كافى بنانا بھی ایک فن ہے
ثنا اللہ خان احسن ۔ کراچی
دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلش زبان میں کافی کا لفظ سن 1526 میں متعارف ہوا۔ انگلش میں یہ لفظ ڈچ یا ولندیزی زبان کے لفظ کوفی سے آیا۔ ڈچ لوگوں نے یہ لفظ ترکی زبان کے لفظ کاہوی سے لیا اور ترکی میں یہ لفظ عربی کے لفظ قہوہ سے آیا۔قہوہ کا لفظ عربی لفظ قوّہ سے لیا گیا جس کا مطلب قوت یا طاقت کے ہیں۔ ایک اور تعریف کے مطابق قہوہ کا لفظ ایتھوپین لفظ قھ سے لیا گیا جس کا مطلب ہے گہرا رنگ۔
کافی جو آج دنیا کے مقبول ترین مشروبات میں سے ایک ہے، درحقیقت مسلمانوں کی ایجاد ہے اور یہ کسی سائنسدان کا نہیں بلکہ عام چرواہے عرب کا کارنامہ ہے، جو اپنے جانوروں کو چرا رہا تھا کہ اسے ایک نئے طرز کا بیری یا پھل کا پودا ملا اور انہیں ابالنے کے بعد دنیا میں پہلی بار کافی تیار ہوئی۔
دوسری روایت یہ ہے کہ یمن سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی درویش غوث الاکبر نورالدین ابوالحسن الشدیلی ایتھوپیا کے جنگلات میں گھوم پھر رہے تھے کہ ان کو کچھ ایسے پرندے نظر آئے جو ایک پودے میں لگے بیری نما پھل کھا رہے تھے۔ یہ پرندے اپنی حرکات و سکنات میں انتہائ پھرتیلے اور قوی معلوم ہوتے تھے۔ صوفی صاحب نے جب ان پھلوں اور بیجوں کو استعمال کیا تو ان کو بھی اپنے جسم میں ایسی ہی طاقت اور پھرتی محسوس ہوئ۔
دوسری روایت یہ ہے کہ شیخ ابالحسن کا ایک شاگرد عمر اپنی دعائوں کے وسیلے سے لوگوں کی بیماریاں دور کرنے میں بڑی شہرت کا حامل تھا۔ ایک مرتبہ اس کوموطیٰ سے جلا وطن کردیا گیا۔ شدید بھوک پر جب عمر کو کھانے کو كچھ نہ ملا تو اس نے ایك درخت یا پودے کے بیری نما پھلوں کو چبانا شروع کیا لیکن وہ بہت کڑوے لگے تو عمر نے ان کو آگ پر بھون کر کھانا چاہا لیکن بھن کر وہ سخت ہو گئے۔ ان کو نرم کرنے کے لئے پانی میں ابالا تو ایک عمدہ مہک والا خوشبودار مشروب تیار ہوا جس کو پینے سے عمر کو جسم میں طاقت اور توانائ محسوس ہوئ۔۔جب اس معجزاتی مشروب کی کہانیاں موطیٰ تک پہنچیں تو عمر کو واپس بلا لیا گیا اور اس کو ایک با عزت عہدے سے نوازا گیا۔
ایتھوپیا سے کافی یمن پہنچی جہاں مسلمان صوفى درویشوں کی خانقاہوں میں اس مشروب کا قہوہ استعمال کیا جانے لگا۔
صوفی حضرات ذکر کرنے سے پہلے کافی کا استعمال کرتے جس سے ان کو ذہنی ارتکاز اور روحانی طاقت حاْصل ہوتی تھی۔ رات کو جاگ کر اللہ کا ذکر کرنے کے لئے بھی یہ مشروب بہترین تھا اور صوفی حضرات کو اس کے استعمال سے تھکن اور نیند یا سستی کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔
ابتدا میں یہ صوفیوں کا مشروب کہلاتا تھا اور عام لوگ اس کے نہیں پیتے تھے۔اس طرح یہ ایک خالص صوفی مشروب بن گیا۔
یمن سے کافی مکہ، مدینہ، ، دمشق، قاہرہ، اور پھر سن 1511 میں یہ خلافت عثمانیہ کے دارالخلافہ استنبول، اور عرب کے دیگر شہروں تک پہنچی۔
اس زمانے کے قدامت پسند علما نے اس کے مقوی اور فوری توانائ پیدا کرنے والے اثرات کی وجہ سے اس کو ممنوع قرار دے دیا۔ لیکن سن 1524 میں خلیفہ سلطان سالم نے اس وقت کے مفتی اعظم ابوالسودالعمادی کے مشورے سے فتویٰ جاری کرایا کہ کافی پینے میں کوئ قباحت نہیں اور یہ جائز ہے۔اس کے بعد سن 1532 تک تمام بڑے شہروں میں کافی ہائوس کھل گئے جہاں عوام بھی اس مشروب سے لطف اندوز ہونے لگے۔
کافی ہائوس مزہبی اور سیاسی گفتگو و مفکرین و مصنفین اور دانشوروں کا گڑھ بن گئے۔
سولہویں صدی میں کافی مشرق وسطیٰ سے نکل کر یورپ، مشرقی ہند اور امریکہ تک پہنچ گئ۔ ولندیزیوں يعنى ڈچ لوگوں نے اس کے پودے امریکہ تک پہنچا دیئے۔
اٹھارویں صدی سے پہلے ایتھوپیا کے قدامت پسند چرچ نے بھی کافی پینے پر پابندی لگا دی تھی ، ان کا خیال تھا کہ یہ ایک مسلم مشروب ہے اور عیسائیوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے لیکن 1874 تک ایتھوپین شہنشاہ مینی لک کی کوششوں سے چرچ نے کافی پینے پر سے پابندی ہٹالی۔سن 1600 تک کافی یورپ میں اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ یورپ کا پہلا کافی ہائوس سن 1645 میں اٹلی کے شہر وینس میں شروع ہوا۔انگلینڈ میں کافی ایسٹ انڈیا کمپنی نے متعارف کروائ۔ انگلینڈ کا پہلا کافی ہائوس ایک ترک نے کارن ہل Cornhill کی سینٹ مائیکلز ایلی St.Micheal’s Alley میں قائم کیا گیا۔ 1654 میں آکسفورڈ میں کوئنس لین Queen’s Lane میں پہلا کافی ہائوس قائم کیا گیا جوآج تک موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی کے علاوہ پورے یورپ میں خواتین کو کافی ہائوس جانے کی اجازت نہ تھی۔
فرانسیسیوں نے کافی جنوبی امریکہ میں متعارف کروائ اور بڑے پیمانے پر اس کی کاشت بھی کی۔ یوں کافی امریکہ تک پھیل گئ۔ امریکنوں میں یہ مشروب انتہائ مقبول ہوا۔وجہ اس کی یہ بنی کہ امریکن چائے کو انگریزوں کا مشروب سمجھتے تھے,
جنگ آزادی کا زمانہ تھا۔اور چائے پینا گویا غلامی کی نشانی تھا لہٰذہ کافی امریکیوں کا مقبول ترین مشروب بن گیا۔
اس طرح کافی سفر کرتی هوئ پوری دنیا میں پھیل گئ اور جہاں جہاں موسم اس کے لئے سازگار تھا وہاں یہ پیدا بھی کی جانے لگی۔ انڈیا میں بھی کافی سن 1680 سے پیدا کی جا رہی ہے۔
جس طرح ہم صبح اٹھ کر چائے پیتے ہیں اسی طرح کافی ممالک میں کافی پی جاتی ہے۔ اس کے پچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ برصغیر کیونکہ انگریزوں کی کالونی تھا اور انگریز چائے پیتے تھے لہٰذہ وہ ہم کو بھی چائے کی لت لگا گئے۔ بالکل اسی طرح جو ممالک اسپین، فرانس اور پتگال کی کالونیاں بنے جیے کہ فلپائن، جنوبی امریکہ، اور افریقہ کے کچھ مماک تو وہ لوگ اپنے آقائوں کی دیکھا دیکھی کافی پینے لگے۔اور آج تک یہی روایت جاری ہے۔
سن 1511 سے سن 1884 تک دس لاکھ افریقیوں کو غلام بنا کر کیوبا لایا گیا جہاں ان سے کافی کے باغات میں مشقت لی جاتی تھی۔
کافی کیسے بنتی ہے۔
کافی کا پودا تین سے چار سال میں پھل پیدا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس میں سرخ رزرد اور گلابی رنگ کے چیری نما پھل لگتے ہیں۔پکنے پر یہ گہرے سرخ رنگت اختیار کر لیتے ہیں۔پھل توڑنے کے بعد ان کو پھیلا کر خشک کیا جاتا ہے۔ ہفتے میں کئ بار ان کو الٹا پلٹا جاتا ہے تاکہ ہر طرف سے یکساْں خشک ہو جائیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پھلوں کو چالیس سے پینتالیس گھنٹے پانى کے ٹینکوں میں بھگویا جاتا ہےتاکہ ان میں خمیر پیدا ہو جائے۔اس کے بعد ان کو خشک کر لیا جاتا ہے۔
خشک ہونے پر ان کو60 كلو تھیلوں میں بھر کر ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے۔
فیکٹری پہنچنے کے بعد ماہرین اس کافی کا ذائقہ اور کوالٹی چیک کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کو خاص مشینوں میں ایک خاص درجہ حرارت پر بھونا جاتا ہے۔ بھوننے کے بھی مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ کہیں بہت زیادہ اور کہیں ہلکا بھونا جاتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کو کس رنگ اور ذائقے کی کافی درکار ہے۔بھونے هوئے بیجوں کو پیس کر
پائوڈر بنا لیا جاتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ کافی برازیل میں پیدا ہوتی ہے-
دنیا میں سب سے زیادہ کافی امریکہ میں پی جاتی ہے۔
دنیا کی چند مشہور کمپنیاں جو کافی کے مشہور برانڈز تیار کرتی ہیں ان میں، فولجر Folger، میکس ویل ھائوس Maxwel house،، نیسکیفے Nescafe، اسْٹار بک Star Buck، ،گلاریا جینز Gloria Jeans کافی، وغیرہ شامل ہیں۔
کافی تیار کرنے کا طریقہ۔
بلیک کافی
سادہ امریکن بلیک کافی بنانے کے لئے ایک سے دو ٹیبل اسپون کافی کو چھ اونس پانی میں ملا کر ابال لیا جاتا ہے۔ اب اس کو شکر یا بغیر شکر کے پیا جاتا ہے۔ امریکہ میں یہی کافی مقبول عام ہے۔
کریم یا ملک کافی
اجزا۔
انسٹنٹ کافی Instant Coffee ایک یا دو ٹی اسپون
دودھ 8 انس یعنی ایک بڑا مگ
چینی حسب ذائقہ
کافی میٹ Coffee mate ایک ٹیبل اسپون
چاکلیٹ سیرپ یا ونیلا سیرپ ایک ٹی سپون
سب سے پہلے دو چمچ دودھ میں کافی میٹ مکس کریں اس کے بعد مگ میں کافی بھی ڈال دیں اور چمچ سے خوب پھینٹیں۔ یا اگر کافی میکر ہے تو اس میں ڈال کر خوب اچھی طرح بلینڈ کریں۔ اس کے بعد چینی ملا کر مزید پھینٹیں یا بلینڈ کریں۔ جتنا پھینٹیں گے اتنی ہی اچھی جھاگدار کافی بنے گی۔ جب اچھی طرح پھینٹ لیں اور کافی پھولنے لگے تو گرم ابلتا ہوا دودھ مگے میں پتلی دھار کے ساتھ اونچائے سے مگ میں ڈالیں۔ پانی کی دھار کو مگ میں گھماتے ہوئے ڈالیں۔ ۔ چمچے سے زرا سا ہلا دیں۔ تیس سیکنڈ انتظار کیجئے تاکہ کافی کا جھاگ اوپر تک آ جائے۔ اب اس جھاگ پر زرا سا کافی پائوڈر چھڑک دیں اور ایک چمچہ چاکلیٹ
سیرپ يا ونيلا سيرب آہستگی سى جھاگ پر پھیلا دیں۔
مزیدار ایسپریسو کافی تیار ہے۔
‘اچھی کافی بنانا بھی ایک آرٹ ہے۔