صبحِ زرتاب(شعری مجموعہ)
شاعر:راشداحمد راشدؔ ، حیدرآباد
مبصر: ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرار،ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کا لج
محبوب نگر۔ تلنگانہ
اردوکے اصناف سخن میں غزل کو کا فی مقبولیت حاصل ہے کیونکہ اردو شاعری کا محور غزل کو قرار دیا جاتا ہے،شاعری جمالیات سے تعلق رکھتی ہے اردو شاعری میں بہت سے شعراء نے کافی مقبولت حاصل کی ہیں۔ عصر حاضر میں بھی اردو شاعری کا یہ سفر جاری وساری ہے لیکن پچھلے دو سوبرسوں میں جو شاعری منظر عام پر آئی اس جیسی دلکشی ،جاذبیت، مقصدیت ،احساس، شعور بیداری اور بہتر خیالی ،عصر حاضر میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں اس کی وجہہ شائد جدید رحجانات اور اردو قارئین کی اردو شاعری سے عدم دلچسپی ہو سکتی ہے، شعراء کرام فنِ شاعری وعروض پر دسترس حاصل رکھتے ہیں۔لیکن آج کل کے نو آموز شعراء اصلاحی پہلو پر توجہہ دیں تو عوام الناس میں ایک اچھا پیام جاتا ہے۔
شاعری کیا ہے؟ اور اس میں آمد اور آوردکی مثالیں دیتے ہوئے پروفیسر مجید بیدار رقمطراز ہیں’’خیالی وجود کو پیکر میں ڈھالنا ہی شاعری ہے،شاعری میں دو کیفیتیں آمد اور آورد کی ہوتی ہیں: انسانی ذہن میں خیال کا شدت سے آنا اور اس کو قافیہ و ردیف کی پابندی کے ساتھ پیش کرنے کے فطری احساسات کی روش کو شاعری میں آمد اور آورد کی کیفیت سے شناخت کیا جاتا ہے ،ایسا شعر جس میں بلا تکلف روانی اوربے ساختگی شامل ہو اور اظہار کی پوری صلاحیت سے برجستگی کے ساتھ خیال کی بھر پور عکاسی کریں توسارا شعر ہر قسم کی فنکارانہ صلاحیت کا علمبردار ہوجائے تو ایسے شعر کو آمد کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔۔۔سوچ سوچ کر فقرہ بندی اور وزن اور بحر کے مطابق خیال کو جوڑنے کاعمل ’’آورد‘‘کا علمبردار ہوتاہے‘‘(اردو کی شعری و نثری اصناف۔ص14)
شاعری میں آمد کو اہمیت حاصل ہے لیکن عصر حاضر میں بہت کم شعراء ایسے ہیں جن کے کلام میں آمد کی کیفیت پائی جاتی ہے ورنہ یہ کے ہر شاعر کے پاس آورد ہی آورد ہے ، کم و بیش آمد کی شاعر ی کی کیفیت کو پیش کرتے ہوئے راشد احمد راشد ؔ نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ’’صبحِ زر تاب ‘‘کو اردو دنیا میں پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔
’’صبحِ زر تاب‘‘راشد احمد راشدؔ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جس میں ایک حمد، ایک نعت ،71غزلیں،8نظمیں اوردو قطعات،ایک دوہا اور ایک ماہئیے شامل ہیں ۔اس شعری مجموعہ کا پیش لفظ خانوادئے حضرت عدیلؔ کے چشم وچراغ ،ماہر عروض، استاد سخن ڈاکٹرسید فاروق شکیلؔ نے رقم کیا ہے وہ راشدؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’ان کی شاعری میں فکری تازگی اور سچے احساسات کی مہکار ہے ہیں ان کا اشہب قلم بہت رواں دواں نظر آتا ہے کلام میں معائب سخن نظر نہیں آتے غزلوں کے علاوہ ان کی نظموں میں بھی معنوی حسن نظرآتا ہے ان کے لہجے میں جو شائستگی اور سادگی ہے وہ ذہن و دل پر ارتسامات ثبت کرتی ہیں،انسانی جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہیں،،(ص12,13)
زیر نظر شعری تصنیف میں راشدؔ صاحب نے اپنی بات ’’مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ کے عنوان سے پیش کی ہے انہوں نے اپنی شاعری کو اپنے والد کا ورثہ قرار دیا ہے ساتھ ہی اپنے استاد سخن محترم حضرت سیدنظیر علی عدیلؔ کی شخصیت اور فن کی بلندی کوبھر پور خراج پیش کیا ہے۔جو قابل ستائش ہے ۔راشد احمد راشدؔ کے شعری مجموعہ کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوا ہے جس میں خدا کا وجود ،صفات اور واحدانیت کو پیش کیا ہے ،حمد کے اشعارملا حظہ فرمائیں۔
ظاہر کی چشم سے نظر آتا نہیں ہے وہ
موجود ہر جگہ رگِ جاں سے قریں ہے وہ
وحدانیت کو اس کی سمجھتا ہے جو بشر
راشد ؔ سراپا حاملِ احکام دیں ہے وہ
زیر نظر شعری مجموعہ میں حمد کے بعد راشد ؔ نے نعت شریف کا نذرانہ پیش کیاہے جیسا کے ہر شاعر اپنے شعری مجموعہ میں باعث اجر و ثواب اور عقیدت سے حمدو نعت اس کے بعد غزلیات کو پیش کرتے ہیں، راشدؔ کی نعت کے اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
حمد لکھنے سے مجھے نعت کی توفیق ہوئی
نعت لکھنے سے ہوا میرا مقدر تاباں
انؐ کی امت میں جو پیدا کیا ہم کو راشدؔ
ہم پہ سب سے بڑا اللہ کا ہے یہ احساں
راشدؔ کے اس شعری مجموعہ میں ایک بڑا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے،ان کی غزلیں روایتی ڈگر سے ہٹ کر ہیں غزل کو انہوں نے وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ اسے اصلاح اور پند و نصائح کے طور پر استعال کیا ہے مثال کے طور پر اشعارپیش ہیں۔
تربیت میں کمی کچھ رہ گئی شاید اس کی
آج مجھ سے میرا بیٹا جو خفا لگتا ہے
جھوٹ سہنے کی یہاں ہوگئی عادت سب کو
میں اگر سچ کہوں تو سب کو برا لگتا ہے
کوئی تعمیر کرے کیسے کسی کی راشدؔ
مجھ کو ہر شخص یہاں ٹوٹا ہوا لگتا ہے
’’صبحِ زر تاب‘‘ میں راشدؔ کی اکثرغزلوں میں غم جاناں اور غم دوراں کا اثر دکھائی دیتا ہے اور کلام میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے۔ان کے اشعار میں تہذیب و تمدن کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔مثلاََ
غم دوراں پہ لکھوں یا غم جاناں پہ لکھوں
شعر کس غم پہ لکھوں کون سے عنواں پہ لکھوں
جس کے سائے میں نیند آئے کردار کو
ایسی تہذیب کا ہر شجر کاٹئیے
زندگی بٹ گئی کمروں میں ہماری ایسی
کھلے آنگن بڑے دالان کے اب گھر بھی گئے
پھل مرے پیڑ کے کیا ختم ہوئے اے راشدؔ
گھر کے آنگن میں جو آتے تھے وہ پتھر بھی گئے
راشدؔ صاحب کا یہ شعری مجموعہ ایک لمبا شعری سفرطے کر کے بڑی مدت کے بعد منظر عام پر آیا ہے ، جس میں انہوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس مجموعہ میں کوئی خامی نہ در آئے انہوں نے اس بات کاخاص خیال رکھا ہے۔راشدؔ صاحب نے اپنے دلی احساسات اور جذبات کو بہتر طور پر شعری پیرائے میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہیں، انہوں نے شاعری کے ذریعے اخلاقی قدروں کو پیش کیا ہے اکثر غزلیں سادہ اور سلیس اسلوب کا مظہر ہے ۔
زیر نظر تبصرے میں شامل نظمیں جن کے موضوعات اس طرح ہے’’ والد مشفق کی رحلت کے بعد‘‘،’’چھبیس جنوری‘‘،’’یاد‘‘بتقریب نام رکھائی مسمی نوشاد احمد‘‘،’’چاند‘‘،’’خط کا جواب‘‘وغیرہ،نظم’’چھبیس جنوری‘‘ کے اشعارملاحظہ فرمائیں
اپنا تو ہے یہ ایقاں ہندو ہو یا مسلماں
گیتا ہوں پڑھنے والے یا پڑھنے والے قرآں
دل سے نکال پھینکو مذہب کے بھید بھاؤ
چھبیس جنوری کا دن ہے خوشی مناؤ
راشدؔ دعا ہے میری پھولے پھلے وطن یہ
قائم رہے ہمیشہ مہکا ہوا چمن یہ
اس شعری مجموعہ کے آخر میں راشد ؔ احمد نے اپنے استادسخن محترم سیدنظیرعلی عدیلؔ مرحوم کی اصلاح کردہ غزل کو بطور نمونہ شامل کیا ہے۔
راشدؔ کی شاعری میں شائستگی پائی جاتی ہے۔ راشدؔ کی شاعری ان کے افکار کی بہترین ترجمان ہیں۔ ان کا یہ مجموعہ کلام دیر آیدِدرست آید کے مصداق ہے۔صبحِ زر تاب کی اشاعت پر میں راشد احمد راشدؔ کو مبارکبا د پیش کرتاہوں ۔امیدکہ اس شعری مجموعہ کا ادبی حلقوں میں خوب استقبال کیا جائے گا اور شاعر سے بھی یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اس شعری سفر کو جاری رکھیں گے اور بہت جلد دوسرا شعری مجموعہ کوپورے آب و تاب سے منظر عام پرلیں آئیں گے۔کتاب کوحاصل کرنے کیلئے شاعرصاحب سے بمکان نمبر19-5-28/51/Aمحمود نگر ،کشن باغ،حیدرآباد500064یا ہدی بک ڈپو پرانی حویلی ،حیدرآباد سے کتاب خریدی جاسکتی ہے۔
Rashid Ahmed Rashid
Dr.Azeez Suhail