دکنی مثنویوں میں قومی یکجہتی کے عناصر۔ ۔ ۔ محمد نسیم الدین فریس

Share

نسیم فریس ۔ دکنی

دکنی مثنویوں میں قومی یکجہتی کے عناصر

پروفیسرمحمد نسیم الدین فریس
شعبہ اردو‘مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ۔ حیدرآباد
موبائل : 09490784290
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دکنی شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر کی تلاش و تعین اور تشخیص و تحسین سے قبل یہ واضح کر نا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قومی یکجہتی سے کیا مراد ہے؟ قومی یکجہتی سے مراد مشترک شناخت کا شعور ہے جو کسی ملک کے باشندوں میں پایا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی سوچ یا جذبہ ہے جس کے تحت کسی ملک کے عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سب کی شناخت ایک ہے ۔ اس تصور کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہم مختلف ذاتوں، مذاہب اور علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، الگ الگ زبانیں بولتے ہیں لیکن ہم اس حقیقت کو جانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں۔ ونیز یہ بھی کہ ہم ترقی و خوشحالی کے لیے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک مضبوط اور ثروت مند قوم کی تشکیل کے لیے اس طرح کی یکجہتی لازمی اور ناگزیر ہوتی ہے۔

قومی یکجہتی کا سیدھا سادہ مفہوم قومی اتحادیا قومی وحدت ہے ۔ اس کا مطلب ملک کی ساری قوتوں کو وحدت کے دھاگے میں پرونا ہے تاکہ ایک قوم ہونے کے خیال کو نشوونما اور بالیدگی ملے۔ تاہم ہمارے ملک ہندوستان میں وحدت کا مطلب نسلی اور ثقافتی وحدت نہیں ہے ۔ ہمارے ملک کے مخصوص سماجی ڈھانچے کے پیش نظر وحدت کا مطلب ہے گہرے اختلافات کے باوجود وحدت۔ بہ الفاظ دیگر کثرت میں وحدت۔
ہندوستان بہت بڑا ملک ہے رقبہ کے لحاظ سے بھی اور آبادی کے اعتبار سے بھی۔ یہاں ایک ہزار چھے سو باون زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب مثلاً ہندومت،اسلام، بدھ مت، جین مت، سکھ مت اور عیسائیت وغیرہ کے پیرو یہاں رہتے بستے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کے رسم و رواج ، غذائی عادتوں اور لباس میں بھی بے حد تنوع پایا جاتا ہے ۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی ہندوستان کے مختلف خطوں، ان کی آب وہوا اور موسمی حالات میں بڑا فرق و اختلاف پایا جاتا ہے ۔ لیکن ان سب اختلافات کے باوجود ہندوستان ایک سیاسی وحدت ہے جس کے ہر حصے میں ایک ہی دستور کی حکمرانی اور بالادستی ہے ۔ تمام ہندوستانیوں کو بقائے باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر پر امن طریقے سے رہنا ہے اور ایک دوسرے کے مذہب اور عقائد اور ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام کرنا ہے۔ یہی قومی یکجہتی ہے۔ گویا قومی یکجہتی کسی ملک کے باشندوں میں باہمی اختلافات کو وسیع النظری اور خوش دلی کے ساتھ برداشت کرنے کا سلیقہ پیدا کرتی ہے خواہ یہ اختلافات سماجی ہوں، ثقافتی ہوں یا مذہبی ہوں۔
مختصر یہ کہ قومی یکجہتی ایسا تصور ہے جو مختلف یا متفرق عوام اور ثقافتوں کو ایک متحدکُل میں جوڑتا ہے ۔ یہ ہم آہنگی ، مشترک شناخت اور ان سب سے بڑھ کر قومی شعور کا عمل ہے ۔ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں ایکتا ، اتحاد، یگانگت، باہم جڑے ہونے کا مشترک احساس، مشترک شہریت کا خیال اور قوم سے وفادار رہنے کا جذبہ فروغ پاتا ہے ۔قومی یکجہتی سے متعلق تمام خیالات و تصورات کی اصل الاساس قوم اور قومیت کے تصورات ہیں جن کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے ۔ یورپ میں ان کے ابتدائی ارتسامات نشاۃ ثانیہ کے بعد اُبھرتے نظر آتے ہیں جب کہ ہندوستان میں ان تصورات کے اولین نقوش انیسویں صدی سے ملتے ہیں۔ قوم اور قومیت کے موجودہ تصورات جدید ہیں ۔قدیم زمانے میں قوم (Nation) کا وہ تصور نہیں تھا جو آج ہے ۔ اسی طرح قومیت (Nationalism) کا نظریہ بھی عہد قدیم میں موجودہ مفہوم میں مستعمل نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ قومی یکجہتی کے جو مسائل اور مقتضیات ہیں ان میں سے بیشتر اردوادب بالخصوص دکنی شاعری میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں مثلاً حب الوطنی، مختلف المذاہب اور مختلف العقائد عوام کا باہمی میل ملاپ اور اتحاد ، عوام کے مختلف طبقات کا ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کو جذب کرنا، مختلف زبانیں بولنے والوں کا ایک دوسرے کی زبانوں کے الفاظ ، محاورات اور ضرب الامثال کو قبول کرنا، ایک دوسرے کے فنون لطیفہ کے اثرات کو اپنانا وغیرہ ۔ دکنی شاعری میں اس نوع کے جذبات اور ذہنی و فکری رویوں کے فروغ پانے کے متعدد اسباب ہیں۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اردو زبان کا مولدومنشا شمالی ہند بالخصوص حضرت دہلی اور اس کے نواحی علاقے رہے ہیں ۔ شمالی ہند سے اردو زبان صوفیائے کرام کے سایۂ رحمت میں دکن میں داخل ہوئی۔ لیکن ان صوفیائے کرام کا حلقہ اثر محدود تھا۔ اس کو وسعت ملی سلطان علاء الدین خلجی کی فتوحات دکن سے جن کا سلسلہ 1294 ؁ء سے 1308 ؁ء تک جاری رہا۔علاء الدین کی ان فتوحات کے نتیجے میں شمالی ہند کی زبانیں بولنے والے لشکریوں کے قدم دوارسمدر یعنی جنوبی ہند کے آخری سِرے تک پہنچے اور ان کے ساتھ اردو بھی اپنے قدیم روپ میں دکن کے مختلف خطوں میں پھیلتی رہی۔ دکن میں اردو زبان کی اشاعت میں مزید سرعت اور وسعت اس وقت پیدا ہوئی جب 1327 ؁ء میں سلطان محمد بن تغلق نے دہلی سے اپنا پایہ تخت دولت آباد (دیوگیری) کو منتقل کیا۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق قدیم اردو یا دکنی زبان میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ یا تخلیق ادب کا آغاز اس وقت ہوا جب یہاں بہمنی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔ دکن کی بہمنی سلطنت 1347 ؁ء میں شمالی ہند کے تسلط و اقتدار کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ بہمنی سلاطین نے اپنی خود مختاری کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے علاحدہ سیاسی وجود کو منوانے اور شمال کے مقابلے میں اپنی ایک علاحدہ شناخت قائم کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ انھوں نے مقامی عناصر اور دیسی روایتوں کو اپنا یا اور انھیں بڑھاوادیا۔بہمنی حکمران بڑے سیاس اور دور اندیش تھے ۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کی سلطنت میں غیر مسلم باشندے بھاری اکثریت میں پائے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ اس غیر مسلم اکثریت کی دلجوئی کیے بغیر‘ انھیں مطمئن اور خوش رکھے بغیر وہ کامیابی سے حکومت نہیں کرسکتے ۔ اسی خیال کے پیش نظر انھوں نے اپنی ہندو رعایا کے ساتھے بڑی رعایت کی، تہذیبی سطح پر ان کی متعدد ریتوں اور رسموں کو قبول کیا اور غیر مسلموں کو اپنی فوج اور حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ ان سارے اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلم باشندوں میں مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کے تئیں جو اجنبیت اور مغائرت کا احساس ہے وہ ختم ہو جائے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا جذبہ پروان چڑھے۔ دوریاں مٹ جائیں اور باہمی اعتماد، میل ملاپ اور بھائی چارے کا ماحول پیدا ہو۔ وہ اس مقصد میں کامیاب بھی رہے جس کے نتیجے میں دکن میں ایک مشترک تمدن اور مخلوط تہذیب کی نشوونما ہوئی ۔
بہمنی سلاطین نے دکن کے ہندو راجاؤں سے بھی دوستانہ تعلقات استوار کیے۔ ان کے مابین تحفے ، تحائف کا تبادلہ ہوتا تھا اور وہ ایک دوسرے کی تقاریب میں شریک بھی ہوتے تھے۔ چنانچہ بانی سلطنت علاء الدین حسن بہمنی کے ولی عہد محمد شاہ کی شادی میں کئی ہندو راجاؤں نے شرکت کی ۔ بہمنی خاندان کے آٹھویں حکمراں فیروز شاہ بہمنی نے وجے نگر کے راجہ دیو رائے کی لڑکی سے شادی کی تھی ۔ اس رشتے نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں باہمی ربط و یگانگت کے جذبے کو پروان چڑھانے اور مشترکہ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ عہد حاضر کے ہندو مورخوں نے فیروز شاہ بہمنی کو مشترکہ تہذیب کے بانی اور دکنی ثقافت کا بنیاد گزار قرار دیتے ہوئے اس کی وسیع النظری اور رواداری کی بڑی تعریف کی ہے۔ دکن میں مسلم تہذیب پر مقامی اثرات کے نفوذ کا نمونہ بہمنی دور کی تعمیرات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ ممتاز مورخ ہارون خاں شیروانی اپنی تصنیف کلچرل ٹرینڈز ان میڈیویل انڈیا میں لکھتے ہیں کہ بہمنی طرز تعمیر میں مقامی رجحانات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ کھڑکیوں ، کواڑوں اور دوسرے آرائشی تعمیر کے نقش و نگار سے ہندو طرز تعمیر کے اثرات نمایاں ہیں۔
دکن کے جس علاقے پر بہمنی سلاطین کی حکومت تھی اس میں جنوبی ہند کی تین بڑی زبانیں یعنی تیلگو، کنڑی اور مرہٹی بولنے والے لوگ آباد تھے۔ ان علاقوں کے باشندے ثقافتی اعتبار سے مختلف رسم ورواج کے حامل تھے۔ بہمنی بادشاہوں نے پہلی بار جنوبی ہند میں بسنے والی قوموں کو ایک شیرازے میں باندھا۔ ان میں قومی اتحاد، میل جول اور بھائی چارگی کے جذبات کو ابھارا، سماجی مساوات اور انسانی اخوت کے عظیم تصورات کی اشاعت کی جو ان کے عقیدے کا حصہ تھے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر زور رقم طراز ہیں:
’’دکن کے تمدن کی تعمیرمیں جتنا بہمینوں کا حصہ ہے کسی اور سلسلۂ سلاطین کا نہیں ہے۔ انھوں نے جب اس ملک میں اپنی سلطنت قائم کی تو یہاں کے مختلف علاقوں میں مختلف راجاؤں کی حکومتیں تھیں۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے مہاراشٹرا، کرناٹک اور تلنگانہ تینوں لسانی علاقوں کو ایک ہی سیاست اور حکومت کے تحت متحد کیا‘‘۔
(ڈاکٹر زورؔ ، دکنی ادب کی تاریخ)
بہمنی سلاطین نے دکن میں جس گنگا جمنی تہذیب کی صورت گری کی تھی اور جس حکمت عملی سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو شیر و شکر کرد یا تھا ‘بعد کے زمانے میں بھی ان کی اس روش کی پیروی کی گئی اور بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد قائم ہونے والی سلطنتوں نے بھی مذہبی رواداری اور میل ملاپ کی فضا کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس کو مزید مستحکم بھی کیا ۔ چنانچہ بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کے بانی یوسف عادل شاہ نے بھی فیروز شاہ بہمنی کی تقلید کرتے ہوئے ایک ہندو کلندراؤ کی بیٹی سے شادی کی جو ایک مرہٹہ سردار تھا۔ بیجاپور کا پانچواں حکمراں علی عادل شاہ اول ایسا وسیع القلب واقع ہوا تھا کہ وجیانگر کے راجا کی ماں کو وہ بھی امّاں کہتا تھا۔جب اس کے بیٹے کا انتقال ہوا تو تعزیت کے لیے وہ خود بہ نفس نفیس وجیانگر گیا۔ علی عادل شاہ کے جانشین ابراہیم عادل شاہ ثانی نے بھی ایک ہندو خاتون سے شادی کی تھی ۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی کو سنسکرت اور ہندوستانی موسیقی میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ وہ شاعر تھا اور موسیقی میں مہارت کے سبب ’’جگت گرو‘‘ کہلاتا تھا۔ ابراہیم کی سلطنت میں رعایا کی اکثریت ہندو اور مرہٹہ تھی۔ ابراہیم ہندو مذہب کا بڑا احترام کرتا تھا۔ اس کی تصنیف کتاب نورس میں ہندوؤں کے دیوی ، دیوتاؤں مثلاً سرسوتی، گنیش، شیواور اندر کی تعریف میں گیت ہیں۔ ابراہیم کی اس آزادہ روی کے پیچھے ہندو رعایا کو اپنے قریب کرنے کا جذبہ کا ر فرما تھا۔ اس کے ان گیتوں کے کچھ نمونے ملاحظہ ہوں ؂
سَرستی سوچّہ سندری مہا اتّم جات نرمل
ایک ہست پستک دوجے پانٹری سمرن
تیجے شیہ شنکھ چوتھے کرکمل
(سرسوتی صاف خوبصورت پاک اور اعلیٰ ذات ہے ، اس کے ایک ہاتھ میں کتاب دوسرے ہاتھ میں تسبیح، تیسرے ہاتھ میں سنکھ اور چوتھے ہاتھ میں کمل ہے) ؂
گنپتی تم روپ کی تنک جوت مانو سور جگمگے رت بسنت
سود یشٹ سادشٹ بھئی ونائک منوہر سن مکھ دیکھن
کٹھن ساؤک نین پنت
(اے گنیش تمہارے روپ کی ادنیٰ جھلک ایسی ہے جیسے موسم بہار میں سورج جگمگا رہا ہے ۔ خوبصورت ونائک کی دلکشی کے آگے ہر نوٹے کی آنکھ کو راستہ دیکھنا مشکل ہے)
(بحوالہ کتاب نورس مرتبہ پروفیسر نذیر احمد)
عادل شاہی سلاطین عوام کے عقائد پر معترض نہ ہوتے تھے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ خزانے کی نگرانی شاہی مراسلت اور سفارت خانے پر ہندو امرا مامور تھے۔ڈی سی ورما اپنی تصنیف ہسٹری آف بیجاپور میں رقم طراز ہیں:
’’عادل شاہی حکمرانوں کے تعلقات اہل ہنودسے بہت اچھے تھے اور سلطنت میں کبھی تبدیلی مذہب کی مہم نہیں چلائی گئی۔ مالگزاری او ر عدلیہ جیسے اہم محکموں کے دفاترہندوؤں کے ذمہ تھے‘‘۔
گولکنڈے کے قطب شاہی حکمرانوں نے بھی اپنی مملکت میں ہر مذہب و عقیدے کے لوگوں کو آزادی عطا کی اور ایک ایسے ملے جلے اور مخلوط تمدن کو پروان چڑھایا جو تلنگ آندھرا تہذیب اور اسلامی معاشرت کے بہترین عناصر کا امتزاج تھا۔ اس خاندان کے تیسرے حکمران ابراہیم قطب شاہ نے اپنے بھائی جمشید قطب شاہ کے خوف سے گولکنڈے سے بھا گ کر وجے نگر میں پناہ حاصل کی تھی ۔ وجے نگر کے راجہ رام راج نے اس قطب شاہی شہزادے کی بڑی آؤ بھگت کی۔ ابراہیم قطب شاہ نے وجے نگر میں سات سال گزارے ۔ اس نے بھاگیرتی نامی ایک ہندو عورت سے شادی کی ۔ جمشید کی وفات کے بعد ابراہیم نے گولکنڈہ کے ہندو امرا کی مدد سے تخت سلطنت پر جلوس کیا۔ ابراہیم قلی اپنی ہندو رعایا میں نہایت مقبول تھا۔ وہ اسے’’ ملک بھرام‘‘ کہتے تھے۔ قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکمراں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی محبوبہ بھی ایک ہندو رقاصہ بھاگ متی تھی۔ قطب شاہی سلطنت میں ہندوؤں کو بڑے بڑے عہدے دیئے جاتے تھے۔ سلطان ابوالحسن تاناشاہ کے وزیر اکنّا اور مادناّ نامی دو برہمن تھے۔ قطب شاہی سلاطین مذہبی معاملات میں نہایت کشادہ دل ، روادار اور وسیع النظر واقع ہوتے تھے۔ انھوں نے تلنگی زبان سیکھی، تلگو عورتوں سے شادیاں کیں حتیٰ کہ اپنے آباواجداد کا ترکستانی لباس ترک کرکے تلنگانے کا لباس پہننا شروع کیا۔ ان کے عہد میں ہندواور مسلمان مل جل کر رہتے اور ایک دوسرے کی عیدو ں تہواروں‘ خوشیوں اور غم میں شریک رہتے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کا یہ مظاہر ہ دکنی کلچر کی پہچان بن گیا تھا۔
دکن کے مسلمان حکمرانوں کی قلمرومیں کئی زبانیں بولنے والے علاقے، الگ الگ مذاہب کے ماننے والے اور مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ شامل تھے ۔ لیکن ان حکمرانوں نے اپنی سلطنت میں ان سب کو ایک جُٹ اور متحد رکھا ۔ ان کے زمانے میں قوم‘ قومیت اور سیکولرازم کے وہ تصورات تو نہ تھے جو آج ہیں لیکن ان کے بغیر ہی ان سلاطین کی رعایا میں بڑی یکدلی اور یکجہتی پائی جاتی تھی ان کی سوچ اور رویے میں سیکولرازم کے اوصاف پائے جاتے تھے۔ ادب چونکہ سماج کا آئینہ اور سماج کی امنگوں اور آرزوؤں کا ترجمان ہوتا ہے اس لیے اس میں سماج کی تصویر کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔ دکنی ادب بھی اپنے دور کے مزاج و ماحول کا آئینہ ہے۔ اس میں بھی ہندومسلم ملی جلی ثقافت کی وہی تصویر اور سیکولرازم کی وہی روح نظر آتی ہے جو حقیقت میں اس دور کے سماج اور معاشرے میں موجود تھی۔
ادب کی تخلیق میں موضوع اور مواد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ دکنی شاعروں نے اپنی شعری تخلیقات میں جہاں اسلامی موضوعات مثلاً تصوف وعرفان اور فقہ وغیرہ کو برتاوہیں انھوں نے کسی ذہنی تحفظ اور تردد کے بغیر ہندو صنمیات یا دیو مالائی روایات کو بھی موضوع بنایا۔ مثلاً بہمنی دور کے شاہ کار ’’کدم راو پدم راو‘‘ کو لیجیے جو اردو کی پہلی مثنوی ہے ۔ اس مثنوی کے مصنف فخردین نظامی نے اس میں جو قصہ پیش کیا ہے وہ تبدیلی قالب سے تعلق رکھتا ہے ۔ راجہ کدم راو اکھر ناتھ نامی یوگی سے اپنی روح کو دوسرے کے مردہ جسم میں منتقل کرنے کا منتر سیکھتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں اسے بڑی پریشانیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تبدیلئ قالب سنسکرت ادب کا نہایت مقبول موضوع رہا ہے ۔ سنسکرت میں اِسے پر شریر آویش ، دیہانتر آویش، یا پرکائے پرویش کہا جاتا ہے ۔ یوگ و دیا میں روح کی منتقلی ممکن ہے ۔ ہٹ یوگ کے منی پورک چکر کو سدھ کرلینے والا یوگی اپنی روح دوسرے کے جسم میں لے جانے پر قادر ہو سکتا ہے ۔ یہ تصور اصل میں ہندوعقیدہ تناسخ سے جڑا ہوا ہے جو اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے لیکن فخر دین نظامی نے قصے کو قصے کی حیثیت سے دیکھا اور اسے اپنی مثنوی میں پیش کیا۔ قصے میں زور پیدا کرنے کے لیے نظامی نے ہندوؤں کی بدشگونی اور توہم کو بھی قصے کا جز بنایا ہے۔ جب کدم راو جوگی اکھر ناتھ سے منتر سیکھنا شروع کرتا ہے تو مندر کا کلش ٹوٹ کرگر پڑتا ہے ۔قدیم ہندو عقیدے کے مطابق یہ بدشگونی ہے ۔ نظامی نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے :
کھیا راوّ یہ بدیاّ منجہ سکھاو
کہ وَنَمان توں ]کچھ[ نہ دے منجہ سکھا و

اکھرناتھ پر مان لے راؤ کے
امر بدّیا تب کیے تھاؤ کے

امرناتھ منتر سکھا یا رہس
یکایک پڑیا ٹوٹ مندر کلس

جَتائے بہت اَو شُگُن راو کوں
نہ پوچھیا کسے ، راو اس بھاو کوں
انسانی روح کے ایک پیکر سے دوسرے پیکر میں منتقل ہونے کا تصور نہایت سنسنی خیز اور حیرت انگیز ہے اس لیے اس حقیقت کے باوجود کہ اس تصور کی اساس ہندوستانی بلکہ خالص ہندو فلسفے پر مبنی ہے دکنی شعرا نے نہایت فراخدلی سے اپنی منظوم داستانوں میں اس تصور کو موضوع بنایا، کیونکہ داستان کی حیرت زائی اور استعجاب آفرینی میں اس سے بڑی مدد ملتی تھی۔ نظامی کے بعد تبدیلی قالب کے اس تصور کو ملک خوشنود نے مثنوی ’’جنت سنگھار‘‘ میں پیش کیا ۔ اس مثنوی میں آٹھ الگ الگ رنگوں کے محلات کا ذکر ہے ان میں سبز محل کی داستان میں انتقال روح یا تبدیلی قالب کا یہی تصو ر ہے ۔ اس قصے میں بھی ایک سیدھے سادے بادشاہ کا عیار اور چالباز وزیر دستور ؔ دھوکے سے بادشاہ کو ایک مردہ ہرن کے جسم میں اپنی روح کو منتقل کرنے پر اکساتا ہے ۔ سادہ لوح بادشاہ جب اپنی روح کو مردہ ہرن کے جسم میں منتقل کرتا ہے تو وزیر بادشاہ کے جسم میں داخل ہوکر تخت و تاج پر قابض ہوجاتا ہے ۔ اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
کہا دستور نے اے شاہ غازی
کرم سوں کر بندے کا دلنوازی

گیا ہے جو ہرن مردہ پڑا ہے
سلامت ہے ولے کچ نئیں جھڑیا ہے

عجب او کیمیا تیرا دکھا توں
تراجیو اِس ہرن میانے لیجا توں

نہیں سمجھا نول اوشاہ گیانی
بدی کا دل میں دھرتا او نشانی

ہوا جب شاہ اپنے دھڑستی دور
گیا تَو شہہ کے دھڑمیں بیگ دستور
اصل بادشاہ ہرن کی جون میں جنگل میں آوارہ و پریشان پھرتا ہے لیکن بالأخر حق کی جیت ہوتی ہے اور بادشاہ کو اپنا اصل جسم واپس مل جاتا ہے ۔قطب شاہی دور کے شاعر ابن نشاطی نے بھی اپنی مثنوی پھول بن کی ایک کہانی میں نقل روح کا قصہ پیش کیا ہے ۔
دکنی شعرا نے جہاں عرب و عجم کی روایتوں کو اپنی مثنویوں کا موضوع بنایا وہیں ہندوستانی قصوں یا سنسکرت سے ماخوذ کہانیوں پر بھی بلند پایہ مثنویاں لکھی ہیں۔ ایک طرف یوسف زلیخا، لیلیٰ مجنوں، نوسرہار ، قصہ بے نظیر (تمیم انصاری کی داستاں) اور سیف الملوک و بدیع الجمال جیسی مثنویا ں لکھیں جن کی اصل عربی روایات ہیں تو دوسری طرف انھوں نے جنت سنگھار، بہرام و گل اندام‘ رضوان شاہ و روح افزا جیسی مثنویاں لکھیں جو عجمی یا ایرانی روایات پر مبنی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنسکرت قصوں کے فارسی تراجم سے بھی استفادہ کیا اور کدم راو اور پدم راو کے علاوہ بھوگ بل، مینا ستونتی، طوطی نامہ ، گلشن عشق، چندربدن ومہیار، سنگھا سن بتیسی، کام روپ و کام لتا وغیرہ جیسی مثنویاں بھی لکھیں جو ہندوستانی روایات پر مبنی ہیں۔ یعنی قصوں کے انتخاب میں انھوں نے عرب ، عجم اور ہندوستانی قصوں کے درمیان کوئی بھید بھاؤ نہیں برتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مثنوی کا قصہ خواہ عرب کی روایات پر مبنی ہو یا ایران کی دکنی شعرا نے ان روایتوں سے صرف قصے کے پلاٹ اور کردار اخذ کیے ہیں۔ ان کی مثنویوں کا تہذیبی پس منظر اور ماحول سارے کا سارا دکنی اور ہندوستانی ہے۔ مثلاً بہمنی دور کے شاعر اشرف بیابانی کی مثنوی’’نوسرہار‘‘ کو لیجیے۔ اس مثنوی کا موضوع واقعہ کربلا ہے ۔ ا س کے کردار وں میں حضرت سیدنا حسینؓ ،یزید، عمر بن سعد وغیرہ سب عرب سے تعلق رکھتے ہیں ۔اِس میں اشرف نے جب حضرت شہر بانو کے کردار کو متعارف کروایا تو ان کے پیش نظر ہندوستانی عورت اور اس کے جذبات و احساسات تھے۔ ان کے ذہن میں عرب کی کسی خاتون کا نہیں بلکہ ہندوستانی عورت کا تصور موجود تھا اورمثنوی میں انھوں نے اسی کی عکاسی کی ہے ۔نوسرہار میں بعض زیورات اور تہذیبی مظاہر کا ذکر بھی ہے جو خالص ہندوستانی ہیں۔ اس لئے مانسرور ، ہندوستان کے خاص پرندوں ہنس، کوئل اور طوطے کے علاوہ لنکا اور گھنگچی جیسے مقامی عناصر کا بھی ذکر آیا ہے ۔شہادت حضرت اما م حسینؓ سے زمین ، آسمان، چرند پرند سب پر دکھ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ اشرف کہتاہے:
رَہَت اس دکھ انگھے ناس
گرج رھیا اب جم آکاس

نیر بہاوے لوہو گھال
لرزا پڑیا سات پَتال

جنگل کیرے پنکھیروں
ساوج ڈوگر کے ہرسوں

چھوڑ سبہ اٹھ لیتاراں
ہنسوں پکڑیا سرور ماں

دُوکھوں لنکا پکڑی آگ
جل جل کوئلہ ہوئی راک

کوئل آپس یو دکھ دھر
بیٹھی کپڑے کالے کر

راویں سب تن ہر یا کر
مکھ سوبھایا لوہو کر

گنگچی سب تن لوہو بھر
کالاٹیکا مُوکوں دھر
دکنی شعرا کے تخلیقی وجدان اور تحت الشعور میں ہندو مسلم بھائی چارے اور میل ملاپ کے جذبات اس قدر رَچے بسے تھے کہ انھوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اگر ایک جانب عرب و عجم کی داستانوں اور کرداروں کو ہندوستانی ماحول اور ہندوستانی تہذیب کے رنگ میں ڈبویا ہے تو دوسری جانب ہندوستانی قصوں اور ہندوستانی کرداروں کو مسلمانوں کے ثقافتی سیاق میں پیش کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کی ہے ۔ مثلاً قطب شاہی دور کے شاعر غواصی ؔ نے اپنی مثنوی مینا ستونتی کا قصہ ایک ہندوستانی لوک کہانی کے فارسی ترجمے سے لیا ہے ۔اس مثنوی کی ہیروئین مینا، اس کا شوہر لورک ، مینا کی رقیب راجکماری چندا وغیر ہ سارے کردار ہندو ہیں لیکن مثنوی میں جابجا اسلامی تعلیمات ، مسلمانوں کی ثقافت اور روایات جھلکتی نظر آتی ہے ۔ مثلاً میناکی زبانی ان ابیات کو دیکھیے:
ننھی کی مناجات اول قبول
ہے خوشنود اس پر خدا ہورسول

جسے جوں ملانے کو آتا کریم
تو اس دھات سوں لا ملاتا رحیم

خدا تج سے راضی نہ راضی رسول
جتنے جیو دوزخ کری تو قبول
مینا ایک ہندو عورت ہے لیکن وہ مناجات کر رہی ہے ،خدا اور رسول کو یا د کر رہی ، خدا کوکریم اور رحیم کہہ رہی ہے ۔ دوزخ کا ذکر کر رہی تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں کے یہ سارے تصورات ہندوؤں میں بھی عام تھے۔ اس مثنوی میں ابلیس، شیطان ، خضر، آب حیات، سکندر، ظلمات، اسمٰعیل، کعبہ ، بہشت، شداد، قارون، ہامان، جیسے اسمااور تلمیحات بھی ملتی ہیں جو اسلامی پس منظر کی حامل ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہندو عقائد اور ہندو تہذیب بھی اپنا جلوہ کھاتی ہے۔ مثلاً دلالہ جب مینا کو اپنے شوہر لورک سے بے وفائی کرنے اور راجہ بالا کنوار کے ساتھ عیش کرنے کی ترغیب دیتی ہے تو پاکدامن مینا اس کا جواب اس طرح دیتی ہے:
سُنی بات اس کی جو مَینا سندر
دیا جوش لھوکوں اٹھی بول کر

اِتا سُن یو ناچیز کٹنی جھُٹی
کتی ہوں اتاسن تو بختاں پھٹی

عجب کوچ کٹنی توں ہے بے دھرم
نہ رکھتی بھرم ہورلیتی شرم

دغا دینے منگتی ہے کٹنی چھنال
سَتی اپنے ست کوں جو رکھنا سنبھال

ستی ہندواں کی جلے ایک دن
ہماری عمر ساری جلنا کٹھن

کہ جیتے سیتاں کی سوہوں گرد میں
نکوپڑ تو منج آہ کے درد میں
غواصی نے اس مثنوی میں یہ دکھایا ہے کہ قصے کے آخر میں راجہ بالا کنوار راجکماری چندا کو اس کی بدچلنی کی پاداش میں سنگسار کرواتا ہے ۔ غواصی کی دوسری مثنوی ’’طوطی نامہ‘‘ میں بھی بدکردار عورتوں کو سنگسار کیا جاتاہے ۔ یہ سزائیں اسلامی قانون کے مطابق ہیں جب کہ غواصی کی دونوں مثنویوں کا قصہ ہندوستانی اور کردار ہندو ہیں لیکن مثنوی کی تصنیف کے وقت غواصی کے ذہن میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی تفریق نہیں تھی۔
عادل شاہی عہد کے شاعر ملک الشعرا نصرتیؔ نے اپنی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ میں کنور منوہر اور مدمالتی کے عشق کی داستان نظم کی ہے ۔ اس مثنوی کے تمام کردار جیسے منوہر، مدمالتی، چندرسین، چمپاوتی، راجہ بکرم، سوربل اور دھرم راج سب ہندو ہیں۔ اس مناسبت سے نصرتی نے منوہر اور مدمالتی کی شادی کے موقع پر ہندو رسم و رواج جیسے آرتی اتارنا، چوک پورنا وغیرہ کا ذکر کیا ہے ، چمپاوتی منوہر کی آرتی اتارتی ہے۔
سو اس سُور کوں دیکھ چنپاوتی
کری مستعد نورتن آرتی

دھریک ہاتھ دھن نورتن آرتی
کھڑی ہے سنگاتی اُپر وارتی

دوجے ہاتھ سوں کر انچل کا چنور
اڑاتی ہے ہر ہر گھڑی تس اُپر
نصرتی نے منوہر اور مدمالتی کی شادی کی جن رسموں کا ذکر کیا ہے ان میں سے بہت ساری دکن کے مسلمانوں میں بھی رائج تھیں۔ مثلاً چوک پورنا یا چوک بھرائی، ہلدی، سمدھنوں، باراتیوں اور نوشہ کے استقبال کے لیے قماشاں یا پاؤں گھڑیاں بچھانا، سمدھنوں کی صندل پھول سے تواضع کرنا وغیرہ۔ نصرتی نے گلشن عشق میں یہ ساری رسمیں دکھائی ہیں ۔ چند اشعار دیکھیے:
نول نورتن شَو اُپر کر نثار
قما شاں بچھا پاؤں تل زرنگار

صندل پھول سوں رکھ بی سمدیاں کی مان 
بُلا لے چلے شَو کو کر جیو کی پران

دونوں دھیرتے ریت رسمانہ تب
روانہ ہوئے چاؤ سوں ات عجب

ہَلد زعفرانی کے بھرتے طبق
ہوا سور تس پرتے سونے کا ورق
اس مثنوی کی خاص بات یہ ہے کہ نصرتی نے اس میں ہندو رسم ورواج کے ساتھ نکاح کے اسلامی طریقوں پر عمل ہوتا ہوا دکھایا ہے ۔ مثلاً مثنوی کے جس باب میں منوہر اور مدمالتی کے بیاہ کی تفصیلات ہیں اس کا عنوان ’’عقد بستن منہر و مالتی‘‘ ہے ۔ ظاہر ہے ہندوؤں میں وواہ ہوتا ہے عقد نہیں ، لیکن نصرتی نے کوئی خیال کیے بغیر منوہر اور مد مالتی کا وواہ نہیں بلکہ عقد کروایا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر پنڈت یا پروہت نہیں بلکہ قاضی موجود ہے اور وکیل بھی ونیز دلہن مد مالتی کا مہر بھی مقرر کیا گیا ہے ، جب کہ ہندوؤں میں مہر کا کوئی تصور نہیں۔ اس طرح نصرتیؔ کی یہ مثنوی دکن کی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب اور یکجہتی کا خوب صورت مرقع پیش کرتی ہے ۔
دکن کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے متعدد رسم و رواج ، طور طریق اور توہمات اپنا لیے جن کی ان کے اپنے مذہب میں کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ مثلاً شاہی محلات میں اور امرا کے یہاں بچوں کی ولادت پر نجومیوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو نومولود بچو ں کے زائچے تیار کرتے اور ان کے مستقبل کے بارے میں پیشن گوئی کرتے تھے۔ حکیم نظام الدین احمد گیلانی صاحب’’ حدیقتہ السلاطین‘‘ لکھتا ہے کہ جب سلطان محمد قطب شاہ کے یہاں شہزادہ عبد اللہ قطب شاہ کی ولادت ہوئی تو اہل تبخیم نے ستاروں کی چال دیکھ کر یہ فیصلہ سنایا کہ شہزادہ نہایت بلند اقبال اور ستودہ صفات ہوگا لیکن بادشاہ کو چاہئیے کہ بارہ برس تک اُسے نہ دیکھے ورنہ بدشگونی ہوگی۔بارہ برس بعد جب شہزادے اور بادشاہ کے ستارے متحد ہو جائیں تو بادشاہ اپنے فرزند کو دیکھ سکتا ہے تب کوئی خدشہ نہ ہوگا۔ نجومیوں کے کہنے کے مطابق سلطان محمد قطب شاہ نے شہزادہ عبد اللہ قطب شاہ کی پرورش علحدہ محل میں کی اور جب اس کی عمر بارہ برس کی ہوگئی تو اس کا دیدار کیا۔ یہ قصہ نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کے بادشاہ زین الملوک اور اس کے فرزند تاج الملوک کی داستان سے گہری مماثلت رکھتا ہے لیکن اس کاراوی قطب شاہی دور کی معتبر تاریخ حدیقتہ السلاطین کا مصنف حکیم نظام الدین احمد ہے ۔ بہر حال اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندو تمدن کے زیر اثر دکن کے مسلم معاشرے میں بھی نجومیوں ، رمالوں اور فال نکالنے والوں کی باتوں پر اعتقاد رکھا جاتا تھا۔دکنی مثنویوں سے بھی دکنی سماج میں رائج اس رسم کی توثیق ہوتی ہے ۔ ان مثنویوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ بادشاہ کا دین و مذہب خواہ کچھ ہو شہزادے ؍شہزادی کی ولادت پر اہل تبخیم اور اہل تفاول کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ان سے نومولود کی قسمت کا حال دریافت کیا جاتا ہے ۔ ان مثنویوں میں دکھایا گیا ہے کہ بادشاہ اولاد نہ ہونے کے سبب مایوس اور غمزدہ ہے۔ وہ تخت و تاج تیاگ کر گوشہ نشین ہونا چاہتا ہے لیکن نجومی شہزادے کی ولادت کی پیشن گوئی کرکے بادشاہ کو مسرور کرتے ہیں۔ شہزادے کی پیدائش پر شاہی نجومی اس کی قسمت کا حال بتاتے ہیں اور آنے والے خطرات یا مہمات سے آگاہ کرتے ہیں ۔ شہزادے کا نام بھی نجومیوں کے مشورے سے رکھا جاتا ہے ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
مثنوی سیف الملوک وبدیع الجمال (مصنفہ غواصی) میں مصر کا بادشاہ عاصم نول فرزند کے نہ ہونے کے سبب نہایت متفکر ، غم زدہ اور دلگیر ہے ۔ بادشاہ کی پریشانی جان کر وزراسے تسلی دیتے ہیں اور نجومیوں کو طلب کرتے ہیں:
وزیراں سنے شاہ سوں یوں بچار
شہنشاہ کو دھیرک دے سب ایک بار

نجومیاں کوں یکدِھرتے حاضر کیے
چھپا شاہ کا راز ظاہر کیے

دیکھے کھول جیوں شہ کے طالع قوی
خوشی سب کے تئیں مکھ دکھائی نوی

ستارا اٹھا جاگ شہ بخت کا
ہوا وقت خوبی کیرے وقت کا

شہنشہ کے طالع قوی پائے کر
بشارت دیے شہ کوں یوںآئے کر

کہ اے بادشاہ بھوگنی بخت ور
توں فرزند کے کارن اب غم نہ کر

یمن کے جو راجے کی بیٹی ہے ایک
چندر سور کھاتے ہیں رشک اس کوں دیک

اوسے منگ تج شاہ کوں وو سجے
کہ دے گا خدا اس تھے فرزند تجے
اس دورکے دکنی سماج میں بلا تفریق مذہب و ملت نومولود کی تاریخ ولادت دن ، ساعت، گھڑی، ستاروں کی حرکت اور ان کے برج کے مطابق نجومیوں کے مشورے سے اس کا نام رکھا جاتا تھا ۔ چنانچہ مثنوی گلشن عشق میں نصرتی نے دکھایا ہے کہ کنک گیر کے راجا بکرم نے نجومیوں کے مشورے پر اپنے بیٹے کا نام منہر (منوہر) رکھا جو داستان کا ہیرو ہے ۔
پچھیں خوب تقویم پر دھر نظر
رکھیا نا نو اس کا سو منہر کنور
طبعی کی مثنوی ’’بہرام و گل اندام‘‘میں ملک روم کا حاکم کشورؔ شہزادے کی ولادت پر نجومیوں کی رائے سے اس کا نام بہرام رکھتا ہے ۔
سُنیا پادشہ سو منجم بلا
رکھیا تانوں بہرام طالع کھلا
جنیدی کی مثنوی ’’ماہ پیکر‘‘ میں غزنی کا تاجر عبداللہ اپنے یہاں فرزند کی ولادت پر شہر کے سب سے بڑے ماہر نجوم و رمل کو بلا کر اس سے نومولود کا نام تجویز کرنے کی درخواست کرتا ہے اور اس کے مشورے سے بچے کا نام ’’پیکر ‘‘ رکھتا ہے ۔
نجوم کے ستاریاں کوں سب راس کر
رکھیا ناوں اس کا سو پیکر ککر
اسی طرح مثنوی کی ہیروئین ماہؔ کا نام بھی اس کے باپ حسن میمندی نے نجومیوں اور رمالوں کے مشورے پر ’’ماہ‘‘ رکھا۔
نیکا نانوں اس کا رکھے ماہ کر
اتھا او وَقت سعد سب خوب تر
شادی بیاہ کے موقع پر بھی مبارک تاریخ، دن اور شُبھ گھڑی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس خصوص میں مثنوی ’’بہرام و گل اندام‘‘ کے درج ذیل اشعار دیکھیے۔
مہندسؔ سطر لاب لے ہاتھ میں
ارسطو نمن دیکھ تل سات میں

موافق ستارے سوں بہرام کا
پڑیاں جیونکہ تارا گل اندام کا

کھیا عقد باندوں یو قاضی تمیں
او دونوں ہے اول تے راضی تمہیں
دکن میں اگر مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت نے ہندوؤں کو متاثر کیا تو دوسری طرف ہندو سنسکرتی مقامی روایات اور رہن سہن کے طور طریقوں نے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ گویا دکن میں مسلمانوں اور اہل ہنود کے مابین تمدنی اثر پذیر ی یک طرفہ نہیں تھی بلکہ ایک ثقافتی لین دین تھا جو مذہبی اختلاف کے باوجود وقوع پذیر ہوا۔ ہارون خاں شیروانی اپنی تصنیف ’’دکنی کلچر‘‘ میں رقم طراز ہیں:’’ بہمنی سلاطین اور وجیا نگر راج خواہ کیسے ہی ایک دوسرے کے حریف کیوں نہ ہوں وہ نہ صرف ایک دوسرے کے کلچر کے (تئیں) روادار تھے بلکہ اس کو اپنانے میں مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس دور میں ہندو معزرین اور شرفا کے گھروں میں عورتیں مسلم خواتین کی طرح پردہ کیا کرتی تھیں‘‘۔
دکن میں دو بڑی تہذیبی اکائیاں قائم ہوگئی تھیں جو مقامی ہندؤں اور شمالی ہند اور دیگر مقامات سے آنے والے مسلمانوں پر مشتمل تھیں۔ اس دور میں مسلمانوں میں تصوف کی تعلیمات اور ہندوؤں میں لنگایت اور بھگتی تحریک تیزی سے پھیلنے لگی۔ ان تحریکوں نے عوام اور خواص دونوں کے ذہنوں اور سوچنے کے انداز کو متاثر کیا اور ان میں انسان دوستی ، بھائی چارے اور رواداری کے جذبات بیدار کیے۔ مسلمانوں نے ہندو دھرم سے بہت سے میلانات مستعار لیے۔ ویدانت اور بھگتی میں قلب و احساس کی اہمیت پر بہت زور دیا جاتا ہے ۔اسی طرح تصوف میں جذب و عشق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جن کا تعلق قلب اور احساس ہی سے ہے ۔ اس طرح کی بعض اور مماثلتوں کے سبب دونوں میں مفاہمت کا رویہ ابھرنے لگا۔ اس سلسلے میں ایس۔ کے سنہا ’’میڈیو یل ہسٹری آف دکن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ رام اور رحیم کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا رجحان پیدا ہورہاتھا۔ہندو سادھو سنت اور مسلمان فقرا رام اور رحیم کے تصور کو ایک دوسرے میں ضم کرنے اور دونوں کو ایک سمجھنے کا پیغام دے رہے تھے۔ اس کی اولین کوشش ہمیں دکن کے بعض صوفیا کی شعری تخلیقات میں نظرآتی ہے جہاں ان صوفی شعرا نے باری تعالیٰ کے لیے ان ناموں کا استعمال کیا ہے جوہندو دھرم میں رائج ہیں جیسے کرتار، سرجنہار، داتار وغیرہ۔ اس رنگ میں بیجاپور کے مشہور صوفی شاعر حضرت شاہ برہان الدین جانم کی مثنوی ’’ارشادنامہ‘‘ کے چند حمد یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
اللہ سنوروں پہلیں آج
کیتا جن یہ دُہوں جگ کاج

جگتی کیرا توں کر تار
سبہوں کیرا سر جنہار

قدرت تو تجہ انت نہ پار
اَگنت کیتا ہو پر کار

سب کا داتا توں نردھار
جے کچہ اکوے من اوکار

کچہ نہ لُو پیا تجہ درشٹ
جے کچہ مایا کیا سر شٹ

سگلا کیتا جن سَئیں سار
سب پر آہے تو داتار
برہان الدین جانمؔ ہی کے سلسلے کے ایک صوفی شاہ تراب کے کلام میں ’’ہند لمانی‘‘ تہذیب کا سنگم اور گہرا ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ان کے یہاں ’’رام اور رحیم‘‘ کا فرق مٹ کر صرف ’’رام‘‘ رہ گیا ہے۔ یہ بڑی ہمت کا کام تھا۔ پروفیسر مسعود حسین خاں رقم طراز ہیں:
’’مذہبی فکر کی سطح پر ’’رام اور رحیم‘‘کو اس طرح مدغم کرنے کی جرأت شائد ہی کسی دوسرے صوفی نے کی ہو۔ ’’رام اور رحیم‘‘ کبیر کی اصطلاح میں ایک ہی ذات کے دو نام ہیں لیکن صوفیانہ واردات میں دونوں کے فرق کو مٹا کر صرف ’’رام‘‘ کے نام سے یاد کرنا محض ایک قدم آگے کا معاملہ نہیں بلکہ ایک زبردست جست و جسارت ہے‘‘۔
(پروفیسر مسعود حسین خاں، من سمجھاون، مرتبہ سیدہ جعفر)
واقعہ یہ ہے کہ شاہ تراب نے نہ صرف رحیمؔ کو رامؔ کے نام سے پکارا بلکہ رام کے بارے میں جو عقائد اور تصورات ہندو دھرم میں پائے جاتے ہیں ان کی ترجمانی کرنے والے الفاظ اور دھارمک اصطلاحیں بھی بلاتکلف استعمال کیں۔ مثال کے طورپر درج ذیل بند ملاحظہ ہوں:
صفت کر اول اس کی جو رام ہے گا
اُسی رام سوں ہم کو آرام ہے گا

سدا رام کے نام سوں کا م ہے گا
ہمن دھیان اس کا صبح شام ہے گا

دوہی گل دوہی مُل وہی جام ہے گا
دو ہی ساقئ بزم گل فام ہے گا

الک نام اللہ نرنجن ہری ہے
نرنکھار نرگن ووپر مسیری ہے

صفت اس کی ہر شئے میں دائم بھری ہے
وو گنگا وو جمنا وو گوداوری ہے

ووہی ذوالجلال اور اکرام ہے گا
ووہی ساقئ بزم گل فام ہے گا

بندو دھیان سوں دُھن او پرماتما کا
ہو سُمرن اہے نام پر ماتما کا

سری رام ہے نام پرماتما کا
کرے بھاسکر دھیان پر ماتما کا

الک اُو نراکار نرگن نرنجن
کرے جیوجیوت سدا جس کی سمرن
شاہ تراب کے کلام پر ہندو جوگیوں اور ناتھ پنتھی سادھوؤں کے گہرے اثرات نظرآتے ہیں۔ ’’من سمجھاون‘‘ میں ہندو دیومالا، ہندو فلسفے اور ہندو مصطلحات کی اس بھرمار کی تاویل کرتے ہوئے پروفیسر سیدہ جعفرجنھوں نے شاہ تراب کی اس تصنیف کو مدون کیا ہے ، لکھتی ہیں:
’’من سمجھاون میں شاہ تراب نے اپنے عقائد کو ہندو فلسفے کی اصطلاحوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہندو قارئین بھی اسلامی تصورات کو باسانی سمجھ سکیں اور وہ ان کے لیے زیادہ موثر اور قابل قبول بن سکیں۔ دوسرے یہ کہ شاہ ترابؔ نے اسلامی عقائد کو ہندو دیومالا اور ہندو مذہب کی بعض تعلیمات اور تشریحات کی مدد سے اس لیے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح دوسرے مذہب والے بھی اس سے خود کو مانوس پاکر اس طرف متوجہ ہوسکیں اور انھیں کسی قسم کی اجنبیت کا احساس نہ ہو اور ان میں تنفر‘کنارہ کشی اور احتراز کا رجحان نہ پیدا ہو‘‘۔(من سمجھاون، مقدمہ، ص 149)
مذکورہ الصدر اقتباس کا لب لباب یہ ہے کہ شاہ تراب من سمجھاون کے ذریعہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے قریب لانا چاہتے تھے۔ اسی نوع کی کوششوں کے سبب دکن میں قومی یکجہتی کو تقویت حاصل ہوئی۔
قومی یکجہتی کے حوالے سے مثنوی ’’چندربدن و مہیار‘‘ بھی نہایت اہم ہے جو عادل شاہی دور کے شاعر مقیمی کی تصنیف ہے۔ اس مثنوی میں شاعرنے ایک مسلمان سوداگر زادے مہیار اور ایک ہندو راجکماری چندر بدن کے عشق کی داستان بیان کی ہے۔مہیار چندر بدن سے اظہار عشق کرتا ہے لیکن چندر بدن بے رخی برتتی ہے اور اس کے اصرار پر بیزاری سے کہتی ہے :
’’ہندو میں کہاں ہور ترک توں کہاں‘‘۔۔۔۔۔۔ آگے وہ کہتی ہے:
لکھا ہے ہمارا سو ہندو جنم
مسلماں کوں چہ گوں ہو ہندو حرم
آخرکار آتش فراق میں جل جل کر مہیار اپنی جان گنوا دیتا ہے۔ اس کے مرنے کی خبر جب چندبدن کو ملتی ہے تو اس کے دل پر مہیار کے جذبہ صادق کا گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ بھی صدمے سے مرجاتی ہے۔ جب مہیار کے جنازے کو قبرستان لے جایا جاتا ہے تو لوگ یہ دیکھ کر سکتے میں آجاتے ہیں کہ جنازے میں مہیار اور چندر بدن ہم آغوش ہیں۔ انھیں جداکرنے کی بہت کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ جدا نہیں ہوپاتے۔ بالآخر اسی حالت میں انھیں دفن کردیا جاتا ہے ۔ آندھرا پردیش کے ضلع کدری میں چندربدن اور مہیار کی جڑواں قبر آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح کا واقعہ مہاراشٹرا کے علاقے پرینڈا میں بھی پیش آیا تھا جہاں عاشق و معشوق کی جڑواں قبر موجود تھی۔ پرینڈہ کے واقعہ پر آصفیہ دور کے شاعر والہؔ موسوی نے طالب وموہنی کے نا م سے ایک مثنوی لکھی ۔ طالب مسلمان تاجر تھا اور موہنی برہمن کی دختر تھی۔ دونوں کے عشق کا وہی انجام ہوا جو چندر بدن و مہیار کا ہوا۔ دکنی میں چندر بدن اور مہیار کی داستان محبت کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اس قصے کو ایک شاعر نے فارسی زبان میں اور سات شاعروں نے دکنی زبان میں پیش کیا ہے ۔آتشی نامی شاعر نے اس قصے کو فارسی مثنوی میں ڈھالا۔ بلبل نامی شاعر نے چندربدن و مہیار کے نام سے اور سیف اللہ نامی شاعر نے بھی اسی نام سے مثنویاں لکھیں۔ ویلور کے شاعر مولانا باقر آگاہ نے اپنی مثنوی ’’ندرت عشق‘‘ میں یہی قصہ پیش کیا ہے، بابا چند ا حسینی واقف نے اس داستان کو بستان عشق کے نام سے مثنوی کی ہئیت میں پیش کیا ہے۔ عبد القادر شاکر کی مثنوی گلزار عشق بھی اسی قصے پر مبنی ہے ۔ ان دکنی شعرا کے علاوہ گجرات کے شاعر اشرف نے بھی جوولیؔ کا شاگرد تھا چندربدن و مہیار کے نام سے ایک مختصر مثنوی لکھی۔چندربدن و مہیار کی حکایت ہو یا طالب و موہنی کی روایت ان میں دوکردار ہیں جن میں سے ایک مسلمان ہے اور دوسرا ہندو۔ عاشق مسلمان ہے اور معشوق ہندو۔ عاشق کے اظہار عشق پر معشوقہ ابتدا میں نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتی ہے لیکن آخر میں خود اس کے عشق میں اس طرح گرفتار ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد دونوں کے جسمانی وجود ایک ہوجاتے ہیں۔چندر بدن و مہیار اور طالب و موہنی کی واردات کو اگر عشق کے تناظر کی بجائے دکن کے تہذیبی سیاق میں دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ صرف مسلمان عاشق اور ہندو معشوق کی داستاں نہیں ہے بلکہ مسلم تہذیب اور ہندو تہذیب کے اتحاد کی روداد ہے۔ مہیار اور طالب کے کردار مسلم تہذیب کی علامت ہیں اور چندر بدن اور موہنی کے کردار ہندو تہذیب کی ۔ابتدا میں ان تہذیبوں میں ٹکراؤ ہوتا ہے ، پھر دونوں میں مفاہمت اور مصالحت ہوتی اور آخر میں دونوں مل کر ایک ہوجاتے ہیں ۔ یہی ایکتا اور یہی اتحاد درحقیقت دکن کی گنگا جمنی تہذیب ہے جسے مولانا سید سلیمان ندوی نے ہند لمانی تہذیب کہا ہے ۔ اس پس منظر میں چندر بدن و مہیار اور طالب و موہنی کے قصے پر لکھی گئی ساری مثنویاں صرف حسن و عشق کی ترجمان نہیں بلکہ قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری کی نقیب اور علمبردار معلوم ہوتی ہیں۔
قومی یکجہتی کے فروغ اور نشوونما کا ایک اہم محرک حب الوطنی یا اپنی سرزمین سے محبت اور لگاؤ کا جذبہ بھی ہے ۔ دکنی مثنویوں میں ہمیں حب الوطنی کے بے شمار مظاہر ملتے ہیں۔ دکنی شاعروں نے اگر مثنوی کا ڈھانچہ اور کردار کہیں سے مستعار لیے بھی ہیں تو انھیں مقامی آب و رنگ‘ دیسی ماحول اور ہندوستانی تہذیبی سیاق میں پیش کیا ہے ۔ ان کی تشبیہات خالص دیسی ہوتی ہیں ان کی تلمیحات میں بھی عربی وعجمی روایات کے ساتھ ساتھ ہندوستانی روایات نمایاں ہیں۔ انھیں اپنے وطن اور اپنی سرزمین کی ہر چیز سے پیار ہے۔ وہ یہاں کے دریاؤں ، پہاڑوں ، جانوروں، پرندوں، درختوں ، پھولوں، پھلوں حتیٰ کہ ترکاریوں کا ذکر بھی بڑے چاؤ سے کرتے ہیں۔ انھیں اپنے وطن سے ایسی ہی محبت ہے جیسے عاشق کو معشوق سے ہوتی ہے۔ چنانچہ دکنی کے آخر ی دور کا شاعر بحریؔ کہتا ہے ؂
بحریؔ کوں دکھن یوں ہے کہ جیوں نلؔ کو دمنؔ ہے
پس نلؔ کو ہے لازم جو دمنؔ چھوڑ نہ جانا
وطن سے محبت کے انھیں جذبات کی ترجمانی گولکنڈے کی قطب شاہی سلطنت کے ملک الشعرا وجہیؔ نے بھی اپنی مشہور مثنوی قطب مشتری میں کی ہے ۔ مثنوی کا ہیرو قطب شاہ بنگالے کی شہزادی مشتری کا عاشق ہے۔ وہ بنگالہ پہنچتا ہے ۔ مشتری بھی اس سے عشق کرتی ہے۔ قطب شاہ مشتری کو دکن چلنے کی دعوت دیتا ہے اور دکن کی تعریف اس طرح کرتا ہے ۔
دکھن سا نہیں ٹھار سنسار میں
پنج فا ضلوں کا ہے اس ٹھار میں

دکھن ہے نگینہ انگوٹھی ہے جگ
انگوٹھی کو حرمت نگینہ سے لگ

دکھن ملک کوں دھن عجب ساج ہے
کہ سب ملک سِر ہور دکھن تاج ہے

دکھن ملک وہ کچھ عجب ٹھانوں ہے
دکھن میں سو ایسا ہر اک گاؤں ہے

دکھن ملک بھوتیچ خاصہ اہے
تلنگانہ اس کا خلاصہ اہے
وطن کی محبت میں ڈوبے ہوئے یہ الفاظ صرف مثنوی کے ہیرو قطب شاہ کے نہیں بلکہ دکن کے ہرباشندے کے دل کی آواز ہیں جو وسیع تر تناظر میں ہر ہندوستانی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں۔مختصر یہ کہ قومی یکجہتی ، ہندو مسلم اتحاد، وطن سے محبت ، مشترکہ ثقافت ، مذہبی رواداری، وسیع النظر ی وغیرہ اس نوع کے تمام موضوعات کے بارے میں دکنی مثنویوں میں نہایت وقیع، بیش بہا اور معتبر سرمایہ ملتا ہے جو نہ صرف بہمنیوں ، عادل شاہوں اور قطب شاہوں کے عہد حکومت میں جاری و ساری قومی یکجہتی کا آفریدہ اور آزمودہ ہے بلکہ دور حاضر میں بھی ہمارے ملک ہندوستان میں قومی یکجہتی ، ہندومسلم اتحاد ، صلح و آشتی اور امن اور شانتی کو فروغ دینے میں نہایت درجہ ممد ومعاون اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

Share

۴ thoughts on “دکنی مثنویوں میں قومی یکجہتی کے عناصر۔ ۔ ۔ محمد نسیم الدین فریس”

Comments are closed.

Share
Share