افسانہ : آل اِن ون
حنیف سیّد ۔ آگرہ
Cell : 09319529720 , 07520762058
– –
’’غلطی کوئی بھی کرتا ہے ،بھگوان معاف کردیتا ہے،معاف توانسان بھی کردیتا ہے،لیکن غلطی کبھی معاف نہیں کرتی،بڑے بابو….!‘‘راکیش نے آفس سے باہر نکلتے وقت بڑے بابو کوسمجھایا۔
’’پر میں کیاغلطی کررہاہوں راکیش…؟‘‘بڑے بابونے راکیش سے پوچھا۔
’’شادی نہ کرکے بہت بڑی غلطی کر رہے ہو بڑے بابو۔‘‘راکیش کہہ کراپنے راستے مُڑ گیا، اور بڑے بابوسوچتے ہوئے اپنے گھرآ گئے۔
بڑے بابوپہاڑ پرجمی برف کی مانندٹھنڈے تھے،بالکل یخ،اور میٹھے بھی،کبھی کبھی لوگوں کے طنز،سورج کی گرم شعاعوں کی مانندچبھتے بھی اُن کو۔وہ حالات کے تحت تھوڑا بہت اگرپگھل بھی جاتے ، مگر رہتے پھر بھی میٹھے پانی کی مانند۔اونچائی سے گرتے،پتھروں سے ٹکراتے،دھول سے گزرتے،پر رہتے میٹھے کے میٹھے ،اورٹھنڈے بھی۔لوگوں کی باتیں ہواؤں کی ماننداُن سے ٹکرا کر گزر جاتیں،اُن کو لگتا بھی کہ کوئی اندر سے گزر گیاہے اُن کے۔لیکن وہ جمے رہتے اپنی جگہ۔اُن کے دِل میں تھوڑی بہت گندگی آبھی جاتی،پرپل دوپل کے لیے۔
ماں باپ کے اکیلے تھے بڑے بابو۔پہاڑوں کی آگ سینے میں دبائے چپ چاپ زندگی گزاررہے تھے ،بناوالدین کے۔اُن کے گھرمیں ایک کتا،ایک توتا،اوردوچار مرغیاں مرغے تھے۔
صبح ہوئی ،فراغت کے بعدکھانابنایا،خودکھایا،جانوروں کوکھلایا،تالالگایااورنکل گئے آفس کے لیے۔آفس سے چھوٹے،ہوٹل سے کھانالیا،گھرآئے،کھا یا کھلایا، اور سورہے۔بس یہی تھامعمول اُن کی زندگی کا۔اتوار کی تعطیل میں دوکام اہم تھے اُن کے۔بازار سے سامان لانا،اور مکان کی صفائی۔ دیگر تعطیلات میں دوستوں کے یہاں بھی نکل جاتے تھے کبھی کبھار، پراپنے یہاں آنے کاموقع کم ہی دیتے تھے دوسروں کو۔ہاں ایک دیوالی میں ضرور اُن کے یہاں جانے کااتفاق ہوا میرا۔اُ ن کے دیئے وقت کے مطابق پہنچ کرجب گھنٹی بجائی،تواُن کاحلیہ دیکھ کربے ساختہ ہنسی آئی۔اُن کے ایک ہاتھ میں کفگیراور دوسرا بیسن میں لتھڑا ہوا ،ماتھے پر پسینے کی بوندوں کے ساتھ ہلدی کے داغ۔ تہ بند اوربنیائن پر بھی بیسن نے دستخط کررکھے تھے اچھی طرح، جہاں تہاں۔
’’بڑے بابو…!یہ کیا حلیہ بنارکھاہے آپ نے…؟‘‘میں نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔
’’امے کیابتاؤں یار…!پکوڑے بنارہاتھا۔مرغا پاس کھڑاتھا۔بلّی آدھمکی کہیں سے۔مرغا ہلدی مرچیں اُڑاتا ہوانکل گیا،آنکھوں میں مرچیں بھر گئیں،بہت دھویادیکھو…!اب بھی آنکھیں سُرخ ہیں نا…؟‘‘
’’ہاں ہیں۔‘‘میں کہتا ہوا اندر چلاگیا۔اُن کے ساتھ کھانا بنوایا،کھایا پیا،چلاآیا۔
’’یہ مرغ مسلم کیسے بنایاجاتاہے راکیش بابو…؟‘‘ایک روزآفس میں بڑے بابو نے راکیش کوفائل دیتے ہوئے دریافت کیا۔
’’ایک ساتھ دوغلطیاں کررہے ہوبڑے بابو…!‘‘ راکیش نے بتایا۔
’’غلطیاں…..!کون سی …….؟‘‘
’’ایک توفرید کی فائل مجھ کودے رہے ہو،اوردوسرے مرغ مسلم بنانے کاطریقہ کسی خانساماں کے بجائے مجھ سے پوچھ رہے ہو۔‘‘راکیش نے جواب دیا،اور بڑے بابوشرمندہ ہوکر فرید کی جانب مڑگئے۔
’’بڑے بابو …! میری مانوتوایک کام کرو…!‘‘فرید نے فائل لیتے ہوئے بڑے بابو سے کہا۔
’’وہ کیا….؟‘‘بڑے بابو نے پوچھا۔
’’شادی کرلو…!‘‘فرید نے ،مشورہ دیا۔
’’اجی کیا ضرورت ہے شادی کی…؟‘‘بڑے بابو بے ساختہ بھڑک گئے۔
’’ضرورت تو ہے ۔بیوی ہوتی تومرغ مسلم کے بارے میں دریافت نہ کرتے۔‘‘
’’وہ توٹی،وی،پردیکھ لوں گا۔‘‘
’’ٹی،وی،پردیکھ لینے سے مرغ مسلم نہیں بن جاتابڑے بابو، بناناپڑتاہے۔‘‘
’’سناہے کھانابنانے کی مشین آگئی ہے مارکٹ میں ۔اُس میں جس وقت کاجو بھی فیڈ کردو۔وقت پرگرماگرم کھاناتیار ملے گا۔‘‘بڑے بابوفائل دے کراپنی سیٹ پربیٹھ گئے۔
’’کھانابنانے کے علاوہ اوربھی بہت سے کام ہیں گھرمیں بڑے بابو…!‘‘فرید نے سمجھایا۔
’’ہاں ہیں،لیکن اب سارے کام مشینوں سے ہوجاتے ہیں فرید…!‘‘بڑے بابونے ٹال دیا
’’کیا کیاکام مشینوں سے کرواؤگے بڑے بابو…؟‘‘فریدنے پیچھا کیا۔
’’پہلا کام وقت پرسوکراُٹھنا، جِس وقت کابھی الارم لگادو،اُسی وقت اُٹھائے گی مشین، ایک منٹ اِدھرنہ اُدھر۔اسی طرح اور بھی مشینیں ہیں جیسے پانی گرم کرنے کی مشین، مسالاپیسنے کی مشین،کپڑے دھونے کی مشین،لگتا ہے ٹی،وی،پراسکائی شاپ نہیں دیکھتے ہیں آپ ….؟‘‘بڑے بابو نے جیسے بازی مار لی۔
’’دیکھتاہوں جناب،لیکن یہ توبتاؤ….!کیا بچے بنانے کی مشین بھی بنائی ہے اِسکائی شاپ نے….؟‘‘فرید نے نیا پتّا پھینکا۔
’’نہیں بنائی ہے توبنالی جائے گی ایک نہ ایک دن۔ایک سے ایک سائنس داں پڑے ہیں دنیامیں۔‘‘
’’توانتظار کروبڑے بابو….!‘‘
’’وہ توکروں گا۔‘‘بڑے بابونے فائنل کردیا
***
’’اوبے فرید…!‘‘ایک روزبڑے بابو نے دفتر میں آتے ہی فرید کومخاطب کیا۔
’’کہیے بڑے بابو…!‘‘
’’اب ایجاد ہوگئی ہے وہ مشین ۔‘‘
’’مشین …!کون سی مشین….؟‘‘
’’وہی نا…!بچے بنانے والی،اب ٹیسٹ ٹیوب میں تیار ہونے لگے ہیں بچے۔پڑھا نہیں اخبار میں ….؟‘‘
’’پڑھا توہے …!پریہ توبتاؤ….!لاکب رہے ہووہ مشین…؟‘‘
’’ابے فرید…!توجانتانہیں۔آج کے دورمیں اتنی زیادہ مشینیں خریدناہے کب میرے بس کا….؟میں توصرف ایک کلرک ٹھہرا،وہ بھی بوڑھا۔‘‘
’’پھر کروگے کیا….؟‘‘
’’سوچتاہوں جب یہ ساری مشینیں ایک ساتھ ایک ہی مشین میں آجائیں گی یعنی کہ آل،اِن ،ون،تب ہی خرید سکوں گا میں تو۔‘‘
’’نہ دادامریں گے اور نہ بدھیاں بٹیں گی۔‘‘
’’بٹیں گی بدھیاں ،ضروربٹیں گی ۔تم دیکھ لینا۔داداکوتومرناہی پڑے گا،ایک نہ ایک دِن۔‘‘
’’مجھے لگتا ہے،داداسے پہلے تم ہی چلے جاؤگے آل اِن ون کے ارمان میں ۔‘‘
’’لگتاتویہی ہے فرید….!‘‘بڑے بابوافسردہ ہوگئے۔
***
’’دادامرگئے۔‘‘بڑے بابودفتر آکراُچھل پڑے خوشی سے۔لوگ سمجھے کہ داداواقعی چلے گئے اُن کے ۔
’’دادامرگئے….؟‘‘راکیش نے اُن کوخوش دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں دادامرگئے،اب بدھیاں بٹیں گی،یعنی کہ آل،اِن ،ون،آگئی مارکٹ میں۔‘‘
’’تولے آؤنا….!‘‘
’’جاتورہاہوں لینے اتوار کونوئیڈا۔تم سب بھی چلونامرے ساتھ ۔…!‘‘
***
سوموارکوبڑے بابوآفس آئے تو حلیہ ہی بدلاہواتھااُن کا۔بال کالے،کریم کلر کاسوٹ،کالا بوٹ،بوٹ کی ہل ہائی،سوٹ پرسرخ ٹائی،چھوٹی مہری کی پینٹ،اُس پر سیکسوسینٹ،نیارومال،مستانی چال۔آتے ہی نمستے مارا،کسی کی سمجھ میں نہ آیاماجراسارا۔
’’کیاآل ،اِن، ون،لے آئے بڑے بابو…!‘‘میں نے دریافت کیا۔
’’رات ہی تولایا ہوں،تم دیکھ نہیں رہے ہو مجھ کوآج۔‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘
’’یہ پریس لگاخوشبودارسوٹ ،چمچماتاہوابوٹ، لال رومال ، کالے بال، ٹناٹن حال، مستانی چال،اُسی مشین کی تودین ہے نا..!‘‘بڑے بابو نے آنکھیں مٹکائیں۔
’’ہاں…؟‘‘
’’ہاں..!فٹافٹ کام کرتی ہے میری آل ،اِن، ون۔‘‘
’’تو کب دکھاؤ گے اپنی آل اِن،ون…؟‘‘راکیش نے پوچھا۔
’’آج ہی آجاؤشام کو…!‘‘بڑے بابونے کہا،ہم سب نے حامی بھر لی اور بڑے بابوہاف ٹائم کی چھٹی لے کر نکل گئے آفس سے ۔ہم لوگوں نے اُن کے دیے ہوئے وقت کے مطابق پہنچ کر مکان کی گھنٹی بجادی،اوربڑے بابو نے ہم سب کواندر بلالیا۔
’’کہاں ہے آپ کی آل ،اِن ،ون….؟‘‘میں نے بڑے بابوسے فوراًدریافت کیا۔
’’وہ دیکھو…!آپ لوگوں کے لیے کھاناتیار کررہی ہے ،میری آل،اِ ن ،ون۔‘‘بڑے بابونے اُس جانب اشارہ کیا،جہاں سرخ کپڑوں میں لپٹی ایک دوشیزہ کھانا بنانے میں مصروف تھی۔*
*****
حنیف سیّد
،۳۴ ؍ ۱۲۔سوئی کٹرہ۔ آگرہ ۲۸۲۰۰۳۔(یو،پی)
.HANIF SYED, 12\ 34,SUI KATRA, AGRA 282003 (U.P)