افسانہ : ضدی
از : حنیف سیّد ۔ آگرہ
موبائل : 09319529720
میل :
میری تحریر پڑھ کرجب اُس نے سگریٹ کی ڈبی مسل کرپھینکی،تب لگاجیسے مرنے کے بعد پھرزندہ ہوگیا مَیں۔ یعنی کہ میری عمرمل گئی اُس کو،مطلب یہ کہ دعاقبول ہوگئی میری۔ جب بھی کوئی عظیم شخص مرتاہے، تب یہی دعامانگتا ہوں کہ وہ زندہ ہوجائے ،اورمَیں مر جاؤں۔ مَیں مر گیا توکیا..؟ایک معمو لی انسان ہی توتھامَیں۔دے ہی کیارہاتھا دنیا کو …؟کچھ بھی تونہیں۔ہاں اگروہ مرجاتا تو …؟تودنیاایک ایسے ا فسانہ نگارسے محروم ہوجاتی ،جو اپنے افسانوں سے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کر رہاہے ۔
ہوایوں کہ ایک روزکھانستے کھانستے جب اُس کاچہرہ سرخ ہوگیا، تومیں نے جھلّا کر کہا:’’یہ سزاہے تمھارے گناہوں کی۔‘‘
’’گناہوں کی سزا،اور میرے..؟‘‘کھانسی کے سبب بہ دِقّت اُس نے دریافت کیا۔
’’ہاں…!تمھارے گناہوں کی۔‘‘
’’وہ کیسے ….؟‘‘
’’ترک فرائض گناہ نہیں کیا…؟‘‘
’’ہاں،ہیں۔ لیکن مَیں کون سا فرض ترک کرہاہوں جناب…؟‘‘اُس نے کھانسی پر قابوپالیا۔
’معمولی سابجلی کاسوئچ دباکر،ٹی۔ وی، ائرکنڈیشنزوغیرہ سے اپنی زندگی کوجنت نمابنالیتے ہو، انٹرنٹ اورموبائل سے جب چاہو، جہاں چاہو،ہرشخص سے آمنے سامنے بات کر لیتے ہو۔ان سب میں استعمال ہونے والے ٹرانسسٹرز،ریزسٹینز،ٹرانسفارمرز،آئی سیزوغیرہ کی ایجادلاکھوں سال کی انسانی جدوجہدکے نتائج ہیں۔جن سے اَب آپ فائدہ اُٹھارہے ہیں۔مثلاًبجلی میں استعمال ہونے والے سوئچ کے پوائنٹز، تانبے یا پیتل کے اِس لیے بنائے جاتے ہیں کہ اُن میں زنگ نہیں لگتی۔یہ پتا لگانے کے لیے کہ کس میٹل میں زنگ نہیں لگتی…؟ یا کون سے میٹل میں بجلی کی روانی بہتر ہے…؟اِنسان کوہزاروں سال لگے۔ا گرآج کاانسان اپنے بزرگوں سے اَخذساری تکنیکز کو اپنے سینے میں دباکرخودکشی کرلے، توآنے والاا نسان پھراُسی جنگل میں پہنچ جائے گا،جہاں وہ برہنہ تھا۔لہٰذایہ ساری تکنیکزانسان پرقرض ہیں،اوراُن کاادا کرنا،یعنی کہ آگے آنے والی نسلوں تک پہنچانا،ہمارافرض ہے۔‘‘
’’اس کے ساتھ یہ بھی کہ انسان جس دیش میں پیداہوتاہے۔اُس کی زمین کادانہ پانی ا ستعمال کر تا ہے ،لہٰذا اُس کاجسم اُس دیش کی امانت ہوتاہے۔جولوگ اپناعلم سینے میں دبائے یعنی کہ اپنے دیش کاقرض اداکیے بنا ،شراب،بیڑی،سگریٹ اور ڈ رِگزوغیرہ سے اپنے جسم یعنی کہ دیش کی امانت فناکرڈالتے ہیں۔ دیش دروہی ہیں۔اُس کے ساتھ دیش دروہی وہ بھی ہیں جو منشیات بناتے ،اوربنانے کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘ چوں کہ غصّے اور کھانسی کے غلبے کے باعث جواب دینے میں اُسے دقّت ہوئی،لہٰذاوہ چپکے سے زنان خانے میں سرک گیا،اور مَیں ذہن پر بوجھ لیے اپنے گھرآ گیا۔
ایک روزیوں بھی ہوا کہ ادبی گفتگو کے دوران، اُس نے کھانستے ہوئے سگریٹ سلگائی تومیراذہن ادبی گفتگوسے اُچھال مار کر اُس کے پھیپڑوں کے جمے کف میں جااُلجھا،اوروہ یکے بعد دیگرے سگریٹ سے سگریٹ سلگاتارہا۔جب چوتھی سگریٹ کے طویل کش سے کھنکار کے ساتھ کف کا لوتھڑا اُس کے مُنہ سے نکل کردورجاگرا،تب میراذہن اُس کے کف سے نکل کراپنی جگہ آگیا:’’یہ سگریٹ موت ہے تمھاری۔‘‘
’’نہیں ! یہ زندگی ہے ہماری۔‘‘اُس نے برجستہ جواب دیا۔اِس سے پہلے کہ میرابلڈپریشرہائی ہوجاتا،وہ پھربولا: ’’ مَیں محسو س کر رہاہوں کہ تمھاراذہن ادبی گفت گومیں کم اورمیری سگریٹ نوشی میں زیادہ اُلجھا ہواہے ۔اِس لیے مَیں تمھارے کسی سوال سے پہلے آگاہ کیے دیتاہوں کہ مجھے کوئی بیماری نہیں،بل کہ بدلے ہوئے موسم کااَثرہے، خدابخشے میری والدہ کو، وہ بھی اِس بادزمہریرسے بری طرح متاثرہوجاتی تھیں،یعنی کہ جب کبھی کشمیروغیرہ میں برف گرتی تھی،توچندہی گھنٹوں بعداُنھیں نزلہ اپنی گرفت میں لے لیتا تھا،اوروہ فرماتی تھیں: ’’ضرورکہیں برف گری ہے۔‘‘
’’کیاوہ بھی آپ کی طرح کف نکالنے کے لیے سگریٹ استعمال کرتی تھیں…؟‘‘
’’نہیں…! میری بات الگ ہے۔‘‘
’’وہ کیا …..؟‘‘
’’ مَیں تفصیل سے بتاوں گا،لیکن تم بارباربیچ میں سوال مت کرو…!گفتگوکرنے کاطریقہ یہ نہیں،طریقہ تویہ ہے کہ اگرکوئی اپنی بات کہہ رہاہو،توغورسے سنو …!جب تک کہ بات پوری نہ ہوجائے، ممکن ہے کہ تم جوسوال کرناچاہتے ہو،اُس کاجواب تم کو اُس کی بات میں مل جائے،اور اگرنہ ملے،تو اپناسوال کرلو۔بیچ میں سوال کرنے سے بات کہنے والاڈسٹرب ہوکراکثرموضوع سے بھٹک جاتاہے۔‘‘بات چوں کہ سچ تھی لہٰذامَیں خاموش رہا۔
’’ہاں…!تومَیں کیا کہہ رہا تھا….؟‘‘اس نے ماتھے پربل ڈال کرذہن پر زور دیا۔
’’آپ کہہ رہے تھے کہ آپ کی بات الگ ہے۔‘‘
’’جی ہاں…!میری بات الگ یہ تھی کہ ماں سے وراثت میں’نزلہ‘کچھ زیادہ ہی ملاتھا مجھے۔اسی نزلے کی بنا پر بیس سال کی عمرمیں ڈاکٹرزنے میرے ایکس رے میں بڑے بڑے داغ دیکھ کرمجھے ٹی۔ بی بتادی تھی ۔جس کے سبب میراایک سال مسلسل علاج چلا ۔صحت یاب ہونے کے دوسال بعدمیرے پھیپڑوں میں ٹی۔بی کے جرثومے پھرپائے گئے ۔پھرعلاج ہوا۔یہ سلسلہ کئی سال چلا۔ واضح رہے کہ تب تک مَیں سگریٹ نوشی کے سخت خلاف تھا۔ مَیں شکر گزار ہوں اُس مضمون نگار کا، جس نے کسی ڈائجسٹ میں سگریٹ نوشی کی سخت مخالفت کے با وجو د ، یہ بھی لکھا تھا:’’نکوٹین کی موجودگی میں ٹی۔بی کے جرثومے نہیں پنپتے۔‘‘یہ پڑھ کر مَیں نے سوچاکہ جس سگریٹ نوشی کومیں آج تکُ مضراور جان لیواسمجھتا رہا ،اورجس کی ہرباشعور شخص مخالفت بھی کرتا ہے،وہ آخر زندگی کے لیے کس طرح معاون ہو سکتی ہے….؟لیکن اپنی زندگی سے مایوس ہونے کے ناتے مَیں نے یہ رِسک لے کر سگریٹ نوشی شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ مَیں چین اسموکر کہلانے لگا۔ حسب معمول مَیں نے پھر چیک اَپ کرایا،تویہ جان کر بے حد حیرت وخوشی ہوئی کہ وہ تمام داغ جو میرے پچھلے ایکس روں میں آئے تھے ، نیست ونابود ہوگئے۔آج اس کوپچیس سال ہو چکے ہیں ،لیکن اَب اُس موذی مرض سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔اِس کے ساتھ ہی ایک واقعہ اور سن لو…..! میرا ایک دوست عامرہے،بچپن میں ہم دونوں نے سگریٹ نہ پینے کے عہدکیے تھے۔پھر وہ پاکستان چلاگیا ۔طویل مدّت بعداُس کا خط آیا ۔ اُس کی تحریر میں ایک جگہ جلے کا نشان تھا۔ اُس نشان پر سوالیہ نشان بنا کرمَیں نے وہی خط واپس کردیا۔ اُس کے بعد جب مَیں پاکستان گیا، تواس کی بیوی ثریّا نے مجھ پر طنز کیا: ’’یہ وہی سوالیہ نشان ہیں کیا ….؟‘‘اورمَیں،’’ہاں بھئی ہاں۔‘‘کہہ کرعامرسے چمٹ گیا۔گفتگوکے دوران ثرّیانے اچانک کہا:’’تم دونوں سگریٹ چھوڑتے کیوں نہیں …..؟‘‘
’’پہلے یہ چھوڑے۔‘‘ مَیں نے عامر کی جانب اِشارہ کیا۔
’’پہلے یہ۔‘‘عامر نے میری جانب انگلی اٹھائی۔ ثریّا بلا کی ذہین تھی ۔خلیل جبران اورٹالسٹائی جیسے قلم کاروں پر گھنٹوں بحث کرنے والی،اُس کے دو بچّیتھے، ایک لڑکا ، اورایک لڑکی ۔لڑکا؛ماں کی شباہت لیے تھا،اورلڑکی ؛باپ کی۔
’’میری کون سی تخلیق پسند ہے تم کو…؟‘‘ثریّا نے دونوں بچّوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا،اورمَیں نے لڑکی کی جانب انگلی اٹھادی۔
’’ہاں……بھئی، تم کواپنادوست عزیزہے نا…؟‘‘وہ مسکرائی۔
’’اورتم کو….؟‘‘پھرثریّانے عامرسے یہی سوال کیا،اورعامرنے لڑکے کی جانب انگلی اٹھادی۔
’’تجھ کو تویہی پسند آئے گا،تیری لیلیٰ کی شباہت جوہے اِس میں۔‘‘مَیں نے عامر کے چٹکی لی۔
’’تم کواس کی قسم ہے۔‘‘ثریّا نے لڑکی کی جانب اِشارہ کر کے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’ اورتم کواِس کی ۔‘‘پھرثریّانے لڑکے کی طرف اشارہ کر کے عامر کومخاطب کیا،اورہم دونوں پربرس پڑی:’’جب تم دونوں سگریٹ چھوڑ دینا، تب ہی ایک دوسرے کوخط لکھنا،ورنہ نہیں۔‘‘
’’اس روز مجھ کو پہلی باراِحساس ہواکہ عورت اپنے شوہر کی کس قدر ہم درد ہوتی ہے،اُس کے بعد میں پاکستان سے چلاآیا،اورپھر تقریباًپندرہ سال گزر گئے،ہم دونوں نے ایک دوسرے کو خط نہ لکھا ،براے کرم آیندہ میری سگریٹ نوشی کو زیرِبحث نہ لانا…..!کیوں کہ مجھے اپنے ماضی کے وہ ایّام یادآجاتے ہیں جن کومَیں فراموش کرچکاہوں۔‘‘عامرنے تاکید کی۔
’’یہ تو مَیں بھی مانتا ہوں،اگرآپ اُس وقت سگریٹ نہ پیتے توغالباً مرجاتے ،لیکن آپ کی دلیلوں کے درمیان میرے ذہن میں جوسوالات اُبھرے ہیں ،اُن کے جوابات جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ چوں کہ مجھ کواُس کی جان بچانی تھی لہٰذامَیں نے مودبانہ اَندازمیں کہا۔
’’کیا تمھارے سوالات میری سگریٹ نوشی سے متعلق ہیں …..؟‘‘اُس کے لہجے میں تلخی تھی۔
’’ہاں۔‘‘اور میرے لہجے میں کپکپاہٹ۔
’’لیکن مَیں جواب دینے کے موڈ میں نہیں ۔‘‘اُس نے صاف انکار کیا،اورمَیں سوچنے لگا کہ کو کبی ومہتابی کی سرشت رکھنے والا وہ اِنسان ، جِس نے سمندر کے سینے چیر کر بحرِظلمات میں گھوڑے دوڑائے ہوں، کیا کبھی تمباکو بھرے ذرا سے کاغذ کے بے جان ٹکڑے کا تابع بھی ہو سکتا ہے؟،اوریہ بھی عجیب شخص ہے کچھ سننے کو تیار ہی نہیں کم بخت.. .!موت کودعوت دیے جارہاہے، لذّت کی للک میں۔مَیں تو سگریٹ چھڑا دوں،لیکن میری سنے تب نا…؟،ور نہ اُن وکیل صاحب سے زیادہ ذہین نہیں،جنھوں نے میری بات سن کراپنی بیس سال کی طلب کو نظر اَنداز کرکے اپنی سگریٹ کی ڈبّی توڑ پھینکی تھی ،اورپھر کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگایا۔اور نہ اُن گھورا دادا سے زیادہ جاہل ،جنھوں نے میری دلیل سن کربیڑی کا بنڈل توڑ پھینکا تھا،اور پھر کبھی بیڑی نہ پی۔
اَبھی اُس روزشہر کے معروف شاعررونق مصوّرکی مردانگی پرچوٹ کی ، تواُنھوں نے بھی کئی معتبرشعرا کے روبہ رو سگریٹ نہ پینے کاعہد نامہ لکھ دیا۔ ،جس کوعرصہ ہو گیا،وہ آج تک اپنے عہد پر قائم ہیں۔سگریٹ تویہ بھی چھوڑیں گے حضرت،لیکن کچھ کرنا پڑے گا۔
کئی ماہ بعدجب اُس کے یہاں پہنچا، تواُس کے ہاتھ میں سگریٹ تھی اور کمرا دُھویں سے بھرا تھا۔مجھے بیٹھنے کااِشارہ کرکے وہ دھوئیں کے مرغولے اُڑاتا رہا۔
’’تمھاری بھابی تو ہیں نہیں،چاے خودہی بنا کرلاتا ہوں تمھارے لیے۔‘‘جب وہ سگریٹ ختم کرکے اندرچلاگیا،تو مَیں نے ایک نظر کمرے کاجائزہ لیا۔میز پر ثریا کاایک لفافہ تھا،مَیں نے جلدی سے اُسے کھول لیا،جس کے جملے کچھ اِس طرح تھے:’’کس قدر سلفش ہوتم دونوں…؟جوایک بے جان کاغذ کے ٹکڑے کے درمیان بھرے زہر کے تابع ہوکر ایک دوسرے کی جان لینے پرتُلے ہو۔جب تم دونوں کواپنی پروانہیں، تواولاد کی کیا ہو گی ۔پھر بھی لکھے دیتی ہوں :’’میرے دونوں پھول ٹی ۔بی. کابھر پور شکار ہوچکے ہیں ۔‘‘اِتنے میں اُس کے آنے کی آہٹ ہوئی اور مَیں نے لفافہ جیوں کا تیوں رکھ دیا۔اُس نے کمرے میں آکر چاے پیش کی،اور خود سگریٹ سلگالی۔ثریا کی تحریر پر بات کرنا تو قیامت تھی،کیوں کہ بنا اجازت تحریر پڑھ لینے کاجرم جو عائد ہوتاتھامجھ پر۔مَیں نے جیسے تیسے چاے چڑھائی اور نکل آیا۔
ایک ہفتہ بعد پھر پہنچاتواُس کی لڑکی کی کھانسی نے میرے ذہن میں آگ لگادی، اور وہ سمجھ گیا،بولا:’’سردی کافی پڑنے لگی ہے،میراہی خون ہے نا…؟وراثت میں کچھ توپائے گی ہی۔پھر اُس نے میرے ہاتھ سے میرا افسانہ براے اصلاح لے کر رکھ لیا۔
اُس کوسگریٹ کے متعلق تحریر کے ذریعے اپنی بات سمجھانے کاخیال تب آیا ، جب مَیں رات کے دس بجے حسبِ معمول باتھ روم میں اپنے جسم پر پانی ڈال چکاتھا۔
لکھنے کا ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔وہ وقت نکل جائے توتحریر میں پھر و ہ بات نہیں آتی۔لہٰذاپلاٹ ذہن میں آتے ہی جسم پر تولیالپیٹ کر فوراً باہر آیا،اور کاغذقلم لے کربیٹھ گیا۔
’’یہ سچ ہے کہ سگریٹ سِلوپائزن ہے،یعنی کہ انسان کی موت۔سگریٹ نے جن حالات کے تحت آپ کو زندگی دی،اُس سے آپ ناواقف ہیں۔یہ تو آپ نے خود ہی تسلیم کیاہے ، کہ اپنی ماں سے وراثت میں ملانزلہ،آپ میں کچھ زیادہ ہی تھا۔دراصل ٹھنڈ پا کرجمے خون کے انفکشن کونزلہ کہتے ہیں ۔یعنی کہ ٹھنڈ پا کرخاص طور سے دماغ اور پھیپڑوں کی نسوں میں خون، کف کی شکل میں جم کر سڑنے لگتاہے ،اور یہی جما ہوا کف آپ کے ایکس رے میں داغ کی شکل میں دکھائی دیاتھا۔جس کے مطابق ڈاکٹرزنے آپ کو ٹی ۔بی کا مریض سمجھ کر علاج کیا۔‘‘
رات کا ایک بج رہا ہے ۔دسمبر کی سردی میرے کُھلے جسم پرپوری طرح اثرکرچکی ہے ۔میرے پھیپڑوں میں خون جم کراُن کے پھولنے اور سُکڑنے میں دِقّت اورتکلیف پیدا کرنے لگا ہے۔اگر کپڑے پہنّے کااِرادہ کروں توپلاٹ ذہن سے واش ہوجانے کاامکان ہے۔
آؤ..! اَب یہ سمجھ لو کہ سگریٹ آپ کو موت کے قریب کس طرح لیے جارہی ہے..؟یہ توآپ نے مان ہی لیا ہوگاکہ سگریٹ کے دھویں نے آپ کے پھیپڑوں کے کف کو سڑا کرباہر کردیا۔تواَب آپ یہ بھی سمجھ لیں کہ وہ دھویں کی پرت اَب آپ کے پھیپڑوں کی اَندرونی پرت پراپنااثر ڈال کراُس کومزید سڑاتی جارہی ہے،اورپھیپڑے دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے ہیں۔اُس کے بعدنسیں سڑ کر اُن سے خون رسنے لگے گا،جوموت کے مُنہ میں دھکیل دے گا۔‘‘
میرادم نکلنے والاہے۔مرتے مرتے مَیں آپ سے ایک سوال کرناچاہتاہوں: ’’آج کے ترقّی یافتہ دورمیں کیاسگریٹ ہی آپ کے پھیپڑوں میں جمے کف کوباہر کرنے میں کامیاب ہے،اور کوئی دوانہیں ….؟‘‘
اَب میرے پھیپڑوں نے کام کرنا بند کردیاہے، میرا جسم ٹھندا ہوچکاہے،یعنی کہ مَیں مر چکاہوں۔
مجھے خوشی ہے کہ میرے مرنے کے بعد پولِس نے میری تحریر کو اخبارات میں شائع کرادیا ۔بہت سے لوگوں کی طرح آپ نے بھی میری تحریر پڑھ کرسگریٹ کی ڈبیّ مَسَل کرپھینک دی ،اورمَیں سگریٹ چھوڑنے والی اُن عظیم ہستیوں کے وجود میں سما گیا ،جن کوآپ کی طرح دنیا میں بہت کچھ کرنا ہے۔
*****
HANIF SYED, 12\ 34,SUI KATRA, AGRA 282003 (U.P)
One thought on “افسانہ : ضدی ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد ۔ آگرہ”
ماشا الله.. بوہت عمدہ افسانہ لکھا ہے اپ نے….ایسے افسانے لکھی جانے چاہیے …..خراج- تحسین پیش کرتا ہوں اپ کو شاہ صاحب.> الله کرے زور قلم اور زائدہ …………ڈاکٹر اظہار احمد گلزار ..