روشنائی ۔ ایک عظیم ادبی دستاویز۔ ۔ ڈاکٹرمسعود جعفری

Share

روشنائی

روشنائی ۔ ایک عظیم ادبی دستاویز

ڈاکٹرمسعود جعفری
حیدرآباد ۔ دکن
09949574641
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بر صغیر ہند میں ترقی پسند مصنفین تحریک کے بانی اور نظریہ ساز علی سجاد ظہیر کی معرکتہ الآرا تصنیف روشنائی قومی و عالمی سیاسی ،سماجی ،تمدنی و ادبی منظر نامہ کی بھر پور عکاس ہے جوفا شزم کے بڑھتے ہوئے اثرات اور دوسری عالمگیر جنگ کی بھیانک تباہ کا ریوں کی نشاندہی کر تی ہے۔رجعت پرستی و فرسودہ تصورات پر کاری ضرب لگاتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کر تی ہے۔مزدوروں اور محنت کش طبقات کے اتحاد کی بات کر تی ہے۔سماجی اونچ نیچ اور عدم مساوات کی خلیج پا ٹنے کی جانب قدم بڑھاتی ہے۔معا شرتی نا انصافی اور معاشی استحصال کے خاتمہ کا عزم کر تی ہے۔آزادی و حریت کا بگل بجاتی ہے ۔Haves اورHave nots کے در میانی فرق کو واضح کر تی ہوئی سماجی ساخت کی نا ہمواری کے اختتام پر زور دیتی ہے۔سامراجیتImperialism کی سازشوں کا پردہ چاک کر تی ہے۔ زمینداروں اورجاگیر داروں کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کر تی ہے۔انسانی شرف کے پرچم کو بلند کر تی ہے۔روشنائی انسان اور ادب کے ارتقا پر ایک عالمانہ انداز فکر ہے۔سجاد ظہیر کا تاریخی شعور عمیق تھا۔ان کی افرو

ایشیائی تحریکوں پر گہری نظر تھی۔انھیں سیاہ فام اور گوروں کے نسلی امتیازات کا علم تھا۔ہندوستانی سماج کی مختلف ثقافتی پرتوں کا احساس تھا۔سجاد ظہیر کی Ideology بنی نوع انسان کا احاطہ کرتی ہے ۔ وہ ا رضی حقیقتوں کی ترجمان ہے۔جبر مشیت fatalismکو تسلیم نہیں کر تی۔انسان کی جدوجہد اور محنت و مشقت کو ما نتی ہے۔سجا د ظہیر غیر طبقاتی مساویانہ سوسائٹی کی آرزو کر تے ہیں۔جہاں آقاو غلام ،ظالم و مظلوم کا وجود نہ ہو۔شاعری ،رقص ،مو سیقی ،مصوری ،سنگ تراشی پا بہ جو لاں نہ ہوں۔وہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ان پر شاہی تحدیدات عائد نہ ہوں۔یہ کسی خا ص طبقہ کے تعیش کا مشغلہ نہ بنیں۔ ان پر امیروں کی اجارہ داری نہ ہو۔ادب اشرافیہ اور برائے ادب نہ رہے وہ عوامی رہے اور وہ زندگی کا آئینہ دار ہو۔سجاد ظہیر نے بورژوائی فلسفہ حیات کی نفی کی۔جمہوری طرز فکر کی پاسداری کی۔ ان کی نظر عالمی تحریکوں پر تھی۔وہ ایک جمہوری سیکولر سوشلسٹ سماج کی تشکیل کے داعی تھے۔عدل و انصاف کے خواہاں تھے۔وہ اعلی درجہ کے ادیب اور پائے کے نقاد تھے۔انہوں نے شاعری بھی کی۔ان کی نظموں کا مجموعہ پگھلتا نیلم نومبر1964 میں منظر عام پر آیا۔ساری نظمیں نئے رنگ و آہنگ میں ڈوبی ہو ئی ہیں۔ نیا لہجہ ، نئی ہیت‘نیا اسلوب اور دل کو چھو لینے والا اظہار نادر و لا جواب ہے۔جس کی جید مثال پگھلا نیم ہے۔ فیض احمد فیض نے اسے سراہا۔ راہی معصوم رضا نے تعریف و توصیف کی۔سردار جعفری نے اس کی شعریت و آہنگ کی مدافعت کی۔یہ ایک نئی جدت تھی۔سجاد ظہیر نے اسے تجربہ کہنے سے احتراز کیا۔جن شاعروں نے اسے تجربہ سے موسوم کیا تو سجاد ظہیر نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ تجربہ جیسے لفظ کے استعمال سے انہیں چوٹ لگی ہے۔پگھلا نیلم ادبی دنیا کے لئے ایک خوبصورت شاعرانہ تحفہ تھی۔اس شعری البم سے ایک گل ریز نظم چن لیتے ہیں۔اس کی مہک سے مشام جاں جھو منے لگتی ہے۔
ہونٹوں سے کم
ہونٹو ں سے کم
گرم مہکی سانسوں سے
نم آنکھوں سے
تم نے پو چھا
: کیا ہم سے محبت کرتے ہو ؟ :
بس ایک حرف منہ سے نکلا
ہاں
کتنا معمولی
چھوٹا سا
یہ نا مکمل لفظ ہے
کیسے دکھلائیں تم کو
اس پو شیدہ ،خوابیدہ
وادی کو
جس میں
نور کی بارش ہو تی ہے
جھرنے بہتے ہیں نغموں کے
اور لمبے قد آور پیڑ چنار کے
اپنے جھل مل ،سبز ،خنک سا یوں کو
پھیلاتے ہیں
جیسے خود جینے کے رستے
یہ سب دولت ،دل کو
تم نے ہی تو دی ہے
یہ اوراس قبیل کی بہت سی حسین نظمیں جیسے آج رات ،باڑھ ،دریا ،کھوئی کھو ئی رات ،بلور کے پیالے، بے پر کا فرشتہ ،اشا ،دل نے پوچھا تخلیقی کا ئنات کی شہکار نظمیں ہیں۔انہیں آزاد یا نثری منظومات کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ان میں لفظیات کے ساتھ خیالوں ،تشبیہوں ،استعاروں کی قوس قزاح بکھری ہو ئی ہے۔یہ ایک نئی آواز تھی۔سجاد ظہیر نے نثر کے ساتھ شاعری میں بھی اپنی انفرادیت اور نئی سوچ کے گہرے نقوش مرتب کئے ہیں۔یہ سب ان کے خلا قانہ ذہن کا ثبوت ہیں۔ان کی دانشوری چہار عالم میں مشہور رہی۔
روشنائی میں سجاد ظہیر نے کئی ادبی شخصیتوں کے واقعات بیان کئے ہیں جن سے نہ صرف معلومات کا خزانہ ملتا ہے بلکہ زبان و بیان کا ادراک بھی حاصل ہو تا ہے۔جوش ملیح آبادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک دن جوش صاحب نے پو چھا کہ کب آئے تو سجاد ظہیر نے جواب دیا کہ وہ پونا سے کل آئے۔ جوش غیض میں آگئے اور رضیہ ظہیر سے کہا کہ وہ انہیں تھوڑا سا زہر دے دیں۔میاں بیوی ہکے بکے ہو گئے۔جوش نے جملے میں قواعد کی غلطی پر گرفت کی۔دراصل پونا کے بجائے پونے کہنا چا ہیئے تھا۔میں پونے سے کل آیا درست فقرہ ہو تا ہے۔سجاد ظہیر نے اس تعلق سے مو لانا ابولکلام آزاد سے استفسار کیا تو انہوں نے پونا اور پونے دو نوں کے استعمال کو جائز بتلایا تو باہر نکل کے جوش نے کہا کہ مولانا کی اردو صحیح نہیں ہے۔ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کو بھی جوش زبان کی لغزشوں پر سر محفل ٹوک دیتے تھے۔بہت سے قلم کار ان سے خائف رہتے تھے۔مسند صدارت پر جوش بے چین اور بے قرار رہتے تھے۔وہ دوستوں اور احباب میں چہکتے مہکتے رہتے تھے۔ان کی طبیعت باغ و بہار رہتی تھی۔سجاد ظہیر نے خواجہ ا حمد عباس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ فعال اور مستعد تھے۔مختصر بات کرتے اور اپنے کا موں میں مشغول ہو جا تے تھے۔وہ بیک وقت صحافت ، فلمی مصرو فیات ،تصنیف و تالیف کی سر گر میاں اور سماجی امور میں منہمک رہتے تھے۔ مجروح ‘جگر مرادآ بادی کی رفاقت میں رہا کرتے۔غزل کی مدافعت کرتے ۔ترقی پسند تحریک کے مقاصد سے اتفاق کرتے تھے۔جگر کا ایک شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
سجاد ظہیر نے کرشن چندر کے تعلق سے انکشاف کیا ہے کہ وہ کم سخن و کم آمیز تھے۔وہ بحث و مباحثہ اور طول طویل گفتگو نہیں کرتے تھے۔سجاد ظہیر نے اکٹوبر 1945 میں حیدرآباد میں ہونے والی ترقی پسند کانفرنس کا حال بیان کرتے ہوئے کرشن چندر کی رپور تاز پودے کا حوالہ دیا ہے۔کرشن چندر نے اس میں اپنے تاثرات بیان کئے ہیں۔اس میں حیدرآ باد کی فضا اور ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔مخدوم کمیونسٹ تحریک کےIcon تھے۔ان کے علاوہ ابراہیم جلیس ، سلیمان اریب ،عالم خوند میری ،شاہد صدیقی ،نظر حیدرآ بادی ،سری نیواس لا ہوٹی ، نیاز حیدر ،عزیز احمد و غیرہ بھی پیش پیش تھے۔یہ کانفرنس پانچ روز تک چلتی رہی۔اس کا افتتاح بلبل ہند سروجنی نا ئڈو نے کیا۔جلسہ سنیما ہال میں رکھا گیا تھا۔اس تاریخی کانفرنس میں حسرت مو ہانی ،تارا چند ،فراق گورکھ پوری ،احتشام حسین ،کرشن چندر ،ساحر لدھیانوی ، سردار جعفری ،سبط حسن نے شرکت کی۔احتشام حسین نے اردو کی ترقی پسند تنقید پر مقالہ پڑھا۔سبط حسن نے ارد و جرنلزم کے ارتقا پر سیر حاصل پیپر پڑھا۔سردار جعفری نے اقبال کی شاعری ،فلسفہ اور زندگی پر روشنی ڈالی۔ساحر کانفرنس میں شرکت کے لئے پنجاب سے حیدرآ باد آئے تھے۔انہوں نے جدید انقلابی شاعری پر مختصر سا مقالہ پڑھا۔فراق نے شاعری کے اجلاس کی صدارت کی اور کرشن چندر نے افسانے کے سیشن کی صدارت کی۔اس کانفرنس میں ادب کے مختلف مو ضوعات پر اظہار خیال کیا گیا۔یہ کانفرنس کا میاب رہی۔ترقی پسندوں کا یہ قافلہ محو سفر رہا۔اس نے ادب کو ایک نئی تازگی بخشی۔قدامت پرستی کے حصار کو توڑا۔نئے آفاق متعارف کر وا ئے۔ادب کو نئی اونچائیاں عطا کیں۔اردو کے صف اول کے رہنما ،جہد کار ڈاکٹر راج بہادر گوڑ نے روشنائی کا دیباچہ لکھا ہے۔انہوں نے اسے ترقی پسند ادبی تحریک کی آپ بیتی سے موسوم کیا ہے۔اس حیات افروز ،فکر انگیز تحریر کا اختتام امیدوں اور آرزووں پر ختم ہو تا ہے۔: عصری حالات میں تخلیقی ادب کو عوام کی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں اور نئے ادیبوں کو آگے بڑھانے میں اور عوام دوست لکھنے وا لوں کواکھٹا کرنے میں اسے اہم رول ادا کرنا ہے۔روشنائی اس مقدس کام میں مشعل راہ کا کام دے گی۔راج بہادر گوڑ کے الفاظ صبح بہاراں کا پیام دے رہے ہیں۔

Dr.Masood Jafri
Hyderabad-Deccan
مسعود جعفری

Share
Share
Share