تاریخ قلعۂ دولت آباد – – – مبصر: پروفیسرمجید بیدار

Share

qila

کتاب : تاریخ قلعۂ دولت آباد
مصنف : الحاج محمد عبدالحی

مبصر: پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد
ای میل :
– – – –
تاریخ کا فن حد درجہ قدیم ہے اور اِس فن کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں قائم ہونے والی حکومتوں اور اُن کے کارناموں سے واقفیت ممکن ہے۔ قبل مسیح میں بھی عالمی سطح پر تاریخ لکھنے کا رُحجان حد درجہ ترقی یافتہ انداز میں فروغ پاتا رہا۔ عربوں نے تاریخ نویسی میں جدید اِضافے کئے۔ خود ہندوستان کی سرزمین میں تاریخ نویسی کے لئے اعلی معیارات کے لحاظ رکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ شمالی ہند کی تاریخ کے علاوہ جنوبی ہند کی تاریخ لکھنے والے مورخین کی بھی ہندوستان میں کوئی کمی نہیں۔ قدیم دور سے ہی ہندوستان کے راجاؤں اورمہاراجاؤں اوراُن کے دورِحکومت ہی نہیں بلکہ اُن کے زمانے کے اقدامات ‘ تاریخی آثاراورکارناموں کو تاریخ کے ذریعہ اُجاگر کیا جاتا رہا۔ بادشاہ کے اقتدار کی سیاسی تاریخ کے علاقائی و مقامی تاریخ کے علاوہ اہم مقامات کی تاریخ مدون کرنے کا رحجان بھی قدیم

دور سے جاریہے۔ علاقہ اور مقام کی تاریخ لکھنے کی روایت میں ایک اہم اضافہ اس طرح ہوتا ہے کہ حال ہی میں دکن کے اہم تاریخی مقام دیوگڑھ یعنی دولت آباد کے قلعہ کی یاد گاروں کو بنیاد بناکر الحاج محمد عبدالحی نے ’’تاریخ قلعۂ دولت آباد‘‘ جیسی کتاب تحریر کی ہے۔ جس کا نام عرف عام میں ’’گلستانِ دولت آباد‘‘ رکھا گیا ہے۔ اِس کتاب میں تین سو صدی سے لے کر ۱۹۴۸ ؁ء تک کے قلعہ کے حالات‘ وہاں کی عمارتوں‘ باغات اور تالاب کے علاوہ اِس علاقہ کے راجہ‘ بادشاہ اور اُن کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں ان علاقوں سے وابستہ ہونے والے صوفیہ کرام‘ بزرگانِ دین اور اہل علم و ہنر افراد کے سوانحی حالات اور اُن کے کارناموں کو مستند حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
اِس کتاب میں عوامی اصلاحات اور شاہانہ سرپرستی کے علاوہ بزرگانِ دین کے کشف و کرامات اور اُن کی رعایا پروری سے متعلق بے شمار تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ اِس علاقے کی تاریخ کو یکجا کرنے والے اہم مورخین جیسے ابوالعباس دمشقی‘ ملا عبدالحمید لاہوری اور مولانا ابوالفضل شیروانی کے علاوہ ٹیورنیر کی سیاحت اور ابن بطوطہ کی ’’عجائب الاسفار‘‘ کے حوالے سے مستند واقعات کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔ اِس کتاب کا انتساب الحاج محمد عبدالحی نے علم و فضل کے ماہر پروفیسر نثار احمد فاروقی مرحوم کے نام معنون کیا ہے۔ جس کے بعد بدر چاج کا فارسی شعر اور اُس کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے‘ جس میں پتہ چلتا ہے کہ شاعر نے دیوگر کے بجائے دولت آباد کو مال و متاع سے بسا ہوا شہر قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اِس کے چاروں طاق درحقیقت جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ کتاب کی فہرست مضامین سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ الحاج محمد عبدالحی نے ایک سو چھیاسٹھ موضوعات کا اِحاطہ کرتے ہوئے یہ کتاب تحریر کی ہے۔ پیش لفظ اور مقدمہ کے بعد دکن کے قلعے جات اور دولت آباد کے قلعوں کے علاوہ اورنگ آباد‘ انتور‘ جعفر آباد‘ جالنہ‘ بہائل بری‘ منصور اور دولت آباد کے قلعوں کی تفصیلات درج ہے۔ دولت آباد کے قدیم ناموں کا ذکر کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قدیم راجاؤں کے دور یعنی 300سے 700ء تک دولت آباد کو بھارا گڑھ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔ جنوب میں پلوا راجاؤں سے لے کر چالوکیہ خاندان اور پلاکشن دوم کے بعد راشٹر کوٹ خاندان اور یادو خاندان کے بادشاہوں کے اقتدار کے دوران قلعہ دولت آباد پر حکمرانی کی تفصیلات کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ الحاج محمد عبدالحی نے چینی سیاح ہیون سانگ کی اِس علاقے میں آمد کا بھی ذکر کیا ہے۔ خلجی خاندان کے بعد ملک کافور‘ قطب الدین مبارک شاہ اور غیاث الدین تغلق کے بعد محمد تغلق کے دور میں دہلی سے دولت آباد پاےۂ تخت تبدیلی۔ اس علاقے کے تالاب‘ باغات اور عمارات کے ساتھ ساتھ انتظام سلطنت کی بھرپور نمائندگی کی گئی ہے۔ مختلف بزرگانِ دین کی دولت آباد میں سکونت اور اُن کے کشف و کرامات کو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ حسن گنگو بہمنیکے دور سے لے کر بہمنی سلطنت کے آخری بادشاہ کے دور تک اِس علاقے میں قائم کردہ رصد گاہ‘ چاند مینار‘ مسجد دولت آباد‘ ہاتھی ہاؤز اور مندر کے علاوہ قلعہ میں رکھی جانے والی توپوں کی تفصیلات کا ذکر بھی کتاب میں موجود ہے۔ دولت آباد قلعہ کی بلندی اُس کا محل وقوع اور آبادی کے علاوہ قلعے کی خندق‘ بیرونی حصار‘ قلعے کے دروازے اور بارہ دری کے علاوہ قلعے میں موجود اہم محلاتجیسے چینی محل اور رشید باغ کے علاوہ فقیر سلطان کی درگاہ کی تفصیلات کو شامل کرتے ہوئے مصنف نے ہر بادشاہ کے عہد میں دولت آباد کے موقف کا جائزہ لیا ہے۔ اِس خصوصیت میں جناردھن سوامی کی گوی‘ بھوانی مندر‘ پیر قادر اولیاء کی درگاہ‘ سرسوتی باؤلی کے علاوہ دولت آباد میں موجود باغات میں اُگائی جانے والی انگور کی کاشت کی رپورٹ اور ناظر تعلیمات کی رپورٹ کو کتاب میں شامل کرکے اِس علاقے کی ہمہ جہت ترقی کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔ مختلف ادوار میں دولت آباد کے بارے میں نامور شعراء اور بادشاہوں کے تاثرات کو بھی اِس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔ دولت آباد کے مزارات‘ مقابر‘ مساجد‘ منادر اور مختلف سلطنتوں جیسے بہمنی سلطنت‘ قطب شاہی سلطنت‘ عادل شاہی سلطنت اور مغلسلطنت کے دور میں قلعہ دولت آباد کی اہمیت کو حوالوں کے ذریعہ نمایاں کیا گیا ہے۔
مراٹھا دور میں ساہوجی بھونسلا اورحسیننظام شاہ کے علاوہ شائستہ خان کی صوبیداری کے دورمیں دولت آباد کے سیاسی موقف کی نمائندگی بھی کتاب کا حصہ ہے۔ امانت خان‘ اورنگ زیب‘ خانِ دوراں‘ اِسلام خاں‘ اور شاہجہاں کے بیٹوں کے عہد میں دولت آباد کی صوبیداری پر مغل شہزادوں کے تقرر کا منفرد جائیزہ بھی کتاب میں شامل ہے۔ اِس کتاب کی اہمیت میں اضافہ اِس وجہ سے بھی ہوجاتا ہے کہ فاضل مؤرخ نے شاہجہاں کے دور کے اُمراء اور منصب داروں کی تنخواہوں کی تفصیل اور قلعے کے علاوہ شہروں کی حفاظت اور بندوبست پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات بھی کتاب میں درج کی ہیں۔ نقار خانے کی اہمیت سے لے کر دولت آباد قلعے میں اورنگ زیب کی رہائش اور اُس کی صاحبزادی زیب النساء کی قلعے میں پیدائش اور تاناشاہ کی قید کے بعد مغلیہ سلطنت کے زوال اور آصفیہ حکومت کے دوران قلعہ دولت آباد کی خصوصیت کو واضح کرتے ہوئے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرڈن کی دولت آباد میں آمد کا حوالہ درج کیا گیا ہے۔ پہلے نظام سے آخری نظام تک کے دور میں قلعے کی حفاظت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے قلعے کے نقشۂ جات‘ بزرگانِ دین کے شجرے اور دولت آباد کے قلعے میں موجود اہم مقامات کی تصاویر کے بعد مصنف نے اپنی شائع شدہ کتابوں کے بارے میں مختلف اہل قلم حضرات کے تاثرات قلمبند کئے ہیں۔ عمدہ کتابت اور طباعت کے علاوہ اغلاط سے بے نیاز تقریباً ۲۵۰ صفحات پر مشتمل اِس کتاب کا پیپر بیک ایڈیشن ہمہ رنگی خوبصورت سرورق سے وابستہ ہے‘ جس کے آخری صفحے پر 1636ء میں شاہجہاں کی تعمیر کردہ قلعے دولت آباد کی بارہ دری کی خوبصورت تصویر شائع کی گئی ہے۔ یہہ کتاب صرف دولت آباد کی تاریخ ہی بیان نہیں کرتی بلکہ اِس علاقے میں آرام فرما لاتعداد بزرگان دین کے احوال و واقعات کے بارے میں مستند حوالوں کے ذریعہ حقائق کی نمائندگی میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ تحقیق و جستجو کو قیمتی سرمایہ بناتے ہوئے الحاج محمد عبدالحی نے اس کتاب ’’تاریخ قلعہ دولت آباد‘‘ کی قیمت /-۲۵۰ روپئے مقرر کی ہے‘ جو حد درجہ مناسب ہے۔ اِس کتاب کی اِشاعت اورنگ آباد سے عمل میں آئی ہے۔ اہلِ ذوق حضرات عبدالحی ریسرچ سنٹر‘ حضرت نظام الدین روڈ شاہ گنج اورنگ آباد کے پتے سے یہ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ اِس کتاب کے نسخوں کو کتب خانوں میں محفوظ کیا جانا چاہئے۔ اہل ذوق حضرات کے لئے یہ کتاب روحانی سکون فراہم کرنے کا وسیلہ بنتی ہے۔ اس تحقیقی کتاب کے ذریعے نہ صرف تاریخی حقائق کی عقدہ کشائی ہوتی ہے بلکہ تاریخ کے سینہ میں چھپے ہوئے رازوں کے انکشافات بھی ہوتے ہیں جس کے لئے مورخ کی خدمت میں مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔
Prof Majeed Bedar
Hyderabad-Deccan
bedarM

Alhaj Mohammed Abdul Hai
qila1

Share
Share
Share