اردو میں بہتریں سفر ناموں کی روایت
تحریر؛ احمد سھیل
اردو مین سفر نامے کی تاریخ اردو کی تاریخ کی طرح مختصر ضرور ھے لیکن اردو میں بہتریں سفر ناموں کی روایت خاصی مستحکم ھے۔ ایک زمانے میں سفر نامہ لکھا کم اور سنایا زیادہ جاتا تھا۔ جیسے پشاور کے قدیم اور تاریخی قصہ خوانی بازار میں وسط ایشیاہ سے آنے والے مسافروں، تجار یہاں شام ڈھلے اپنے سفر کے روداد، مشاہدات، تجربات سناتے تھے۔
یہ زبانی سفر نامے سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل بھی ھوتے رھے۔ جس میں کائنات کا زمان ومکان سمویا ھوتا تھا، نئے رشتے بنائے جاتے تھے، ماضی کے روابط کا بھی سراغ ملتا تھا اور جن میں رنگا رنگ انکشافات بھی ھوتے تھے۔
” سفر نامے” کو "دروازے کے باہر”(OUT DOOR) کا ادب بھی کہا جاتا ھے۔ اس میں مہماتی، تسخیری اسفار، جنگلات، فطرت ، سیاست، طرز معاشرت، شکاریات اور سفری مصائب اور تکالیف بھی سفر ناموں کا حصہ بنتے رھے ہیں۔ "رہنمائے سفر”(گائیڈ) بھی معروضی نوعیت کا سفر نامہ ھوتا ھے۔ عموما یہ کاروباری ضرورتوں کے تحت ترتیب دیا جاتا ھے ۔ سفر ناموں کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ اور طویل ھے بغص اچھے رونامچے (ڈائری) بھی سفر ناموں کی صورت میں قلم بند کئے گئے۔جیسے جیمس بوزویل نے 1786 میں "JOURNAL OF A TOUR TO THE HERIBES” ڈائری کی صورت میں لکھی۔ یونان کے پونس نے بھی ڈائری کی یہت میں اہنے سفر کی روداد بھی لکھی۔ ابن جابر (1145۔ 1214) اور ابن بظوطہ (1304۔ 1377) کے سفر نامے زیادہ سلیقے اور گہرائی سے لکھے گئے ہیں۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے کو اردو میں مولوی عبد حسین اورسید رئیس احمد جعفری نے ترجمہ کیا ھے۔ اس سفر نامے میں ہندوستان کی تہزیب، سیاست، معاشرتی بود باش کا مشاہدہ اور مطالعہ بڑے نفیس انداز سے کیا گیا ھے۔جس میں حکمرانوں اور بادشاہوں کا زکر ھی نہیں بلکہ سڑکوں، گلیوں اور بازاروں میں چلتے بھرتے لوگ دکھائی دیتے ہیں اور معاشرتی زندگی کو بڑے بھر پور انداز میں پیش کیا ھے۔ یہ دور وسطی میں عربی ادب کی اھم صنف بھی تھی۔ اس کے علاوہ چینی سیاحوں نے وان ساونگ (960۔1214) کے عہد میں بہترین سفر نامے سامنے آئے ۔ اس صنف کو چین میں ” سفری دستاویز کا ادب” کہا جاتا تھا جو بیانیہ ڈائری اور مضمون کی صورت میں لکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ” فن چنڈگا ۔ (1126۔ 1193) اور X U XIAKE جو 7851 مین پیدا ھوئے اور ان کا انتقال1641 میں ھوا۔ انھوں نے تاریخی نوعیت کے سفر نامے لکھے جو جغرافیائی اور موسمیاتی نوعیت کے ھوتے تھے۔ فارسی میں ناصر خسرو (1003۔ 1077) نے بھی اچھا سفر نامہ لکھا ھے۔ جس میں سات (7) اسلامی ممالک کی سیاحت کی جس مین قاہرہ، یورشلیم، بحیر کیپسن کے حالات درج ہیں۔ ناصر خسرو نے قاہرہ کی فاطمی حکومت کا بہتریں مشاہدہ اور شہروں اور کارباری علاقوں کی بہتریں تفاصیل یش کیں ہیں۔ مغرب میں میچرلڈ ٹالینونٹ، گیلیس می بیوائر، رچرڈ ہیلکی اور رابرٹ لوئیس استونس وغیرہ نےبڑے توانا سفر نامے لکھے ہیں۔
سفر نامہ، ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے متعارف بھی کرواتا ھے جو ایک سیاح یا مصنف حالت و کوائف کو تفریح سفر یا سیر و شکار کے بارے میں اپنے مشاہدات، تجربات اور مہماتی عمل کے دوران قلم بند کرتا ھے۔ سفر نامے کا اصل موضوع فرد اور معاشرت اور تمدن کی حرکیات ھوتی ھے۔ جس کو بشریاتی زندگی کہتے ہیں۔ اس میں تاریخ اور جغرافیہ کے کئی انکشافات در آتے ہیں۔ اور حالات و مصائب اور مہم جوانہ عملیات اس کے پس منظر میں پوشیدہ ھوتی ہیں۔ سفر نامے کا معروض موضوع کے خمیر سے گوندھا ھوا ھے اور داخلی حرکیات ھی اس کو وسیع منظر نامہ عطا کرتے ہیں ۔ یہ ڈائری اور رپوتاژ کی ہیت اور اسلوب میں بھی لکھا جاتا ھے مگر یہ مکمل طور پر رپوتاژ نہیں ھوتا اور روزنامہ( ڈائری) کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
تحقیق کے مطابق اردو کا پیلا سفر نامہ یوسف کمبل پوش نے : "سفر نامہ ۔ عجائبات فرہنگ”: کے نام سے لکھا۔ اس کے بعد سرسید احمد خان نے اپنے سفر اگلستان کے مشاہدات، تجربات کو تاثراتی انداز میں لکھنا شروع کیا۔ جب اس کے کچھ حصے ۔۔” سوسائٹی اخبار”۔۔ میں چھپنا شروع ھوئے تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے غیر شرعی کہ کر اس کو چھپنے سے روک دیا۔ محمد حسیں آزاد کا ” سفر نامہ” ایران”۔۔ شبلی تعمانی نے سفر نامہ مصر و شام، مولانا سید حسین احمد مدنی ” سفر نامہ اسیر مالٹا "میں فرنگی سامراج کی ظلم کی داستانیں پیش کی ہیں ۔ سفر نامی "مارکو پولو” بھی اردو میں ترجمہ ھوچکا ھے۔ اردو میں مختلف نوع کے سفر نامے لکھے گئے ہیں۔ جس میں معاشرتی سیاسی، مہماتی مذھبی اور شکاریات ک موضوعات ملتے ہیں ۔میرے ذہن میں اس وقت ان اردو سفرناموں کے کئی عکس چل رھے ہیں۔ حالانکہ اردو میں سفرناموں کی ایک طویل فہرست ھے ۔جس کو یہاں درج کرنا ممکن نہیں ۔ کچھ سفر ناموں کی طرف نظر ضرور جاتی ھے جو میرے مطالعے میں شامل رھے۔
سفرنامہ، 1900 کا یوروپ، از محبوب عالم،۔۔ روزنامہ باتصریر سفر مصر و شام از خواجہ حسن نظامی دہلوی،۔۔ سفر نامہ از فرید الدیں قادری، ۔۔ ایران، عراق ترکی شام، از فرید الملت ۔ ۔۔ سفرنامہ ہستی، یعنی نیرنگی دنیا از عبد الحکیم ۔۔ چلتے ھو تو چیین کو چلیے ، از ابن انشا ۔۔۔ سفرا در سفر، از اشفاق احمد،۔۔۔ مزید آوارگی از جاوید دانش،۔۔ اندلس میں اجنبی، از مستنصر حسین تارڈ ۔۔ امریکا از اے حمید ۔۔۔۔ جرنیلی سڑک از رضا علی عابدی،۔۔۔ جولے لداخ از ستیش بترا۔۔۔ سفر نامہ مظہری از محمد حلیم انصاری ۔۔۔۔ ہر قدم روشنی از خورشید ناظر،۔۔۔ سفر نامی غیر ملکی اسفار از مولانا وحید الدیں خان، ۔۔۔۔ جہان دیدہ از محمد تقی عثمانی ۔۔۔۔ جاپان چلو جاپان چلو از مجتبی حسین ۔۔۔ گ سے گڑیا ج سے جاپانی از ڈاکٹر محمد کامران ۔۔۔ سفر تین درویشوں کا از محمد اختر ممونکا ۔۔۔۔ شوق آوارگی از عطا الحق قاسمی ۔۔۔۔۔ طلسمات فرہنگ از علی سفیان آفاقی ۔۔۔۔۔ سفر کہانیاں از عبید اللہ کہیر ۔۔۔۔ سفر نامہ ترکی از محمد مبشر نذیر ۔۔۔ کیمرج او کیمرج ازسائرہ ہاشمی ۔۔۔ روس کے تعاقب میں از مولانا امیر حمزہ ۔۔۔ دجلہ از شفیق الرحمان ۔۔۔ سفر نصیب از مختار مسعود ۔۔۔ امریکہ رے امریکہ از قمر عباس ۔۔۔ مصر کا بازار از یعقوب نظامی ۔۔۔۔ سفر نامہ کیوبا از فیض احمد فیض ۔۔۔۔ سفرنامہ اقبال از حمزہ فاروقی ۔۔۔ لبیک از ممتاز مفتی ۔۔۔ سفر نامہ پاکستان از کچی میر پوراکی ۔۔۔ سفر نامہ شام از علامہ محمد فیض احمد اویسی ۔۔ وینکور سے لائل پور تک از طارق گوجر ۔۔۔۔ہند سے یونان تک از محی الدیں نواب ۔۔۔۔ زراکیمرج تک از توصیف ایزر ۔۔۔۔سرسید احمد خان پنجاب میں از مولوی سید اقبال علی ۔۔۔ دو مہینے امریکہ میں از محمد رابع حسنی ندوی ۔۔۔۔ شہر نگاران از سید سبط حسین ۔۔۔۔ گھوم لیا پاکستان از اسد سلیم شیخ ۔۔۔۔۔ راؤنڈوی ورلڈ از عزیز زوا لفقار ۔۔۔ سفر کہانی از نوشابہ نرگس ۔۔۔۔۔ سفر ھم سفر از راغب شکیب ۔۔۔ گردش مین پاؤں از فکر زماں ۔۔۔۔ پیرس حسن وجمال کا دار الخلافہ از عزیز زوالفقار۔۔۔۔میرا سندھو سائیں از ڈاکٹر عباس برمانی ۔۔۔ ناسوھرا از قمر علی عباسی ۔۔۔۔۔ ہجرتوں کے سلسلے از محمد لطف اللہ خان ۔۔۔۔۔
اردو میں جعل ساز سفر نامے بھی لکھے گئے اس کی مثال فرحت اللہ بیگ کا "سماٹرا” پر لکھا ھوا سفرنامہ ھے۔ حالانکہ وہ کبھی سماٹرا نہیں گئے۔ 1960 کی دہائی میں اردو میں ایسے سفر نامے بھی سامنے آئے جن کا لکھنے والے اپنے شہر سے کھبی باہر نہیں گیا اور مختلف سفارت خانوں سے سفری معلومات کے پمفلٹ اور کتابچے حاصل کرکے اور قاموسوں کی مدد سے سفر نامے ترتیب دئیے لیکن یہ لوگ جلد ھی بے نقاب ھو گئے تھے۔ اردو میں زیادہ تر سفر نامے ایشیائی ۔ یورپی اور شمالی امریکہ پر لکھے گئے۔ لاطینی امریکہ پر کوئی تفصیلی سفر نامہ یہاں کے ممالک پر شاید ھی لکھا گیا ھو!! ویسے اردو کا سفر نویس مہماتی اور تحقیقی سفر نامے نہیں لکھ پاتا۔ زیادہ تر سفر نامے تفریحی اور چل چلاؤ والے ھوتے ہیں۔ اردو کے اکثر سفر ناموں میں سفر نامہ نگار مقامی حرکیات کو سمجھ نہیں پاتا اور اسی سبب وہ مقامی ثقافت اور بود وباش کی غلط تشریح بھی کرتا ھے جو تہذیبی جمالیات سے خالی ھوتی ھے۔ راقم الحروف کا ابھی تک کوئی سفرنام کتابی صورت یا رسائل میں کھبی نہیں چھپا ۔ مین عموما سفر پر ھی رھتا ھوں ۔ دینا بھر میں گھومتا ھوں۔ میرے زیادہ تر مختصر سفر نامے معہ تصاویر کے فیس بک پر پوسٹ ھوچکے ہیں۔ گزشتہ دنون میں نے ساختیایات کے بانی لیوی کلاودیل اسٹروس کے تحقیقی مقام دریا ایموزن، برازیل کے مقام پر تحقیقی سفر نامہ لکھا تھا۔ یہ وھی مقام ھے جہان لیوی اسٹروس نے 30 کے عشرے مین لسانی/ بشریاتی تحقیق کی تھی۔ کچھ ھی دنوں پہلے میں وسطی امریکہ کے ملک ” کوسٹ ریکا” کو سفر کیا تھا ۔ یہ تحقیقاتی اور میم جوئی کا سفر تھا۔ جہان میرا زیادہ تر وقت وہاں کے ساحلوں، باغات، جنگلات، آتش فشانوں اور قدیم قبائی کے درمیان گزرا۔ صرف وہاں کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر "سان ھوزے” میں صرف دو دن ھی گزارے۔
” سفر ناموں میں دہلی” کے نام سے دو جلدوں میں تنویر احمد علوی نے کتابیں ترتیب دی ھے۔ انور سدید نے ” اردو ادب مین سفرنامہ” ۔۔۔ ایک مفید کتاب لکھی ھے جب کہ وحید الرحمان نے ” نقد سفر” کے عنواں سے سفر ناموں کا تجزیہ پیش کیا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ سرسید احمد خان کیا خوب کہا ھے” سفر وسیلہ ظفر ھے”
One thought on “اردو میں بہتریں سفر ناموں کی روایت :- احمد سھیل”
بیحد عمدہ اور معلوماتی تحریر