طنزومزاح : کاہلی زندہ آباد ۔ ۔ ۔ نعیم جاوید ۔ دمام

Share

Nayeem

کاہلی زندہ آباد ۔ ۔ طنزومزاح

نعیم جاوید 
دمام ۔ سعودی عرب

جتنا نازکسی غبی کواپنی مشقت پرہوتا ہے اتنا ہی غرورکسی شاطرکو اپنی تگڑم پرہوتا ہے۔ ویسے ان دنوں’’محنت ومشقت زندہ آباد ‘‘کے نعرے لگا کر شخصیت سازی کے ماہرین نے ہماری ناک میں دم کررکھا ہے۔ ہماری پرسکون زندگی میں بھونچال لانے والی کتابوں اور کہانیوں کے بلووں نے ہمارا جینا دوبھر کردیا ہے۔ویسے یہ ان کا خام خیال ہے جو ہمارے زنگ آلودہ ذہنوں کو وہ اپنے لفظی چقماق سے چمکاکررکھ دینگے۔لیکن یہ کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہم جیسے شریف النفس کاہلوں کے خلاف انھوں نے قیامت ڈھانے والی اصطلاحیں بھی گھڑلیں ۔اصطلاحیں کیا ہیں توپوں کے دہانے کھول دئیے ہیں۔ محنت گر ٹولوں کی ہیجان خیزی ‘پختہ کاری کی پخ‘طیش افزا خبط ‘کاہلی شکن سازشوں سے دل دکھی ہو چکا ہے۔

حرکت و حرارت کے نظریہ گرمافیہ ’’محنت‘‘ کو اب قومیانہ چاہتے ہیں تاکہ نئی سماجی تنظیم ہوسکے جس میں نچلی ذات جیسے دھوبی‘ چمار‘ اورتاڑیوں کو نکال کر کاہلوں‘ غافلوں اور گپ بازوں کوعقلی طور پر پسماندہ قرار دے سکیں۔ بات کچھ بھی ہو جب گاندھی جی نے کہہ دیاتھا کہ چھوت چھات جس شکل میں ہو بری بات ہے۔ پہلے ایک عقل کے اندھے نے گاندھی کو گولی ماری اب اس کے نظریات کے وارثین ؛گاندھی کے نظریہ کو جلاب دے رہے ہیں وہ بھی اسی کے ریاست میں ۔جب اتنے بھیجہ گھماو نظریا ت کو آزادی حاصل ہے تو پھر یہ کونسی کھمبا نوچو سماجی حشویات ہیں۔جو ہماری خوش اوقات زندگی کو یہ بے چین دانشورانہ روحیں آسیب بن کر دھمکا رہی ہیں۔
گوئیٹے سچ کہتا تھا کہ توہّم زندگی کی عجب انداز کی شاعری ہے۔پھرجانے کیوں یہ ’’دشمنِ دانش تصورات ‘‘کے تاجر ادھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں۔نہ یہ ہمیں توہمات کے جھولوں میں جھولنے دیتے ہیں۔نہ کسی پیر کرامات کے تعاقب میں اکیلا چھوڑتے ہیں۔ جس معاشرے میں ہم نے آنکھیں کھولیں ہیں اس میں تو ’’اسم اعظم‘‘ کے تلاش ۔لوہے کو سونا بنانے کے گُر ڈھونڈنا‘تعویذگنڈوں اورمنتروں سے خود کو بہلانا اور جنگوں میں ڈھولک کے گیتوں پر دشمن کو کوسنا وغیرہ سب کچھ شامل تھا۔اور آج بھی بڑے بڑے ملکوں کے بینکوں کا غائب ہونا۔ملکوں کے خزانوں کا چھومنتر کے زورپر خالی ہونا۔ طرے باز نظریہ گروں کا چمپت ہونا سب کچھ ہمیں اس سابقہ توہمات کی پڑائی ہوئی پٹی کے سبب سچ نظر آتا ہے۔سچ پوچھیئے تو ہم آج بھی سیارہ گان کی تحقیق اور آسمانوں پر ڈورے ڈالنے کوسائنس دانوں کی ذہنی دربدری سمجھتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب ہم کھاٹ پر پڑے چاند کو دیکھ کر مرستے تھے اور کیا کچھ اپنے پہلوکے محبوب میں وہ سب کچھ ڈھونڈلیتے تھے جو چاند میں تک موجود نہیں تھا۔جیسے کشش‘ جھیل ‘عقل اور کوئی سوت کاتنے والی مستقل ایک ہی عمر پر رکی ہوئی بڑھیا وغیرہ۔
رہا ہماری کاہلی کا فسانہ یہ تو سرپھرے بے فکردانشوروں کی جنوب تاب سینہ کوبی ہے ورنہ اندر کی خبر یہ ہے کہ ہماری طبعیت کی ٹھنڈک انھیں جھلسائے رکھتی ہے۔یہ کیا بات ہوئی کہMotivation کے موضوع پر کتابیں لکھ لکھ کر کسی کا بھیجہ گرم کر کے‘ کسی کو بے جا غیر ت دلا کر کام پر جھونک دینااور اس کا سکھ چین پھونک دینا کوئی کا م ہوتا ہے۔اشتعال انگیز لفظی جھاڑ جھنکار کا پشتارہ ہمارے منہ پر دے مارنا۔ آپ ان کے کل مبلغ علم کی جھڑتی لیجیئے اور دیکھیئے کیا ہے ان کے پاس ۔غباروں کی طرح منہ پھولائے ہوئے نظریات۔بے ہنگم ڈھول تاشوں سے چیختے مفروضے۔سراب صفت خدشے۔یہ عقلِ کُل خصلت ٹولہ اچھی بھلی باتوں کی بے جوڑدیوانی ہنڈی پکا کر پروس دیتاہے اور کہتاہے بس! آپ یوں کردیجئے تاکہ آپ ’’ووں‘‘ ہوسکیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہم لوگ سُستی کا سکوں ‘ٹال مٹول کاٹہراو اورکام چور ی کا چین پاسکیں بلکہ ہم ان کے ورغلانے میں آکر سہولتوں کے سحرسے نکل کران کی ہاو ہو پر ان کے ہولیں۔
ائے میرے ہم مسلک جرات مند و مستقل مزاج کاہلو ! اگر چاہتے ہو کہ اسی طرح ڈھیٹ بنے رہو تو آو! کاہلی کے آزمائے ہوئے اسم اعظم مجھ سے لے لو۔جس کے برتنے پر ہرمشقت اور نام و نمود والی عزت کافور ہو جائیگی ۔محنت منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے گی اور نہ تم اس کو۔
تو سنو!بستر جو تمہاری عبادت گاہ ہے اس میں خشوع خضوع سے پڑے رہو۔ہاں!دن میں اتنا آرام ضرورکرلو کہ تھک جاو تو رات کو چین سے سوسکو۔کام کی جُٹ میں رہ کر کام کی رہی سہی عزت کو ملیامیٹ مت کرو۔یاد رکھو! کل پر کوئی کام مت ٹالو جب کہ وہی کام پرسوں بھی ہوسکتا ہے۔ہر کا م تھوڑا کرو! دل بڑا رکھو’ اوروں کو بھی کام کرنے کا موقعہ دو۔ڈھارس رکھو! سُستی سے موت نہیں آئیگی بلکہ سَستی شہرت کی لَت میں پڑ کر کسی بڑی کارگزاری کی دھن میں تم چوٹوں سے چور ہوکر زخموں سے پُر ہوکرچمار کا چمڑا لگنے لگوگے۔خبردار! کبھی بے رحم نہ بننا! ’کام ‘‘صحت مندی کی علامت ہے اس لئے ہر بیمارکو زیادہ سے زیادہ اس کا موقعہ دیا کرو۔تم تو چنگے ہو! چپ چاپ پڑے رہو۔
یہ سوال سوا لاکھ سے کم کا نہیں کہ ہم کاہل کیوں رہیں۔اس کے جواب کی جستجوہوتو پھر ہم سب کوعروجِ آدمِ خاکی سے اُڑی ہوئی خاک پھانکنی ہوگی۔ اگر آپ کویقین نہ آئے تو تاریخ کے طلسم پر ایک بھینگی نظر ڈالیئے ۔ان دنوں ہر ملک میں دندناتے ہوئے دانشور ہر تاریخی دستاویز میں دست و قئے کررہے ہیں۔اگر ان سے جی متلائے تو غبی سائنس دانوں کی خبر لے لیجئے ۔مجھے تو سارے سائنس دان ایک دوسرے کے سرپھرئے رشتہ دار لگتے ہیں۔سب سے بڑا کاہل تو خود نیوٹن ؔ تھا۔ اپنے سیٹھ کا دیا ہوا کا م چھوڑ کر دن دِوالے سیپ کے درخت کی چھاؤں میں سوتا رہتا تھا۔ اتفاقاً اس کی ناک کی نوک پر ایک سیپ آگرا تب یہ غافل نیندسے جاگا راوراپنی لمبی ناک لے کر‘ گردن اٹھا کر دنیا بھر کو ’’زمینی کشش‘‘ کا قانون جتلاجتلا کر دیا۔ جبکہ ایک بے زبان سیپ ’’کشش کے راز ‘‘ کو اچھی طرح جانتا تھا اور چپ تھا کیونکہ وہ قوت ثقل اور اس کے انجام سے واقف تھا۔یعنی درخت سے جھڑا تو اس کے کپڑے اتار کا اس کی جھڑتی لے کر انسان زندہ چبا دیتا ہے۔چلیئے تھوڑی دیر کے لیے نیوٹنؔ کو توپ چیز مان بھی لیا جائے تب بھی یہ انکشافِ کشش ایک مہذب غفلت کا اعزاز ہوگی۔اگر یہی مرزا نیوٹن ؔ ہماری طرح ٹھن ٹھن گوپالا کرتے ہوئے دن بھردھول دھوپ کھاتے‘درخت سے دور شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے توزمین کی کشش تودُور زمین کی دم کا بھی پتہ نہ چلتا ۔ یہ بس کاہلی کا فیض عام ہے۔ جس کو مل جائے اس کے نصیب جاگ اٹھتے ہیں۔ تو اس قصہ سے جو سبق ہم کو لینا چاہیئے وہ یہ ہے کہ ہم سب کوجب جب زمین کی کشش معلوم کرنی ہو تو کام دھام چھوڑ کردن دوالے کسی سیپ کے درخت کے نیچے پڑے رہنا چاہیئے۔
کام کاجنون پالنے والے تو Overheating Engines کی طرح ہوتے ہیں انھیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہر گرم مسئلہ کا ایک ٹھنڈا حل بھی ہوتا ہے۔چلتے پھرتے ہوئے لگتاہے جیسے جلتی جرابیں پہن رکھیں ہوں۔اور بیٹھتے ہیں تو جیسے انگیٹھی پراپنی ہی ران بھون رہے ہوں اور ان کا بستر تو جیسے تندور کا تکیہ لگتا ہے۔ان کے لئے کام توبس مقابلۂ شہرت ہوتا ہے۔انھیں کیا معلوم کی راحتِ جاں کاہلی کسے کہتے ہیں۔سُستی ان کے نزدیک جیسے رِستاہوا ڈرینج کا پائپ ہو اس لئے وہ ہمارے کان پھاڑکر بدبو کے فضائل سناتے ہیں ۔جب کہ ہم سب کا دل جانتا ہے کہ یہ بے چین روحیں حسنِ فطرت کے پرسکون ایوان کا شکایت کنندہ گان کا ٹولہ بن کر رہتا ہے اور اسی دریجہ میں تمام عمرکھڑا رہتا ہے جہاں شکایتیں وصول ہوتیں ہیں۔وہ کام کی گردان جپتے رہتاہے ۔جیسے کام کررہا ہوں‘کرچکا ہوں اورکئے جاونگا۔پھر کام ۔ نام ۔ دام وغیرہ میں صرف ہوجاتا ہے۔
آپ میرا آزمودہ جُگاڑ آزمائیے ؛اپنی بدمستی میں کسی دن اپنی ہی بالکونی سے جھانک کرشہرکی ہونق بھیڑکے بھاگم بھاگم تماشے کودیکھئے ۔آپ کو ایسا لگے گاجیسے کو ئی شور و غل کا مقابلہ ہورہا ہو۔اور انجام کار ہر غل غپاڑہ ایک اذیت ناک گلا گھونٹنے والے درد پر ختم ہوتا ہے ۔ٹھیک اسی طرح جیسے ہر اولمپک کھلاڑی اپنے بڑھاپے کے لئے بدن کی معذوریاں سمیٹ کر مہارت جتلانے سے توبہ کرتاہے۔اس کا اصل سبب اس کی لیزرشعائیں جیسے ایک رخی زندگی اور جہان بھر کے امکانات سے غفلت اس کو برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ کسی کے بہلاوئے میں آئے بغیر آپ اپنی زندگی کی مثال لیں۔مثلاً اگرآپ کی کار کا ایک ٹائیرٹیڑھا میڑھا ہو چکا ہو۔دوسرا ضرورت سے زیادہ ہوا کے سبب اپنا منہ پھلاچکا ہواور تیسرے کی ہواکچھ کچھ خارج ہوتو دیکھئے شہرکی راہوں میں گاوں کی پگڈنڈی کا مزہ۔گاڑی کی خرمستیاں دیکھئے ۔مفت میں اچھل کود ‘ لوگوں کی تفریح الگ اور آپ کی ذہنی صحت کے بارے میں لوگوں کی ایک زبردست رائے؛ سب کچھ سمیٹئے۔سادہ اور بے عیب کاہلی کی نعمت اور ٹائیر بنانے کی پیچیدہ مشقت کا فرق سمجھ میں آجائیگا۔
ایک اور سرپھرا سائنس داں ارشمڈس ؔ تھا۔ہماری ہی طرح کبھی کبھار نہاتا تھا۔ ایک دن جانے کیا سوجھی (پانی )نہانے بیٹھ گیا۔پھر اس غبی کوTub میں کچھ سجھائی دیاLaws of floatation قانونِ بہاو ۔ اُس نے اِس کو یوریکا ؔ لمحوں کا نام دیا۔لیکن اہم بات یہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ کبھی کبھار نہاتا تھا اور دیر تک نہاتا تھا۔آپ کو کوئی غلط فہمی نہ ہو اورآپ کے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے میں یہ بتادوں کہ وہ نہ توکوئی سمندری مہم میں سرکش موجوں سے لڑ رہاتھااور نہ ہی دریاوں کا دل چیر کر کو ئی راز نکال رہاتھا۔ بلکہ مست قلندر کی طرح Tub میں پڑا ہوا تھا ۔ اچانک کیا سوجھی کہ ننگادھڑنگاشاہراہوں سے دوڑتا ہوا شاہی محل میں گھس پڑا۔جذبات میں آکروقتیہ شاہ نے بھی اسے انعام سے ڈھانک دیا۔ یہ انعام کیوں دیا گیا اس میں ہم جیسے تمام ٹھنڈے پیٹ دانشوروں کو اعتراض ہے۔ہوسکتا ہے اس اعزاز کا سبب بدن کے کَس بل کی نمائش تھی۔ جیسے ہندستان کاایک فلمی ہیروبے سبب جسم جتلاتے رہتا ہے۔ اس قصہ سے ہمیں یہ سبق لینا ہے کہ ’’تخلیقی مہمات میں لباس کی اہمیت نہیں رہتی‘‘۔
آئیے ہم سب کاہلی کی برکتوں پر مبنی ایک فہرست تیار کرتے ہیں۔خدارا اس معاملے میں کاہلی مت کیجیئے تھوڑی ہی دیر میں ایک زبردست خاکہ تیار ہوجائیگا جس میں ہم او رآپ فٹ ہو جائیں گے۔ پھر سہولت سے ’’جب ذرا گردن جھکالی دیکھ لی‘‘۔یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ کبھی محنت آدمی کو کامیاب تاجر بناتی ہے توپھر تاجر کوزیادہ ٹیکس بھی دیناپڑتا ہے۔میراخیال ہے ان تاجروں کو اس شوقِ فضول پر جتنی کڑی سزا دی جائے کم ہے۔ پھرکبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ محنت کے سبب کوئی شخص پاوں پاوں انسائیکلوپیڈیا یعنی چلتا پھرتا کتب خانہ ہوجاتا ہے لیکن وہ بھی ہماری طرح مالی بحرانوں میں دیوالیہ کی زد میں رہتا ہے۔ ایسے میں یہ کیاحماقت ہے کہ اپنے من چاہے عظیم سکھ چین کو جُل دے کر ہم سب کام اور ترقی کے فریب میں آجائیں۔ ہم قلندروں کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ خدا ئے زندہ، بندے کے من کی موج یا موڈ کے ساتھ اڑان بھرتا ہے۔ یعنی جس رنگ وترنگ میں چاہوخدا کو اتنی خدائی دے دو ۔جب کہ دھندہ بندہ کواپنے ملبے کے نیچے دبا ئے رکھتاہے۔تو بس ائے نادان انسانو !تم یہ کیسے بھول سکتے ہوکہ ہم سب انسان من موجی ہوتے ہیں۔نا ہم روبورٹ ہیں اور نا ہی مشین۔ ایسے میں ہمیں ایک بڑے ملنگ اور پیر فقیر والے حوصلے کی ضرورت ہے تاکہ کسی دن مستی میں آکر ہم یہ اعلان کرسکیں کہ ہم خدا والے لوگ ہیں،مشینی کل پرزے نہیں۔ ہاں ! یہ یاد رہے کہ ہر مذہب میں ایک زیرِ زمین فرقہ ایسا مل جائے گا جو آپ کی کاہلی کو خدا شناسی کا رنگ دے دے گا۔ واہ ! کچھ نہ کرو اور جگ جگ جیو۔
کاہلی کو مزید بھرپوراور باوقار بنانا ہوتو یہ چند چٹکلے اورآزمائیں:
خود کو کسی نوبیاہتہ دلہن کی پختہ کار زنّاٹ ساس سمجھیں اوراسی انداز میں جیءں۔ چن چن کر اعلیٰ افسروں کے چونچلے اپنایا کریں ۔ سلیپنگ بزنس پارٹنر جیسے تیکھے تیوریوں سے بل اپنی سپاٹ پیشانی پر اڑس لیں۔یا سرکاری نوکر کی طرح طرہ تالوپر رکھیں اور شتر غمزوں سے باز نہ آئیں ۔لیکن اپنے دل کو بھی اس بات سے باخبر رکھیں کہ بعض لوگوں کے نزدیک کاہلی انسان کے لئے اس کی اپنے سماج سے ناجائیز تعلق کی طرح ہوتی ہے۔ جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہے اور اگر ایسا ہے بھی توکیا؟سب نے اس کو روا بھی رکھاہے اور چھپابھی رکھا ہے۔
محنت کو حماقت بنتے ہوئے اگرآپ دیکھنا چاہتے ہیں تو بندر کے شکاریوں کے گُر دیکھئے ۔ بندر کے شکاری اپنے ساتھ زنجیر سے بندھاایک مخروطی سانچہ لیتے ہیں۔ اس تنگ نوکیلے سانچے میں شاطرشکاری چند مونگ پھلی کے دانے اچھال دیتے ہیں۔ ڈارون کے ہتھے چڑھا غبی بندر سانچے میں مٹھی بھرمونگ کے لالچ میں ہاتھ گھسیڑکر پھنس جاتا ہے۔ حرص اس کو دانوں پر دیوانہ کردیتی ہے۔اور یہ باولا زور لگا لگا کرہاتھ نکالنے کی دھن میں کچھ زیادہ ہی اٹک جاتا ہے۔اسی لاجواب محنت کے نتیجہ میں باقی بچی کچی زندگی بھکاری بن کر مداریوں کی ڈور پر ناچتے ناچتے مر جاتا ہے۔
میں ایک اہم بھلائی کرنا چاہتا ہوں تاکہ دنیا کے جفا کش سادہ لوحوں کو محنت کے ٹارچر سیلزسے نکال سکوں۔وہ ہے تاریخ کی الجھی ہوئی زلفوں کی گرہیں کھول سکوں۔ کیونکہ ان دنوں سب یہی کررہے ہیں۔ جس کے سر میں جو بات سمائی وہ ماضی کے حوالے کررہا ہے۔نئی تاریخ میں اب پرانے ہیرو ،خواجہ سرا ہوگئے اور مخنث معرکے مار رہے ہیں۔اب آپ ہی دیکھئے ۔کیایہ ہمیں غلط نہیں بتا یا گیا کہ کولمبس ؔ نے امریکہ کھوجاتھا ہے۔ جب کہ وہ ناک کی سیدھ پر ہندوستان جارہا تھالیکن سمند رمیں بھٹک کر گرداب میں پھنس کرکسی طرح اوندھے منہ امریکہ جاگرا۔ کیونکہ کشتی میں جاتے ہوئے یہ حضرت کشتیٔ نوح ؑ کے سوار مویشیوں کی طرح سوگئے تھے۔ ویسے ہندستان کا تصور ہی اچھے اچھے چلتے پرزوں کو سلادیتا ہے۔اسی لئے ہم آج بھی دیر تک سونے کے عادی ہیں لیکن جانے کیوں ہمارے یہی دیسی دوسرے ملکوں میں جاکر ایسے ایسے گل کھلاتے ہیں جس کو دیکھ کردنیا دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ اعلی دماغ ڈ رینیج کے ذریعہ کیوں برین ڈرین کا شکار ہورہے ہیں۔اس کے باوجود اس پر برین کی ڈرینیج کے ماہرین ناک‘ منہ بند کئے بیٹھے ہیں۔
میں تو کہتا ہوں ائے محنت کشو! سُستی کی پرسکون راہوں سے تم کو بھیڑیا اٹھا لے گیاہے ۔لوٹ آو اور میرے شرطیہ علاج سے بچ جاو تو تم سند یافتہ اور سکہ بند کاہل ہوجاوگے کیونکہ جتنا من مارکرزندگی کا بھوگ ڈھووگے اتنا زیادہ لوگ تمہیں محروم رکھیں گے۔ ثبوت کے طور پر ایک اور مثال سنو۔ایک نوجوان انجینئررابرٹ فلٹنؔ نے جب دریائے ہڈسن ؔ کے کنارے اپنی ایک ’’انوکھی محنت ‘‘اسٹیم بوٹ کی دریافت پر لوگوں کو دعوت دی تو اس میں زیادہ تر قنوطی اوربلوے بازاکھٹا ہوئے۔شروع میں اس کا انجن اسٹارٹ نہ ہوسکا تو سب نظارہ بازکہنے لگے۔اوہ ! ’’ان چلتا ‘‘۔۔یہ ڈبا کیا چلے گابلکہ ایڑیاں رگڑ رگڑکے مرجائیگا پھر بھی انجن ٹس سے مس نہ ہوگا۔پھر مخالف نعرے گونجے ۔۔نہیں چلے گا نہیں چلے گا۔ڈبا انجن نہیں چلے گا۔تھوڑی دیر اور گذرتی ہے۔انجینئرکی کسی اور ترکیب سے ہاتھی سا مستی میں ڈولتا ‘رقص کرتا ہوا وہ سفینہ، دریا میں دور تک جاپہنچا۔پھر کیا تھا جوبھیڑ اب تک یہ ماننے کو تیار نہ تھی وہی بھیڑ نعرہ بدل کر چیخنے لگی۔۔نہیں رکے گا نہیں رکے گا۔ڈبا انجن نہیں رکے گا۔ کمال ہے سبک سارانِ ساحل کی ادائیں بھی لاجواب رہتی ہیں۔بڑے دور اندیش ہوتے ہیں۔
آج سب کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ شخصیت سازی کے ماہرین اپنی تابڑتوڑ تقریروں سے قوم کو محنت پر جھونک نہ دیں کیونکہ شہرمیں اب یہ افواہ گرم ہے کہ لوگ خود کو بدلنا چاہتے ہیں۔ہائے ! اب یہ کاہلوں کے وضع دارخاندان و بے ضرر گھرانے جانے کہاں جائینگے۔کیونکہ یہ مقریرین ہماری ذات کی چھپی چوکیوں سے باخبر ہیں۔ یہ اپنی ‘بھیجہ پاش‘خون کھولانے والی اصطلاوں سے ہماری سُستی کی سُرنگوں میں بارود بچھانے کا ہنر جانتے ہیں پھر نہ رہے گابہانوں کا بانس نہ بجے گی کاہلی کی بانسری۔

Share

۲ thoughts on “طنزومزاح : کاہلی زندہ آباد ۔ ۔ ۔ نعیم جاوید ۔ دمام”

Comments are closed.

Share
Share