افسانہ : دس منٹ ۔ ۔ ۔ ۔ یٰسین احمد ۔ حیدرآباد

Share

yaseen

افسانہ : دس منٹ

یٰسین احمد ۔ ۔ حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848642909
– – – –

راجیوگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے کوالالمپور جانے والا فلائٹ نمبرAri Asia 68 اُڑان بھرنے کے لئے تیار تھا۔اس فلائٹ سے سفر کرنے والے بیشترمسافر اندر جاچکے تھے۔وہ مضطرب وہیں بیٹھی رہی۔کبھی ادھر آنے والے مسافروں کو دیکھتی اور کبھی اپنے فون پر نظر ڈالتی جو خاموش تھا۔
وہ دوگھنٹے قبل ایرپورٹ آگئی تھی۔بورڈنگ پاس لینے کے بعد اپنا بریف کیس (Conveyor) پر ڈال دیا تھا۔اب کوئی بوجھ اس کے ساتھ نہیں تھا۔ایک چھوٹا ہینڈ بیگ کندھے سے جھول رہا تھا جس میں اس کا پاسپورٹ،کرنسی اور میک اپ کا تھوڑا بہت سامان تھا۔لیکن دماغ پر جو بوجھ تھا اُس میں ہر آن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ناصر اب تک نہیں آیا تھا اور نہ اُس نے فون کیا تھا۔ناصر کے نہ آنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔طرح طرح کے خیالات دماغ میں اُمنڈ رہے تھے۔کیا وہ نہیں آنا چاہتا؟ کیا اس نے ارادہ بدل دیا ہے؟
دو ڈھائی گھنٹے قبل جب وہ ایرپورٹ جانے کی تیاری کررہی تھی ناصر کا فون آیا تھا۔اس نے کہا تھا۔’’آپ کی ہوٹل سے ایرپورٹ کا فاصلہ زیاد ہے۔آپ نکل جایئے میں بھی تیار ہوں۔دس منٹ میں گھر سے نکل جاوں گا۔‘‘

اس کو ایرپورٹ پہنچ کر دو گھنٹے ہوچکے تھے لیکن ناصر اب تک ایرپورٹ نہیں پہنچا تھا۔اُس کا اضطراب مایوسی اور بددلی میں تبدیل ہورہا تھا۔ دفعتاً وہ چونک پڑی۔اس کانام نشر ہورہا تھا۔فوراً سیکوریٹی چیک کے لئے کہا جارہاتھا۔وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔تب ہی اُس نے دیکھا کہ ایک سکیورٹی آفیسر اُس کی طرف چلا آرہا تھا ۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔سیکوریٹی آفیسر اُس کے قریب آیا اور پوچھا۔’’یو آر اے تقیہ یوسفی؟‘‘
اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور سیکوریٹی کے لئے بڑ ھ گئی۔
اُمید کی لو اُس وقت بجھ گئی جب طیارہ رن وئے پر دوڑنے لگا۔تقیہ نے اپنی آنکھتیں موند لیں۔اس کے دل و دماغ کو ایک شدید جھٹکا سا لگا تھا۔وہ اپنے ان آنسوؤں کو رکنے کی کوشش کررہی تھی جو بہنے کے لئے بیتاب تھے۔ناصر کے رویے نے اس کے اعتمار اور اَنا کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ناصر اُس کی پہلی پسند تھی، پہلا انتخاب تھا۔ناصر سے اتنی گہری محبت نہیں تھی کہ اُس کا زندہ رہنا محال ہوجاتا۔دُکھ صرف اس بات کا تھا کہ زندگی کی ایک اہم شاہرہ پر اُس کا پہلے ہی قدم غلط ثابت ہوا تھا۔
ایک دن قبل تقیہ نے اپنے ماں باپ سے فون پر گفتگو کی تھی پُر مسرت لہجہ میں بتایا تھا کہ ناصر کے ماں باپ اچھے لوگ ہیں‘ اُس کو پسند کرچکے ہیں وہ اب ناصر کے ساتھ ملیشیاء آرہی ہے تاکہ وہ بھی ناصر سے مل لیں۔طے یہی ہوا تھا کہ دونوں ملیشیا جائیں گے اور وہاں دو تین دن رہیں گے۔وہ تقیہ کے ماں باپ سے ملے گا۔پھر ڈیوٹی کے لئے سنگاپور چلا جائے گا۔وطن میں اُس کے ماں باپ ان دونوں کے منتظر تھے۔اُس کو تنہا دیکھیں گے تو ناصر کے نہ آنے کا سبب ضرور پوچھیں گے۔ وہ ماں باپ کو کیا بتائے۔؟
تقیہ یوسفی کا وطن ملیشیا تھا۔ماں باپ بھی وہیں رہتے تھے۔وہ سنگاپور میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھی۔ اسی کمپنی کی ایک برانچ حیدرآباد میں تھی جہاں ناصر ملازم تھا۔ناصر کو ڈپوٹیشن پر ایک سال کے لئے سنگاپور بھیجا گیا تھا۔جس دن ناصر نے ڈیوٹی جوائن کی تھی اُسی دن کمپنی کے ایک سینئر آفیسر نے ناصر کا تعارف اسٹاف سے کرایاتھا۔اسٹاف میں تقیہ یوسفی بھی شامل تھی۔یہ ایک رسمی کارروائی تھی اُس کے بعد وہ سب اپنے اپنے کام میں جٹ گئے تھے۔ہر ایک ڈسپلین کو ترجیح دیتا۔مقررہ وقت پر آفس آتا اور چلا جاتا۔کوئی کسی کے کام میں دخل نہیں دیتا۔ٹی بریک یا لنچ بریک میں آمنا سامنا ہوجاتا تو’ ہائے ہلو ‘کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی۔کئی ہفتہ گزر گئے ۔چہرہ شناس ہوتے ہوئے بھی وہ ایک اجنبی کی طرح کام میں لگارہا۔
لیکن ایک دن ناصر نے تقیہ کو دیکھا جو لنچ بریک میں اسٹاف ہال کے گوشے میں ظہر کی نماز ادا کررہی تھی۔حجاب سے نظر آتا ہوا تقیہ کا چہرہ اُس کو بہت پُر نور اور پر کشش لگا۔اس دن سے وہ تقیہ کے حرکات وسکنات کا جائزہ لینے لگا۔سانولا رنگ اور تکھے قد وخال کی تقیہ ایک ایسے حسن سے مالال تھی جو باطن میں پوشیدہ رہتا ہے۔
سنگاپور میں ناصر کی رہاش گاہ دفتر سے دُور تھی۔اکثر ناگہانی بارش یا پھر میٹروکے بروقت نہ ملنے کی وجہ سے آفس آنے میں دس پندرہ منٹ کی تاخیر ہوجاتی۔وہ تیز تیز قدموں سے ہانپتا ہوا اپنی میز تک پہنچتا ۔اسٹاف کے کچھ ممبر نگاہ اُٹھا کر دیکھتے۔منہ سے کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن نگاہیں بہت کچھ کہہ دیتیں۔تقیہ کے ہونٹوں پر بھی ایک ہلکی سی مسکراہٹ رینگتی رہتی۔
ایک دن تقیہ نے اُس سے کہا۔’’معلوم ہوتا ہے آپ کا قیام آفس سے دور ہے؟۔‘‘
ناصر شرمساری سے مسکرایا۔’’ہاں پانچ دس منٹ دیر ہوجاتی ہے۔‘‘
’’یہاں ہر کوئی وقت کی قدر کرتا ہے۔‘‘تقیہ نے جواب دیا ۔’’دس منٹ بہت بڑی بات ہے یہاں ایک ایک منٹ کو اہمیت دی جاتی ہے۔‘‘
’’اور آپ ….؟ ‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’میرے نزیک بھی وقت کی اہمیت ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔’’وقت ہمارے ساتھ نہیں چلتا ہم کو وقت کے ساتھ چلنا چاہئے۔ ورنہ وقت روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘
اُس دن جب ناصر آفس سے لوٹا تواپنی ماں کو فون کیا اور تقیہ کے بارے میں بتایا کہ تقیہ وقت کی پابند ہے، حجاب کی پابند ہے، نماز کی پابند ہے اور بالکل آپ پر گئی ہے لیکن ایک چیز کی کمی ہے۔‘‘
ماں نے پوچھا۔’’کس بات کی کمی ہے؟‘‘
ناصر نے جواب دیا۔’’امی وہ ہماری زبان نہیں جانتی۔صرف انگریزی یا پھر ملّے(Malay) میں گفتگوکرتی ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ ماں کا جواب تھا۔’’محبت کی زبان سمجھتی ہے تو یہی بہت ہے۔‘‘
ماں باپ نے سبز جھنڈی دکھائی تو ناصر کے اداردوں میں تونائی آگئی۔لیکن اس تجویز کو تقیہ تک پہنچانا اُس کے لئے کٹھن مسئلہ تھا کئی دنوں تک وہ مناسب موقعے کے انتظار میں رہا۔
ایک اتوار کو وہ مصطفےٰ بازار میں کاسمیٹک سے بھرے ہوئے ریکوں کے درمیان کھڑا تھا۔تقیہ وہاں آگئی۔یہ ایک اتفاق تھا یہی اتفاق اس کے لئے ایک سنہری موقع ثابت ہوا۔تقیہ نے پہلے اُس کو سلام کیا پھر پوچھا۔’’وائف کے لئے ؟‘‘ وہ اس وقت بھی حجاب میں تھی حجاب سے جھانکتے ہوئے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
’’نہیں ،ماں اور بہن کے لئے۔‘‘ناصر نے مسکراکر جواب دیا۔’’لائف میں ابھی وائف نہیں آئی۔‘‘
شاید تقیہ بھانپ گئی تھی کہ اس کو کاسمیٹک کے انتخاب میں دشواری پیش آرہی ہے اور پھر وہ ایسے سوپر مارکٹ میں کھڑا تھا جہاں دُنیا بھر کے پروڈکٹ مل جاتے تھے۔مصطفےٰ بازار صرف سنگاپور کا ہی نہیں ایشیاء کا سب سے بڑا مارکٹ مانا جاتا تھا جس کو بسانے میں ایک جفا کش ہندوستانی نے برسہا برس محنت کی تھی۔ناصر کو سنگاپور آکر چھ مہینے ہوگئے تھے۔وہ ایک ہفتہ کے لئے وطن جارہا تھا۔ اس کی اجازت بھی اس نے کمپنی سے لے لی تھی اورشاید یہ بات تقیہ کے علم میں آچکی تھی۔
تقیہ کے نظرِ انتخاب میں حُسن تھا۔تجربہ تھا،جو بھی چیز وہ لینا چاہتا تھا تقیہ چن چن کرنکالتی اور ساتھ ہی ساتھ اُس کے بارے میں بتاتے جاتی تھی کہ کونسی چیز کہاں سے آتی ہے اور کہاں کی بہتر ہوتی ہے۔تقیہ دیر تک شاپنگ میں اس کی مدد کرتی رہی۔شاپنگ سے فارغ ہوکر وہ دونوں فوڈ زون میں آگئے۔ناصر ہلکے پھلکے اسناک اور کوکا کولاکی دوبوتلیں لے آیا۔آمنے سامنے بیٹھ کر تقیہ کوکا کولا کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتی رہی۔ وہ اپنے خیالات کو مجتمع کرتا رہا۔کیا کہنا چاہئے؟ کیسے کہنا چاہئے؟اظہارِ جذبات کے لئے فقروں کا استعمال ایک ہنر ہے اور وہ اس ہنر سے محروم تھا۔ جدید انفارمیشن ٹکنالوجی کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی ناصر ایسی دُنیا میں آگیاتھا جہاں جذبات،جمالیات اور احساسات کو ناکارہ شئے سمجھا جاتا۔
بالآخر اُ س نے اپنا مدعا بیان کردیا ۔رُک رُک کر لفظوں کو چبا چبا کر….جسے سنتے ہی تقیہ ہکا بکا رہ گئی۔کچھ لمحوں تک ساکت سی بیٹھی رہی اور پھر تیزی سے اُٹھ کر چلی گئی۔ناصر کا دل ڈوب سا گیا۔دیر تک وہیں بیٹھا سوچتا رہا کہ مجھ کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا ۔ویسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔
دوسرے دن آفس میں تقیہ دکھائی دی تو وہ اُس سے نظریں ملا نہ سکا۔وہ حسب معمول آتے ہی کام میں جٹ گئی تھی۔تین چار دن گزر گئے۔تقیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔نہ اثبات میں اور نہ نفی میں۔دراصل ناصر کی اس تجویز نے تقیہ کی ساکت زندگی میں دائرے بنانے شروع کردیئے تھے۔حتمی فیصلہ تو ماں باپ کو ہی کرناتھا اس لئے اُس نے ماں باپ سے ذکر کردیا۔ماں باپ بھی جلد فیصلہ نہیں کرسکے۔مذہب کے سوا اور کوئی قدر ان دونوں کے درمیان مشترک نہیں تھی۔وطن الگ تھا۔زبان الگ تھی۔تہذیب الگ تھی۔رسم ورواج بھی لگ تھے۔اس کے سوا تقیہ قبول صورت تھی اس لئے اس کے ماں باپ کو خدشہ تھا کہ کہیں ناصر کا خاندان اس کو رد نہ کردے ۔اُن کو کسی صورت سے اپنی بیٹی کی دل شکنی گوارا نہ تھی۔اس لئے انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایک دفعہ ناصر کے ماں باپ سے مل لے اور پھر فیصلہ کرے۔
ناصر کے وطن آنے سے تین دن پہلے تقیہ نے فون کیا اور بتایا کہ وہ ناصر کے ساتھ اُس کے وطن کو آنا چاہتی ہے ‘ اُس کے ماں باپ سے ملنا چاہتی ہے۔ اُس کا شہر دیکھنا چاہتی ہے ۔یہ خبر اُس کے لئے خوش آئند ثابت ہوئی ۔ورنہ وہ تقیہ کی طرف سے نا اُمید ہوچکا تھا۔تقیہ کا اُس کے ساتھ چلنا بے سبب نہیں ہوسکتا تھا۔
ناصر کا یہ پہلا ہوئی سفر نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار ہوائی سفر کرچکا تھا لیکن وہ اس ہوائی سفر میں ایک عجیب سی سرشاری اور لطف محسوس ہورہا تھا۔تقیہ یوسفی اس کے ساتھ ہی تھی دونوں نے طئے کیا تھا۔ ناصر کے ساتھ اُس کو وطن جانا تھا ۔چھ سات دن وہا ں رہنا تھا اُس کے ماں باپ سے ملنا تھا اور واپسی پر ملیشیا میں ناصر کو تقیہ کے ماں باپ سے ملنا تھا ۔آگے کا پروگرام وہیں طئے ہونے والا تھا۔
ناصر نے تقیہ کو اپنے گھر ٹھہرنا چاہا‘ لیکن تقیہ راضی نہ ہوئی۔ اُس نے ایک اسٹار ہوٹل میں قیام کیا ۔رات کا کم سے کم حصہ ہوٹل میں گذرتا اور سارا دن اُس نے ناصر کے خاندان کے ساتھ گزارا۔اُن کے ساتھ ظہرانہ کھایا۔شہر کی تفریحی کی۔ہلکی پھلکی شاپنگ کی۔ تقیہ کو یہ شہر اچھا لگاتھا۔شہر دیر تک جاگتا اور دیر تک سوتا رہتا تھا۔ اُس کے اپنے وطن میں ایسا نہیں ہوتاتھا۔یہ احساس بھی ہوگیا کہ ناصر کے ماں باپ کے رویے میں اپنا پن ہے‘پسندیدگی ہے۔جس مقصد سے وہ ناصر کے ساتھ آئی تھی وہ پورا ہوگیا تھا۔
روانگی کے دن تقیہ ہوٹل سے نکلی تھی اور ناصر اپنے گھر سے سیدھا ایرپورٹ آنے والاتھا۔اُس نے فون بھی کیا تھا لیکن وہ ایرپورٹ نہیں آیا۔تقیہ شکستہ دلی کے ساتھ ملیشیا پہنچی تھی۔
اس وقت صبح ہورہی تھی جب طیارہ رن ویے پر اُترا تھا۔ابھرتے سورج کی کرنیں اس کو بے نور لگیں۔تھکے ماندے قدموں سے اپنا سوٹ کیس ڈھکیلتے ہوئے وہ باہر نکلی ۔باہر اس کے ماں باپ منتظر تھے۔تقیہ کو اداس اور تنہا دیکھ کر اُن کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے۔بے اختیار ماپ نے پوچھا۔’’تم تنہا آئی ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ تقیہ نے بجھے ہوئے لہجے میں مختصر سا جواب دیا۔ماں باپ نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔اُن کی جہاندیدہ نظروں نے بیٹی کے بجھے ہوئے چہرے پر ابھری ہوئی داستان کو پڑھ لیا تھا۔گھر پہنچ کر تقیہ نے غسل کیا ۔ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اورپھر بستر پر دراز ہوگئی۔دو ڈھائی گھنٹے کے بعد اچانک اُس کی آنکھ کھلی۔ اُس کا موبائیل چیخ رہا تھا۔اس نے فون اٹھا کر نام پڑھا ۔ناصر کا فون تھا۔ اس نے خاموشی سے فون جہاں تھا وہیں رکھ دیا۔معافی ،معذرت اور مجبوری کے لفظ اُس کو بے جان اور کھوکھلے لگتے تھے اور وہ ان لفظوں کو سننا نہیں چاہتی تھی۔ فون مسلسل بجتا رہا اور پھر خاموش ہوگیا۔
وہ دوبارہ سوگئی۔ دیر تک بے خبر سوتی رہی۔جب جاگی تو شام دور نہیں تھی۔منہ ہاتھ دھوکر کمرے سے باہر نکل آئی۔ماں باپ چائے نوشی میں مشغول تھے۔ وہ بھی ان میں شریک ہوگئی۔چائے نوشی کے دوران باپ نے کہا۔’’اچھا ہوا تم بروقت سنبھال گئیں دور نکل جاتی تو تکلیف ہوتی اب ہم نے سوچ لیا ہے کہ تمہاری شادی تمہارے کزن سے طئے کردیں گے۔‘‘
اُس نے خاموشی سے ماں باپ کے فیصلے کو سنا۔ جب ناصر کے ماں باپ سے ملنے گئی تھی تب بھی وہ اپنے ماں باپ کی رضا مندی سے گئی تھی ماں باپ کے اس فیصلہ سے بھی وہ ناخوش نہیں تھی۔چائے پی رہی تھی کہ اچانک اُس کو احساس ہوا کہ کمرے میں رکھا ہوا فون بج رہاہے۔وہ اپنے کمرے میں چلی آئی اور فون اُٹھالیا۔ناصر کا فون تھا۔
’’میں مسلسل آپ کو فون کررہاہوں لیکن فون نہیں اٹھا رہی ہیں‘ کیا سو رہی تھیں؟‘‘
تقیہ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن موبائیل اُس کے کان سے لگا رہا ۔ناصر کہہ رہا تھا۔’’میں اگر صرف دس منٹ پہلے ایر پورٹ پہنچ جاتا تو آپ ہی کے ساتھ سفر کرتا۔‘‘
تقیہ نے سلجھے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔’’ناصر احمد صاحب میں اُس وقت پیدا نہیں ہوئی تھی جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم گرائے گئے تھے لیکن سنا ہے منٹوں میں شہر کا شہر تباہ ہوگیا تھا۔کچھ عرصہ پہلے میرے شہر میں سونامی آئی تھی میں نے دیکھا ہے کہ دیکھتے دیکھتے سارا شہر تہس نہس ہوگیا ۔بربادی منٹوں میں آتی ہے۔‘‘
ناصر اپنی ہی رو میں بولا۔’’تقیہ موسم کی خرابی کی وجہ سے دو دن تک ملیشیا کے فلائٹ بند ہیں میں دو دن بعد ملیشیاآرہا ہوں۔‘‘
’’ آپ نہ آئیں۔اب میرے ہاتھ میں کچھ نہیں رہا۔میرے ماں باپ نے ارادہ بدل دیا ہے۔‘‘
اُس نے سپاٹ آواز میں کہا۔اس سے پہلے کہ ناصر کچھ کہتا ۔اُس نے موبائل کا گلا گھونٹ دیا۔
***
Yaseen Ahmed
# 17-2-1159/2, Wahed Colony,
India Function Hall Lane, Post, Yakutpura,
Hyderabad – 500 023. A.P. India.
(:(040) 24565644 – Cell: 09848642909

Share
Share
Share