اردوافسانہ: پس منظراورپیش منظر۔ ۔ ۔ احمدعلی جوہر

Share

احمد علی جوہر

اردوافسانہ: پس منظر اور پیش منظر 

احمدعلی جوہر
ریسرچ اسکالر۔ جواہرلعل نہرویونیورسٹی
موبائل : 09968347899
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اردو میں افسانہ کاآغاز مغربی ادب کے زیراثر ہوا۔ جدید نثری اصناف میں اسے ایک اہم صنف مانا گیا ہے۔ اردو میں اسے مختصرافسانہ اور کہانی بھی کہا گیا ہے۔ اپنی صنفی خصوصیات کے اعتبار سے افسانہ، ناول سے مختلف ہے۔ ناول اگر زندگی کے ایک دور کا احاطہ کرتا ہے تو افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک انسانی تجربے پر مبنی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک واقعے یا اس واقعے کے تاثر کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔

افسانہ کی تعریف:
اردو میں افسانہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔ مثلا افسانہ کسی شخص کی زندگی کے سب سے اہم اور دلچسپ موقع کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنے کا نام ہے۔
ڈاکٹراختراورینوی کا خیال ہے کہ
"ایک اچھا افسانہ ایک کامیاب ڈرامہ کی طرح معجزہ ہے ایجاز کا۔ باوجود اختصار کے فنی حیثیت سے وہ ایک حُسنِ کامل ہوتا ہے اور اپنے حُسن وتکمیل کی وجہ سے ناظرین کے لیے ذہنی مسرت کا سامان” (اختر اورینوی، تحقیق وتنقید، پٹنہ،ص:13،1971)
اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کی رائے ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں:
"ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہواپنے اوپر مسلط کرکے اِس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سُننے والے پر وہی اثر کرے، یہ افسانہ ہے” (بحوالہ، نقوش (سمپوزیم) افسانہ نمبر، 1952،ص،468)
افسانہ نگار، ناقدین اور اُدبا کی تحریروں میں افسانہ کی اور بھی مختلف تعریفیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افسانہ ایسی نثری بیانیہ صنف ہے جس میں زندگی کے کسی ایک گوشہ یا کسی ایک پہلو یا کسی ایک واقعہ کو موثر انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور جو قاری کو ذہنی مسرت وانبساط کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ افسانہ کو موثر بنانے کے لیے افسانہ نگار کو افسانہ کے فنی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، تکنیک، جزئیات، منظرنگاری اور زبان واسلوب پر بطور خاص توجہ دینی ہوتی ہے۔
اردوافسانہ کا آغاز وارتقا:
اردو افسانہ کی ابتدا کے سلسلے میں مختلف آراء دیکھنے کو ملتی ہیں۔ معروف فکشن نقاد مرزاحامد بیگ کی تحقیق کے مطابق راشدالخیری اردوکے پہلے افسانہ نگار ہیں اور ان کی تحریر "نصیر اور خدیجہ” جو دسمبر 1903ء میں مخزن لاہور میں شائع ہوئی، اردو کا پہلا افسانہ ہے۔ ڈاکٹر انواراحمد، ڈاکٹر مسعود رضا خاکی اور ڈاکٹر صادق کا کہنا ہے کہ اردو میں افسانے کی ابتدا راشدالخیری، سلطان حیدرجوش، پریم چند، سجادحیدریلدرم، نیاز فتحپوری، قاضی عبدالغفار اور محمد علی ردولوی وغیرہ کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالداشرف کاکہنا ہے کہ "راشدالخیری اور سرسید وغیرہ کی تحریروں کو افسانہ کہتے ہوئے تامل ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان تحیروں کی حسیت جدید نہیں ہے، جو افسانے کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس لیے پریم چند ہی اردو کے اولین افسانہ نگار قرار پاتے ہیں، کیوں کہ ‘دنیا کا سب سے انمول رتن'(1907ء) اور ان کے دیگر افسانے ہی صحیح معنوں میں جدید حسیت کے حامل ہیں۔ (خالد اشرف، برصغیر میں اردوافسانہ،ناشر،مصنف،2010ء،ص:18) اردوافسانہ کا بغور مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس کے ابتدائی نقوش محمدحسین آزاد، سرسید کی تحریروں اور اودھ پنچ میں شائع ہونے والی تخلیقات میں پائے جاتے ہیں، مگر صحیح اور حقیقی معنوں میں پریم چند اردو کے پہلے افسانہ نگار اور ‘دنیا کاسب سے انمول رتن’ جو زمانہ، کانپور میں 1907ء میں شائع ہوا،اردو کاپہلا افسانہ ہے کیوں کہ اس میں افسانہ کی بیشترخصوصیات موجود ہیں۔
پریم چندنے ابتداء میں بنگالی زبان کے افسانوں سے متاثر ہوکر اردو میں مختصر افسانے لکھنا شروع کئے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "سوزوطن” 1908ء میں شائع ہوا۔ ان افسانوں میں ہندوستان کی بدلتی ہوئی زندگی اور وطن پرستانہ جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ان کے کردار اگرچہ حقیقی ہیں لیکن وہ جس ماحول میں سانس لیتے ہیں وہ بڑی حد تک فرضی اور تخئیلی معلوم ہوتا ہے۔ افسانوں کی تکنیک میں بھی داستانوں کا انداز غالب ہے۔ زبان وبیان رنگین اور مرصع ہے لیکن اس کے بعدپریم چند نے ‘بڑے گھر کی بیٹی’ مامتا اور کرشمہ’ اور ‘انتقام’ جیسے افسانے لکھ کر اردو میں مختصرافسانہ نگاری کے فن کو ایک نئی منزل پر پہنچا دیا۔ اسی زمانے میں سجاد حیدریلدرم اور سلطان حیدرجوش نے اصلاحی اور رومانی رنگ کے افسانے لکھنا شروع کئے۔
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی میں نیازفتحپوری اور مجنوں گورکھپوری بھی افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے۔ سجادحیدریلدرم،سلطان حیدرجوش، نیاز فتحپوری اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ ترکی اورانگریزی افسانہ نگاروں سے متاثر تھے۔ یہ افسانہ نگار ان زبانوں کے افسانوں کا اردو میں ترجمہ بھی کرتے تھے اور اردوافسانہ نگاری کے فن کو نئی چیزوں سے روشناس بھی کرارہے تھے۔ ان کے افسانوں میں حسن وعشق کی رنگینی، زبان وبیان کی طاقت اور نفسیاتی اور فلسفیانہ بصیرت خاص اہمیت رکھتی ہے۔ قاری کو ان کے افسانوں میں اردگرد کے انسانوں کی حقیقی زندگی اور اس کے مسائل نہیں ملتے بلکہ تخئیل کی ایک خوبصورت آراستہ دنیا ملتی ہے جس میں حسن کا جذبہ اور اس کی نفسیاتی نزاکتیں ہی اہمیت رکھتی ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد اردو میں روسی،فرانسیسی اور انگریزی کے معیاری افسانوں کے ترجمے کثرت سے شائع ہونے لگے۔ منصوراحمد، خواجہ منظورحسین، جلیل قدوائی اور دوسرے ادیبوں نے مغرب کے ایسے فن پاروں کو اردو میں منتقل کیا جن میں افسانہ کے فن اورتکنیک کا ایک ترقی یافتہ تصور ملتا ہے۔ اس کا اثر اردوافسانہ پر پڑا۔ پریم چند نے بھی مغربی افسانوں کے مطالعہ سے استفادہ کیا۔
اس دور کے اردوافسانہ میں تین رجحانات نمایاں ہیں۔ سب سے اہم رجحان پریم چند اور ان کے مقلدین مثلا سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی اور اپندرناتھ اشک کا حقیقت پسندانہ رجحان تھا۔ ان افسانہ نگاروں نے سماجی زندگی کےبدلتے ہوئے حالات پرنظر رکھی۔ انھوں نے گاوں کی زندگی اور اس کے مسائل کو نمایاں طورپر اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ ان کا دردمنددل عام انسانوں کی محرومیوں اور تکلیفوں پر تڑپ اٹھتا ہے اور وہ ان کی زندگی کے حالات اور واقعات کو ایسے موثر ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ دوسروں کے دلوں میں بھی ان کے لئے ہمدردی اورتڑپ پیدا ہوجاتی ہے۔ مقامی رنگ سے وہ بڑا کام لیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی مقبولیت میں بول چال کی بے تکلف زبان اور سیدھی سادی ٹکنیک کا بہت دخل ہے۔ اس دور میں جو دوسرا نمایاں رجحان دیکھنے کو ملتا ہے، اسےزندگی کی رومانی اور جذباتی ترجمانی کا رجحان کہا جاسکتا ہے۔ اس کی نمائندگی سجادحیدریلدرم، نیازفتحپوری اور مجنوں گورکھپوری کررہے تھے۔ ان کے افسانوں میں حقیقت سے زیادہ تخئیل کی کارفرمائی ہے۔ ان کے افسانوں کی فضا رومانی تصورات اور لطیف جذبات سے بوجھل ہے۔ ان کے یہاں فرد کے جذباتی رشتوں مثلا عشق ومحبت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ انسانی جذبات کو جاگیردارانہ سماج، قدامت پسندانہ رسم ورواج اور فرسودہ اخلاقی بندھنوں سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں فنی حسن کا ایک نیا انداز ہے۔ اسلوب اور اظہارِبیان کی دلکشی پرخاص توجہ دیتے ہیں۔ تیسرا رجحان مسلمانوں کے متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی اور اس کے مسائل کو اصلاحی نقطہ نظر سے پیش کرنے کا رجحان ہے۔ اس کا سلسلہ اگر ایک طرف نذیر احمد سے تو دوسری طرف سلطان حیدرجوش سے ملتا ہے۔ راشدالخیری، فضل الحق قریشی اور عظیم بیگ چغتائی نے اپنے اپنے ڈھنگ سے اس رجحان کی نمائندگی کی۔ وہ مسلمانوں کی گھریلو معاشرتی زندگی سے اپنے افسانوں کا مواد حاصل کرتے ہیں اور سیدھی سادی لیکن دلچسپ بیانیہ ٹکنیک میں واقعات کو افسانہ کی شکل دیتے ہیں۔ فنی اعتبار سے انھوں نے اردوافسانہ کے معیار کو بلند نہیں کیا۔ ہاں ان کی کوششوں سے اس میں تنوع ضرور پیدا ہوا۔
اردو افسانہ میں ایک اہم انقلاب اس وقت برپا ہوا جب ‘انگارے’ کی اشاعت عمل میں آئی۔ ‘انگارے’ کی اشاعت نے اردوافسانہ کو بے باکی عطاکی اور جرات مندانہ لب ولہجے میں بات کرناسکھایا۔ 1935ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر اردوافسانہ ہی پر پڑا۔ اس تحریک کے زیراثراردوافسانہ میں نئے رجحانات پیدا ہوئے۔ حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری کاایک نیا تصور عام ہوا۔ اب افسانہ نگاروں مثلا کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی، منٹو، احمد ندیم قاسمی،خواجہ احمدعباس اور حیات اللہ انصاری وغیرہ نے اردوافسانے کو تخئیل اور تصور کی رنگین فضا سے باہر نکالا۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی طور کے مختلف پہلووں کی بے لاگ مصوری کی۔ یہ بات صحیح ہے کہ ابتداء میں کرشن چندر، اخترانصاری اور احمدندیم قاسمی وغیرہ کے افسانوں میں رومانی اور جذباتی اندازِنظر غالب رہا لیکن آہستہ آہستہ ان کےافسانون میں بھی سماجی موضوعات اور مسائل جگہ لینے لگے۔ ان کا سماجی شعور جیسے بیدار ہوگیا۔ ان کے افسانوں میں بھی زیادہ گہرائی اور فنی دلکشی پیدا ہونے لگی۔ یوں تو اس دور میں پروفیسر محمد مجیب، حیات اللہ انصاری، اخترحسین رائے پوری اور بعض دیگر ادیبوں نے بھی کامیاب افسانے لکھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس عہد میں کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو نے اردو افسانے کی سب سے نمایاں خدمت کی ہے۔
اب اردو افسانے میں ہندوستان کی اجتماعی زندگی کے سارے مسائل کا ذکر آزادی اور بے باکی سے ہونے لگا۔ غلامی، افلاس، جہالت، بھوک، بیکاری، توہم پرستی، طبقاتی جنگ، متوسط طبقے کی کھوکھلی نمائش پسندی، کسانوں کی معاشی لوٹ کھسوٹ اور جذباتی اور جنسی کجروی الغرض اسی طرح بے شمار مسائل اردو افسانہ کا موضوع بن گئے۔ ہر افسانہ نگار نے اپنے مشاہدہ کی حدوں میں رہ کر زندگی کی بے لاگ تفسیر اور ترجمانی کو اپنا مطمحِ نظر بنایا۔ واقعیت پسندی کے ساتھ ساتھ انھوں نے افسانہ کے فن کو بھی نکھارا۔ ان میں سے ہر ادیب کے افسانے پر اس کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ ہر ایک کا فن دوسرے سے مختلف ہے۔ کرشن چندر کے افسانوں میں شاعرانہ اندازِتحریر کے باوجود سماجی ناانصافیوں اور طبقاتی جبر پر زور ہے۔ منٹو کی کہانیوں میں جنسی اور نفسیاتی تجزیہ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ عصمت متوسط طبقہ کی گھریلو زندگی کی الجھنوں کا مطالعہ پیش کرتی ہیں۔ بیدی اوراحمدندیم قاسمی کا موضوع پنجاب کے گاوں کی سیدھی سادی لیکن دکھ بھری جذباتی زندگی ہے۔ اس دورکے افسانوں میں موضوع اور فن کے اعتبار سےبلا کا تنوع اور رنگارنگی ہے۔ آزادی کے بعد بھی یہ ادیب لکھتے رہے اور نئے افسانہ نگار اس قافلہ میں شامل ہوتے گئے۔
1947ء میں ملک تو آزاد ہوگیا مگر تقسیم کا دلدوز سانحہ بھی پیش آیا۔ ملک کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں کو نئے مسائل کا سامنا ہوا۔ وسیع پیمانے پر فسادات، ہجرت، مہاجرین کے مسائل اور ان کی آبادکاری اور دوسرے بہت سے مسائل افسانہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنے۔ ابتدا میں کئی سال تک تقسیم اور فسادات سے پیدا ہونے والے ہنگامی حالات اور نفسیات کے بارے میں کثرت سے کہانیاں لکھی گئیں۔ ملک میں ہرطرف قتل وغارت گری کے بہیمانہ اور سفاکانہ واقعات دیکھ کر ادیبوں کی روحیں چیخ اٹھیں۔ ان کے احساس کی شدت، تلخی اور جھلاہٹ ان کے افسانوں میں بھی نمایاں ہوئی۔ تقسیم کے نتیجہ میں رونما ہوئے فسادات کے موضوع پر بیشتر اشتہاری قسم کی کہانیاں لکھی گئیں لیکن منٹو، کرشن چندر، بیدی اور احمدندیم قاسمی وغیرہ نے اس موضوع پر بعض بڑی موثر اور فنی اعتبار سے مکمل اور معیاری کہانیاں لکھی ہیں، مثلا موذیل، لاجونتی، پشاورایکسپریس اور ہم وحشی ہیں وغیرہ۔
آزادی کے بعد قرۃالعین حیدر، غلام عباس، بلونت سنگھ، شوکت صدیقی اور انتظارحسین نے بھی اپنے سنجیدہ انہماک اور فکروشعور سے اردو افسانے کو تعمیر وترقی کی نئی راہیں دکھائی ہیں۔ انھوں نے نئے موضوعات اور فن کے نئے اسالیب کا انتخاب کیا اور اپنی تخلیقی صلاحیت اور اپج سے اردوافسانے میں جدت، تازگی اور فنی پختگی کے نمونے پیش کئے۔
60-1955ء کے آس پاس اردو ادب میں جدیدیت کے رجحان کا آغاز ہوا۔ اس کے زیراثر اردوافسانہ کے موضوعات واسالیب میں زبردست تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس عہد میں دو قسم کے افسانہ نگاروں کی جماعت سامنے آئی۔ جدید افسانہ نگاروں کی جماعت۔ دوسری جدید ترقی پسندافسانہ نگاروں کی جماعت۔ پہلی جماعت میں انورسجاد، بلراج مین را، انورعظیم، رشیدامجد اور اسی قسم کے افسانہ نگاروں کا شمارہوتا ہے۔ ثانی الذکر جماعت میں رام لعل، اقبال مجید، اقبال متین، قاضی عبدالستار، رتن سنگھ اور جوگندرپال وغیرہ کا نام لیا جاتاہے۔ اس عہد میں فرد کی مجہولیت، اس کی بے بسی، بے چہرگی، مجبوری ولاچاری، بے سمتی، ڈر اور خوف کی نفسیات، ذہنی انتشار، جنسی وجذباتی گھٹن، روحانی کرب، اجنبیت وبے گانگی، خواہش مرگ، تلاش ذات، اخلاقی وروحانی قدروں کا زوال،انسانی رشتوں کی شکست وریخت اور اس کا کرب، احساس تنہائی، محرومی ومایوسی، احساس شکستگی اور زنگی کی لغویت ولاحاصلیت جیسے مسائل اردو افسانوں کے موضوعات بنے۔ جدید ترقی پسند افسانہ نگاروں نے سماج کے دوسرے اہم مسائل مثلا غربت وافلاس، بےروزگاری، انسانوں کے سیاسی وسماجی استحصال کو بھی موضوع بنایا۔ جدیدیت کے زیراثر تجریدی اسلوب سے اردو افسانہ کو اگرچہ نقصان پہنچا مگر علامتی واستعاراتی اسلوب سے اردوافسانہ کی ہیئت وتکنیک کو فائدہ بھی پہنچا۔ جدیدیت کے زیراثر اردوافسانہ میں بےشمار تجربے کئے گئے۔ بعض منفی تجربوں سے قطع نظر، جدید افسانہ نگاروں نے ہیئت وتکنیک کی سطح پر نئے تجربات کرکے اور نئے موضوعات واسالیب اور انداز بیان اختیار کرکے اردوافسانہ کے فن میں جدت وندرت، تازگی اور تخلیقی زرخیزی کاثبوت دیا۔ یہ اور بات ہے کہ ترقی پسند تحریک کی طرح اس رجحان کے تحت اردو افسانہ کی ترقی نہیں ہوئی مگر اس کا سلسلہ ضرور قائم رہا۔
80۔1975ء کے آس پاس جدیدیت کا رجحان کمزور پڑنا شروع ہوا۔ اب جو نئے افسانہ نگار مثلا شوکت حیات، سلام بن رزاق، ساجد رشید، پیغام آفاقی،سیدمحمداشرف اورطارق چھتاری وغیرہ سامنے آئے اور بہت سے وہ افسانہ نگار جو پہلے سے افسانے لکھ رہے تھے، ان کے نظریات ورجحانات میں تبدیلی آئی۔ اب افسانہ نگاروں نے آزادانہ تخلیقی روش کے اپنانے کو ترجیح دی۔ ان افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے زیراثر اردوافسانہ میں کئے گئے کامیاب تجربوں سے روشنی حاصل کی۔ انھوں نے فرد اور سماج دونوں پر توجہ دی اور زندگی کے بے شمار مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ مثلا بڑھتی آبادی، بے روزگاری، ماحولیاتی کثافت، اقلیتی طبقہ کے تئیں حکومت کے معاندانہ رویے، اعلیٰ سطح پر رشوت ستانی، کالابازاری، انتطامیہ کی بے بسی، لاقانونیت کاخوف، سرمایہ داری کا عروج، اس کی چپیٹ میں آئے ہوئے عام لوگ،جرائم کا بڑھتا گراف، علاقائی، لسانی، مذہبی اور مسلکی تعصب، نسلی امتیاز، دہشت گردی، بنیادپرستی کے احیا کی کوششیں، معاشرتی ناہمواری، عورتوں کااستحصال، امیروغریب کے درمیان بڑھتی خلیج، سماج میں موجود غربت، اس سے جوجھتے لوگ، غریبوں کا سماجی وسیاسی استحصال اور کمزوروں پر ظلم وغیرہ۔ ان تمام مسائل کوہم عصر افسانہ نگاروں نے بڑی جُرات مندی سے پیش کیا۔ ہیئت وتکنیک، زبان وبیان اور اسلوب کی سطح پر بھی معاصر افسانہ نگاروں نے متوازن رویہ اپنایا۔ 1980ء کے بعد افسانہ نگاروں نے اردو افسانہ میں خوشگواراضافہ کیا اور بہت سی اچھی کہانیاں سامنے آئیں۔ مثلا چادر، دو بھیگے ہوئے لوگ، گنبد کے کبوتر، ڈار سے بچھرے اور باغ کادروازہ وغیرہ۔
اردوافسانہ کی پوری تاریخ پر ایک مجموعی نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردوافسانہ کاسب سے سنہرا دورپریم چند اور ترقی پسندی کا دور ہے۔ اس عہد میں اردو افسانہ ترقی کی بلند منزلوں کو طے کرتے ہوئے عالمی افسانہ سے ہاتھ ملانے کے قریب پہنچ گیا۔ جدیدیت کے زیراثر اردو افسانہ میں فنی سطح پر نت نئی تبدیلیاں ضرور رونما ہوئیں مگر ‘کفن’، ‘لاجونتی’ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرح کے افسانے سامنے نہیں آئے۔ آج کے عہد میں نثری اصناف میں سب سے زیادہ صنف افسانہ ہی فروغ پاتا دکھائی دیتا ہے۔ عصر حاضر کے افسانوں کے مطالعہ سے جوبات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ آج اردوافسانہ میں فنی سطح پر اگرچہ گراوٹ آئی ہے مگر اس کے باوجود کچھ اچھےافسانے بھی سامنے آرہے ہیں جواردوافسانہ کی دنیا میں تازہ ہوا کے جھونکے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ آج کے اردوافسانہ کے منظرنامہ کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ اردوافسانہ نثری اصناف کی آبرو ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
Ahmed Ali Joher
Research Scholar JNU
New Delhi۔ 110067
Mob:09968347899
Email:

Share
Share
Share