اردومیں تدوین متن کی روایت ۔ ۔ ۔ محمد خرم یاسین ۔ فیصل آباد

Share

khurram yaseen

اردو میں تدوین متن کی روایت 

تحریر: محمد خرم یاسین : سکالر پی ایچ ڈی(اردو)
فیصل آباد ۔ پاکستان

نوٹ : مضمون نگار‘فیصل آباد کا ایک ریسرچ سکالر ہے لیکن دکنی متون سے متعلق جو معلومات انہوں نے دی ہیں وہ بہت محدود ہیں۔ دکنی ادب کی تحقیق و تدوین سے متعلق مضامین اس سائٹ پر لگاے جاتے رہے ہیں اور بہت سے مضامین آنے باقی ہیں ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تدوینِ متن ایک ترکیب ہے جو اضافت کے ذریعے تدوین اور متن کوجوڑے ہوئے ہے ۔ لفظ تدوین ، عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ہیت میں مونث ہے اور ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ اس کا معنی تالیف کرنا، جمع کرنا یا مرتب کرناہے۔ ۱ ؂
جبکہ لغات کشوری میں تدوین کے معنی’’ جمع کرنااور تالیف کرنا‘‘کے ہیں۔ ۲ ؂
اضافت کے بعد اگلے سہہ حرفی لفظ متن کے معنی کتاب کی اصل عبارت،کتاب،کپڑے یا سڑک کے بیچ کا حصہ، درمیان، وسط، درمیانی اور پشت کے ہیں ۔ ۳ ؂
متن انگریزی لفظ Textکا ہم معنی ہے جو کہ عبارت یا عکس، نقشِ عبارت کے زمرے میں آتا ہے ۔ ڈا کٹر تنویر احمد علوی نے اسٹنڈرڈ اردو ڈکشنری کے صفحہ نمبر ۱۲۰۸سے اس کی تعریف یوں نقل کی ہے۔

مصنف کے اصل الفاظ، کتاب کی اصل عبارت (شرح وغیرہ سے قطع نظر کر کے ) ، کتاب الہٰی انجیل (وقرآن) وغیرہ کی آیت یا آیات جو کسی وعظ یا مقالے کے مو ضوع یا سند کے طور پراستعمال کی جائیں ۔ متن کتاب کامضمون(حواشی وغیرہ سے قطع نظر کر کے)۔جلی خط،نصاب کی کتاب،درسی کتاب ۔ ۴ ؂
پروفیسر ایس ایم کاترے نے متن کی تعریف اپنی کتاب Indian Textual Criticim Introductioin to میں صفحہ نمبر ۲۷پر اس طرح سے کی ہے:
By a text we understant a document written in a language known more or less to the inquirer and assumed to have a meaning which has been or can be ascertained. Sinca a text implies a written document, the knowledge of writing has to be presumed the basis of our study.
تدوین درحقیقت کیاہے ؟ اس حوالے سے پروفیسر خالق داد ملک اپنی کتاب ’’تحقیق وتدوین کا طریقہ‘‘میں اس طرح سے رقمطراز ہیں :
’’اردو زبان میں تدوین عربی میں تحقیق اور انگریزی میں ایڈیٹنگ (Editing)ایک جدید اصطلاح ہے جس سے مراد مخطوطہ (قلمی کتاب)کو ایسی شکل میں متعارف کروانا ہے جیسے کہ اس کے مولف نے اسے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا۔ وہ قابل مطالعہ و قابل فہم ہوجائے اور مقرری معیارات کے مطابق اسے مدون شکل میں پیش کیاجائے۔لہٰذا یہ کہا جاسکتاہے کہ کسی مخطوطہ کی تدوین کا عمل اس بات کا تقا ضا کرتا ہے کہ مخطوطہ کا عنوان،اس کے مولف کا نام، مخطوطہ کی مولف کی طرف نسبت ، مخطوطے کی عبارت اور اس میں آنے والے تمام مواد کواول لفظ سے آخری لفظ تک پوری تحقیق، تصدیق اور ضبط کے ساتھ مرتب و مدون کیا جائے اور اسے ایسی صورت میں منصہ شہور پر لایا جائے جواس کے مولف کی وضع کردہ صورت کے بالکل مطابق ہو۔ ‘‘ ۵ ؂
مخطوطہ کی بحث میں اس سے مراد ایسی ہر قلمی کتاب ہے جو مولف نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہو یا اس کے شاگردوں میں سے کسی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو یا ان کے بعد آنے والے کاتبوں نے اسے ہاتھ سے تحریرکیاہو۔ تدوین کے حوالے سے مخطوطہ سب سے اہم مقام رکھتا ہے۔اس کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے پہلی اور سب سے زیادہ اہم اصل نسخہ ہے جسے خود مصنف نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہو۔ یہ نسخہ اصلیہ یا نسختہ الام بھی کہلاتاہے جس کو انگریزی میں Orignal Copy کہا جاتا ہے جبکہ اس کے بعد جو نسخہ اصل نسخے سے کاپی کیا گیا ہو وہ اہمیت کاحامل ہے۔ اس کے بعد فرعی نسخے جنھیں اصل یا ثانوی نسخوں سے نقل کرکے تیار کیا گیا ہو ۔ کوئی نسخہ جو اصل نسخے سے جتنا قریب العھد ہوگا اتنا ہی اہم ہوگا۔ اگردنیا بھر میں مخطوطات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تویہ اندازہ لگاناہر گز مشکل نہیں ہوگا کہ یہ کام اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ فنِ کتابت۔انسان نے جب سے لکھنا پڑھنا سیکھا تبھی سے مخطوطات کاآغاز ہو گیاتھالیکن یہ مخطوطات کاغذ پر نہیں لکھے گئے تھے۔انسان نے اول اول تو اپنے خیالات کے اظہار و ابلاغ کیلئے پتھروں پر ان کی ترجمانی لکھنے کی صورت کی جس کا پہلا روپ عجیب و غریب اشکال کی صورت میں تھا۔بعد میں یہی اشکال علامات اور پھرالفاظ کی صورت میں ڈھلنے لگیں۔پھر یہ فن مذہبی عبارات و آیات کو دیواروں پرکندہ کاری کرنے کی طرف مائل ہوا ۔ وہاں سے مخطو طات کی حفاظت کے لیے چمڑے اور پتوں کا استعمال کیا جانے لگا جنھیں انسان نے لکھنے کیلئے استعمال کیا۔بہت ساری جگہوں پر کپڑا بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوا۔ اس کے بعد چین کے ایک موجدتسائی لون نے کا غذ کی ایجاد کے ساتھ ہی یہ سہرا اپنے سر باندھ لیا اور دنیا بھر میں
فنِ کتابت تیزی سے پر وان چڑھنے لگا۔ اس طرح دنیا بھر میں مخطوطات کی تاریخ میں سب سے پہلے مخطوطات کی اقسام پتھروں کی تھی،دوسری چمڑے، پتے ،کپڑے اورتیسری کاغذ کی۔
جب ان مخطوطات کی جانچ پرکھ کا کام شروع ہوا اور انھیں سمجھنے اور جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام شروع ہوا تو تدوینِ متن کا آغاز ہوگیا۔ یو ں عرفِ عام میں کہا جا سکتا ہے کہ تدوینِ متن کی اصطلاح سے مراد ہے کہ مصنف کی اصل عبارت کو احسن انداز میں جمع کرنا اور ترتیب دینا۔یہ ترتیب اس طرح کی ہو کہ اصل اورنقل عبارت میں فرق واضح کر سکے اور یہ بیان کر سکے کہ اصل عبارت میں کہاں کہاں اور کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں۔اس حوالے سے پروفیسر S.Mکاترے نے متنی تنقید کی بھی وضا حت کی ہے جو کہ تدوینِ متن سے جُڑی ہوئی ہے ۔
’’متنی تنقید کاکام مخطو طات کی داخلی کیفیات کی شہادت پر مصنف کے متن تک پہنچنے کی کوشش ہے ‘‘ ۶ ؂
گو کہ اردو میں مخطوطات کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے بل کہ یہ مورخین کے مطابق اردو کے جنم لینے کے بعد آغاز پذیر ہوئی اور اسی لحاظ سے مخطوطات کی تدوین بھی بہت زیادہ پرانا کام نہیں لیکن اگر دنیا بھر کی زبانوں میں موجود مخطوطات کی تدوین کے حوالے سے دیکھا جائے توحقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اردو میں اس سے قدرے بے اعتناعی برتی گئی بل کہ اعلیٰ درجے کے مدونین کی تعداد بھی محدود رہی ہے ۔ مخطو طا ت کی کم یابی کی ایک وجہ لائبریریوں میں اور ذاتی ذخیروں میں موجود مخطوطات کی جانب عدم توجہی بھی ہے۔
ڈاکٹر عطا الرحمن میو اردو میں تدوینِ متن کی روایت کے حوالے سے اس طرح رقمطراز ہیں :
’’اردو میں ادب میں کتابوں کی تصنیف و تالیف کا باقاعدہ باضابطہ ادارہ ایشیا ٹک سوسائٹی (بنگال )کے نام سے 15جنوری 1784سے وارن ہینگٹو (Warren Hastings)کی سرپرستی میں قائم ہوا۔ اس کے پہلے بانی صدر سر ولیم جونز کے بیان کے مطابق اس ادارے کا دائرہ کار ایشیا کے علمی ، تمدنی اور تاریخی کارناموں کی تحقیق مغرب کے جدید اصولوں کے مطابق کرنا تھی۔ اس کے بعد 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قا ئم ہوا جس کا مقصد انگریز افسروں کے واسطے، جو تازہ وارد ہوئے تھے ، ایسی کتابیں تیار کی جائیں جن سے انتظام ملکی اور ہندوستانیوں کے ساتھ میل جول اور ربط و ضبط بڑھانے میں آسانی ہو۔‘‘ ۷ ؂
اردو میں تدوین کے ابتدائی دور میں اس کی صورت کیسی تھی اس حوالے سے رام بابو سکسینہ ، تاریخِ ادب اردومیں اپنی تحقیق ان الفاظ میں سمیٹتے نظر آتے ہیں:
’’ان اداروں میں جو کتب تحریر ہوئیں ، ان کا تدوینی معیار بہت حد تک ابتدائی شکل میں تھا لہٰذا ناقص تھا۔آج امتدادزمانہ سے متعدد پہلوؤں سے مخطوطات اور مسودات کی ترتیب و تدوین میں جدید اصولوں کے مطابق اضافہ ہوتا ہے ، ترمیم و تنسیخ ہوتی ہے ۔ اضافہ یا ترمیم و تنسیخ ان معنوں میں نہیں کہ تحریف کی جائے بل کہ ان معنوں میں کہ وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کا املا اور جملے میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر میں جو تغیر آتا ہے جب یہ مسودہ تدوین کی سان پر چڑھتا ہے تو اسے مدون اپنے دور کے اصولوں کے مطابق تیار کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال باغ و بہار کا وہ نسخہ ہے جسے رشید حسن خا ں نے مرتب کیا ہے۔ باغ و بہار، میر امن نے فورٹ ولیم کالج میں ملازمت کے دوران تحریر کی۔ میر امن کے دور میں الفاظ کا جو املا رائج تھا جو بعض محاورات و الفاظ رائج تھے ، امتدادِ زمانہ سے وہ متروک ہوگئے۔ بعد میں ان کا املا بدل گیا۔ رشید حسن خاں نے جب اسے مدون کیا تو الفاظ کا وہ املا اختیار کیا جو آج رائج ہے‘‘ ۸ ؂
ایک اور جگہ پر ڈاکٹرعطا الرحمن رائے دیتے ہیں کہ اردو ادب میں تصنیف و تالیف کا کام اسی دور میں شروع ہوا جب تدوینِ متن کی پاس داری کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ چھاپہ خانے کے رواج سے پہلے قلمی نسخوں کی نقول تمام تر کاتبوں اور خطاطوں کی مر ہونِ منت تھیں۔ وہ نقلِ متن کو مروجہ اسلوب کے مطابق اور کچھ اپنی افتادِ طبع کے مطابق نقل کردیتے تھے ۔ اس میں بہت سی لغزشیں بھی ہو جاتی تھیں اور تحریف و التباس کا دروازہ بھی کھل جاتا تھا۔
درجہ بالا بحث کے باوجوداردو میں متنی تنقید بالکل نئی نہیں ہے۔اس کاسِرا اردو کے اس پہلے دور سے جڑا ہوا ہے جب بارھویں صد ی عیسوی کے شاعر امیر خسرو نے اردو شاعری کی جو داغ بیل ڈالی اس کلام کو اکٹھا کرنے اوران کا ذکر اردو کے اولین شعرا کا تذ کرہ کر نے کی بابت بات ہوئی ، تب سے ہی تدوینِ متن کا بے قاعدہ آغاز ہوا۔ لیکن یہ تدوین تذکروں میں اردو و فارسی شعرا ء کے تذکروں اوران کے نمو نہ کلام سے آگے کچھ اور نہیں تھی۔ تذکروں سے چلنے والا سلسلہ بہت آہستگی سے تدوین کے مراحل میں داخل ہوا۔ بہر حال ابھی تک پاک و ہند کی تاریخِ ادب میں تحقیق کی دو صورتیں دست یاب ہیں اول کا تعلق متون کی تدوین سے ہے جبکہ دوئم حقائق کی بازیافت اور ان کی تفہیم و تحلیل سے تعلق رکھتی ہے ۔ تحقیق کی پہلی قسم میں کلاسیکی ادب کا حصہ زیادہ رہا ہے اور اس میں چوں کہ کلام (نظم اور نثر)دونوں ہی مخطوطات کی صوررت میں دست یاب ہیں اس لئے ان کی تدوین ایک مشکل مر حلہ بھی ٹھہرا اس سلسلے میں ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش اپنی کتاب ’’اردو میں اصولِ تحقیق‘‘ کے مقدمہ میں اس طرحسے رقمطراز ہیں :
(چوں کہ)قدیم مشرقی زبانوں کا کلاسیکی ادب زیادہ تر مخطوطات کی شکل میں ملتا ہے اور انھی قلمی نسخو ں کی مدد سے ان کی ہےئت اور حدودتک رسائی ممکن ہے اس لیے کہ ہر متن ایک مستقل وجود ہے اور اپنی مختلف روایتوں کی شکل میں اپنے میں ایک سے زیادہ ذیلی وجود رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں متون کی صحیح ہےئت اور حدود روایت کا تعین ایک نہایت اہم، مشکل مگر نتیجہ خیز کام ہے، جس کیلئے غیر معمو لی سطح پر ذہنی کاوش اور اہتمام تلاش جزئیات ضرور ی ہوتا ہے ، اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔ اس میں بہت سوجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے اور روایتہ اوردرایتہ صحیح اخذ کرتا ہے ۔ ترتیب متن کا کام سائنسی نہ ہوتے ہوئے بھی ایک سائنسی طریقہء کار کاتقاضا کرتا ہے جس سے مآ خد کی جستجو اور معیاری بندی ہو سکے۔ ۹؂
اردوکو بطورِ زبان شروع ہوئے کم و بیش چھ سو سال ہو چکے ہیں مگر تدوین کا کام ابھی تک نا مکمل ہے ۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ اردو میں تدوین کے ذرائع مخطوطات اور تذکرے ہی تھے جن سے کسی بھی شاعر یا ادیب کا کلام تدوین کیا جا سکتا تھا اس لئے اردو میں تدوینِ متن کا ذکر ان تذکروں کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اردو میں تدوین کو بنیاد ی صورت عطا کی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضرور ی ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد ؔ اس نظرےئے کے قائل ہیں کہ اردو میں پہلے نظم اور اس کے بعد نثر کی ایجاد ہوئی ۔ اس لیے اردو میں تدوین کے حوالے سے شعرا ء کرام کے کلام کا ہی زیادہ حصہ ملتا ہے ۔اس زبان میں جو تذکرے لکھے گئے ہیں وہ اردو تحقیق کے ابتدائی نقوش ہیں ۔ تذکروں کے بعد محمد حسین آزادؔ کی ’’آبِ حیا ت ‘‘ سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آبِ حیات تذکرہ نویسی اور باقاعدہ تاریخ نویسی کے درمیان مضبوط کڑی ہے۔ اگرچہ اس پر بہت اعتراض کیے گئے اور اس کے بعض معلومات کو غیر مستند قرار دیا گیا تاہم آبِ حیات کی بنیادی حیثیت کے بارے میں کلا م نہیں ۔
اردو میں تحقیق و تدوین کے حوالے سے سر سید احمد خان کی علم دوست تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی وجہ سے جو نیا علمی اور سائنسی رُجحان پیدا ہوا، اس سے تحقیق کو بھی تقویت پہنچی۔ بیسویں صدی میں اس روایت کی مزید توسیع محمودشیرانی ، ڈاکٹر عبدالحق، مولوی محمد شفیع، قاضی عبدالودود مسعود حسن رضوی اور امتیاز علی عرشی جیسے بلند پایا محققین ادب کے ہاتھوں ہوئی۔ آزادی سے پہلے ہی ہند و پاک میں نئی آگاہی کے احساس کے ساتھ ساتھ تحقیقی ضرورت کا احساس بھی روز بروز بڑھنے لگا اور تحقیق کی مضبوط اور مسلسل روایت اُسی وقت قائم ہوئیں جب تعلیم کی اعلیٰ جماعتوں میں اردو کو فروغ دیا گیا۔ جا معا ت میں نہ صرف اردو بل کہ دوسری زبانوں اور دوسرے مضامین میں بھی تحقیق پر زور دیا گیا۔ ان مضا مین میں تحقیق کے اصول مغرب سے لیے گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کی تحقیق میں بھی مغربی طریقہ کار سے استفادہ کیاگیا۔ بقول سلطانہ بخشبر صغیر پاک و ہند میں اردو کے مختلف شعبوں میں ہر سطح پر بکثرت تحقیقی کام ہوا ہے ، جن میں لسانیاتی تحقیق قدیم متون کی دریافت ، متون کی تصحیح و ترتیب،اصناف ، عہد اور مشاہیر ادب پر تحقیق، حوالے کی کتابوں کی فہارس ، نادر مخطوطات کی فہارس، ادبی تاریخیں اور تبصرے تصنیف ہوئے ۔ اس عرصے میں تحقیق کا اتنا زیادہ کام ہوا ہے کہ ان کا اجمالی جائزہ لینا بھی مشکل ہے۔
متون کو صحت کے ساتھ پیش کرناتحقیق و تدوین میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس سلسلے میں پاک و ہند دونوں جانب کے محققین نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ پاکستا ن میں اس حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی نے فخرا لدین نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤ، دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی اردو ادب کے حوالے سے اہم کام کیاجبکہ دکنی ادب کی دریافت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی مرتبہ نصرتی کی مثنوی ’’من لگن‘‘رستمی بیجا پوری کی مثنوی ’’خاورنامہ‘‘مرتبہ چاند حسین شیخ، شاہ تراب بیجا پوری کا’’ دیوان تراب‘‘مرتبہ ڈاکٹر سلطانہ بخش اور شاہ قاسم اورنگ آبادی کا ’’‘دیوان‘‘مرتبہ سخاوت مرزا پہلی بار ترتیب و طباعت سے مزین ہوئے ۔ ان کے علاوہ ایک نایاب بیاض، دکنی شعراکے چند نایاب مرثیے، مثنوی ’’برہ بھبھوکا‘‘مثنوی ’’مثل خالق باری ‘‘ اور ’’ارشاد نامہ ‘‘دیوان ولی کا غیر مطبو عہ کلام اور مثنوی ’ ’ معنو ی ‘ ‘ پا کستا ن کے مختلف علمی اور ادبی رسالوں میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر خلیق انجم نے خواجہ بندہ نواز سے منسوب معراج العاشقین ، جاوید وشسٹ نے سب رس کے حوالے سے قصہ حسن و دل ، ڈاکٹر غلام عرفان نے غواصی کی مثنوی مینا ستونتی، ڈاکٹر مسعود حسین خان نے بیدری ’’پرت نامہ‘‘ مبارزالدین رفعت اور زینت ساجدہ نے ’’کلیاتِ شاہی ‘‘کو مرتب کیا۔ دیوا ن ہاشمی ’’کلمتہ الحق ‘‘مثنوی چندر بدن و مہیار، قصہ رضوان شاہ و روح افزا، مثنوی طالب و موہنی، علی نامہ، گلشنِ عشق ، مثنوی تصویرِ جاناں، پنچھی راچھا، کلیات غواصی اور من سمجھاون بھی بڑے سلیقے سے مرتب کر کے شائع کیے گئے۔ پاکستان میں شمالی ہند کی منظومات کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں فگار دہلوی کا کلام، اسمٰعیل امروہوی کی دو مثنویاں ’’وفات نامہ بی بی فاطمہ اور معجزہ انار‘‘مسدس رنگین، شاہ حاتم کا’’ دیوان زادہ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، عالم شاہ ثانی کے فرزندجہاں وار شاہ کا ’’دیوان‘‘مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی (ضمیموں کا اضافہ ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی مزاج کا آئینہ دار ہے )۔ خلیفہ معظم کی مثنوی جنگ نا مہ آصف الدولہ و نواب رام پور ، دیوان حیدری ، شکوہ فرنگ اہم کام رہے ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے منثور اور منظوم کلام کی ترتیب و تدوین کی جا چکی ہے۔
اردومیں تذکروں سے شروع ہونے والی تدوین کا کام اس وقت روز افزوں ہوچکا ہے ۔اب اسے سائنسی بنیادوں پر بھی استوار کیا جا رہا ہے اور ایسے سائنسی آلات موجود ہیں جن سے کسی بھی تحریر کا اس کے کاغذاور روشنائی کی تاریخ کا پتہ چلانا ہرگز مشکل نہیں رہا۔ اگر تعداد کے حوالے سے تدوین کا کام دیکھا جائے تواس وقت تحقیق و ترتیبِ متن پرلکھی جانے والی کتب کی تعداد۳۰ سے زائد ہے جبکہ مخطوطات و مطبوعات کی فہرستوں کی بات کریں تو یہ ۲۰ سے زائد موجود ہیں۔ وہ تذکرے جو ابھی تک دریافت ہوسکے ان کی تعدادڈاکٹر سلطانہ بخش نے ۶۵بتائی تھی لیکن اب ان کی تعداد ۷۰ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مرتب کردہ متون کا ذکر کریں تو ان کی تعداد ۷۰ سے قریب ہے۔
***
(حوالہ جات)
۱۔فیروز الغات صفحہ نمبر ۳۱۶،طبع اول،فیروز سنز، لاہور۱۹۶۸ء
۲۔ لغات کشوری ،صفحہ نمبر ۹۶، دارالاشاعت، کراچی
۳۔فیروز الغات صفحہ نمبر۱۰۴۷،طبع اول،فیروز سنز، لاہور۱۹۶۸ء
۴۔تنویر احمد علوی،ڈا کٹر ،اصول تحقیق و ترتیب متن صفحہ نمبر ۲۳، سنگت پبلشرز ،لاہور۲۰۱۳ ء
۵۔خالق داد ملک، پروفیسر ،تحقیق وتدوین کا طریقہ،صفحہ نمبر ۱۱۲، اورینٹل بکس لاہور،۲۰۱۲ ء
۶۔Introductioin to Indian Textual Criticim. Page 30 Prof.S.M Katre,
۷۔ عطا الرحمن میو،ڈاکٹر،تحقیقی مجلہ الماس ، صفحہ نمبر۱۶۸، شعبہ اردو ، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیر پور، سندھ۲۰۱۳ ۔۲۰۱۲ء
۸۔رام بابو سکسینہ ، تاریخِ ادب اردو (ترجمہ مرزا محمد عسکری )صفحہ نمبر ۳۱
۹۔ ایم سلطانہ بخش،ڈاکٹر،اردو میں اصولِ تحقیق،صفحہ نمبر ۱۱،انتخاب مقالات، مقتدرہ قومی زبان طبع اول جون۱۹۸۸ء

Share

۲ thoughts on “اردومیں تدوین متن کی روایت ۔ ۔ ۔ محمد خرم یاسین ۔ فیصل آباد”

Comments are closed.

Share
Share