عصرِحاضرمیں طنزومزاح ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعابد معز

Share

Abid Moiz طنز و مزاح

عصرِ حاضر میں طنزومزاح
مقبولیت اور معیارکے عدم توازن کا شکار

ڈاکٹرعابد معز
موبائل  09502044291
ای میل
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مزاح اور طنز کیا ہے؟ ان الفاظ کی تعریف مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے کی ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے ایک مضمون ’مزاح: تعریف اور نظریات‘ میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگوکی ہے۔ مجھے یہ تعریف جامع نظر آتی ہے کہ مزاح، عمل، تقریر یا تحریر کی وہ صفت ہے جو تفریح، نرالاپن، مذاق، ہنسی، ظرافت اور غیر سنجیدگی کو برانگیختہ کرتی ہے۔ مزاح کی ایک دوسری تعریف یہ ہے کہ مزاح کا مقصد ہمیں ہنسانا ہے۔ دورِ حاضر میں ہنسی کی ضرورت اور افادیت پر سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور ماہرین اس رائے پر پہنچے ہیں کہ انسانی صحت کے لیے ہنسی ناگزیر ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر فرمان شیخ فتح پوری کا فرمان بھی سن لیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہنسنا ہنسانا جس کا ادبی نام طنزومزاح یا شوخی ظرافت ہے، آدمی کا جبلی عمل ہے۔

مزاح کی طرح طنز کی بھی کئی تعریفیں ہیں۔ مجھے یہ تعریف پسند آتی ہے کہ طنز، ایک ادبی اسلوب ہے جس میں کسی فرد، بنی نوع انسان یا مکتبہ فکر کی کم زوریوں ، برائیوں اور بد اخلاقیوں کو اصلاح کے خیال سے تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بنایا جاتاہے۔
مزاح اور طنز دو مختلف خصوصیات ہیں۔ انگریزی ادب میں انہیں الگ الگ صنف مانا جاتاہے لیکن اردو زبان میں بالعموم ان دو مختلف خوبیوں کو یکجا کرکے برتا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر رؤف پاریکھ، اردو ادب میں طنز اور مزاح اس طرح گھلے ملے اور یک جان ہوتے ہیں کہ ان کی الگ الگ سرحدوں کی نشان دہی بے حد دشوار بلکہ تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ مزاح اور طنز ، دو مختلف لفظوں کے لیے ’فکاہیہ‘ بھی مستعمل ہے۔
اردو ادب میں ’طنزومزاح‘ کو ایک صنف اور اسلوب کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ کوئی طنزومزاح کو ایک صنف مانتا ہے تو کوئی اسے اسلوب کا درجہ دیتا ہے۔ یہ بات اکثر بحث کا موضوع ہوتی ہے۔ دلائل دونوں جانب موجود ہیں۔ آپ کی مرضی، طنزومزاح کو اسلوب کے طور پر اپنائیے یا اسے صنف کا درجہ دیجیے۔ جہاں تک وہ جو کہتے کہ میری ناقص رائے کی بات ہے میں طنزومزاح کو ایک اسلوب مانتا ہوں۔ میں نے اس ہیئت یا طرزِتحریر سے افسانے لکھے ہیں جن کو شگفتہ افسانوں کا نام دیا ہے جن کی اشاعت مختلف رسالوں جیسے رابطہ، اردو پنچ، اردو ڈائجسٹ، کتاب نما وغیرہ میں فکاہیہ اورطنزومزاح کے زمرے میں ہوئی ہے۔ کوئی دس سال تک سعودی عرب کے پہلے اردو رسالے ’اردو میگزین‘ میں ’فکاہیہ‘ کے عنوان سے کالم لکھتا رہا۔ مختلف انشائیے اور مزاحیہ مضامین بھی لکھا ہے جن کا ایک مجموعہ ’فارغ البال‘ شایع ہوچکا ہے۔
اردو ادب کی تقریباً اصناف میں طنزومزاح کو برتا گیا ہے۔ موجودہ دور میں تقاریر، لیکچرز اور گفتگو میں تک طنزومزاح کا سہارا لیاجارہا ہے۔طنزومزاح کے کی مدد سے سب سے زیادہ لطیفے تخلیق کیے جاتے ہیں۔ لطیفہ طنزومزاح کے سہارے کی گئی مختصر تخلیق ہوتی ہے جو ہمارے لیے مسرت اور انبساط کا سامان فراہم کرتی ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت کم ہے۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر کہانیاں اور ناولیں پڑھنے کی بجائے مختصر تحریروں کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ انگریزی کہاوت بھی ہے کہ Brevity is beauty۔ اردو ادب میں طنزومزاح کی مختصر تحریروں کا مقام ابھی طے نہیں ہوا ہے لیکن ان کی مقبولیت میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس موضوع پر کام ہونا باقی ہے۔ میں اس موضوع پر اپنی بات کو ایک لطیفے پر ختم کرتا ہوں۔ گبرسنگھ اور Cardiologist میں کیا مماثلت ہے؟ جواب: دونوں ایک ہی ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ ’تونے نمک کھایا ہے، اب گولی کھا۔‘
یہ عجیب بات ہے کہ اردو ادب میں اور اردو والوں کے درمیان طنزومزاح کو غیرسنجیدہ کام سمجھا جاتا ہے۔ اردو طنزومزاح کو غیرسنجیدہ، پھکڑپن اور مسخرے قسم کے لوگ تخلیق کرتے ہیں اور اسی قسم کے لوگ طنزومزاح کو پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو زندگی کی سنجیدگی کا کوئی اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ اردو والوں کی خوش بختی رہی ہے کہ سنجیدہ لوگوں کی طنزومزاح کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خدا نے محترم مشتاق احمد یوسفی اور ان جیسے دوچار مزاح نگاروں کو اردو کی جھولی میں ڈال دیا۔ وگرنہ اردو والوں میں طنزومزاح اتنا معتبر بھی نہ ہوتا جتنا کہ آج ہے۔
میں آپ کو اپنا تجربہ بتاؤں۔ مزاح یوں ہی تخلیق نہیں ہوتا، اچھا طنزومزاح تخلیق کرنا بہت سنجیدہ اور مشقت طلب کام ہے۔ اس کے لیے بہت سوچنا پڑتا ہے۔ غوروفکر کرنا ہوتا ہے۔ بڑی دور کی کوڑی لانی ہوتی ہے۔ لیکن طنزومزاح کا جو نتیجہ نکلتا وہ سارے کیے کرائے پر پانی پھیردیتا ہے۔ تمام سنجیدگی اور محنت سے تخلیق کیے گئے طنزومزاح کا نتیجہ زیرِلب تبسم، مسکراہٹ اور ہنسی ہوتی ہے۔ زیادہ محظوظ ہوئے تو قہقہہ لگادیا۔اگر لطیفہ سن کر ہنسنے اور قہقہہ لگانے کی بجائے سنجیدگی سے واہ واہ ، کیا کہنے، بہت خوب کہنے کا رواج ہوتا تو طنزومزاح کو بھی اسی سنجیدگی سے لیا جاتا جس طرح ادب کی دوسری اصناف کو لیاجاتا ہے۔ اب تو طنزومزاح کو ہنسی میں اڑانے کا رواج پڑگیا ہے۔
طنزومزاح جہاں سنجیدگی سے کیاجانے والا تخلیقی عمل ہے وہیں یہ ذہانت اور فطانت کا کام بھی ہے۔ ثبوت کے لیے چند دن پہلے سوشیل میڈیا پر پڑھی ہوئی دو ایک چیزیں پیش کرتا ہوں۔
* بہو، ناریل اور داماد اندر سے کیسے نکلیں گے؟ کوئی دانا سے دانا شخص بھی نہیں بتاسکتا۔
* کھچڑی ایک ایسی ڈش ہے جو کچن میں کم لیکن لوگوں کے دماغوں میں زیادہ پکتی ہے۔
* ایک لطیفہ یوں ہے کہ دوزخ میں چند عورتیں مستیاں کررہی تھیں۔ شیطان نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کون ہیں جو یہاں بھی خوش ہیں؟ فرشتہ نے جواب دیا۔ یہ سسرال میں ستائی ہوئی بہوئیں ہیں۔ دوزخ میں آتے ہی ایڈجسٹ ہوجاتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ بالکل سسرال والا ماحول ہے۔
ان لطیفوں میں استعمال ہونے والی ذہانت پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کیا آپ نے کسی پاگل کو لطیفہ سناتے ہوئے دیکھا ہے؟ نہیں بلکہ یہی نہیں ان پر ہنسنا اور انہیں ٹارگٹ کرنا کم ظرفی کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھلے آدمی کا کہنا ہے کہ انسان جب زندگی میں طنزومزاح سے دور ہونے لگتا ہے تو وہ پاگل پن کے قریب ہوتا ہے۔
یوں تو طنزومزاح ہر زبان اور ہر دور میں مقبول رہا ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کی مقبولیت اور قبولیت میں مستقل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ پچھلے تیس چالیس برسوں میں طنزومزاح کی شہرت بہت زیادہ بڑھی ہے جبکہ عام زندگی میں سنجیدہ ادب کی اہمیت کم ہوتی دیکھی گئی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ طنزومزاحیہ ادب زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔
بیس ویں صدی کے آخری دہے میں مواصلاتی نظام میں انقلاب آیا۔ موبائل فون بہت عام ہوئے اور موبائل فون پر ایس ایم ایس(شارٹ مسیج سروس) یعنی مختصر پیام رسانی ، ایک ایسی سہولت دستیاب ہوئی جس کی بدولت ایک دوسرے کو دنیا بھر میں کہیں سے کہیں بھی سستے دام یا مفت پیام کی ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ ایس ایم ایس کے ذریعہ اہم پیامات کے علاوہ لوگ ایک دوسرے کو مختلف پیامات جیسے مبارک باد، یاد دہانی یا دعوتی پیام بھی ارسال کرتے ہیں۔مختصر پیام رسانی تفریح اوروقت گذاری کا محبوب مشغلہ بن گیا ۔ نوجوانوں نے تو انتہا کردی۔ ہروقت ہاتھ میں سیل فون اٹھائے پیامات روانہ اور وصول کرتے نظر آتے ہیں۔ پیامات ارسال کرنے کے مختلف ریکارڈز بھی بنائے جارہے ہیں، جیسے زیادہ سے زیادہ پیامات ارسال کرنا، ایک منٹ میں زیادہ لفظوں کو سیل فون پر ٹائپ کرنا، وغیرہ۔
ارسال کردہ پیامات کااگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کام کے پیامات کے بعدباقی پیامات کی اکثریت کا تعلق طنزومزاح سے ہوتا ہے۔لوگ دلچسپ اور پر لطف مختصر پیامات ارسال اور وصول کرکے محظوظ ہوتے ہیں اور اس مقصد کے لیے نئے نئے مزاحیہ جملے اور فقرے تراشے جارہے ہیں۔ لطیفے اور چٹکلے وضع ہورہے ہیں۔ قافیہ پیمائی اور تک بندی ہورہی ہے۔ الفاظ موزوں کرکے شاعری کا نام دیا جارہاہے۔
آپ نے اپنے موبایل فون پر پیامات وصول کئے ہوں گے۔ میرے سیل فون پر بھی پیام آتے ہیں۔ حالیہ دوایک ہفتوں میں وصول ہونے والے درجنوں پیامات میں سے چند ، جو یاد رہ گئے ہیں، پیش خدمت ہے۔
* ایک ٹرک دوسرے ٹرک کو کھینچ رہا تھا۔ سردار جی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوکر گر پڑے اور بولے۔ ’ایک رسّی کا ٹکڑا اٹھانے کے لیے دو ، دو ٹرک!‘
* دل ہار جاؤ مگر ہمت نہ ہارنا۔
* آپ ہماری گلی میں آئے ، تھوڑا شرمائے، تھوڑا اترائے، تھوڑا مسکرائے، تھوڑا گھبرائے اور پھر زور سے چلائے۔’خالی ڈبہ، بوتل اور پلاسٹک دو اور برتن لے لو!‘
* بھکاری: پچاس پیسے دیدے۔ میں نے تین دن سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ کنجوس: پچاس پیسے نہیں، دس روپے دوں گا۔ پہلے یہ بتا پچاس پیسے میں کھانا کہاں ملتاہے؟
* غصّے کا آنا مرد ہونے کی نشانی ہے اور غصّے کو پی جانا شادی شدہ مرد ہونے کی نشانی ہے۔
*
ایسی دوستی ہماری کہ دل چاہے تو ہر سفر ہر ڈگرمیں ملے

مر بھی جاؤں تو یاری رہے قائم تو بازو کی قبر میں ملے
ایک دوسرے کو بھیجے اور وصول کئے جانے والے پیامات کس معیار کے ہیں اور ان میں زبان اور بیان کی کتنی غلطیاں ہیں ، یہ الگ بحث ہے لیکن ہمیں یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ طنزومزاح کی صنف کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔
سٹیلائٹ اورٹیلی ویژن نے ہماری زندگی میں دھوم مچادی ہے۔ہندوستان میں 1970ء کے دہے میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا۔ دن میں چند گھنٹوں کے لیے ایک یا دو چینل پروگرام پیش کرتے تھے۔ اب تیس چالیس برس بعد یہ حال ہے کہ دیڑھ دو سو چینل چوبیس گھنٹے پروگرام پیش کررہے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر کوئی چاہے بھی تو ہر دن سبھی چینل نہیں دیکھ سکتا! لوگ اپنی اپنی پسند کے چینل دیکھنے لگے ہیں۔ یہ لوگوں ہی کی پسند ہے کہ چند چینل صرف مزاح کے لیے مختص ہیں جو چوبیس گھنٹے مزاحیہ پروگرام پیش کرتے ہیں۔ دوسرے چینل پر بھی مزاحیہ پروگرام کو اہمیت اور فوقیت دی جاتی ہے اورانہیں پرائم وقت پر نشر کیا جاتا ہے۔
مزاح کی اہمیت کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نیوز چینل پر بھی طنزومزاح کے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ اخبار میں طنزومزاح کے کالم کی طرح نیوز چینل کے ان پروگرام میں روزمرّہ کے مسائل، سیاسی حالات، قائدین کے بیانات پر طنز کے تیر برسائے اور مزاح کے پھول کھلائے جاتے ہیں۔ ایسے پروگرام کی بھی خاصی مقبولیت ہے۔
ٹیلی ویژن پرنہ صرف مزاحیہ پروگرام مقبول ہیں بلکہ ان کے اینکر بھی مشہور ہیں اور ہورہے ہیں۔ مزاحیہ پروگرام پیش کرنے والے اداکاروں کی شہرت اور مانگ دوسرے اداکاروں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔تھوڑی سی کوشش پر کئی نام گنائے جاسکتے ہیں۔
سٹیلائٹ چینل اور ٹیلی ویژن پروگرام اشتہارات کی مدد سے چلتے ہیں۔اگر مناسب تعداد میں اشتہارات نہ ملیں تو چینل بند ہوجاتا ہے یا پروگرام کھٹائی میں پڑ جاتا ہے ۔ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اشتہارات کا مقصد چند لمحوں میں پیام کو ناظرین کے ذہن نشین کرواناہوتا ہے۔ اسی لیے اشتہارات کو جاذبِ نظر ، دلکش اور دلچسپ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔مشتہرین اپنے پیام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے مزاح کا سہارا لیتے ہیں۔ مشتہرین جانتے ہیں کہ ہلکے پھلکے انداز میں اپنی بات دوسروں تک بہت موثر طریقے سے پہنچائی جاسکتی ہے ۔ دوچار لمحوں میں مطلب کی بات کہہ دینا جسے ناظرین پلے باندھ لیں، مزاح کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اگرآدھا یا ایک گھنٹہ ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھیں تو ہمیں مزاح کی تجارتی اور معاشی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ اس وقت مجھے دوچار اشتہار یاد آرہے ہیں۔
کچرے کے ڈھیر کے پاس سے ایک لڑکا ’چھی۔۔۔‘ کہتے ہوئے دوڑا چلاجاتاہے۔ دوسرا لڑکا ’ایں۔۔۔‘ کرتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوتا ہے لیکن تیسرا لڑکا مشہور صابن کے پیکنگ کاغذ کو ناک پر لگائے اطمینان سے گنگناتے ہوئے گذرتا ہے۔ایک دوسرے اشتہار میں ایک صاحب کار سے ٹیکہ لگائے کھڑے تھے اور پھر اچانک گرپڑے۔ انھیں احساس ہی نہیں ہوا کہ کب کار اسٹارٹ ہوئی اور چل پڑی۔ یہ کار انجن میں استعمال ہونے والے تیل کا اشتہار ہے۔ایک اور اشتہار میں ایک چھوٹی بس میں گنجائش سے کہیں زیادہ لوگوں کو ایک دوسرے سے چپکے اطمینان سے سفر کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ بس کے پیچھے چپکاؤ مادّہ (Adhesive) بنانے والی کمپنی کا نام لکھا ہوتا ہے۔
ان اشتہارات کو مثال کے لیے پیش کرنا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کئی ناظرین کی طرح میرے ذہن میں یہ اشتہارات اور ان میں پیش کردہ اشیا محفوظ ہیں اور یہ کام مزاح نے انجام دیا ہے۔
ٹیلی ویژن اور سٹیلائٹ چینل نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو بہت حد تک گھٹادیا ہے۔ لوگ پڑھنے سے زیادہ دیکھنے اور سننے پر مائل ہیں۔ اس کے باوجود پڑھنے لکھنے کی اپنی افادیت ہے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے لوگ اب بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرتے ہوئے اخبار اور رسائل نکل رہے ہیں۔ ان میں طنزومزاح کا حصّہ بڑھتا جارہا ہے۔ مشہورزمانہ رسالہ ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ میں مزاح کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ قارئین سے لطیفے اور مختصر مزاحیہ تحریرں اور واقعات روانہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ سب سے اچھا لطیفہ یا تحریر بھیجنے والے کو چار، پانچ سو ڈالر کا انعام دیا جاتا ہے۔ ریڈرز ڈائجسٹ کو سینکڑوں کی تعداد میں مزاحیہ واقعات اور لطائف وصول ہوتے ہیں، جنہیں مختلف عنوانات کے تحت شائع کیا جاتا ہے ۔ہیومر ان یونی فارم، کیمپس ہیومر، ہیومر اٹ ورک، Laughter is the best Medicine اور All in a Days Work جیسے چند عنوانات اس وقت یاد آرہے ہیں۔ دیگر رسالوں میں بھی مزاح کو اہم مقام دیا جاتا ہے ۔ مزاحیہ تخلیقات کو اہتمام سے شایع کیا جاتا ہے اور ان کی مانگ ہر دم رہتی ہے۔
موجودہ دور میں کارٹون کی اہمیت اور افادیت ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ گئی ہے۔ اخباروں میں کارٹون پہلے صفحہ کی زینت بنتے ہیں۔ ہرمشہور اخباراپنا ایک کارٹونسٹ رکھتا ہے۔ اخباروں میں اوسطً تین چار کارٹون چھپتے ہیں۔کارٹون اسٹرپ بھی مقبول ہیں۔ بعض اخباروں میں چار پانچ کارٹون اسٹرپ ہر دن چھپتے ہیں۔ رسالوں میں بھی کارٹون اہتمام سے شایع ہوتے ہیں۔کارٹون کے لیے بھی چینل مختص ہیں جو چوبیس گھنٹے کارٹون پروگرام پیش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر چینل پر بھی کارٹون دکھائے جاتے ہیں۔ کارٹون کہنے کے لیے تو بچوں کے لیے ہوتے ہیں لیکن بڑے لوگ بھی انہیں دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ یہاں یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ کارٹون مزاح کی ایک قسم ہے۔
مزاح کے مختص چینل مشہور ہوئے لیکن طنزومزاح کے اخبار اور رسالے شرف قبولیت نہ پاسکے۔ یہ فرق قابلِ غور ہے۔ انگریزی زبان میں مزاح کے چند رسالے جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے ہی نام کماسکے۔ پنچ ایک طویل عرصہ تک ہر ہفتہ شائع ہونے کے بعد1992ء میں بند ہوا۔ امریکہ سے نیویارکر نامی رسالہ ابھی جاری اور ساری ہے۔طنزومزاح کے لیے مختص رسالوں کا خاطرخواہ کامیاب نہ ہونا لیکن جرائد میں طنزومزاح کے حصّے میں اضافہ ہونا شاید اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگ زندگی میں مزاح چاہتے ہیں لیکن زندگی کو مذاق بنانے کے خلاف ہیں۔
پچھلے پندرہ بیس برسوں کے دوران رسائل اور اخبارات میں مزاح کی اہمیت اور فوائد پر مستقل اور مسلسل مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ مزاح پر باضابطہ تحقیق ہورہی ہے۔ حسِ مزاح کو چھٹی حس قرار دیا جارہاہے۔ ہنسی کو علاج غم بتایا جارہا ہے۔ مزاح کو تناؤ اور ذہنی الجھن کا علاج کہا جارہا ہے۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ہنسی سے بلڈ پریشر میں کمی ہوتی ہے۔ قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپسی تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ قصّہ مختصر موجودہ دور کی زندگی میں غذا، پانی اور ہوا کی طرح مزاح بھی ضروری ہے۔ انسانی زندگی میں ادب کی کسی دوسری صنف کی افادیت پر اتنی زیادہ نہ بات ہوئی ہے اور نہ ہی تحقیق ہوئی ہے۔ یہ رتبہ صرف طنزومزاح کو حاصل ہوا ہے۔
طنزومزاح کی شہرت اور مقبولیت میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو اسے سوشیل میڈیانے پوری کردی۔اب ہمارے چھوٹے سے موبائل فون پر نت نئی سہولتیں دستیاب ہونے لگی ہیں۔ ہم اپنے خیالات اور احساسات کو منٹوں میں دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں اور ان کے دماغوں میں جو چل رہا ہے اسے جان بھی سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں سوشیل میڈیا کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہنے اور ایک دوسرے کے خیالات اور احساسات جاننے کی سہولت حاصل ہے۔ سوشیل میڈیا پر پہنچتے ہی ہمارا استقبال طنزومزاح سے ہوتا ہے۔ مختلف سمتوں سے مزاحیہ جملے، حکایتیں اور لطیفے ہمیں ہنسانے اور خوش کرنے کے لیے چلے آتے ہیں۔ چند نمونے پیش ہیں۔
*جو قوم مہنگے جوتے خریدنے میں فخر اور سستی کتاب خریدنے میں دخت محسوس کرے، اس قوم کو کتابوں سے زیادہ جوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
* کسی نے ایک شادی شدہ شخص سے پوچھا۔ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بولا۔ جو میرا دل کہتا میں کرتا تھا۔
*غریب کھانے کی تلاش میں بھاگتا ہے۔ امیر کھانا ہضم کرنے کے لیے بھاگتا ہے۔ کتنی عجیب ہے یہ دنیا۔
* اگر انڈے کو باہر سے توڑا جائے تو زندگی دم توڑدیتی ہے جبکہ انڈا اندر سے ٹوٹے تو زندگی جنم لیتی ہے۔
* فرق تو صرف استعمال کا ہے۔ بعض قلم انقلاب لے آتے ہیں اور بعض صرف شلوار میں ناڑا ڈالنے کے کام آتے ہیں۔
طنزومزاح کی اہمیت اور افادیت اور طنزومزاح کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کو محسوس کرتے ہوئے میں نے بیسویں صدی کے اختتام پر ایک مضمون میں پیشن گوئی کی تھی کہ اکیس ویں صدی طنزومزاح کی صدی ہے۔ اس تحریر میں میں نے طنزومزاح کی مقبولت پر خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ طنزومزاح کی مقبولیت کے منفی پہلوؤں پر بھی مجھے نظر ڈال لینی چاہیے تھی۔
پہلی بات میں نے یہ محسوس کی ہے کہ عصر حاضر میں طنزومزاح کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور اس کی شہرت میں اضافہ بھی ہوا ہے لیکن اس کے معیار میں خاطرخواہ یا مقبولیت کی رفتار جیسا اضافہ نہیں ہوا۔ طنزومزاح کے معیار کا کینوس بڑا وسیع ہے۔ایک طرف خالصتاً ادبی مزاح تو دوسری طرف پکھڑپن، بھانڈپن اور معیار سے گرا ہوا مزاح ہے۔ موجودہ دور کے طنزومزاح میں یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ تخلیق کاروں کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ سامعین اور ناظرین کو ہنسنے اور قہقہے لگانے پر اکسانا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کچھ بھی کرنے تیار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کو ہنسانے کے اس مقابلے میں غیرمعیاری اور عامیانہ طنزومزاح تخلیق ہورہا ہے۔
طنزومزاح کی مقبولیت کے ماحول میں معیاری اور ادبی طنزومزاح کی تخلیق متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے بیس پچیس برسوں (ربع صدی) میں ادبی طنزومزاح کے افق پر کوئی ایسا نام ابھر کر نہیں آیا جسے سارے ہندوستان کے لوگ پسند کرتے بلکہ جانتے ہوں گے۔ ماضی کے بڑے نام ہی عصرحاضر کے طنزومزاح کے بھی بڑے نام ہیں۔ موجودہ دور میں طنزومزاح کے بڑے نام نہ ابھرنے کی دوسری وجوہات بھی ہوں گی۔ اس موضوع پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
طنزومزاح کی تخلیق یا کوئی اور تخلیق کا ایک اہم منفی پہلو یہ ہے کہ بعض تخلیق کار اپنی حد کو پھلانگ کر دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اپنی تخلیق سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا نام ’آزادئ اظہار‘ رکھاجاتا ہے۔ کسی بھی چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ دنیا میں کوئی شے لامحدود یا بغیر کوئی حد کے نہیں ہے۔زندگی کی حد موت ہے۔ اگر موت زندگی کی حد نہ ہوتی تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ بعض لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے ہوں گے۔
اس مختصر جائزے سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمارے دور کا طنزومزاح مقبولیت اور معیار کے عدم توازن کا شکار ہے۔ طنزومزاح کو خاصی مقبولیت ملنے کے باوجود وہ دوسرے اور تیسرے درجے اور غیر سنجیدہ ادب ہونے کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے میں ناکام ہے۔
* * *
Dr. Abid Moiz
Hyderabad – Deccan
فیس بک صفحہ

Share

۲ thoughts on “عصرِحاضرمیں طنزومزاح ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعابد معز”

Comments are closed.

Share
Share