افسانوی مجموعہ :انشااللہ
افسانہ نگار : حسن نظامی کیراپی
مرتب: تنویراختر رومانی
(رابطہ: 08092792511)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حسن نظامی کیراپی(آمد:۸؍جنوری۱۹۴۱) شہرسنگ و آہن جمشیدپور کے زکی انور، گربچن سنگھ،ل م شاہد اورشمیم چواروی جیسے نامور افسانہ نگاروں کے عہد کے افسانہ نگار ہیں۔ان کا پہلا افسانہ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا تھا اور تب سے وہ مسلسل لکھ رہے ،اب تک لکھ رہے ہیں۔ اس کبر سنی کے باوجود نہ تو ان کا ذہن مضمحل ہوا ہے نہ قلم۔ اب تک تقریباً سات سو (۷۰۰)افسانے لکھ چکے ہیں۔یہ تعداد اپنے آپ میں خود ایک کارنامہ ہے۔
۱۹۹۶ء میں پندرہ افسانوں پر مشتمل ان کا پہلا مجموعہ ’’تحفہ‘‘ منظر عام پر آیا تھا، جس کی ترتیب و پیشکش کی سعادت بھی اس ناچیز کو حاصل تھی۔موصوف نے ادب کی دونوں بڑی تحریکات، ترقی پسند اور جدیدیت، کو دیکھا پرکھا ہے ۔ لیکن نہ تو ترقی پسندی کے غلغلے کا اثر قبول کیا نہ جدیدیت کی کرتب بازی کے شکار ہوئے۔
فکری اعتبار سے وہ پریم چند کے اور اسلوب کے لحاظ سے منٹوؔ کے قریب نظر آتے ہیں۔
پریم چند کی طرح وہ اپنے افسانوں کے توسط سے انسانی اقدار کی بحالی، بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں رہتے ہیں نیز دوسروں کے تئیں جذبہ ایثار ، سماجی عدل وانصاف، ظلم وستم سے پاک معاشرہ، حق کی حمایت،باطل سے نبرد آزما ئی، اباحیت اور جنسی انارکی کی مذمت،آبرو باختہ تہذیب کی ملامت، باہمی اخلاص و محبت ، دولت کا اسراف بیجا،زورآوروں کا ستم، دبی کچلی انسانیت، معاشرتی عدم مساوات، اونچ نیچ کاغیر انسانی رجحان ، مذہبی تشدد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،بھوک ، غربت افلاس جیسے موضوعات سے اپنے افسانوں کی فضا بندی کرتے ہیں۔
منٹو کی طرح ان کا اسلوب سیدھا اور سپاٹ ہوتاہے ۔نہ تو لفاظی کرتے ہیں نہ الفاظ کی بازیگری دکھاتے ہیں۔گنجلک جملوں اور ادق الفاظ سے اپنے افسانوں کو مبرّا رکھتے ہیں۔ جو کچھ محسوس و مشاہدہ کرتے ہیں اسے سیدھے سادے طرز نگارش میں صفحہِ قرطاس پر رقم کردیتے ہیں۔بہت زیادہ منظر کشی سے بھی گریز کرتے ہیں۔ تشبیہات و تمثیلات کا سہارا بہت کم لیتے ہیں۔
ان کے افسانوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ پُراز واقعات نہیں ہوتے۔ ایک دو واقعہ بطور مصنف وہ خود بیان کرتے ہیں باقی کرداروں کے مکالموں سے بیان کرواتے ہیں۔
زیر نظر مجموعے ’’انشاء اللہ ‘‘ کی ترتیب و اشاعت کا سبب یہ ہے کہ حسن نظامی کیراپی سے میری ۳۸؍ برسوں سے زاید کی رفاقت ہے۔ ان کی اور میری عمر میں تقریباً سولہ(۱۶) برسوں کا تفاوت ہے۔لیکن اس تفاوت کے باوجود انھوں نے مجھے ہمیشہ ایک مخلص رفیق سمجھا،کبھی فریق ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔دراصل یہ کتاب اس طویل رفاقت کا مختصر خراج ہے۔
۱۹۹۶ء میں مَیں نے اردو دنیا کو ایک ’’تحفہ ‘‘ دیا تھا ۔ اب یہ مجموعہ بھی ’’انشا ء اللہ‘‘ اردو والوں کے لئے تحفہ ثابت ہوگا۔
اب آپ موصوف کے افسانے پڑھئے اور اپنی گراں قدر رائے سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔یہ آپ کی ادبی ذمہ داری ہے۔
کتاب کی قیمت : ایک سو روپیے
ملنے کا پتہ : تنویر کتاب کونا ‘ ۹۵ ‘چونا شاہ کالونی ‘آزاد نگر‘ جمشید پور ۔ ۸۳۲۱۱۰