شاعری کیسے تخلیق ہوتی ہے
محمد خرم یاسین ۔ فیصل آباد
موبائل : 923457818002+
ای میل :
شاعری جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے کا نام ہے ۔ یہ ہنر محنت اور مشقت کا طالب ہے لیکن یہ بہت مشکل یا نا ممکن عمل ہر گز نہیں۔عموماً عمر کے کسی نہ کسی حصے میں لوگ شاعری کی جانب مائل ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی عمر کا یہ حصہ طویل ہوجاتا ہے اورکچھ کا قلیل ہی رہتا ہے۔ شاعری کے بارے میں ولیم ورڈز ورتھ نے کہا تھا کہ یہ جذبات کا ابلتا ہوا چشمہ ہے۔ ایک اور صا حب نے ادب کو تنقیدِ حیات کا نام دیا جو کہ غلط بھی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اکثر شعرا سے ملتے ہیں تو ان سے ایک ہی سوال کرتے ہیں۔ آپ شاعری کیسے کر لیتے ہیں اور یہ خیالات کس طرح سے آپ کی ذہن میں آتے ہیں؟۔ شاعری کیسے تخلیق ہوتی ہے یا اس کے لیے خیالات کا انبار کہاں سے مہیا ہوتا ہے ایک اہم سوال ہے جس کے جوا ب میں نفسیات کی گچھیاں بھی الجھی ہوئی ہیں اور معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی عوامل بھی کار فرما ہیں ۔ اس سلسلے میں راقم کی طویل تحقیق کا قلیل حصہ آپ کی خد مت میں پیش ہے۔
عام طور پر کہاجاتا ہے کہ شاعر حساس لوگ ہوتے ہیں۔ یہی حساسیت انہیں شاعری کی جانب کھینچتی ہے۔جبکہ بہت سے لوگ نثر کی جانب بھی کھنچے چلے جا تے ہیں اور ناول، افسانہ، ڈرامہ وغیرہ کی تخلیق کرتے ہیں۔ شعرا کی حساسیت کبھی معاشی مسائل کی وجہ سے جنم لیتی ہے تو کبھی معاشرتی مسائل کی وجہ سے۔ کبھی شاعری کے پیچھے سیاست محرک ہوتی ہے تو کبھی نفسیاتی الجھنیں ۔ اکثر اوقات ملک و قوم سے محبت اور مذہب سے لگاؤ بھی انسان کو شاعری کی جانب کھینچتا ہے۔ عام طور پر شاعری سے متعلق آمد اور آورد کا نظریہ مو جو دہے۔ آمد وہ خیالات ہیں جو شاعری کی صورت میں غیب سے شاعر کے دماغ میں آتے ہیں۔ یہ شاعری بالکل فطری یا Naturallyانسان کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے جبکہ آورد میں وہ شاعری شامل ہے جس کے بارے میں شاعر تفکر کرتاہے یاخود سے سوچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اقبال نے مسلمانوں کی بیداری کے لیے جو شاعری کی اس کا بیش تر حصہ آورد سے ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات داخلیت اور خارجیت کی بھی ہے۔شاعری میں داخلیت سے مراد شاعر کی اپنی ذاتی زندگی کا بڑا حصہ یا اپنے اندرونی موسم کا حصہ اس کی شاعری میں موجود ہونا ہے جبکہ خارجیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر جس چیز کو دیکھے وہ اس کے خارج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور خود اپنے آپ کو اس میں سے نفی کر کے اس کا بیان کر دے۔ اس سوال کے جوا ب میں کہ شاعر شاعری کس طرح سے تخلیق کرتے ہیں دنیا بھر کے شعرا سے رابطہ کیا گیا۔طویل مکالمے کے بعد ان کی جانب سے آنے والے جوابات کا کچھ حصہ ان کے نمونہ کلام کے ساتھ ذیل میں دیے جا رہاہے: منظورثاقب(فیصل آباد):
زندگی کے مختلف رنگ دیکھتا ہوں جو کہیں پر بہت روشن ہیں تو کہیں میلے اور گدلے، کہیں توانا ہیں اور کہیں آخری سانسوں پر۔ا ن رنگوں پر غور کرتا ہوں تو تو شاعری خود بخود اترنے لگتی ہے اوریہ رنگ جب میری فکر کے ساتھ گھلتے ہیں تو بہت سے اشعار تخلیق ہونے لگتے ہیں۔
کوئی تو فیصلہ کرتا ہے پتھر کے مقدر کا
کسے ٹھو کر میں رہنا ہے کسے بھگوان ہونا ہے
سنجے چتراشی(کلکتہ انڈیا):
شاعری دل سے ہوتی ہے اس کے لیے سوچنا ہی نہیں پڑتا۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کونسا شعر ہوجائے۔
ضیا ء حسین ضیاء(فیصل آباد) :
ہر مظہر کائنات میں اپنے وجود اور اپنی فاعلیت کا اثبات چاہتا ہے۔ اس کے لیے اظہار ضروری ہے ۔ تخلیق کا محرک اپنی داخلی اور خارجی سچ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعلان ہوتا ہے۔ لوحِ جہاں پر اپنی گواہی لکھنا وجدان سے۔۔۔یہ ایک مضبوط اور موثر محرک ہے ۔
آئینہ بند سہی ، عکسِ خریدار بھی ہوں
اپنی حیران نگاہی میری اجرت کر لو
ٓٓٓبسملؔ شمسی(فیصل آباد):
مجھے معاشی حالات اکثر شاعری کی طرف کھینچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میری شاعری میں معاشی نا انصافی کا رونا کئی جگہوں پر دیکھنے میں آتاہے۔اس کے علاوہ میرے اپنے اندر کا بدلتا موسم بھی شاعری کو جنم دیتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاناچاہوں گا کہ یہ مو سم کئی چیزوں کی وجہ سے بدلتا رہتا ہے۔
تنگدستی کے مفلسی کے عذاب
ہم نے جھیلے ہیں زندگی کے عذاب
کو ثر علیمی(فیصل آباد):
میری شاعری کا بڑا محرک معاشرہ ہے۔ میں کئی چیزوں سے تحریک لیتا ہوں اور دوسرے کے درد کو اپنا درد محسوس کرتا ہوں تو شاعری میں طلاطم آتا چلا جاتا ہے ۔ ابتداء میں میں زیادہ تر شاعری داخلیت کی وجہ سے ہوتی تھی اور اب خارجیت زیادہ رہ گئی ہے ۔
سنگ بدستاں تجھے دیوانہ بتائے کیسے
بے ثمر پیڑ کو پتھر نہیں مارے جاتے
آسنا تھ کنول(لاہور):
موسم بدلنے سے شاعری تخلیق ہوتی ہے ۔ اور جب میں شاعری کرتی ہوں تو ساتھ افسانے بھی لکھتی ہوں۔
بدن کی ساری حدوں سے نکل گیا ہے وہ
سنا ہے آجکل کافی بدل گیا ہے وہ
طالب کوثری:
مشاہدہ جب لفظوں میں پرویا جاتا ہے تو کبھی آپ کسی کی جگہ کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی کوئی آپ کی جگہ ۔ مشاہدہ جس قدر باریک ہوگا اسی قدر شاعری میں آسانی ملے گی۔ بھرتی کے اشعار کے بجائے اچھے اشعار مشاہدے کے مرہونِ منت ہوتے ہیں ۔
علی بابا درپن(حیدرآباد،انڈیا):
جب میں سماجی تعلقات پر نظر دوڑاتا ہوں تو ان کا مشاہدہ مجھے محرک مہیا کرتاہے۔کسی بھی رشتے سے معاشرے کو دیکھا جائے، خواہ یہ رشتہ معاشی ہو یا سیاسی، ہر چیز شاعری کے لیے محرک مہیا کرتی ہے۔
درجہ ہے اپنا اپنے مراتب کی بات ہے
عرشِ بریں پہ کوئی ، کوئی طور تک گیا
سرور خان سرورؔ (فیصل آباد):
معاشی نا ہمواری شاعری کی جانب کھینچتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر سب کو اپنے دل کا حال سناؤں۔ اسی لیے شاعری کی جانب کھنچا چلا جا تا ہوں۔ شاعری بہت سارے مسائل کی وجہ سے تخلیق ہوتی ہے جن میں سے میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ معاشی مسئلہ ہے۔ کتنے اچھے ہیں میرے گھر کے پرانے برتن
چھت ٹپکتی ہے تو کیچڑ نہیں ہونے دیتے
آفتاب احمد خان (لاہور):
گردو پیش کے حالات سے تحریک ملتی ہے اور ذاتی تجربات اس میں اضافہ کرتے ہیں تو شاعری کرتا ہوں۔
گر میں آج اندھیروں سے دوستی کر لوں
تو کل کہے گا کون آفتاب مجھے
افتخا ر حیدر(شکر گڑھ):
شاعری کے لیے معاش، معاشرت سب مل کر محرک مہیا کرتے ہیں۔
روح کچلنے دل ہلانے لگتی ہے
تنہائی جب شور مچانے لگتی ہے
نعیم رضوان(کراچی):
میں اپنے کتھارسس کے لیے شاعری کرتا ہوں۔ جب جذبات سے دل بھر جائے تو دل کرتا ہے کہ کچھ کہا جائے۔
عابد علی عابد(فیصل آباد):
شاعر حساس انسان ہوتا ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے گردو پیش میں کچھ ہو رہا ہواور اسے خبر نہ ہو۔ جب وہ اسی خبر گیری کو الفاظ کا روپ دیتا ہے تو شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ کتب کا مطالعہ بھی اس سلسلے میں اہم ہے۔
غلام یاسین(د لن نشیں لاہور):
مذہب سماجیات، سیاست اور داخلیت یہ سب مل کر مجھے شاعری کی جانب کھینچتے ہیں ۔
یاسمین حبیب(انڈیا)
مجھے نہیں معلوم کیوں اور کس طرح سے شاعری کر پاتی ہوں۔ کبھی کچھ اشعار زبان پر جاری ہوجاتے ہیں تو کبھی پوری پوری غزل ہو جاتی ہے۔ اس میں شعور ی کوشش بہت کم ہے۔
لکنت میرے لہجے سے گئی طرزِ بیاں تک
اک خار پرویا رہا اس دل سے زباں تک
ثنا اللہ ظہیر (فیصل آباد):
مجھے خود اکثر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کونسی چیز شاعری کی جانب کھینچ لے گئی ہے۔ کبھی لوگوں کو رویے، کبھی نفسیات، کبھی کوئی کتاب، کبھی کوئی معاشرتی محرک ۔میں جھوٹے اشعار نہیں کہتا، جب کبھی کچھ مختلف ہو ، شعر ذہن میں آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
اپنی جانب میری یکسوئی سے اکتائیے مت
آپ یکسر نظر انداز بھی ہو سکتے ہیں
درجہ بالا تحقیق اورسوالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر ہر وقت شاعر ہی ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ شاعری اس پر ہر وقت طاری رہے۔ البتہ ایسا ضرورہوتا ہے کہ بہت سے محرکات جن میں عشق ، محبت، معاش، معاشرت اور مذہب شامل ہیں ان میں سے کوئی نا کوئی چیز شاعر کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ یوں کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سارے عوامل اسے شاعری کی دعوت دیتے ہیں جو خارجی بھی ہو سکتے ہیں اور داخلی بھی۔ شاعر ی میں رنگ اس وقت بھرتا ہے جب جذبات میں صداقت اور الفاظ کا چناؤ ایسا بہترین ہو جو ابلاغ بھر کر سکے۔ یوں شعرا ء کرام کا رتبہ متعین ہوتا ہے اور کوئی اقبال بنتا ہے تو کوئی غالب۔
***
پس نوٹ : مخدوم کی نظم ’’شاعر‘‘ ملاحظہ ہو تاکہ پتہ تو چلے کہ شاعری کیسے کی جاتی ہے ۔ (جہانِ اردو)
کچھ قوسِ قزح سے رنگت لی، کچھ نور چرایا تاروں سے
بجلی سے تڑپ کو مانگ لیا، کچھ کیف اڑایا بہاروں سے
پھولوں سے مہک، شاخوں سے لچک اور منڈوؤں سے ٹھنڈا سایہ
جنگل کی کنواری کلیوں نے دے ڈالا اپنا سرمایہ
بدمست جوانی سے چھینی کچھ بے فکری، کچھ الہڑ پن
پھر حسنِ جنوں پرور نے دی آشفتہ سری، دل کی دھڑکن
بکھری ہوئی رنگیں کرنوں کو آنکھوں سے چن کر لاتا ہوں
فطرت کے پریشاں نغموں سے اک اپنا گیت بناتا ہوں
فردوسِ خیالی میں بیٹھا اک بت کو تراشا کرتا ہوں
پھر اپنے دل کی دھڑکن کو پتھر کے دل میں بھرتا ہوں
مخدوم محی الدین