بوڑھوں کے حقوق
مفتی امانت علی قاسمیؔ ۔ استاذ دارالعلوم ۔ حیدرآباد
ای میل :
موبائل : 07207326738
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حقوق ا نسانی کی جتنی رعایت اوراحترام انسانیت کی جس قدر تاکید ہمیں اسلام میں ملتی ہے کسی دوسرے مذاہب میں اس قدر رعایت اور احترام نہیں ملتا ہے، اسلام نے انسانی قوی کی رعایت کرتے ہوئے کمزوروں اور معذوروں کے حقوق واضح انداز میں بیان کیا ہے، چنانچہ جوکمزور اور معذور اپنی ضرورت کی کفالت از خود نہیں کرسکتے ہیں اسلام نے اس کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کو اس کے حقوق کا ذمہ دار بنایا ہے، اسی طرح جو انی کی توانائی کو کھو کر بڑھاپے کی دہلیز میں قدم رکھنے والے بوڑھے اور کمزور جو اپنی تمام صلاحیتوں اور طاقتوں کو کھو کر محتاجی کے عالم میں پہونچ جاتے ہیں اور جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے ہیں آج عمر کے اس منزل میں ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا اس کے بوجھ کو اٹھائے، شریعت نے ایسے معذوروں اور بوڑھوں کے حقوق متعین کئے ہیں اور ان کی ا ولاد اور دوسرے رشتہ داروں کو ان کا کفیل اور ذمہ دار بنایا ہے اور اس پر دنیا وآخرت کی ترغیب اور حقوق کی رعایت نہ کرنے پر دنیا وآخرت کی تہدید بھی سنائی ہے، پیش نظر مقالے میں معذوروں اور بوڑھوں کے حقوق اور قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس کے حل سے بحث کی جائے گی۔
بوڑھوں کو کسب معاش سے مجبور کرنے کا حکم:
بعض حضرات جوانی کی آخری سیڑھی پر ہوتے ہیں جہاں سے بڑھاپا سفید بالوں اور جسمانی کمزوریوں کے ساتھ نظر آنے لگتا ہے، لیکن عمر کے اس مرحلے میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ خود سے محنت ومشقت کرکے اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے شریعت کی رہبری یہ ہے کہ خود محنت ومشقت کرکے اپنا بوجھ برداشت کریں کسی پر بوجھ بننا خواہ اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو پسندیدہ عمل نہیں ہے، حدیث میں بہترین کھانا اور افضل ترین عمل اسی کو قرار دیا گیا ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کھائے۔
لیکن اگر ایسا شخص محنت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور اس کے پاس مالی ذخیرہ بھی نہیں ہے کہ بیٹھ کر اپنی ضرورت پوری کرسکے اور اس کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے بھی نوازا ہے اور وہ کسب پر قادر بھی ہیں تو اس شخص کا نفقہ اس کی اولاد پر واجب ہے اور اولاد کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کو کسب پر مجبور کریں اس لئے کہ شریعت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے اور والدین کو کسی طرح کی اذیت اور تکلیف پہونچانے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے اور والدین کو اس عمر میں جب کہ اس کے قوی کمزور ہوچکے ہیں کسب معاش پر مجبور کرنا اس کو اذیت وتکلیف سے دوچار کرنا ہے۔
اگر بوڑھا شخص کسب پر قادر ہے اور اس کے کوئی اولاد نہیں ہے؛ لیکن دیگر عزیز واقارب ہیں جن کے ذمہ اس شخص کا نفقہ لازم ہوتا ہے تو اس کا نفقہ دیگر عزیز واقارب پر واجب نہیں ہوگا؛ بلکہ عزیز واقارب اس کو کمائی پر مجبور کرسکتے ہیں اس لئے کہ فقہاء نے دیگر عزیز واقارب پر نفقہ کے لازم ہونے کی جو شرطیں لگائی ہیں اس میں ایک شرط یہ ہے کہ وہ ایسا تنگ دست ہو کہ نہ اس کے پاس مال ہو اور نہ کمانے کی قدرت ہو جیسے صغیر، بہت بوڑھا، مجنون یا اپاہج ۔
والدین کا اپنی آسائش کی خاطر اولاد سے زائد رقم کا مطالبہ کرنا :
والدین یا دیگر عزیز واقارب جن کا نفقہ ان کے چھوٹوں پر محتاجی کی صورت میں واجب ہے اگر وہ محتاج نہ ہو؛بلکہ خود صاحب ثروت ہوں اللہ تعالیٰ نے ان کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بے نیاز کردیا ہے اور وہ اپنے کسب شدہ مالوں سے اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں تو ان کا نفقہ کسی پر بھی واجب نہیں ہے، وہ محض اپنی آسائش کے لئے یا دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کی بنا پر یا دوسروں پر خرچ کرنے کے لئے یا مستقبل میں ضرورت پڑنے کے خدشے سے اپنی اولاد یا دیگر ذی رحم محرم رشتہ داروں سے زائد رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتے ہیں؛ اس لئے کہ شریعت نے والدین کی محتاجی کی صورت میں اولاد پر اور بوڑھے لوگوں کے کسب پر قادر نہ ہونے کی صورت میں دیگر رشتہ داروں پر نفقہ واجب کیا ہے؛ لہٰذا صاحب ثروت ہونے کی صورت میں ان کا زائد رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے؛ کیوں کی دوسروں پر نفقہ کے واجب ہونے کے لئے فقر شرط ہے، کسی مالدار کا نفقہ سوائے بیوی کے دوسروں پر واجب نہیں ہے۔
البتہ حسن سلوک کے طور پراولاد کو چاہئے کہ والدین کی دلجوئی اورخوشنودی کی لئے اپنی طرف سے والدین کی ہر طرح کی خدمت کو انجام دیا کریں، اورہرممکنہ صورت میں والدین کی رضا اورخوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ عمل میں سے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے،حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے :
عن عبد اللہ قال: سألت النبيﷺ أي العمل أحب إلی اللہ وفي روایۃ أفضل قال: الصلاۃ لوقتہا، قال ثم أي؟ قال برّ الوالدین، قال ثم أي؟ قال: الجہاد في سبیل اللہ.(صحیح البخاری، باب الصلوات الخمس کفارۃ، حدیث نمبر: ۲۸۲)
بوڑھے والدین کو چھوڑ کر ملازمت کے لئے سفر کرنا:
اگر والدین بڑھاپے کی اس عمر میں ہوں کہ انہیں سہارے کی شدید ضرورت ہو اور بلا سہارا اور بلا جسمانی خدمت کے ان کی زندگی کا پہیہ آگے نہ بڑھ سکتا ہو، اسے زندگی کی ہر مرحلے میں اپنے بچوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہو دوسری طرف اولاد کو بھی کفایت کی روزی اس کے مقام پر بھی حاصل ہوجاتی ہو تو محض زیادہ مال ودولت حاصل کرنے کے لئے اور اپنی زندگی کو پر تعیش بنانے کے لئے اپنے شہر سے دور چلے جانا درست نہیں ہے، والدین کی خدمت انسان کی سب سے بڑی نعمت اور سب سے اہم فریضہ ہے، عہد نبوی میں ہمیں ایسی ہدایتیں ملتی ہیں کہ جہاد جیسے فرض عمل پر آپﷺ نے والدین کی خدمت کو ترجیح دی، اسی طرح فقہاء نے لکھا کہ اگر کسی انسان پر حج فرض ہوجائے اور سفر حج پر جانے کا پختہ ارادہ ہو لیکن اگر والدین اس کی خدمت کے محتاج ہوں تو اس کو والدین کی خدمت کو ترجیح دینی چاہئے اور سفر حج کو مؤخر کردینا چاہئے جب جہاد اور حج جیسے مقدس سفر کو والدین کی خدمت کی لئے ترک اورمؤخرکیا جاتا ہے تو محض زیادہ دولت حاصل کرنے کے لئے جو کہ شریعت کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل بھی نہیں ہے اس کے لئے و الدین کی خدمت کو ترک کرکے سفر پر جانے کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے، اس لئے جو شخص والدین کی خدمت کی ذمہ داری میں مشغول ہو اس کو اپنے شہر میں ہی کسب معاش کی کوشش کرنی چاہئے،اور والدین کی خدمت کو اپنی اہم ذمہ داری اور اپنی سعادت مندی ونیک بختی سمجھ کر انجام دینا چاہئے، امام مسلم نے روایت نقل کی ہے:
عن عبد اللہ قال: جاء رجل إلی النبيﷺ یستأذنہ في الجہاد فقال أحي والداک قال: نعم، قال: ففیہما فجاہد.(صحیح مسلم باب بر الوالدین وانھما احق، حدیث نمبر: ۲۵۴۹)
بیٹیوں پر والدین کی خدمت کاحکم:
والدین کی خدمت جس طرح بیٹوں پرواجب ہے اسی طرح بیٹیوں پر بھی واجب ہے، بعض فقہی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کا نفقہ جس طرح بیٹوں پر واجب ہے اسی طرح بیٹیوں پر بھی واجب ہے ؛ لیکن شادی کے بعد بیٹیاں اپنے شوہر کے تابع ہوجاتی ہیں ا ور شوہر کے حقوق مقدم ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں اگر والدین خدمت کے محتاج ہوں اور اس کی صرف بیٹیاں ہوں تو شوہر پر اخلاقی طور پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کووالدین کی خدمت کے لئے بھیج دے، کم از کم ہفتہ میں ایک مرتبہ عورت اپنے ماں باپ کی زیارت اور خدمت کے لئے جاسکتی ہے اور شوہر کے لئے منع کرنا درست نہیں ہے، اس سے زیادہ اگر خدمت کی ضرورت ہو توشوہر کے حقوق کی ا دائیگی کے ساتھ مزید والدین کی خدمت کرسکتی ہے۔
بوڑھے شخص کا شادی کرنا:
انسان اپنی زندگی میں ایک رفیقۂ حیات کا محتاج ہوتا ہے جو اس کے دکھ درد کی ساتھی ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ذریعہ سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں، جس طرح انسان کو جوانی میں بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ اسے بڑھاپے میں سہارے کے طور پر بیوی کی ضرورت ہوتی ہے، بڑھاپے میں آدمی کا سب سے بہترین ساتھی اس کی رفیقۂ حیات ہی ہوتی ہے؛ لیکن بعض مرتبہ اس کی زندگی وفا نہیں کرتی ہے اور وہ اپنے بوڑھے شوہر کو چھوڑ کر اس دنیا سے چلی جاتی ہے، ایسی صورت میں وہ بوڑھا شخص زندگی کے اس آخری مرحلے میں دوسری شادی کا قصد کرتا ہے؛ تاکہ عمرکے آخری مرحلے کو بھی سکون کے ساتھ گزارا جاسکے؛ لیکن ہندوستانی معاشرے میں بوڑھے کے بچے اپنے آپ کو نکاح سے روک دیتے ہیں، اس کی حکمت ومصلحت سے قطع نظر، یہ باپ پر اس کے بیٹوں کی جانب سے زیادتی ہے اور باپ کو تکلیف دہ زندگی پر جینے کے لئے مجبور کرنا ہے، ایسی نازک صورت حال میں اولاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی ضرورت کے پیش نظر ازخود اس کا نکاح کرادیں؛ تاکہ باپ کی ما بقیہ زندگی بھی سکون واطمینان کے ساتھ گزرسکے؛ غرضیکہ اولاد کا اپنے باپ کو ماں کے ا نتقال کے بعد دوسری شادی سے منع کرنا شرعا ناجائزہے اور باپ پر زیادتی کرکے اس کو تکلیف دینا ہے، اس لئے کہ شریعت نے قضاء شہوت کے لئے نکاح کو مسنون قرار دیاہے اور بعض حالات میں فرض وواجب ، اور کسی مسنون عمل سے روکنا ناجائز ہے، قرآن میں ا للہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إلا علی أزواجہم أو ما ملکت أیمانہم فإنہم غیر ملومین.(مومنون:۶) کہ جو لوگ اپنی باندیوں اور بیویوں سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتے ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں ہے۔
البتہ بوڑھے شخص کے نکاح کرنے میں قدرتفصیل معلوم ہوتی ہے، اگروہ شخص عمر کے اس مرحلہ میں بھی عورت کی دیگر ضروریاتِ زندگی کے ساتھ جنسی ضرورت پوری کرنے پر قدرت رکھتا ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا مطلقا جائز ہے، لیکن اگر وہ عورت کی جنسی خواہش پوری کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کو کسی بوڑھی یا عمردراز عورت سے شادی کرنی چاہئے، جس کی جنسی خواہش کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔کسی جوان عورت سے جس کے مقاصد نکاح میں جنسی خواہش کی تکمیل بھی ہو اور جنسی خواہش پوری نہ ہونے کی صورت میں فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی جوان عورت سے اس بوڑھے شخص کا شادی کرنا درست نہیں ہے۔اس لئے کہ ایسا شخص عنین ہے اور عنین کو نکاح پر اقدام کرنا درست نہیں اور اگر اس نے نکاح کیاتو عورت فسخ نکاح کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
باپ کی بیوی کے نفقہ کا حکم:
اگر باپ دوسرا نکاح کرنا چاہے اور بڑھاپے یا کسی دوسرے عذرکی بنا پر اپنی بیوی کی کفالت اور نان ونفقہ برداشت نہ کرسکے تو جمہور کی رائے یہ ہے کہ اولاد پر اپنے والدکی بیوی کابھی نفقہ لازم ہوگا؛ تاکہ باپ نکاح کرکے اپنی پاکدامنی کو برقرار رکھ سکے ارو دیگر مقاصد نکاح مثلا سکون واطمینان کی زندگی حاصل کرسکے، علامہ شامی نے بھی لکھا ہے :اگر باپ کو کوئی مجبوری ہوجیسے باپ بیمار ہے یا اپاہج ہے اور اس کو خدمت کی ضرورت ہے تو ایسی صورت میں باپ کی بیوی کا نفقہ بھی اولاد پر واجب ہوگا،اس لئے کہ باپ کی بیوی باپ کی خادمہ ہے، اور جس طرح مخدوم کا نفقہ واجب ہے، اسی طرح خادم کا نفقہ بھی واجب ہے۔
بہو کا ساس کی خدمت کرنا:
ہندوستانی معاشرہ میں عام طورپرمشترکہ خاندانی نظام رائج ہے، جہاں بہوپربہت زیادہ حقوق عائد کردئے جاتے ہیں، شوہر کی خدمت کے علاوہ ساس، سسر اور دیگر ا ہل خانہ کی خدمت اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل ایک بہو کا حق سمجھا جاتاہے، جو اسلامی اصول کی روشنی میں سراسر باطل ہے، شریعت نے عورت پر اس کے شوہر کے حقوق تو عائد کئے ہیں؛ لیکن کتاب وسنت میں کہیں بھی عورت پر اس کے سسرال والوں بالخصوص ساس کے حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے، اس لئے ایک عورت پر شوہر کی تو خدمت لازم ہے؛ لیکن ساس کی خدمت ضروری نہیں ہے اور نہ ہی شوہر بیوی کو اپنی ماں کی خدمت پر مجبور کرسکتا ہے، حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں:
بعضے آدمی اس کو بڑی سعادت مندی سمجھتے ہیں کہ بیوی کو ماں کامحکوم ومغلوب بنا کر رکھے اس کی بدولت بیوی پر بڑے بڑے ظلم ہوتے ہیں سو سمجھ لینا چاہئے کہ بیوی پر فرض نہیں کہ وہ ساس کی خدمت کریں۔(اصلاح انقلاب امت بحوالہ محمود الفتاویٰ ۲؍۱۰۶، مکتبہ انور ڈابھیل)
اگربہو ساس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو اور وہ شوہر سے علیحدہ مکان کا مطالبہ کرے تو بہو کو ساس کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے؛ بلکہ شوہر پر لازم وضروری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے بقدر بیوی کے لئے علیحدہ مکان کا انتظام کرے،لیکن اگر گھر میں کئی کمرے ہوں اور ایک کمرہ بیوی کے لئے خاص کردیا جائے جس میں قفل بند کرنے کی گنجائش ہو تو اس صورت میں عورت کے لئے علیحدہ مکان کا مطالبہ درست نہیں ہے۔
البتہ اگر ساس بڑھاپے کی اس حد کو پہونچ چکی ہو کہ اسے سہارے کی ضرورت ہو اور کوئی اس کی خدمت کرنے والا نہ ہو تو بہو کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ساس کے ساتھ رہ کر اس کی خدمت کرے؛ اس لئے کہ اس مرحلے میں اگر چہ بہو پر خدمت شرعا واجب نہیں ہے؛ لیکن اس کے شوہر پر اپنی ماں کی خدمت واجب ہے اور بعض اوقات مرد ہر قسم کی خدمت انجام نہیں دے سکتا ہے ایسی صورت میں اس کی بیوی اپنی ساس کی خدمت کرکے اپنے شوہر کی رضا وخوشنودی حاصل کرسکتی ہے اور اپنے شوہر کو خوش کرنا اور ا پنے شوہر کی اطاعت کرنا بیوی کے فرائض میں داخل ہے، ایسی حالت میں جب کہ ساس کو بہو کی خدمت کی ضرورت ہو بہو ا پنا شرعی فریضہ نہ بتا کر اگر چہ خدمت سے سبکدوش ہوسکتی ہے؛ لیکن ایسا کرکے یقیناًوہ شوہر کو ناراض کرے گی؛ جب کہ خدمت کرکے نہ صرف شوہر اور ساس وسسر کی رضاکو حاصل کرتی ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی بڑے اجر وثواب کی مستحق ہوجاتی ہے،حضرت عائشہ کی روایت ہے:
إن المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم.(سنن ابی داؤد ۶۶۱، باب فی حسن الخلق)
اولاد کا والد کی زندگی میں جائداد کی تقسیم کا مطالبہ:
شریعت نے حقوق کے سلسلے میں عام طور پر دونوں جانب کی رعایت کی ہے، باپ اور بیٹے کے سلسلے میں بھی شریعت نے دونوں جانب حقوق عائد کئے ہیں؛ چنانچہ باپ پر حق یہ ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کرے اس کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنائے اور اولاد کا حق یہ ہے کہ اپنے والدین کی خدمت واطاعت کرے ،ان کی رضاوخوشنودی حاصل کرے، بعض مرتبہ اولاد اپنے باپ سے زندگی میں ہی جائداد کی تقسیم کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کو اپنا حق سمجھتی ہے؛ حالانکہ یہ مطالبہ شرعا ناجائز ہے اولاد کو اپنے باپ کی میراث میں حصہ ملتا ہے؛ لیکن یہ میراث مورث کے مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، اولاد جس کو اپنا حق سمجھتی ہے وہ میراث ہے جوباپ کے مرنے کے بعد ہی تقسیم ہوسکتی ہے، زندگی میں باپ اگر جائداد تقسیم کرے تو یہ ایک قسم کا ھبہ ہے اور ھبہ کے سلسلے میں ھبہ کرنے والا آزاد ہوتا ہے کسی دباؤ کا پابند نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے اولاد کا زندگی میں جائداد کی تقسیم کا مطالبہ شرعا ناجائز ہے؛ البتہ اگر اولاد محتاج ہوں اور باپ کی معاشی حالت بہتر ہو تو باپ پر اخلاقی طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ و ہ اپنی جائداد میں سے اپنی اولاد کو کچھ ھبہ کردے؛ تاکہ اولاد کی بھی معاشی حالت بہتر ہوسکے؛ لیکن یہ ھبہ ہے، اس کو میراث کی تقسیم کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے، والد کے انتقال کے بعد ان کے تمام اولاد شرعی طور پر میراث کے حصہ دار ہوں گے۔
عمر دراز لوگوں کے لئے ہاسٹل کا قیام:
مغربی ملکوں میں عام طور پر مرد وعورت ملازمت پیشہ ہوتے ہیں اور بوڑھے لوگوں کی نگرانی اور ان کی ضرورتوں کی دیکھ ریکھ کے لئے گھر میں کوئی نہیں ہوتا ہے؛اس لئے وہاں عمر دراز اور بوڑھے لوگوں کے لئے ہاسٹل بنادئے جاتے ہیں، جہاں تمام سہولیات مہیا کرائی جاتی ہیں اور بوڑھے حضرات کی ہر طرح کی ضرورت پوری کی جاتی ہے، رفتہ رفتہ اس طرح کے ہاسٹل کا ہندوستان میں بھی رواج بڑھ رہا ہے، اس طرح کے ہاسٹل کے قیام میں شرعی طور پر کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے؛ اس لئے کہ یہ ہاسٹل لوگوں کو ایک سہولت فراہم کرتے ہیں اور اس کے عوض اجرت وصول کرتے ہیں، گویا یہ ایک قسم کا رہائشی ہوٹل ہے، جس میں لوگ ٹھہرکر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں، اگر خاندان کے عمر رسیدہ حضرات اپنی مرضی اور خوشی سے اس طرح کے ہاسٹل میں جانے اور رہنے پر رضا مند ہوجائیں تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی، اس لئے سن رسیدہ حضرات کو اس عمرمیں اپنے ہم عمر ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے ساتھ بیٹھ کر اپنی زندگی کو پر بہار بنا سکتے ہیں؛ جب کہ گھروں میں ان کا دل بہلانے والا،ان سے باتیں کرنے والا اور ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا ہے۔
بعض مرتبہ عمردرازحضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے اولاد کے سامنے ہی رہیں اسی میں وہ اپنی خوشی محسوس کرتے ہیں؛ لیکن اولاد کے ملازمت یا دوسری مصروفیت کی بنا پر اولاد کی طرف سے ان کی نگرانی نہیں ہوپاتی اس لئے وہ ہاسٹل میں قیام کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں بوڑھے حضرات کی رضامندی مجبوری کے تحت ہے؛ اس لئے اولاد کو چاہئے کہ گھر میں ان کے رہنے کا بہتر انتظام کردیا جائے اور ہاسٹل میں نہ منتقل کیا جائے، اسی طرح بعض مرتبہ بوڑھے حضرات کسی طرح بھی ہاسٹل میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں؛ لیکن ان کے اہل خانہ ان کو زبردستی اس طرح کے ہوٹل میں قیام پر مجبور کرتے ہیں جو شرعا مذموم اور غیر پسندیدہ حرکت ہے، اس لئے کہ قرآن نے ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی ہے اور حسن سلوک میں یہ ہے کہ ان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھا جائے اور ان کی ہر خوشی کی قدر کی جائے،ان کے ہر راحت کا انتظام کیا جائے اور ان کی مرضی کے بغیر ان کو ہاسٹل میں ٹھہرانا ان کو اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرنا ہے، جس سے شریعت نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔
بوڑھے حضرات کی اجتماعی کفالت کے لئے زکوٰۃ کی رقم کا استعمال کرنا:
بعض مرتبہ بوڑھے حضرات اپنے بڑھاپے کی بنا پر از خود محنت نہیں کرسکتے ہیں اور بسا اوقات ان کی اولاد اور قریبی رشتہ دار بھی نہیں ہوتے ہیں ،ایسے میں ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور معاشی حالت افلاس کو پہونچ جانے کی وجہ سے یہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے لگتے ہیں، ایسے حضرات کی اجتماعی کفالت کے لئے اگر زکوٰۃ کی رقم استعمال کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے، اس لئے کہ زکوٰۃ کے مصارف میں اہم مصرف فقراء ہیں اور یہ حضرات نہ کسب پر قادر ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی کفیل ہے،اس لئے ان پر فقراء کی تعریف صادق آتی ہے،اس لئے ان محتاج اور ضرورت مند بوڑھوں کی طرف سے کوئی ادارہ بحیثیت وکیل زکوٰۃ وصول کرسکتا ہے اور ان کی ضرورتوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ ان کو زکوٰۃ کا مالک بنا دیا جائے ، اس لئے کہ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے، لیکن اگران کو مالک نہ بھی بنایا گیا؛ بلکہ ان کی ضرورتوں میں خرچ کردیا گیا تو بھی درست ہے جیسا کہ مدارس میں مہتمم حضرات بحیثیت وکیل زکوٰۃ کو وصول کرکے طلبہ کی ضرورتوں میں اس کو خرچ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ.(سورہ توبہ:۶۰)
بوڑھے حضرات کے لئے حکومت کی رعایت کا حکم:
عمر دراز لوگوں کے لئے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتیں ہیں، جیسے ٹرین کرایہ میں تخفیف حکومت کی طرف سے وظیفہ اور ٹیکس میں رعایت وغیرہ، اگر عمر دراز حضرات ان خصوصی رعایتوں کے مستحق ہیں اور ان رعایت کے لئے مطلوبہ شرطوں کو پورا کرتے ہیں تو ان کے لئے یہ رعایت حاصل کرنا جائز ہے؛ اس لئے کہ یہ حکومت کی طرف سے ضعیف اور کمزور لوگوں کی مدد ہے اور حکومت کے امداد سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اپنے عہد خلافت میں بوڑھوں اور ضعیف لوگوں کو وظیفہ دیا کرتے تھے؛ البتہ اگر کوئی بوڑھا شخص خصوصی رعایت کے لئے مطلوبہ شرائط کو پورا نہ کرتا ہو تو اس کے لئے جھوٹ بول کر یہ رعایت حاصل کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے، ایک حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا: یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تم کو سچا سمجھے جب کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، ایک دوسری حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا: مومن تمام خصلتوں میں ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے، اس لئے جھوٹ بول کر اور عمر زائد بتا کر یہ رعایت حاصل کرنا ناجائز ہے۔
ابوداؤد میں ہے:
کبرت خیانۃ أن تحدث أخاک حدیثا ہو لک بہ مصدق وأنت بہ کاذب. (سنن ابی داؤد ۴؍۲۴۹، رقم:۴۹۷۱)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۴ thoughts on “بوڑھوں کے حقوق ۔ ۔ ۔ ۔ مفتی امانت علی قاسمیؔ”
السلام عليكم زادكم الله علما وفضلا
ماشاءاللہ، مضمون اچھا لگا. بہت خوب. مبارکباد قبول فرمائیں
اگر والدین خود اسے جانے پر مجبور کریں تو؟ کیونکہ بسا اوقات وطن میں کسب معاش کے مناسب اور وسیع ذرائع موجود نہیں ہوتے ہیں اور ضرورت شدید رہتی ہے جیسے کہ بہنوں کی شادیاں اور والدین میں کسی کی بیماری جسکا علاج کم خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا.
Baihtreen makhalaa…???????????…………..LAFZ BA LAFZ SUCH HAI……?????…Magar hyderabad main kya ho raha hai ??…English medium main taleem hasil kar kai apni aoulad ko ..DEEN AOUR SHAREEAT KA SABAKH kai sai dai saktain hain….JAHEZ …kee lanath hamarai buzrug din ba din phaila rahai hain…Siasatdan NAFRAT phaila rahain hain..Badoun ka adab ANAKKHAA ho gaya hai…………………aisai main ..AQUAD E SANI …..ha ha ha ahah…..LALCHI APNAI UROOJ PER HAI………allah kai fazal saheb………………………….Aai waez e nadan karta hai too aik khayamath ka charcha …..Yahaan roze nighain milteen hai yahan roze khayamath hotee ha