شانہ بدوش – مزاحیہ شعری مجموعہ
شاعر:اقبال شانہ ۔(بودھن)نظام آباد
مبصر:ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج ،محبوب نگر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم نے خانہ بدوش لفظ اکثر سنا تھا ،لیکن حالیہ دنوں شانہ بدوش کے عنوان سے ادبی دنیا میں ایک مزاحیہ شعری مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔تو ہم نے شانہ بدوش کے لفظ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو ہمیں فیروز اللغت میں صرف بدو اور خانہ بدوش کے معنی مل پائے،بدو کے متعلق لکھا تھا بدوی۔عرب کے خانہ بدوش لوگ ،اور خانہ بدوش۔وہ قوم یا آدمی جو گھر کو ساتھ ساتھ لیے پھرے،بنجارہ۔ تو ہم نے جان لیا کہ بدوش کے معنی تو نقل مقامی کے آتے ہیں لیکن یہ شانہ کیا ہے جب کتاب کے مصنف کے نام کو غور سے پڑھا تو پتہ چلا کہ یہ شانہ بدوش، اقبال شانہ کی تصنیف ہے تو اس کا مطلب ہم نے یہی لیاکہ اقبال شانہ نے اپنے نام کے ساتھ بدوش کالفظ اضافہ کرتے ہوئے اپنی کتاب کامنفرد نام رکھا لیا ہے۔ خیر یہ تو تھی کتاب کے ٹائٹل کی بات اب آئیے مزاح سے متعلق بات کریں۔ زندگی کی نامعقول اور انسانی کمزوریوں پر ہنسنے کا نام طنز ومزاح ہے۔ جب
کبھی سماج میں کوئی نا معقول بات یا ناہموار صورت حال کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو مزاح پیدا ہوتا ہے۔اسی حوالہ سے اکثر شعراء مزاحیہ کلام کی تخلیق کرتے ہیں ۔حیدرآباد و اطراف واکناف کے مزاحیہ شعراء میں ایک معتبر نام اقبال شانہ کا بھی ہے۔ جن کی عمر کا لمبا عرصہ خلیج میں گزر اہے لیکن ان دنوں ضلع نظام آباد کے بودھن میں مقیم ہیں جو ان کا آبائی مقام ہے۔ انہوں نے اپنی مزاحیہ شاعری سے نہ صرف ہندوستان کے لوگوں کو محظوظ کیا ہے بلکہ خلیج میں بھی اپنی شاعری کے جھنڈے گاڑھے ہیں۔اقبال شانہ مزاحیہ شاعری کے ایک کامیاب شاعر ہیں اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کے ہونٹوں پر تبسم بکھیرنا ان کی فطرت ہے۔ان کے اب تک چار شعری مجموعہ شائع ہوچکے ہیں جن کے نام یہ ہیں بیاض فکر 1972،شانہ بہ شانہ1996،شانہ ڈاٹ کام2009ء اور دیوارِ قہقہہ2014،اوریہ ’’شانہ بدوش‘‘ان کا پانچواں شعری مجموعہ ہے ۔
’’شانہ بدوش‘‘کا پیش لفظ کوواحد ؔ نظام آبادی نے ’’اقبال شانہؔ کی متنوع مزاحیہ شاعری‘‘کا عنوان دیا ہے اور اقبال شانہ کی فنِ شاعری پر مبسوط روشنی ڈالی ہے اس ضمن میں وہ رقمطراز ہیں:
’’اقبال شانہ کے ذہن کے صندوق میں تشبہیات و استعارات کا وافر ذخیرہ ملتا ہے جو ان کی خوبصورت مزاحیہ شاعری سے ظاہر ہے اور ان کے کلام کو ملاحظہ کرنے سے اقبال شانہ کی بلندئ فکر اور اعلی تخیل کا اندازہ ہوتا ہے۔اس لئے جس شاعر کی فکر میں اڑان نہ ہو وہ نئی نئی تشبہیات و استعارات کو اپنے کلام میں استعما ل نہیں کرسکتا بلکہ گھسی پٹی تشبیہات پر اکتفا کرتا ہے۔غرض اقبال شانہ ؔ کی فکرِ رسا کی داد دیجئے کہ انہوں نے عمدہ تشبیہات و استعارات کا استعمال کر کے اپنی شاعری کو اعتبار و وقار عطا کیا۔‘‘ص۱۱
واحد نظام آباد ی نےنہایت عالمانہ انداز میں اقبال شانہ ؔ کی شاعری کا جائزہ لیا ہے،پیش لفظ کے بعد’’ احوالِ واقعی ‘‘کے عنوان سے صاحبِ کتاب نے اپنی بات پیش کی اور دکن کے چند شعراء کے ناموں کا تذکرہ کیا لیکن اس تذکرے میں سلیمان خطیب اورپاگل عادل آبادی کا نا م شامل ہونے سے رہ گیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے چند ہم عصر مزاحیہ شعراء کا ذکر خیر بھی کیا۔ شانہ کی شاعری کا آغاز 1968ء سے ہوتا ہے جو تاحال جاری ہے وہ اپنے اس شعری مجموعہ سے متعلق لکھتے ہیں’’واضح رہے کہ اس مجموعہ میں میں نے اپنا وہ کلام کوشامل کیا ہے جو میرے ابتدائی دور کا ہے،میں نے اپنی تمام قدیم بیاض کی سیر کر کے اس میں سے منتخب غزلوں کو شامل کرکے زیرِنظر مجموعہ کو ترتیب دیا ہے۔جس سے میرے ابتدائی مزاحیہ رنگ کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں تقریباََوہ کلام شامل ہے جو قبل ازیں ملک و بیرون ملک کے مختلف اخبارات و رسائل اور جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔‘‘ص۱۵
زیر نظر شعری مجموعہ میں اقبال شانہ نے اپنے منتخبہ مزاحیہ کلام کو پیش کیا ہے جو اپنی انفرادیت رکھتا ہے ،کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر شعراء کے مقابلے میں اقبال شانہ کا اپنا ایک منفرد اسٹائیل ہے مخصوص لہجہ اور متنوع رنگ ہے ان کے کلام میں جدید پیکر نظر آتے ہیں وہ اپنی مزاحیہ شاعری کا عنوان بھی اچھوتا رکھتے ہیں وہ ایک بہترین تخلیق کار ہیں ان کی تخلیق کاری کا اندازہ ان کے کلام کی خصوصیات سے ہوتا ہے۔
ٓ اس شعری مجموعہ کا آغاز حمد سے کیا ہے، حمد میں بھی انہوں نے مزاح کا پہلو تلاش کرلیا ہے ،حمد کے اشعار ملاحظہ ہوں
زورِ تخیل کو پرواز عطاکردے
میرے شعروں کو تو پَر دے یااللہ
روز شب ،میں تیری یاد میں مست رہوں
شانہ ؔ کو د یوانہ کر دے یا اللہ
حمد کے بعد خونخوار غزل کے عنوان سے غز ل کے اشعارپیش کیئے گئے ہیں۔جس میں انہوں نے خونخوار اندازبیاں اختیار کیا ہے جو لاجواب ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
خونِ دل، خونِ جگر، خون تمنا دے دوں
تو جو مانگے تو لہو سارے بدن کا دے دوں
لڑکھڑا ئیں جو قدم راہِ وفا میں شانہ ؔ
آمری جاں تجھے بانہوں کا سہارا دے دوں
اقبال شانہؔ کے اس شعری مجموعہ میں شامل کلام میں بیشترکلام میں عصر حاضر کی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنی بہت سی غزلوں میں انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی کو موضوع بنا کر عمدہ اشعار کہے ہیں ۔ان غزلوں سے ان اشعار کی نشاندہی پیش کی جارہی ہے ،ملاحظہ ہوں
کمپیوٹر۔
ہم تم دیکھیں بیٹھ کے دن بھر کمپیوٹر
سوچیں اپنے سر پر رکھ کر کمپیوٹر
انٹرنیٹ پہ تجھ کو دیکھ کے کہہ بیٹھے
زندہ باد میاں کمپیوٹر ، کمپیوٹر
ڈیسک ٹاپ
ہائی الرٹ تیرا حسن ہوا ڈیسک ٹاپ پر
دل اپنا میں نے پیسٹ کیا ڈیسک ٹاپ پر
وائیرس تمہارے عشق کا سسٹم میں گھس گیا
شٹ ڈاون ہر نظام ہوا ڈیسک ٹاپ پر
وائیرس
کمپیوٹر سے گیا لیکن
اب یوزر میں وائیرس ہے
شانہ ؔ شعر نہیں چھپتے
ایڈیٹر میں وائیرس ہے
کمپیوٹر۔
غلطی کررہا ہے کمپیوٹر
آدمی بن گیا ہے کمپیوٹر
ان کی جرمن ہماری اردو کا
ٹرانسلیٹر بنا ہے کمپیوٹر
ڈش انٹینا۔
ہر ایک سٹیلائیٹ سے ہے دوستانہ
نئے چیانل دکھا ڈش انٹینا
پکائیں کون سی ’’ڈش‘‘تیرے اندر
ذرا کچھ تو بتا ڈش انٹینا
اقبال شانہ ؔ کے اس شعری مجموعہ میں بہت سی عمدہ مزاحیہ غزلیں شامل ہیں بالخصوص ’’انٹرنیشنل غزل‘‘ جو اس شعری مجموعہ کا دل کہا جاسکتا قابل تعریف ہے۔بہر حال اقبال شانہ ایک مستند شاعر ہیں جن کی شاعری 4دہائیوں کا احاطہ کرتی ہے۔
اقبال شانہ کا یہ شعری مجموعہ اردو کی مزاحیہ شاعری میں ایک خوش آئند اضافہ ہے،میں ان کے اس مجموعہ کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ ان کی شاعری کا سفر یوں ہی رواں دواں رہیگا اور اردو دنیا ان کی شاعری پر ناز کرتی رہیگی۔مزاحیہ شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ ایک بہترین کتاب ہے،دیدہ زیب ٹائٹیل ،خوبصورت طباعت پر مشتمل اس مجموعہ کی قیمت 300روپئے رکھی گئی ہے، جوبمکان مصنف1-1-1498،رئیس پیٹھ، بودھن، نظام آباد،تلنگانہ 9849629484،دفتر ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد سے خریدی جاسکتی ہے۔