مرقعِ حیدرآباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share

murraqa مرقعِ

مرقعِ حیدرآباد

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کہتے ہیں ،، ماضی ایک اجنبی ملک ہے اور بیرون ملک سے آنے والے اس ملک کی زبان نہیں سمجھ سکتے،،۔لیکن علامہ اعجاز فرخ کے سلسلے میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ ماضی کے باشندے ضرور ہیں لیکن حال سے بے خبرنہیں۔ماضی کے کھنڈر کا ہر پتھر اُن سے سرگوشی کرتا ہے بلکہ ہوا بھی اُن کی رازدارہے۔علامہ حال کی زبان ہی سے نہیں بلکہ اُس کے لہجے کی کھنک سے بھی واقف ہیں ، اسی لئے وہ نہ صرف ماضی کو حال سے پیوست کرنے کا ہنر جانتے بلکہ ماضی کے رنگ کی ترسیل پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔
دلّی کی تہذیبی تاریخ کسی نہ کسی طرح محمد حُسین آزاد،ڈپٹی نذیر احمد،خواجہ حسن نظامی،پروفیسر آغا حیدرحسن دہلوی نے محفوظ کی۔ لکھنؤکی مرصع تاریخ رجب علی بیگ سرور ‘عبدالحلیم شرر،جعفر علی خان اثر،قرۃالعین حیدر ‘ جیسے قلمکاروں کی روشنائی میں اپنے پورے خدوخال کے ساتھ محفوظ ہے۔حیدر آبادکی تاریخ تو مرتب ہوئی، اسے کئی زاویوں سے دیکھا گیا لیکن اس کی تہذیب اور شہر نشینی کی تفصیلی تاریخ شائد ہی لکھی گئی ہو۔اس شاندار تاریخ کے بیشتر لمحات اور کردار اس لائق ہیں کہ انھیں زر نگاری سے محفوظ کیا جانا چاہئے۔

علامہ اعجاز فرخ سے کون ادب دوست واقف نہیں۔کوئی چالیس سال سے زیادہ عرصے سے وہ روزنامہ سیاست میں لکھتے رہے ہیں اور اپنی مخصوص طرز نگارش اور اسلوب کی وجہ سے منفرد بھی ہیں۔ مرقع حیدرآباد اُن کی ایک بیش بہا تصنیف ہے جو حیدرآباد کی مرصع تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔یہ تاریخ صرف شاہی کی تاریخ نہیں بلکہ انسانوں کی سانس لیتی ہوئی تاریخ ہے جس میں ہر لمحہ بات کرتا سنائی دیتا ہے۔ علامہ کے ذخیرے میں قدیم حیدرآبادکی بیش بہا تصویریں ہیں۔یہ کتاب اپنے متن کے علاوہ ان بیش قیمت تصویروں سے مزیّن ہے۔ اُنہوں نے اس مُرقع کو دو حصوں میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔قطب شاہوں کی آمد سے میر محبوب علی خان آصف سادس تک، پہلی جلد اور میرعثمان علی خان کے عہد سے انضمام ریاست تک دوسرے حصے میں شامل رہے گا۔دونوں جلدیں ایک ہزار سے زیادہ تصویروں اور اس سے کچھ زیادہ علامہ کے زور قلم سے کھینچی ہوی تصویریں صدیوں کے سرمایہ کو نئی نسل تک پہنچانے کا سامان فراہم کریں گی۔ان کی پچھلی کتابیں ،حیدرآباد شہر نگاراں اورگلمسز آف حیدرآباد کو نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب نے حیدرآباد آکر ریلیز کیا تھا اور ستائش کی تھی۔خامہ خوں چکاں اپنا،عکس حیدرآباد حصہ اول و حصہ دوم،مطبخ آصفیہ سب اپنی اشاعت کے دو مہینے کے اندر اندر فروخت ہو گئیں۔علامہ اعجاز فرخ کا مزاج کچھ ایسا ہے کہ ،،نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ،،وہ اپنے قاری کو اپنا سرمایہ اور اپنا انعام تصور کرتے ہیں۔ پچھلی کتابوں کی قیمت اُن کے ناشرین نے زیادہ رکھی،کتابیں تو فروخت ہوگئیں لیکن اُن کے قاری اُسے حسرت سے دیکھتے رہ گئے۔ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ علامہ کتابت‘کاغذ ‘روشنائی اورنفیس طباعت سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے ‘ علامہ سے ،جہان اُردو، کی گزارش ہے کہ اس کتاب کو عام قاری کی رسائی تک کا اہتمام کریں ۔آپ اپنی رائے جہان اردو یا راست علامہ تک بھی پہنچاسکتے ہیں۔
گزشتہ پچیس ہفتوں سے علامہ کے مضامین جہانِ اردو کے صفحات کی زینت بنتے آے ہیں جسے احباب نے خوب سراہا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ مضامین کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
’’مرقع حیدرآباد‘‘ سے ایک صفحہ ملاحظہ ہو۔
‘‘تنقید کرنے والوں نے یہ بھی لکھا کہ بھاگ متی قلی قطب شاہ سے عمر میں کچھ بڑی تھی۔لیکن یہ لکھتے وقت وہ یہ بھول گئے کہ عشقِ حُسن کے سن و سال نہیں دیکھتا اُس کی سوغات دیکھتا ہے۔بھاگ متی بھی اگرحقیقت رہی تو قطب شاہ کی اور کہانی رہی تو قطب شاہ کی۔البتہ ایک حوالہ یہ ضرور ملتا ہے کہ تخت نشینی کے آس پاس اُس نے ابراہیم قطب شاہ کے وزیر میر شاہ میر کی بیٹی سے عقد کیا ضرور تھا۔لیکن دونوں میں کوئی رسم وراہ نہ بڑھ سکی ویسے یہ لڑکی قلی قطب شاہ کے بڑے بھائی حسین قطب شاہ سے منسوب بھی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد اُس نے میر شاہ میرکو ایران روانہ کردیا اور وہ لڑکی بھی باپ کے ساتھ رخصت ہوگئی۔
قلی قطب شاہ کو شادی کے بعد بارہ برس تک اولاد کی دولت نہ ملی۔یہ شاخ تمنا ہری نہ ہوسکی۔ایک شام جب امور سلطنت سے فارغ ہوکر وہ اپنی خلوت میں پہنچا تو روپ سنگھار دیکھ کر اُسے ایسا لگا جیسے اُس نے بھاگ متی کو پھر ایک نئے روپ میں دیکھ لیا ہو۔رُخِ زیبا پرجھولتی ہوئی خوبصورت لٹ کوچھیڑتے ہوئے اُس کی اُنگلیاں رخسار سے مس ہوگئیں تو بھاگ متی کا چہرہ گلنار ہوگیا اورپلکیں فرطِ مسرت سے اور جھک گئیں۔حسن کبھی شرماکر خرمن دل پر بجلی گرادیتا ہے کبھی تغافل میں جرأت آزما ہوکر خاکستر کردیتا ہے۔قلی قطب شاہ نے جلووں کی چھوٹ کی تاب نہ لاکر پوچھا: خیر تو ہے؟ آج ناوک فگنی کے انداز ہی کچھ اور ہیں۔تھوڑی کو تھوڑا سا اوپر اُٹھا کر رُخ اپنی طرف پھیرا تو بھاگ متی نے قطب شاہ کے فراخ سینے پر سر رکھ دیا۔انگلیوں کی پور سے پیرہن کو دھیرے سے چھو کرکے شکوہ سنج ہوئی۔ ’’حضور کو ہمارے لئے فرصت کہاں۔آپ کوتو ریاست سے فرصت نہیں ملتی۔یہی کیا ہم ہے کہ آج کنیز کی یاد آگئی میں تو سمجھوں کہ بھاگ متی کے بھاگ کھل گئے،ورنہ ہوا سے کہہ رکھا تھا کہ حضور کے پیرہن سے مس ہوکر گذرے تو ادھر سے ہوکر گذر جائے‘حضور نہ سہی شمیم پیرہن کی سوغات ہی سہی‘‘ ۔
قلی قطب شاہ نے کہا۔ ’’جناب کا شکوہ بجا ہے۔ہم ہرجائی ہیں‘بے وفا نہیں ۔امور سلطنت میں کھوضرور گئے لیکن قسم لے لیجئے جو آپ کے خیال سے غافل رہے ہوں‘‘ ۔یہ کہہ کر بانہوں میں سمیٹنا چاہا تھا کہ وہ جل دیکر پہلو سے یوں نکل گئی جیسے خوشبو سے گل جدا ‘یا پھر کنارِ شوق سے ہوخوبرو جدا۔ ہجر نہ ہو تو لذتِ وصال کیا اور پھیڑ نا ہو تو کسک کیسی۔خود تڑپی مگر تڑپا گئی۔حُسن بھی ہو اور ناز وادا بھی تو تاج سلطانی اور کج کلاہی سب ڈھیر ہوکر رہ جاتے ہیں اس ہتھیار کے آگے تو شمشیرزنوں کی تلواریں کند ہوجاتی ہیں قطب شاہ تو سلطان بھی تھا عاشق بھی او ر حسن کامحکوم بھی۔
بھاگ متی نے صراحی اٹھائی۔پیمانہ بھر کر روبرو ہوئی لیکن قطب شاہ نے چھوا تک نہیں۔بس چہرہ تکتا رہا۔بھاگ متی نے صراحی دارگردن جھکا کر کہا۔ ’’لگتا ہے عالم پناہ کو کنیز کی گستاخی گراں گذر گئی‘‘۔قطب شاہ نے ہاتھ تھام کر پہلو میں بٹھایا پھر کہا۔’’حسن کے آنکھوں کی مستی خود پیمانہ ہو تب اُس کے آگے تو شراب خود پانی پانی ہے۔‘‘
قطب شاہ نے کچھ اور رقریب کرنا چاہا تو بھاگ متی نے سینے پر ہلکے سے ہاتھ رکھ کر روک دیا اور کہا نہیں اب نہیں۔قطب شاہ نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ تو بھاگ متی نے شرماتے ہوئے کہا۔’’اس لئے کہ عالم پناہ کوجس قدرت کے تحفہ کا انتظار تھا شاید اب اس کا وقت آگیا ہے‘‘۔قطب شاہ نے وفور مسرت سے بھاگ متی کو یوں بانہوں میں اُٹھا کر گردش دی جیسے کوئی تشنہ لب ساغر اُٹھالے ایسے میں ہوا کی نغمگی گنگنا اُٹھی۔’’جام آہستہ ذرا گردش جام آہستہ‘‘
برہم گیسوئے شب اور پھر چاندنی کا نکھار۔قلی قطب شاہ سراپا انتظار۔وقت جیسے چلتے چلتے تھم گیا۔‘‘

Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
,NEAR SRAVANI HOSPITAL HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612
ای میل :
مرقعِ

Share

۵ thoughts on “مرقعِ حیدرآباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share