ٹیگورکےمضامین کا اردوترجمہ ۔ ۔ پروفیسرمجید بیدار

Share

tagore

ٹیگورکے مضامین کا اردوترجمہ ۔۔۔ نمائندہ محاسن

از: پروفیسرمجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد
ای میل :

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ٹیگور- نثری ادب میں غیر افسانوی نثر کی حیثیت سے ’’مضمون نگاری‘‘ کو امتیازی صنف کا موقف حاصل ہوچکا ہے۔ عام طور پر انگریزی زبان میں مضمون کے لئے Essay کی اصطلاح رائج ہے۔ بلاشبہ انگریزی ادبیات کے توسط سے ہی اردو زبان میں’’ مضمون نگاری‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس خصوص میں اصناف سخن کے ماہرین نے مضمون جیسی صنف کی تفصیلات کی وضاحت نہیں کی‘ لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ عربی لفظ ’’ضمن‘‘ سے وجود میں آنے والی اصطلاحمضمون کو اردو نثر کی صنف کا موقف حاصل ہے۔ قدیم دور میں مضمون کا لفظ وسعت خیال اور باریک بینی کے علاوہ سخن فہمی اور سخن شناسی کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں ’’مضمون‘‘ کے معنی فکر انگیز سوچ کے بھی لئے جاتے رہے ہیں۔ اردو زبان و ادب میں مضمون نگاری کی روایت دہلی کالج کے مصنف ماسٹر رام چندر کی تحریروں سے فروغ پاتی ہے‘ جو عصرِ حاضر کی میں جدوجہد

مقبول نثری صنف ہے۔دنیا کے بے شمار موضوعات اور لاتعداد علوم و فنون کی نمائندگی اور ان کی توضیح اور تشریح کے لئے لکھی جانے والی رواں اور برجستہ تحریر جو ایک بیٹھک میں قاری کو موضوع سے متعلق بھرپور مواد فراہم کردے‘ ایسی تحریر کو مضمون کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔ ہر دور میں موجود مختلف مصنفین‘ محققین‘ مورخین‘ علوم و فنون کے ماہرین‘ سائنس داں‘ تعلیمات و تدریسیات سے وابستہ افراد ہی نہیں بلکہ مذہب ‘ سیاست‘ ادب اور دیگر کئی شعبۂ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے ’’مضمون نگاری‘‘ کے توسط سے زبان و بیان اور اظہار کے علاوہ پیش کشی کے حسن کو نمایاں کیا۔ غرض ’’مضمون نگاری‘‘ نثر کی ایک ایسی متنوع صنف ہے جو ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمیت لیتی اور فطری طور پر برجستگی‘ روانی اور موضوع کی پیش کش میں کامیابی حاصل کرکے قاری کا دل موہ لینے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ اردو میں قدیم دور سے ہی مضمون نگاری کی روایت کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عصرِ حاضر میں مضمون نگاری کے امکانات وسیع ہوتے جارہے ہیں۔ طویل عرصے تک اردو داں طبقے کو موضوعاتی مضامین لکھنے کی طرف راغب کرنے کے لئے مختلف رسائل و جرائد نے مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کئے اور بہتر مضمون لکھنے والے قلم کار کو اشرفی کے علاوہ معاوضہ دینے کی پیش کش کی ‘ جس کی وجہ سے اردو نثر میں مضمون نگاری کی روایت کو تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کا موقع ملا۔ اردو میں سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ مذہبی‘ علمی‘ ادبی‘ تنقیدی‘ تحقیقی‘ نفسیاتی‘ طبی‘ سائنسی اور حیوانات ‘ نباتات کے علاوہ کھیل کود‘ تفریحی مشاغل‘ فلم اور ٹی وی کے علاوہ روزگار کے مسائل پر بھی مضمون نویسی کا رحجان موجودہے۔ غرض اردو جیسی ہندوستانی زبان میں ہمہ موضوعاتی مضامین کے علاوہ انسان کو مسرت اور بصیرت سے مالامال کرنے والے مضامین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ تحریر کا ایسا انداز جس میں تسلسل کے ساتھ انسان کو معاشی‘ معاشرتی اور ثقافتی خوشی کے بجائے روحانی خوشی فراہم کرکے اظہار کی بے شمار خوبیوں کو تحریر میں شامل کیا جائے تو اِس قسم کے مضامین کو ہمہ جہت مضامین کا درجہ دیا جاتا ہے‘ جو انسانیت کی فلاح اور دنیا کے انسانوں کو تہذیب و اخلاق کے علاوہ شائستگی سے وابستہ کرنے کے علمبردار قرار پاتے ہیں۔
ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی زبانوں میں بے شمار تخلیق کار اور ادیب پیدا ہوئے‘ جنہوں نے نثر اور شاعری کے ذریعہ اہم خدمات انجام دیتے ہوئے انسانیت کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ ایسے ہی چند نمائندہ ہندوستانی مضمون نگاروں میں رابندر ناتھ ٹیگور کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے افسانوی نثر ہی نہیں بلکہ غیر افسانوی نثر اور شاعری کے ذریعے ایسے خیالات پیش کئے ‘جن میں انسانیت کی صلاح و فلاح کے لئے کارآمد مشورے موجود ہیں۔ بنگالی زبان میں عمدہ ادب پیش کرنے اور شاعری کی روایت کو گیتوں کے ذریعے الہامی بنانے والے ایک اہم تخلیق کار کی حیثیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی خدمات ہمہ گیر ہیں ‘ چنانچہ ایسی ہی خدمات کے صلہ میں ان کے گیتوں کی کتاب ’’گیتانجلی‘‘ کو 1913ء میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ ہندوستان کی تمام زبانوں میں واحد اور بنگالی کے نامور مصنف کی تحریروں میں چھپے ہوئے راز اور ان کی ہمہ گیری کو نمایاں کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ جسے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ نئی دہلی سے وابستہ افراد نے محسوس کیا اور حکومت ہند کے شعبۂ ثقافت کی امداد کے ذریعے ’’ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم‘‘ کی بنیاد رکھی‘ جس کے تحت رابندر ناتھ ٹیگور کی پیش کردہ تمام تصانیف کو اردو میں منتقل کرنے اور جن تصانیف کی اشاعت سابق میں عمل میں لائی جاچکی ہے‘ ان پر نظر ثانی کرکے دوبارہ اشاعت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس اسکیم کے تحت مختصر لیکن جامع انداز میں صرف 14مضامین کی نمائندگی کرنے والی کتاب ’’ٹیگور کے مضامین‘‘کی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے‘ جس کا انتساب ’’رابندرناتھ ٹیگورکے مترجمین کے نام‘‘ معنون کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اردو کے مترجمین نےٹیگور کے ادب ‘ فلسفے اور افکار کو دوسری زبانوں میں منتقل کرکے نہ صرف ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کو فروغ دینے کا حق ادا کیا ہے بلکہ انسان دوستی‘ سیکولراقدار اور روشن خیالی کو مستقبل میں نمایاں کرنے کی جدوجہد میں حصہ بھی لیا ہے۔کئی خوبیوں اور ترجمے کی صلاحیتوں سے مالامال یہ کتاب سادہ اور پرُکار سرورق سے مالامال‘ خوبصورت جلد اور عمدہ طباعت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔کتاب کا حرف آغاز اسکیم کے کوارڈینیٹر پروفیسر شہزاد انجم نے تحریر کیا ہے‘ جس کے ذریعہ ٹیگور کے مضامین کی ہمہ گیری اور ان کے ذریعہ ذہنی نشوونما کے مشرقی انداز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر ثابت کیا ہے کہ ہندوستان کو جدید اور ترقی یافتہ بنانے میں تہذیبی قدروں اور اُخوت اور اتحاد کے علاوہ اعلیٰ ظرفی اور صبر و استقلال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیگور کے مضامین میں ایسے ہی افکار کی جولانیاں ٹھاٹیں مارتی ہوئیں نظر آتی ہیں۔غرض ٹیگورکی مضمون نگاری اور ترجمے کی اسکیم کے جائزے کے بعد پروفیسر شہزاد انجم نے ٹیگور کے منتخب مضامین کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے پر ادیبوں اور مترجموں کو مبارکباد پیش کی ہے۔ بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹیگور کے مضامین کے اردو میں ترجمہ کرنے والے تمام ترجمہ نگار ہندوستان کی اہم جامعات سے وابستہ ہیں‘ اس لئے ان کے ترجموں سے متعلق کوئی حرف آرائی نہیں کی جاسکتی۔ قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے ٹیگور کے تین مضامین ’’ہندوستان میں قومیت‘‘،’’ قومیت کا مغربی تصور‘‘ اور ’’بدی کا مسئلہ‘‘ کو اردو میں منتقل کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر محمد ظفر الدین اور ڈاکٹر محمد خالد مبشرالظفر نے ٹیگور کے دو دو مضامین ترجمہ کئے ہیں۔ ان میں ’’گاندھی: ایک عظیم شخصیت‘‘ اور ’’حسن کا احساس‘‘اہمیت کے حامل ہیں۔ خالد مبشر نے ’’بدلتا ہوا زمانہ‘‘ اور ’’نفس کا مسئلہ‘‘کو اردو میں منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیاہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو اساتذہ خالد جاوید اور ارجمند آرا نے ایک ایک مضامین ’’آرٹ کیا ہے‘‘ اور ’’ہندوستانی طلباء اور مغربی اساتذہ‘‘ کے ترجمے کے فرائض انجام دےئے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمود کاظمی اور ڈاکٹر فہیم الدین احمد کا تعلق شعبۂ ترجمہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی‘ حیدرآباد سے انتہائی گہرا ہے۔ محمود کاظمی نے دو مضامین ’’اساتذہ سے خطاب‘‘ اور ’’ہندوستان کا مسئلہ‘‘ جبکہ فہیم الدین احمد نے ’’تہذیب اور ترقی‘‘ کے علاوہ ’’طلباء کے نام‘‘ جیسے مضامین کو انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے ’’ٹیگو ر کے مضامین‘‘ جیسی متنوع کتاب کا آخری مضمون انوار الحق کا ترجمہ شدہ ’’آزادی کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ان مضامین میں فکر کی بالیدگی اور اظہار کی تازگی محسوس ہوتی ہے‘ ٹیگور نے مختلف ادوار میں مختلف موضوعات پر مضامین تحریر کئے‘ ترجمہ شدہ مضامین پر ان کی اشاعت کی تاریخ درج نہیں ہے‘ جس سے یہ واقفیت نہیں ہوتیکہ ان 14مضامین کو کون کون سے عہد سے منتخب کیا ہے اور انہیں کون سی سنین رابندر ناتھ ٹیگور نے تحریر کئے تھے عام طور پر ہنگامی حالات میں انسان فکر کا دائرہ مختلف ہوجاتا ہے جبکہ سکون و آسائش کے موقع پر انسان کی سوچ لامحدود وسائل کی سیر کرنے لگتی ہے۔ غرض ضرورت اس بات کی تھی کہ پروفیسر شہزاد انجم اپنے حرف آغاز کے دوران ان حقائق کی وضاحت کردیتے تاکہ مختلف عہد میں ٹیگور کی فکر میں اثر انداز ہونے والے حالات کو بھی سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس کمی کی وجہ سے ٹیگور کی فکر کے عہد بہ عہد ارتقاء کو سمجھنے میں دشوار ہوتی ہے۔ اس مختصر سی کمی کے باوجود یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مترجموں نے ٹیگور کے مضامین کو اردو میں منتقل کرتے وقت برجستگی ‘ روانی اور بے ساختگی کے علاوہ تسلسل اور زبان کے فطری بہاؤ کو پیش نظر رکھا گیا ہے‘ ہر مضمون گوکہ ترجمہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اصل مضمون کا گماں ہوتا ہے۔ان مضامین میں ٹیگور نے مسرت سے زیادہ بصیرت کے گوشوں کو نمایاں کرتے ہوئے ہر مضمون میں فکر اور فلسفے کی روایت کو شامل کیا ہے‘ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ مضامین ایسے ہیں جن سے پڑھا لکھا طبقہ ہی استفادہ کرسکتا ہے۔ ٹیگور کے مضامین کی فطری خصوصیت ایسی ہے کہ ان کی تحریروں سے پڑھا لکھا طبقہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا‘ غرض ٹیگور کے نمائندہ مضامین کو اردو میں ترجمے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع کرنے پر ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم‘ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ نئی دہلی کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ کتاب کے دو ہزار نسخے شائع کئے گئے ہیں یہ کتاب بلا قیمت تقسیم کی جارہی ہے ‘جسے یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے علاوہ صدر دفتر مکتبۂ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر ‘ نئی دہلی یا پھر ہندوستان میں موجود دوسرے کتب فروشوں کی شاخوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی اشاعت کے دوران مضامین کے لئے انگریزی میں آرٹیکل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ اخباری مضامین کو آرٹیکل کی سرشت میں شمار کیا جاتا ہے ‘جو ہلکے پھلکے موضوعات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ٹیگور کے مضامین کو سطحی آرٹیکل قرار دینا کسی حد تک زیادتی قرار دی جائے گی‘ غرض اہل فن کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
Prof. Majeed Bedaar
Hyderabad – Deccan

Majeed Bedar

Share
Share
Share