب کی تخلیق کا تعلق ایک طرف تو ادیب کے ہاں تخلیقیت کی فراوانی سے ہے اور دوسرے اس بات سے کہ وہ کہاں تک اپنے عہد کی روحِ عصر یا Epstemeسے ہم رشتہ ہو پایا ہے تو اگر یہ سلسلے برقرارر ہیں تو اعلیٰ ادب کی تخلیق کے امکانات بھی روشن رہتے ہیں ۔
سوال:ِ ،کمرشل رائٹر، کی اصطلاح اب عام استعمال ہونے لگی ہے کچھ سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ تاجرانہ ذہنیت رکھنے والے ان لوگوں نے جینوئن لکھاریوں کے ذہن بھی ،خراب، کرنا شروع کر دئیے ہیں ،یہ بتائیے کہ آپ ادب میں کمرشل رائٹر کی اس مداخلت سے ادب اور ادیب کی ،صحت، پر کسی قسم کے ،اثرات، مرتب ہوتے دیکھ رہے ہیں؟

ڈاکٹر وزیر آغا:بیسویں صدی میں ادب کے یہ دونوں دھارے فعال رہے ہیں ادب کے فروغ کے لیے ان دونوں کا اشتراک مستحسن ہے اگر کمرشل ازم مقصود باالذات قرار پائے اور ادب کو قابلِ فروخت شے یا Commodity قرار دے کر تاجرانہ رویے کو عام کرے تو اس سے ادب کا معیار زوال آمادہ ہو گا دوسری طرف اگر ادب اپنی ،معطر تنہائی، کو پوری طرح اوڑھ لے اور اس کی خوشبو دیوارِ چمن کو پار ہی نہ کر سکے تو اس کے طلسم کا دائرہ کار محدود ہو کر رہ جائے گا لہذا کمرشل ازم کو ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ایک ذریعہ بننا چاہیے لیکن کاروبار کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
سوال:انشائیہ آپ لائے ہیں،ہائیکو کی صنف ڈاکٹر خواجہ زکریا نے ،متعارف، کروائی ہے،ناول مغرب سے آیا ہے،افسانہ شمال سے ملا ہے غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ تقریبا ساری کی ساری اصنافِ ادب، غیروں، کی ہیں یہ اردو ادب کی اپنی بھی کوئی صنف ہے؟ اور یہ بھی بتائیے گا کہ کیا ہماری کوئی ،چیز، کسی دوسری زبانوں والوں نے یوں اپنے سینوں سے لگائی ہوئی ہے یا یہ،کارنامہ، ہم اردو والے ہی انجام دے رہے ہیں؟

ڈاکٹر وزیر آغا:گزارش ہے کہ ماہیا،دوہا،گیت، اور چند دیگر اصناف اس برِصغیر کی پیداوار ہیں ہائیکو جاپان سے چلا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گیاانشائیہ مغرب سے آیا مگر صرف اردو زبان نے اسے قبول کیا،جدید ناول کا تصور مغرب سے آیا مگر فکشن کی ابتدائی مثالیں Epicsاور کتھاؤں کی صورت میں اس برِصغیر میں خودرو ہیں ،غزل ایران سے چلی مگر پوری دنیا میں پھیل نہ سکی،اصنافِ شعر کے حوالے سے لین دین کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے بعض اصناف اپنے ملک کی ثقافت سے اس حد تک جڑی ہوتی ہیں کہ دوسرے ممالک اور ان کی تہذیبوں میں پروان نہیں چڑھ سکتیں اور بعض آفاقی ہوتی ہیں اور ہر خطہ میں برگ و بار لانے پر قادر ہوتی ہیں اسی طرح بعض تہذیبیں تنگ دل ہوتی ہیں اور اپنے دروازے بند کر لیتی ہیں جب کہ بعض تہذیبیں کشادہ دل ہوتی ہیں اور ہر مہمان کو خوش آمدید کہتی ہیں ،اردوزبان ہمیشہ سے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتی آئی ہے لہذا ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہمارے ادیب ہر اچھی بات کو کھلے دل سے قبول کرنے پر آمادہ ہیں ہمارا تہذیبی،مینی فیسٹو، ہی ،جی آئیاں نوں ،ہے۔
سوال:ڈاکٹر صاحب!کہنے کو تو اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن اس کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک کوئی اور ہی کہانی سناتا ہوا نظر آتا ہے خصوصا سرکار نے تو کبھی ،سب سے پہلے اردو، کی بات کی نہیں ،بلکہ اس نے تو انگریزی کو ،اپنا مقصد، بنا لیا ہے اور اردو بس مضرورت، کی زبان بن کر رہ گئی ہے قومی زبان کی اس بے قدری کے خلاف اور اس کو اس کا جائز مقام دلوانے کے لیے اہلِ ادب نے متفق ہو کر آج تک کسی موثر پلیٹ فارم سے آواز بلند نہیں کی ہے۔۔۔۔آخر کیوں؟اردو ہماری ،پہلی ترجیح، کیوں نہیں رہی ہے؟

ڈاکٹر وزیرآغا:یہ کہنا درست نہیں کہ اہلِ ادب نے متفق ہو کر آج تک کسی موثرپلیٹ فارم سے آواز بلند نہیں کی پاکستان کے وجود میں آنے کے فورا بعد ہی اردو والوں نے اردو کے حق میں آواز بلند کرنا شروع کردی تھی ان کا یہ مطالبہ تھا کہ اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا ہے لیکن اسے سرکاری زبان بنانے کے سلسلے میں سست روی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے مولوی عبدالحق کے بعد مولانا صلاح الدین احمد اور ڈاکٹر سید عبداللہ نے اس سلسلے میں جو کام سر انجام دیا تھاابھی تک اذہان میں تازہ ہے ڈاکٹر سید عبداللہ نے متعدد کانفرنسیں منعقد کیں اور اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے زمین ہموار کی،مولاناصلاح الدین احمد اخبارات اور رسائل کی سطح پر یہ جنگ لڑتے ہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب1960 کے لگ بھگ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے سوال کو بیس برس کے لیے مؤخر کر دیا گیا تو مولاناصلاح الدین احمد نے بڑے کرب سے کہا تھا کہ
،بیس برس کے بعد تو اردو کا حلیہ اس حد تک تبدیل ہو چکاہوگاکہ اسے پہچاننا بھی مشکل ہو گا،
مولانا کا مؤقف یہ تھا کہ اردو کو انگریزی کی یلغار کا سامنا ہے اس مقابلے میں انگریزی کو ایک خاص طبقے کی حمایت بھی حاصل ہے بیس برس کے عرصہ میں انگریزی الفاظ ہماری بول چال پر اس درجہ حاوی ہو جائیں گے اور سرکاری دربار میں انگریزی کا چلن اس قدر بڑھ جائے گا کہ پھر اردو کو اس کا جائز مقام حاصل کرنے میں بہت دشواری ہو گی چنانچہ ایسا ہی ہوا،انگریزی زبان بتدریج پاکستانی معاشرہ پر حاوی ہوتی چلی گئی مگر پانی ابھی سر سے اونچا نہیں ہوا،سیاسی جماعتیں اگر آج بھی اردو کو سرکاری زبان بنانے پر متفق ہو جائیں تو اردو زبان کو اس کا حق مل سکتا ہے۔
سوال:کچھ لوگ اردو تنقید کے مستقبل کے بارے میں عجیب و غریب اور مایوس کن باتیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں یہ لوگ آخر کس بنا پر ایسی مشکوک اور فساد پھیلانے والی باتیں کر رہے ہیں؟ویسے ایک حلقے کا خیال ہے کہ ان کی یہ رائے نقادوں سے ان کی ،ذاتی دشمنیوں، کی وجہ سے ہے،آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر وزیر آغا: اردو تنقید کے خلاف اے مہم عرصہ سے جاری ہے اس مہم کے نام لیوا وہ ادیب ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تنقید نے ان سے انصاف نہیں کیا ،لہذا تنقید نگاری ہی نہیں خود تنقید ہی قابلِ مذمت ہے غور کیجیے تو یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ ادب کے معیار کو بلند کرنے میں تنقید کتنا اہم روک ادا کرتی ہے،اصل بات یہ ہے کہ تخلیقی عمل میں مصنف،متن اور قاری(نقاد)تینوں مل جل کر کام کرتے ہیں اس سلسلے میں قاری(نقاد)دوہری کارکردگی کا مظاہرہ کرتاہے وہ نہ صرف تخلیق کاری کے ابتدائی مراحل میں مصنف کے ہمزاد کی حیثیت میں تخلیق میں مضمر شگافوں کواپنے تخلیقی عمل کی مدد سے پر کر کے تخلیق کو مکمل کرتا ہے ،تخلیق کا ایک نیا متن وجود میں آتا ہے جس سے اس کی فنی اور مصنوعی سطح بلند تر دکھائی دینے لگتی ہے،پچھلے ایک سو برس کے دوران میں اردو تنقید میں قابلِ قدر پیش رفت ہوئی ہے نہ صرف یہ کہ اردو تنقید نے مغرب کے جدید ترین تعلقات کا مطالعہ کیا ہے بلکہ عملِ تنقید کے حوالے سے تخلیقی کارکردگی کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا ہے اگر کوئی ادارہ عملی تنقید کے حامل مقالات کا ایک کھرا انتخاب پیش کرنے کی جسارت کرے تو ایک عام قاری کو بھی اندازہ ہوگا کہ اردو تنقید میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے۔

سوال:اس وقت ایسا کون ساگروہ ہے جو زیادہ مؤثر انداز میں اردو ادب کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے؟اگر کوئی نہیں ہے تو کیا ایسے گروہ کا قیام آج کے حالات میں بہت ضروری نہیں ہو گیا ہے؟

ڈاکٹر وزیر آغا:گروہ لفظ مناسب نہیں ہے آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس وقت ایسی کون سی ادبی تحریک ہے جو زیادہ مؤثر انداز میں اردو ادب کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے،آج سے بہت عرصہ پہلے ترقی پسند تحریک چھائی ہوئی تھی مگر آج وہ پس منظر میں جا چکی ہے۔اس کے بعد جدیدیت پھر مابعد جدیدیت کو فروغ ملا،بعض لوگ انہی رجحان کے تحت شمار کرتے ہیں نہ کہ تحریک کے تحت،اورا س معاملے میں وہ حق بجانب بھی ہیں ،ان رجحانات کو توانائی بخشی ہے اور اسے مغرب کے ادبی منظرنامے سے منسلک کیا ہے ،ایسے رجحانات ابھرتے اور مٹتے رہتے ہیں مگر وہ ادب کو اپنا تابع مہمل نہیں بناتے اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کریں تو اس سے ادب کی خودروانی رک جاتی ہے اصل بات یہ کہ ادب کی تخلیق ایک خودرو عمل ہے،اسے آزاد فضا میں پنپنے کے مواقع ملنے چاہئیں نہ کہ اسے کسی پانچ یا دس سالہ منصوبے کے تابع کر دیا جائے۔

سوال:آپ کے نزدیک ادب کی کس صنف کی طرف کبھی بھی بھرپور توجہ نہیں دی گئی ہے؟

ڈاکٹر وزیرآغا:اردو ادب میں ناول نگاری کی طرف مذید توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی پائے کے ناول سامنے آسکیں ۔
سوال: آج کے ارود ادب پر زیادہ تر کس غیر ملکی زبان کے ،اثرات، نظر آرہے ہیں؟اردو ادب کو غیر ملکی زبانوں کے ادب سے کمتر خیال کرنے والے کس قسم کی احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں؟
ڈاکٹر وزیرآغا:اردو ادب پر پہلے فارسی زبان و ادب کے اثرات مرقسم ہوئے ،پچھلے لویری کے دوران ہی انگریزی ادب نے اردو کو متاثر کیا اور انگریزی کی وساطت سے دوسری زبانوں کے ادب نے بھی ،اس میں احساسِ کمتری کی کون سی بات ہے؟
سوال:ڈاکٹر صاحب!آپ اس وقت اردو ادب کی سب سے بلند مرتبہ شخصیت ہیں ،یہ مقابلِ فخر مقام پانے کے بعدآپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں،یہ بتائیے کہ یہ جو اہلِ ادب نے آ پ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ،کیا آپ ان امیدوں پر پورا اترنے کے لیے کوئی،پلاننگ، وغیرہ کر رہے ہیں؟

ڈاکٹر وزیرآغا:،میں اردو ادب کا ایک معمولی سا لکھاری ہوں ،پچھلے60,65برس کے دوران میں جو برا بھلاادبی کام میں نے کیا ہے اہلِ ادب کے سامنے ہے،اب ان آخری ایام میں جب بقول غالب،قوا،مضمحل میں اور عناصر میں اعتدال باقی نہیں ،میں کسی ،پلاننگ، کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
نوٹ:خاکسار(ابنِ عاصی)نے اردو ادب کی عظیم شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ انٹرویوجنوری2007میں لیا تھا،جوبعد ازاں نہ صرف میری کتاب،مسائلِ ادب اور اہلِ نظر، میں شائع ہوا بلکہ شاہد شیدائی اور عابد خورشید نے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاکسار سے پوچھے بغیر اس کو ڈاکٹر وزیر آغامرحوم کے انٹرویوز پر مبنی اپنی کتاب،نئے مکالمات، کی زینت بنایا۔
Ibne Asi
jhang,pakistan
0333-6741972
ابن عاصی

Share

۲ thoughts on “ڈاکٹروزیرآغا سے ایک انٹرویو۔ ۔ ۔ ۔ انٹرویونگار: ابنِ عاصی”

Comments are closed.

Share
Share