طنز و مزاح : اف یہ بیویاں… !!
سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :
دلوں کے تارسے چھیڑ دینے والا وہ محاورہ سنا ہے آپ نے،،،، بچے اپنے اور دوسرے کی بیوی زیادہ اچھے لگتے ہیں۔۔۔! بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی،،،! تاہم یہ اودھم پرور محاورہ گھر میں زبان پہ لانے کا نہیں،،، ورنہ دونوں ہی ہاتھ سے جائیں گے۔۔۔ ِادھر آپ کے بچے نزدیک پھٹکنے نہیں دیئے جائیں گے اور ُادھر آپ کسی کی بیوی کے قریب پھٹکنے کے قابل بھی نہیں رہنے دیئے جائیں گے۔۔۔ تاہم کئیوں کے مطابق "ایسا سوچنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، کہ اس کے بنا زندگی میں کوئی ذائقہ نہیں”۔۔۔ لیکن ذرا سا بچ بچا کے ، کیونکہ وہ جو آپکا طائر خیال ہے اس کےپر قینچنے کیلیئے آپکی زوجہ ہمیشہ زیادہ چوکس و مستعد ملے گی ۔۔۔ ویسے بھی برصغیر کی بیویاں تاریخی طور پہ شوہر کو اپنی ملکیت بلکہ اپنا سامان سمجھتی ہیں اور گھروں میں ، محفلوں میں ادھر ادھر اسی طور گھسیٹتی پھرتی ہیں،،،، بیگمات کا یہ خیال ہے کہ اگر وہ اپنے شوہروں پہ اتنی کڑی نظر نہ رکھیں تو نا جانے کیا کرڈالےیہ "مردؤا”۔۔۔ حالانکہ، ہر دو کڑی نظروں کے درمیانی وقفے میں ہی وہ سب کچھ ہورہتا ہے کہ جسکی روک تھام کیلیئے اتنا کچھ کیا گیا ہوتا ہے۔۔۔،! اور اگر ذرا کمی رہ جائے تو گویا۔۔۔ کہیں دل رہ گیا تو کہیں آنکھیں۔۔۔!
ویسے تو اکثر بیویوں کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ وہ کبھی لڑکی بھی رہی ہوں گی تاہم بالتحقیق یہ ثابت ہے کہ ہر بیوی کبھی نا کبھی لڑکی ضرور رہی ہوتی ہے ،،،خوشبوؤں میں بسی ہوئی،،، ناز و ادا سے رچی ہوئی،،، اور انہی میں سے کچھ تو ایسی کہ جنہیں لوگ مڑمڑ کے دیکھتے رہے ہیں،،،اور گٹروں میں ڈوب ڈوب کر ابھرتے رہے ہیں ، کبھی ٹانگ ٹوٹی تو کبھی دل، لیکن ولولوں میں کمی نہ آئی ۔۔ لیکن یہی لڑکیاں جو شادی سے پہلے الگ الگ طرح کی ہوا کرتی ہیں، شادی کے بعد سب کی سب یا زیادہ تر ایک ہی طرح کی ہوجاتی ہیں، اور ان کے وجود میں چھپے کئی کردار کود کود کر باہر آتے جاتے ہیں ، کبھی لیکچرر تو کبھی دھوبن تو کبھی باورچن،،،لیکن ان سب سے زیادہ کرارا کردار یہ کہ بیحد شکی، اور نکتہ چینی کی ماہر اور اس حوالے سے انکے پاس موضوعات کی کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔۔۔ ۔۔۔ شوہر سلامت تو بدگمانی کے ہزار طریقے بھی سلامت،،، پھریہ کہ جس شوہر کو اللھ رکھے تو وہ تادم مرگ شک کا مزہ باربار کیوں نہ چکھے۔۔۔ اور پھر اس طرح کے "فلاحی” کاموں کی تو مخصوص ٹائمنگ بھی متعین نہیں ہیں لہٰذا شوہر کو ہمہ وقت سولی پہ ٹنگا رہنا پڑتا ہے۔۔
شادی کےبعد شروع شروع میں تو شک بہت دھیرے دھیرے سے ظاہر کیا جاتا ہے،، ایسے ہی ذرا ہولے سے۔۔ دھیمے سے،، شوہر کے کندھے سے سر ٹکاکر بڑے رسان سے شوہرکےکوٹ یا قمیض کو چھوٹی چھوٹی سانسوں سے سونگھنے سے واردات کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔ اگر وہاں کسی ایسی خوشبو کا سراغ لگے جو گھر میں موجود نہیں تو اسی مقام پہ ناک ٹہرا کر تھوڑے لمبے لمبے سانس لیئے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن خوشبو کی تعریف کرتے ہوئے یہ ضرور دریافت کیا جاتا ہے کہ
"ارے یہ کب لی؟ کہاں رکھی ہے،،،ذرامجھے بھی تو بھی تو دکھائیے،،،،! ”
اور پھر اسی طرح کبھی شوہر کے ساتھ ذرا لگ کر۔۔۔ یونہی بیٹھے بیٹھے۔۔۔ چپکے چپکےسے موبائل کو ہاتھ میں تھاما جاتا ہے ۔۔اسے تھوڑا سا الٹتے پلٹتےہوئے اسکے ِان باکس کے کوچوں میں گھوما جاتا ہے،،، پھر ذرا اور ہمت بندھتی ہے تو سینٹ باکس میں سونگھا جاتا ہے۔۔۔ بار بار نظر آنے والے نمبروں کو نوٹ بھی کرلیا جاتا ہے،،،اس دوران گاہے دُزدیدہ نگاہوں سے شوہر کے چہرے کےتاثرات اور بدن بولی کو بھی آنکا جاتا رہتا ہے۔۔ مزید تاب وتواں بڑھے تو بدگمانیوں کی مہم جوئی تیز تر ہوتی جاتی ہے اور شوہر کے ذرا ادھر ادھر ہوتے ہی ُان ‘مشکوک’ تکراری نمبروں پہ رانگ کال کی جاتی ہے اور اندازے کے چمقاق سے دوسری طرف نسوانیت کی پازیب کھوجی جاتی ہےاور پھر مستعدی سے اس کال کے ریکارڈ کو بھی نابود کردیا جاتا ہے،،، ضرورت اگر ایجاد کی ماں ہے تو شک اسکی نانی ہے۔۔۔ بجلی کے فیوز کو بھی نا سمجھنے والی یہ "الاندرونیاں” موبائل کے نظام کی تکنیکی باریکیوں کے باب میں گویا البیرونیاں ہیں۔۔۔!
بیوی کو چالاک دیکھنا کسی مرد کو مطلوب نہیں ۔۔۔ لیکن ان کے نصیب میں زیادہ تر یہ ہونی ہوکے رہتی ہےاورپھر اسکی نیٹ پریکٹس ساری زندگی جاری رہتی ہے۔۔۔ نقص امن سے بچنے کیلیئے بڑے بڑے فلاسفر بھی اپنی زوجہ کے مقابل بدھومیاں بن جاتے ہیں اور ان سے حماقت کی داد پاتے ہیں،،،اپنی زوجہ کے پھیپھڑوں کو ترنگ اور مسرت کی خوشگوار ہوا سے بھرنے اور اس سے اطمینان کی سانسیں برآمد کرنے ۔۔اور ایک خوشگوار اور بھرپور ازدواجی زندگی کیلیئے تھوڑا سا بدھو نظر آنا بہت ضروری، بلکہ لازمی ہے،، قیام امن اور رفع شر کیلیئے یہ بڑے کمال کا نسخہ ہے۔۔۔ برصغیر میں شادی کے بعد دونوں فریقین میں تھوڑا سا بدلاؤ آنےکو واجب بلکہ فرض سمجھ لیا گیا ہے۔۔ لیکن اس کلیئے کے نتائج پوری سنگینی کے ساتھ صرف خواتین پہ ہی ہویدا کیوں ہوتے ہیں،، یہ گویا ایک آسمانی راز ہے۔۔۔۔! عجیب بات یہ ہے کہ اچھی بھلی شوخ وشنگ لڑکیاں بھی بیوی بننے کے بعد صرف صحت ہی سے نہیں شرارت و شوخی کے لحاظ سے بھی یکسر مختلف ہوجاتی ہیں،،، ذیادہ تربیویاں شادی کے فوراً بعد خوفناک سنجیدگی کا غلاف بلکہ جھول سا جسے وہ متانت باور کراتی ہیں ، اوڑھ لیتی ہیں اور اپنے شوہروں کو جو کہ تبدیلیء ذات کی اتنی بڑی اور مکمل جست نہیں لگاپاتےکو ہر وقت ان کلمات ناملائم کی سان پہ چڑھائے رکھتی ہیں کہ "آپ تو ہر وقت بچہ بنے رہتے ہیں”،،، یا ” آخرآپ کب بڑے ہونگے”،،،،یہ اور اس قسم کے اور کئی غیرت ابھارُو کلمات سے ُاکسا کر اپنے ہی رنگ میں رنگ دیننے کی یہ مہم ہمیشہ ہی جاری رہتی ہے ۔۔۔ اور ستم تو یہ ہے کہ شوہر کے کب بڑے ہونے کی یہ آشاؤں بھری لن ترانی اسکے بڑے میاں ہوجانے پہ بھی نہیں رکتی،،
چند ماہرین زن کا حسن ظن ہے کہ حسین لڑکیاں بیوی بننے کے بعد زیادہ عرصے تک ایسی طعنہ زنی جاری رکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں کیونکہ انکا غرور حسن انہیں زیادہ بولنے سے گریز کرنے پہ اکساتا ہے جو انکو خود بخود ذہین سمجھ لیئے جانےکی بھی آسان تدبیر ہے۔۔۔ لیکن ہمارے چغتائی صاحب کا نکتہء نظر اس بارے میں بہت مختلف ہے،، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ "شادی کیلیئے بہت حسین لڑکی تلاش کرنا بیکار ہے،،، کیوں خواہ مخواہ کسی کو دائمی پچھتاوے کا دکھ دیا جائے اور وہ بھی ایسا دکھ کہ کبھی مدہم اور کبھی تیز سروں میں اسکا راگ ساری عمر سننے کو ملے۔۔۔۔” ویسے بھی 4-5 سال میں تو ہر طرح کی زوجہ کی شکل خربوزے اور تربوز جیسی ہوجاتی ہے۔۔۔ کہیں کہیں تو پلپلاہٹ بھی آجاتی ہے۔۔۔ شادی کے بعد وہ نازنین جو تتلی سی اڑی پھرتی تھی ، چند ہی برس میں ایک بے ڈھنگی سی گدھ نما شےسی بن جاتی ہے، اور آنکھوں میں دم اور ہاتھوں میں جُنبش تلک شوہر کی جیب اور اعصاب پہ خوب خوب جھپٹا مارتی ہے۔۔۔ پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا،،، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کی اس کیفیت میں پتا ہی نہیں چلتا ۔۔کہ زوجہ کب 20 سال سے 40 برس کی ہوگئی۔۔۔ اور اس سے زیادہ کی ہونے پہ تووہ راضی ہی نہیں ہوتی،،،،،
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Syed Arif Mustafa
10/9, 5D, Nazimabad No.5 Karachi
۲ thoughts on “اف یہ بیویاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی”
جناب سید عارف مصطفی ۔ کراچی
آپ کی تحریر سے متاثر ہوکر اپنے ریکارڈ سے کچھ پیش خدمت ہے ۔
بیوی کیسی ہو؟
۱ اتنی کم عمر نہ ہو کہ اس کی سہیلیاں”انکل” کہنے لگیں۔
۲ اتنی چالاک بھی نہ ہو کہ مرد کو پان کی پڑیا سمجھ کر جیب میں ڈال لے۔
۳ اتنی گوری بھی نہ ہو کہ ٹی وی والے پیچھے بھاگتے رہیں۔
۴ اتنی کالی بھی نہ ہو کہ بھٹے والے رشتہ داری جوڑنے لگیں۔
۵ اتنی موٹی بھی نہ ہو کہ تین بندوں کے کھانے سے ناشتہ کرے۔
۶ اتنی خوش اخلاق بھی نہ ہو کہ محلے والے بے تکلف ہونے لگے۔
۷ اتنی لمبی نہ ہو کہ سیڑھی لگے۔
۸ اتنی کڑوی نہ ہو کہ زہر اچھا لگے۔
۹ اتنا بولے نہ ، کہ ٹی وی لگے۔
۱۰ اتنی چپ نہ رہے کہ گھر قبرستان لگے۔
٭٭٭
جناب!!!
کیا آپ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے ہیں ؟؟؟
’’ مردؤا ‘‘ لفظ خالصتاً حیدرآبادی ہے اس لئے دریافت کیا 🙂
کماااااااااااااااااال است 🙂
نہ صرف اپنا بلکہ تمام ’’ مظلوم و معتوب شوہروں ‘‘ کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ مانیں ایک ایک جملہ مجھے رک رک کر پڑھنا پڑا ۔ پتہ نہیں کتنے شوہروں کے دل سے دعائیں نکلی ہوں گی آپ کے لئے ( ان ڈائریکٹلی آپ نے جو ان کے دکھ کو سمجھا ہے اور بقول مظلومین شوہران کے ’’ ظالم بیوییوں کے گوش گزار کی )
کبھی وقت نکال کر ہم ظالم ( بقول شوہروں کے ) بیویوں پر بھی غزل سرا ہوں
ڈھیر ساری داد ( ہمت کی )