دیوانِ رباعیات ’’احسا س وادراک‘‘(ڈاکٹرمقبول احمد مقبول) کی رسمِ اجرا
انجمن ترقی اردوہند(شاخ) گلبرگہ کے زیرِ اہتمام
گلبرگہ :15/نومبر2015(راست) تخیل، شاعری کا جز ولا ینفک ہے لیکن خارجی عوامل بھی تخلیقی عمل میں شامل رہتے ہیں۔مزید یہ کہ شاعری قاری سے راست مکالمہ نہیں کرتی بلکہ شاعری ایجازو اختصار اور الفاظ کے خلاقانہ استعمال کا نام ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر حمید سہروردی نے انجمن ترقی اردو ہند (شاخ) گلبرگہ کے زیر اہتمام منعقدہ معروف شاعر ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کی دیوانِ رباعیات ’احساس و ادراک‘ کے جلسہ رسم اجرا کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ مقبول احمد مقبول دکن کے دوسرے شاعر ہیں جن کا دیوان رباعیات شائع ہوا ہے ۔ ان کی رباعیات فنی پختگی اورفکری گہرائی کی حامل ہیں۔
ڈاکٹر وہاب عندلیب نے احساس و ادراک کی رسم اجرا انجام دینے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے فرش سے عرش تک کا تخلیقی سفر محنت شاقہ، عرق ریزی اور صبرو تحمل سے طے کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فصاحت و بلاغت سے لبریز اورصوفیانہ ،ناصحانہ اور اخلاقی موضوعات سے معموران کی رباعیات ہمیں امجد حیدرآبادی اور مولانا الطاف حسین حالی کی یاد دلاتی ہیں۔
معروف عروض دان جناب وحید واجد نے اردو رباعی گوئی کی تاریخ ، اس کے موضوعات اور اس کے فنی درو بست پر مفصل روشنی ڈالتے ہو ئے کہا کہ دیگر شعری اصناف کے مقابلے میں رباعی ایک مشکل اور ادق صنف ہے۔ اور عموماً کہنہ مشق شعرا ہی اس میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ انہوں نے مقبول احمد مقبول کے دیوان رباعیات کی اشاعت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رباعیات فنی اعتبار سے نہ صرف چست اور درست ہیں۔ بلکہ موضوعات کی صطح پر بھی متاثر کن ہیں۔ ممتاز شاعر و صحافی جناب حامد اکمل نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ مقبول احمد مقبول کا یہ دیوان رباعیات 18سالہ مشق و محنت کا نتیجہ ہے ۔ آج کے زمانے میں جب شعرا میں کاتا اور لے دوڑی کا رجحان ہے، مقبول احمد مقبول کی ریاضت فن قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبول احمد مقبول دور جدید کے شاعر ہونے کے باوجود رباعی کو پند و نصائح کی فضاء سے نہیں نکال سکے۔
جناب شان الحق بخاری نے اپنے خطاب میں شخصی روابط کے حوالے سے ڈاکٹر مقبول احمد مقبول کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو روشن کیا اور انہیں معین آباد (چٹگوپہ) کی مردم خیز سرزمین کا ادبی نمائندہ قراردیتے ہوئے ان کی ادبی جد وجہد کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی نے شعریت کو شاعری کا اہم جز قراردیتے ہوئے کہا کہ مقبول احمد مقبول کی رباعیوں میں نا صرف شعریت پائی جاتی ہے۔ بلکہ ان میں سہل ممتنع جیسی بے ساختگی بھی موجود ہے۔
ڈاکٹر حامد اشرف نے احساس و ادراک کے جائزے پر مبنی اپنے مقالے کے اقتباسات پیش کیے اور کہا کہ مقبول احمد مقبول کی رباعیاں ان کے طویل مجاہدہ فن کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی رباعیات کے موضوعات سے ان کے فکری رجحان اور صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناًانہوں نے اپنے قرطاس قلم سے رباعی کی صنف کو وسعت دی ہے۔
’احساس و ادراک‘ کے شاعر مقبول احمد مقبول نے اپنی کتاب پر اظہار خیال کرنے والے اصحاب اور جلسہ کے انعقاد پر ارباب انجمن ترقی ہند(شاخ) گلبرگہ سے اظہار تشکرکیا او ر کہا کہ وہ شاعری اور ادب کی خدمت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔
جلسہ رسم اجراء کے آغاز میں جناب ولی احمد خاز ن انجمن نے جلسہ کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے مہمانان اور حاضرین کا خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر مقبول احمد مقبول نے اس پر مسرت موقع پر مہمانان اور ارباب انجمن کی اپنی جانب سے گل پوشی اور شال پوشی کی۔ ڈاکٹر محمد افتخار الدین اختر نے نظامت کے فرائض بہ حسن و قوبی انجام دیے۔ جناب باسط فگار کے اظہار تشکر پر یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
رپورٹ : ڈاکٹر انیس صدیقی
معتمد انجمن