کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو (تبصرہ)
مصنفہ: راسیہ نعیم ہاشمی
مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
انسان کی زندگی میں شادی ایک فطری ضرورت اور اہم سماجی ذمہ داری کی تکمیل ہے۔ ہر نارمل انسان شادی شدہ زندگی گذارتا ہے۔ اور خاندانی زندگی گذارتے ہوئے دنیاکے نظام کو آگے بڑھاتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کے مختلف قبائل اور مہذب سماج میں شادی کے مختلف طریقے رائج ہیں جن میں مذہبی تعلیمات سے روشنی حاصل کی گئی ہے۔ بدلتے وقت اور دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں مرد اور عورت کے درمیان طے پائے جانے والے اس مقدس رشتے کے تقدس کو پامال کرنے کی مثالیں بڑھتی جارہی ہیں۔ جہیز کے نام پر لڑکیوں پر مظالم‘ عورتوں کی عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات‘ شادی میں رکاوٹ کے سبب نوجوانوں میں بڑھتی بے راہ روی اور بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں جیسی سنگین وجوہات کے پیچھے شادی جیسے ادارے کو غلط سمجھنا ہے۔ شادی کے بارے میں یوں تو لطیفے مشہور ہیں کہ شادی ایک ایسا قلعہ ہے جس میں اندر والے باہر اور باہر والے اندر جانا چاہتے ہیں اور یہ کہ جس کی شادی نہیں ہوئی اسے یہ فکر رہتی ہے کہ اس کی شادی کب ہوگی اور جس کی شادی ہوچکی ہے وہ پچھتا رہا ہے کہ اس کی شادی یوں ہوئی وغیرہ۔ لیکن مجموعی طور پر شادی کے بارے میں مغرب کی بے راہ روی کو چھوڑتے ہوئے خود مشرقی اور ہندوستانی
سماج میں شادی دولت مند اوسط اور غریب طبقے کے والدین اور نوجوانوں کے لئے ان دنوں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ شادی کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں‘ وجوہات مسائل اور ان کے ممکنہ حل کو پیش کرتیہوئی اردو میں ایک اہم معلوماتی اور مفید کتاب ’’ کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور اس کتاب کی مصنفہ حیدرآباد کی ایک مشہور خاتون صحافی راسیہ نعیم ہاشمی ہیں۔ جو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی اسکالر ہیں اور روزنامہ سیاست کی ویب سائٹ پر خبروں کی پیشکشی کے کام سے وابستہ ہیں۔ وہ ارد وکی ایک ابھرتی اور مقبول کالم نگار بھی ہیں۔ ان کے مزاحیہ اور سنجیدہ مضامین روزنامہ منصف اور سیاست میں مستقل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ راسیہ نعیم ہاشمی اردو کی ان اسکالرس میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم سی جے کیا اور اردو میں سماجی صحافت سے وابستہ رہیں۔ راسیہ نعیم ہاشمی کی اس سے قبل دو تصانیف ’’ بتیسی‘‘ مزاحیہ مضامین کا مجموعہ 2005ء اور ’’ تین سو چونسٹھ دن مردوں کے ایک دن خواتین کا‘‘ مضامین کا مجموعہ 2012ء شائع ہو کر مقبول ہوچکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو‘‘ دراصل ان کے ایم فل کے تحقیقی مقالے کی بعد ترمیم و اضافہ کتابی شکل ہے۔ انہوں نے یہ مقالہ یونیورسٹی کے شعبے سماجی اخراجیت و شمولیت پالیسی کے تحت لکھا تھا جس میں دنیا بھر میں شادی کی رسومات اور قوانین ‘ہندوستان میں مختلف اقوام میں شادی کے احوال اور مسلم معاشرے میں شادی کی بدلتی صورتحال اور شادی کے لئے موجودہ دور میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور مسائل کو اعداد و شمار اور تجزیے کے ساتھ پیش کیا گیا اور حیدرآباد میں رشتے جوڑنے کے پروگرام دو بدو کے بشمول دیگر عوامل پیش کرتے ہوئے شادی میں آسانی اور سماج کے ایک اہم مسئلے کے حل کی یکسوئی کی کوشش کی گئی ہے۔ راسیہ نعیم ہاشمی نے اپنے تحقیقی مقالے کو کتابی شکل دیتے ہوئے اس کے عنوان ’’ کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو‘‘ سے ہی لوگوں کی توجہ اس اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ اردو یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم نسوان کی پروفیسر ڈاکٹر آمنہ تحسین نے لکھا ہے۔ وقت کی اہم ضرورت سمجھے جانے والے اس موضوع پر تحقیقی کتاب پیش کرنے کے لئے فاضل مصنفہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر آمنہ تحسین لکھتی ہیں کہ’’ راسیہ نعیم ہاشمی دلی مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں ے ایک اہم موضوع کو تحقیق کے لئے منتخب کیا اور نہایت معروضی و جامع انداز میں اس مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی اور اپنی تحقیق کے حاصل شدہ نتائج کو مسلم معاشرے کے روبرو پیش کیا۔۔ اب یہ مسلم معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس آئینہ میں نظر آنے والی مسلم لڑکیوں اور خواتین کی بگڑی تصویر کی بحالی اور درستگی کی طرف کس طرح توجہ دیتے ہیں۔‘‘( ص۔)
راسیہ نعیم ہاشمی نے آغاز سخن کے عنوان سے کتاب میں پیش کردہ تحقیقی مواد کا تعارف پیش کیا اور لکھا کہ اس موضوع پر کام کرنے کے لئے تحقیق کی ایک قسم سوالنامہ اور ان کا تجزیہ کو استعمال کیا گیا ہے۔ اور ہندوستان میں اور خاص طور سے مسلم معاشرے میں شادی میں لڑکی کے انتخاب کے معیارات‘جہیز اور دیگر امور سے متعلق سماج سے تعلق رکھنے والے 200افراد سے سوالنامے کے جوابات حاصل کئے گئے اور انہیں بعد تجزیہ نتائج کے طور پر پیش کیا گیا۔ شادی کا انتظار کرتی مشرقی سماج کی لڑکیوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے راسیہ نعیم ہاشمی لکھتی ہیں۔
’’ شعور کی آگہی کی منزل پر قدم رکھنے کے بعد ہی سے لڑکی خوابوں کی منڈیروں پر ارمانوں کے چراغ جلائے ایک ایسے ہم سفر کا انتظار شروع کردیتی ہے جو اس کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے اور اس کے آرزؤں کی تکمیل کر سکے۔ لیکن اس انتظار کے نتیجے میں اسے وصل صنم کے بدلے بار بار مسترد کئے جانے ‘لین دین اور جہیز کی جانگ جیسی سوغاتیں ملنے لگتی ہیں اور یہ انتظار طویل تر ہوجائے یہاں تک کہ کالی گھٹاؤں کے پیچھے سے چاندی کے تار نظر آنے لگیں تو
ذرا تو سوچئے اس دل کا کیا حال ہوگا تلاش گل میں جو پتھر کی چوٹ کھا جائے( ص۔ ۷)
کتاب کے ابتدائی باب میں ’’ شادی مختلف ادوار اور اقوام میں‘‘ کے عنوان سے دنیا کے مختلف علاقوں اور قبائل میں شادی سے متعلق معلومات دی گئی ہیں۔ خاص طور سے ہندوستان میں بچپن کی شادی اور آپسی رشتہ داریوں میں شادیوں سے متعلق مفید معلومات دی گئی ہیں۔اور مختلف علاقوں میں رشتے کے انتحاب کے پیمانوں کو اعداد شمار کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔کتاب کے دوسرے باب’’ شادی حیدرآباد ی مسلم معاشرے‘‘ کے تحت حیدرآباد میں فی زمانہ رشتے کے انتخاب سے لے کر شادی تک ہونے والے مراحل کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح دکھاوے میں ڈوبے معاشرے میں لڑکی کو دیکھا پرکھا جاتا ہے اور اس کے انتخاب سے قبل اسے کس قدر ذہنی کرب سے گذارا جاتا ہے۔ حیدرآباد جہاں اپنی گنگا جمنی تہذیب ‘اردو زبان کی مٹھاس اور دیگر اچھی باتوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں گذشتہ دو تین دہائیوں سے شادی بیاہ کے معاملے میں اسراف اور دکھاوے کے لئے بدنام ہوتا جارہا ہے۔ ضرورت رشتہ کے ایک اشتہار کی جانب راسیہ نعیم ہاشمی نے توجہ دلائی جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’ کالی یا سانولی لڑکی کے والدین زحمت نہ کریں‘‘۔لڑکیوں کے انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں راسیہ نعیم ہاشمی لکھتی ہیں کہ’’ لڑکیوں کی بھیڑ بکریوں کی طرح جانچ کرکے کھانا پینا اور پھر اس طرح غائب ہوجانا جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘روز کا معمول بن گیا ہے۔ لڑکی والے بے چارے آس کی شمعیں جلائے اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ شائد کوئی دوسری بار بھی ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹادے۔ اس طرح لڑکی دیکھنے والے لڑکی کے معصوم دل کو روندتے ہوئے اس کے جذبات سے کھیلتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔اور یہ احساس بھی انہیں نہیں ہوتا کہ انہوں نے خدا کی تخلیق کی ناقدری کے ساتھ ساتھ اس کے دل پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جو کہ مستقبل بعید میں اسے ذہنی مریضہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی‘‘( ص ۔50)
کتاب کے اگلے باب’’لڑکیوں کی شادی کی نسبت پر اثر انداز ہونے والے عوامل ‘‘ میں راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ لڑکی کی شادی کی موزوں عمر18سے 25سال ہے۔ اور حاصل کردہ اعداد شمار میں 40فیصد لڑکیاں جن کی شادی ہوئی ہے وہ اسی عمر کے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ 28سال کے بعد لڑکی کی شادی کے لئے اسے سمجھوتے کا ذکر کیا گیا کہ والدین لڑکے کے بارے میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور کسی طرح عمر پار کرجانے والی اپنی لڑکی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ راسیہ ہاشمی نے یہ نہیں لکھا کہ کن وجوہات کی بناء لڑکی شادی کی عمر پار کرجانے کے باجود بن بیاہی رہ جاتی ہے جب کہ خوبصورتی کے دنیاوی پیمانے میں کمی‘غربت یا کوئی جسمانی معذوری لڑکی کی شادی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ آگے راسیہ ہاشمی نے لکھا کے کثیر العیال والدین کے لئے بھی اپنے بچوں کی شادی مسئلہ بنتی ہے۔اعداد شمارے کے تجزیے سے انہوں نے واضح کیا کہ جس گھر میں ایک سے ذائد لڑکیاں ہیں وہاں شادی کے مسائل ہیں۔شادی کے مذہبی‘فطری یا سماجی فریضہ کے سوال کے جواب میں ذیادہ تر لوگوں نے اسے مذہبی اور سماجی کہا ہے۔ جو بہت حد درست ہے۔22فیصد نے فطری اور13فیصد نے اخلاقی سہارا قرار دیا ہے۔لڑکے کے اتنخاب کے پیمانے میں راسیہ نعیم ہاشمی نے جو اعداد شمار پیش کئے ہیں ان میں معاشی استحکام‘تعلیم اور اخلاق کو لوگوں نے ترجیح دی ہے۔ جو موجودہ معاشرے کی عکاسی ہے۔اس سروے میں لڑکی اور والدین دونوں کی پسند کو پیش کیا گیا ہے۔موزوں رشتے کی تلاش میں رکاوٹ کے عوامل بیان کرتے ہوئے راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ لوگوں کے معیارات اونچے اور خواب و خیال کے ہوتے ہیں اور انہیں حقیقت میں بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو ہو نہیں پاتا۔ اسی لئے رشتوں میں تاخیر ہورہی ہے۔رشتوں کے لئے مناسب ذرائع اختیار کرنے کے سروے میں دکھایا گیا کہ 50فیصد سے ذائد لوگ آج بھی رشتے داروں اور دوست احباب کی رہبری پسند کرتے ہیں جب کہ ضرورت رشتہ کے اشتہار ‘پیامات کے دفاتر اور انٹر نیٹ وغیرہ بھی لوگوں کے لئے کچھ حد تک معاون ثابت ہورہے ہیں۔شادی طے ہوجانے کے بعد جہیز کا مطالبہ اور معیاری شادی بھی مسلم سماج کا بڑا مسئلہ ہے۔ 70فیصد لوگ جہیز کو غلط مانتے ہیں لیکن دینے کے لئے مجبور ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے۔راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ خوف خدا نہ ہونا اور سماج میں اپنے رتبے کو اونچا دکھانے کی آرزو جہیز اور اسراف کی لعنت کو بڑھاوا دے رہی ہے۔کتاب کے اگلے باب شادی میں تاخیر اور اس کے اثرات میں مصنفہ نے کیس ہسٹری کے طور پر کئی لڑکیوں کی مثالیں پیش کیں جو مختلف غلط وجوہات کی بنا شادی نہیں کر سکیں اور ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ دوبدو پروگرام کے عنوان سے راسیہ نعیم ہاشمی نے ادارہ سیاست اور مائنارٹیز ڈیویلپمنٹ فورم کی جانب سے چلائے جانے والے رشتہ جوڑ پروگراموں کی اہمیت واضح کی جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔2008ء میں شروع ہونے والے اس اختراعی رشتہ جوڑ پروگرام کے اب تک 30مرحلے ہوچکے ہیں۔ اس پروگرام کی اہم خوبی یہ ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم پر والدین کو بغیر خرچ کے مناسب رشتے مل جاتے ہیں اور پروگرام میں اسراف اور جہیز کی لعنت سے پرہیز کرنے کی تاکید سے شادیوں میں آسانی بھی ہورہی ہے جس کے لئے مدیر سیاست جناب زاہد علی خان صاحب اور ان کے احباب قابل مبارک باد ہیں۔کتاب کے اختتام پر راسیہ نعیم ہاشمی نے مسئلے کے حل کے طور پر سماج کے سرکردہ افراد‘علمائے کرام اور دیگر معززین سے گذارش کی ہے کہ وہ شادی بیاہ کو آسان بنانے کے لئے کونسلنگ مراکز قائم کریں اور لڑکیوں کو سماج میں ان کا مستحق مقام دیتے ہوئے شادی کے ادرارے کو مستحکم بنائیں ورنہ انہوں نے متنبہ کیا کہ شادی میں رکاوٹ سے سماج بے شمار برائیوں کا مرکز بن جائے گا جس سے زندگی درہم برہم ہوگی۔ اس طرح راسیہ نعیم ہاشمی نے اپنی کتاب’’کبھی تورنگ مرے ہاتھا کا حنائی ہو‘‘ کو جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں انگریزی اور اردو کی بے شمار کتابوں کے حوالے دئے گئے ہیں اور اردو قارئین اور مسلم معاشرے کو پیش نظر رکھ کر مواد پیش کیا گیا ہے۔ ارد و میں تفتیشی جرنلزم ‘نسوانی تحریک کی آواز اور تحقیق کے نئے اندازکے لئے یہ کتاب اچھی مثال قرار دی جاسکتی ہے اسی کے ساتھ ساتھ تمام رشتوں کے مراکز اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کتاب خانے میں اس کتاب کو رکھا جانا چاہئے اور اپنے بچوں کے رشتوں کے لئے متلاشی والدین اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بھی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ دیدہ زیب ٹائٹل ‘ خوبصورت انداز پیشکش کی حامل اردو اکیڈیمی کے تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 200روپے رکھی گئی ہے۔ ہدی بک ڈپو نے کتاب کو شائع کیا ہے جسے مصنفہ سے ان کے مکان نمبر16-10-274/9ریس کورس اولڈ ملک پیٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔