سب رنگ نہادہ ۔۔ شکیل عادل زادہ
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612 –
ای میل :
– – – –
شکیل عادل زادہ ۔ قسط ۔۱
شکیل عادل زادہ ۔ قسط ۔۲
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ : شکیل عادل زادہ ،اردوادب میں ایک خوش اعتبار نام ہے۔ان کے پڑھنے والوں اور چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔یہ مقبولیت اردو کے بہت کم اہل قلم کے حصے میں آئی ہے کہ جن کی تحریر کیلئے قارئین اپنی روزانہ مصروفیت سے چھٹی لے لیا کرتے تھے۔ آج بھی قارئین کو اُن کی تحریروں کا انتظار ہے۔شکیل عادل زادہ نے تنہااپنے ادبی اور سب رنگ کے ادارتی سفر کو کیسے طئے کیا۔کن حالات سے نبردآزمائی کی،بلکہ اس کہانی کارکی خود کہانی کیا ہے،یہ سب ہنوز تشنہ ہے۔معیاری ادب کے نام پر جن جواہرنگارادیبوں کو نظرانداز کیا گیا، اُن میں شکیل عادل زادہ بھی شامل ہیں۔ان کی شخصیت اور فن پر کوئی کام نہیں ہوا،جبکہ بر صغیر میں معمولی ادیبوں اور شعراء پر بھی ضخیم مقالے لکھے گئے۔جہان اردو نے سب سے پہلے شکیل عادل زادہ پر علامہ اعجاز فرخ کا مضمون شائع کیا تھا جس کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی۔علامہ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجودہماری خواہش کا احترام کیا۔ ہم اُن کے شُکرگزار ہیں۔زیر نظر مضمون اس سلسلہ کی تیسری قسط ہے۔اس تحریر پرآپ کی رائے کا انتظاررہے گا،تاکہ علامہ سے مزید کی خواہش کی جاسکے۔اس مضمون کے ساتھ علامہ کا ویڈیو بھی لگایا گیا ہے جس میں علامہ نے دلچسپ اونداز میں مضمون سنایایے ۔مضمون کے ساتھ اس کے ویڈیو پیش کرنےکی یہ پہلی کوشش ہے۔(جہان اردو)
میں جانتا تو بہت پہلے سے تھا۔ برسوں سے، نہیں، صدیوں سے اور شاید ازل سے لیکن میں اُس کا نام نہیں جانتا تھا۔ وہ تو بس ایک چہرہ تھا خیال کی طرح نازک،راگنی کی طرح دل فریب، صبح کی پہلی کرن کی طرح دل آویز، نسیم سحر کی طرح سبک خرام،جھرنے کی طرح مترنم، آنکھوں میں خواب کی طرح اُترتی ہوئی اوروجود میں خوشبو کی طرح سماتی ہوئی۔ کبھی زندگی کی راہ میں جب تھکن اور آبلہ پای سے قدم دوبھر ہوجاتے تووہ یوں نمودارہوجاتی جیسے روشنی کا شہزادہ گزرنے کوہواوربال کھول کے راستے میں شام بیٹھ گئی ہو ،اور پھر رات کی تاریکی میں یوں چھپ جاتی جیسے طولِ شب میں سحرپوشیدہ ہو۔میں نے چہرہ دیکھا تھا،نقوش یاد نہیں۔یادوں سے گزرتے محسوس کیا،سراپا یاد نہیں۔مہک محسوس کی،خوشبو کا سراغ نہ ملا۔ روپ دیکھا تھا، رنگ کے لیے تشبیہ نہ مل سکی۔آواز سنی تھی لیکن سرگم میں وہُ سرنہ ملا۔قامت وخم کی زیبائی کے لئیے قوس وخط عاجز نظر آئے۔بھلاجس کی سمت نہ ہو،جہت نہ ہو،خدوخال نگاہ میں نہ سما سکے ہوں،خیال جس کی قامت زیبا کا احاطہ نہ کر سکا ہو۔جس کے لئے حرف وظرف کی اصطلاح متروک ہوجائے،اُس کی طرف اشارہ کیا ہو،اُس کا نام کیاہو۔شاید اسی کو حسن مکمل کہتے ہیں کہ جہاں تکلم سکوت میں اورخاموشی گویائی میں بدل جاتی ہے۔
میں توہوں ہی اس مزاج کے دشت کو دیکھتا ہوں تو گھر یاد آتا ہے اورگھرکودیکھتاہوں تو دشت کی تنہای یاد آتی ہے۔صحرا میں بگولوں کا رقص، سمندر میں تلاطم اور آتش فشاں کو لاوا اُگلتے دیکھتا ہوں تو مسکرا اٹھتا ہوں کہ جن سے اضطراب کی بے قراری نہ سنبھل سکی اُن سے غم ہجراں کیا سنبھل سکے گا۔
ایک دن یوں ہواکہ ہرطرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ہوا ساکت، فضاءُ چپ،سمندر پرسکون لیکن میرے اندر قیامت کا تلاطم تھا لگتا تھا میرے اندرکی کائنا ت درہم برہم ہورہی ہے اور سب کچھ بکھرنے والا ہے کسی نے چپکے سے سرگوشی کی،،کورا،،۔اُس کا نام کورا ہے۔میں نے اُسے آواز دی،،کورا،،۔وہ سامنے تھی لیکن پلک جھپکتے میں جھلک دکھا کر غائب ہو گئی۔میں نے مُڑکر دیکھا،ایک شخص کھڑا تھا۔میری ہی عمررہی ہوگی،لگتا تھاعشق کی جس آنچ میں وہ جل رہا ہے اُسکی تپش مجھ تک پھنچ رہی ہے۔رنگ سُرخی مائل گورا رہا ہوگا،لیکن زندگی کے جس سفرسے گذرکرآیا ہے اُس کی دھوپ چہرے کو کجلا گئی ہے۔۔نیم وا آنکھوں پرڈھلکے ڈھلکے سے غلاف،جیسے ان آنکھوں کوصدیوں سے نیند کا انتظار رہا ہو۔چہرے مُہرے سے متانت آشکار،شرافت کا وقار،پیشانی پر تجربے اور تفکر کی لکیریں،سکون ایسا کہ
بازیچۂ اطفال ہے دُنیامرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
کی مکمل شرح‘ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس شخص کوپہچانتا ہوں ،اتنا قریب سے ،جتنا میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں۔خانماں آباد،دل برباد،خیال پرور،علم دوست،ذات میں تنہا،انجمن ساز،دوست گزیدہ،دشمن نواز،عشق طبع،حلم پوشاک،تدبرپیرہن،ادب قبا،سلوک مزاج،نرم خو،خوش گفتار،رمزآشنا،محرم حرف ولفظ،زرنگار،آتش رقم،شعلہ فشاں،شبنم بیاں،عہدنورد،صدیوں کا فرزند۔
مجھے دیکھ کراُس کے ہونٹوں پرتبسم کی لکیر سی اُبھری۔اُس نے پوچھا،،کسے ڈھونڈھ رہے ہو؟،،میں چپ رہا۔ پھر اُس نے کہا،،اُسے سب تلاش کرتے ہیں۔زندگی بھر۔ہرلمحہ،ہرپل‘وہ ایک چہرہ ہے،چہرہ جو نفس کا آئینہ ہے، کتاب زندگی کاسرورق ہے،،فکر،خیال،تصور،سیرسفر کا عکس ہے۔اندیشۂ سود وزیاں،حاصل و لاحاصل،پانے اور کھونے کا حساب ہے۔یہ حساب اتنا آسان بھی نہیں۔اُسے پاکرسب کچھ کھو دینے کی لذت،سب کچھ پاکر اُسے کھو دینے سے کہیں زیادہ ہے۔یہی نصاب جاں ہے،یہی حساب جاں ہے،لیکن قرض جاں کچھ اور ہے۔ادا کرتے کرتے زندگی بیت جاتی ہے،حساب جاں میں قرض کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔جو چہرہ تمھیں دکھائی دے گیا،وہ ذوق نظر بھی ہے ،ذائقہ بھی۔جوآوازسُنای دے گئی وہ سماعت کا ذائقہ ہے،خوشبو تمھارے شامہ کا ذائقہ ہے اور لامسہ تمھارے مسام کاذائقہ۔ زائقہ تو بس زائقہ ہے ،تلخ و شیریں تو لذت نفس کی پسند و نا پسندکا دوسرا نام ہے۔یہ نہیں کہ صرف تم کو اُس چہرے کی تلاش ہے،خود اُس چہرے کو بھی ایک چہرے کی تلاش ہے۔وہ چہرہ مل جائے تواُسے روبرو کرنا۔آنکھیں فرط حیاسے جھک جائیں توسمجھوآئینہ روبرو ہے۔حقیقی آئینہ تو بس وہ چہرہ ہوتا ہے ،باقی تو سب فریب آئینہ ہے۔لوگ آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے،اس لئے کہ آئینہ نقاب اندر نقاب چہرے دکھا دیتا ہے۔ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، لوگ اپنے آپ سے ڈر جاتے ہیں۔شیشوں کا آئینہ خانہ تو ہزار زاویوں سے ظاہر کو دکھا دیتا ہے،ظاہر پسندوں کے لئے۔ذوق زینت تو بھوکی بھکارن کو بھی ہے۔اُس کی جھولی میں بھی آئینے کے ٹکڑے مل جائیں گے۔باطن تو صرف اُس چہرے میں دکھائی دیتاہے جس کی تلاش عمربھر کی تلاش ہے۔کبھی بابر زماں خاں کو وہ چہرہ مل جائے تو اُس کا نام ،،کورا،، ہے ،اور کبھی اُس چہرے کواُس کی تلاش مل جائے تو اُسے جمشید عا لم خاں کہتے ہیں۔ایک ،،بازی گر ،، ہے اور ایک ،،امبربیل،،۔اب یہ تُم جانو کہ نام کیا ایک لفظ ہے،اشارہ ہے، علامت ہے،تشبیہ ہے،استعارہ ہے،آہنگ ہے،راگ ہے، رنگ ہے،موسیقی ہے،ترنم ہے،سُر ہے ،تال ہے،تصور ہے، خیال ہے،شعر ہے،تصویر ہے،خد ہے، خال ہے،بدن ہے ،روشنی ہے،کلی ہے، غنچہ ہے،پھول ہے،خار ہے،خوشبو ہے،کسک ہے،آرام ہے،آزارہے،مسرت ہے،تبسم ہے،ہنسی ہے،غم ہے،آہ ہے،آنسو ہے،گریہ ہے ،کرب ہے،اضطراب ہے،بیخودی ہے،مدہوشی ہے،کیف ہے،نشہ ہے،سرور ہے،تمناہے،یاس ہے،سرخوشی ہے،اُداسی ہے،آرزوئے وصال ہے ،تپش فراق ہے،یا یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔لفظ بھی نہیں، نام بھی نہیں۔چہرہ ہے ،صرف چہرہ۔سب کچھ تحلیل ہو جائے تب بھی چہرہ باقی رہ جاتا ہے۔چہرہ خراج چاہتا ہے ،عمربھرکا خراج۔سوغات بھی دیتا ہے۔درد کی سوغات،فن کی سوغات،زندگی کی سوغات،بے حالی کی سوغات،بے نیازی کی سوغات‘زندگی اُس کے نام کردوپھر بھی قرض جاں باقی رہتا ہے۔ایک جھلک پانے کی تمناساری عمر کاخراج چاہتی ہے۔
وہ رُکا، ڈبیہ سے پان نکال کرمنہ میں رکھا۔داہنے گال میں،کچھ دیر خلاء میں تکتا رہا،پھر کہا،ہرشخص کی زندگی میں ،کورا، ہے۔ لینارڈو زندگی بھر اُس چہرے کو تلاش کرتا رہا،وہ اُسے مونا لیزا کی صورت میں ملا۔اسی طرح کبھی یہ چہرہ عذرا ہے،شیریں ہے،سوہنی ہے،جولیٹ ہے،لیلیٰ ہے۔جتنے فنکار ہیں سب کی آنکھوں میں کسی نہ کسی چہرے کی چھبی ہے،کسی نہ کسی چہرے کی پرچھائیاں ہیں۔بہزاد،مانی،مقبول فدا حسین‘ میرؔ،غالبؔ،آتشؔ،ولیؔ،ناسخؔ،جوشؔ،فراقؔ،فیضؔ،ساحرؔ،پریم چند، کرشن چندر،منٹو،راجندرسنگھ بیدی،احمد ندیم قاسمی،انتظارحسین،قاضی عبدالستار،پنڈت روی شنکر،اُستاد امجد علی خان،مہدی حسن،سب قرض جاں کے اسیر ہیں۔یہ کہہ کروہ رک گیا،کہیں کھوگیا۔محویت میں وہ مجھے بہت اچھا لگا۔جیسے کوئی فرشتہ،جیسے کوئی معصوم بچہ،جیسے نئی صبح کا طلوع ہوتا ہواسورج،جیسے امن کاسفید پرندہ،میرے دل میں اُس کے لئیے محبت بھی ابھری احترام بھی۔
میں نے نرمی سے پوچھا،، آپ کا نام؟،،
کہا،،کیا چہرہ کافی نہیں،،پھر خود ہی کہا،،نام تو ہوتا ہی ہے۔یہ چہرے کوکھولنے کا حرف خفی ہے۔،،
خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔،،اب تو مجھے نام بھی یاد کرنا پڑتا ہے۔ہجرت نصیبوں کے گھر ہی نہیں بدلتے،سب کچھ بدل جاتا ہے۔ گھر،گلیاں،راستے،محلے،ہوا، پانی،ذائقہ ،لباس،زبان،ماحول،سونچ،برتاو،شناخت،وطن،نام بھی۔خود اپنا آپ بھی۔،،پھر کہا ۔
’’دس مارچ ۱۹۳۸ء کی بات ہے،ابھی دوسری جنگ عظیم دور تھی۔ہندوستان کی آزادی ہنوز ایک خواب تھی۔میری ولادت مُراد آباد میں ہوئی۔ماں باپ نے میرا نام،محمد شکیل،رکھا۔اب تو شائد مجھے محمد شکیل کہہ کر آواز دینے والا بھی نہ ہو۔اب تو میں شکیل عادل زادہ ہوں۔یہی نام سرکاری کاغذات میں ہے،یہی زباں زد خاص و عام بھی،دوست احباب کبھی شکیل بھائی کہتے ہیں ،کبھی شکیل۔،،وہ مُسکرائے پھر کہا،،بچپن کا چہرہ ماں باپ کادیا ہوا،جوانی کا چہرہ فیاض قدرت کی عطاء اوربڑھاپے کا چہرہ اپنی کمائی کا چہرہ ہوتا ہے۔بچپن کا نام رہا نہ چہرہ،ہاں مگر یادیں رہ گئیں۔خیال سے تیز رفتارشاید برق رفتاری بھی نہیں۔پلک جھپکنے میں شاید دیر لگے،خیال اُس سے بھی تیز رفتار ہوتا ہے۔اب بھی کبھی کبھی یادوں کی بارات نکلتی ہے تو چراغاں ساچراغاں ہو جاتا ہے۔معصوم بچپن،لڑتا جھگڑتابچپن،مٹی میں اٹا ہوا بچپن‘ماں کی آغوش میں مچلتا ہوا بچپن،ضد کرتا ہوا بچپن،روٹھتا منتا بچپن،شرارتوں پر پٹتا ہوا بچپن،سیپارہ رٹتا ھوا بچپن۔سونچتے تو سب ہیں کہ سب کچھ تج کر بچپن میں لو ٹ جائیں ،لیکن وقت کی سوئی ایک ہی سمت میں گردش کرنا جانتی ہے۔نہ تھم سکتی ہے نہ لوٹ سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کہاں کہاں قیامت برپا ہوئی یہ الگ بات ہے۔لیکن ہمارے گھر کے آنگن میں تو گویا قیامت آکر ٹہر گئی۔۱۹۴۴ء میں ابا گزر گئے۔میرے نانا ،محمد شریف صاحب ،تھے بھی نہایت شریف انسان۔یہ وہ دور تھا جہاں شرافت اپنے پورے مفہوم کے ساتھ تھی۔اُس دور میں تو پھٹی چٹائی پرراحت بھی تھی سکون بھی تھا۔ شرافتوں کا مفہوم، دوستی، غریب پروری،اعزہ نوازی،مروت ،سلوک،اخلاق،تہذیب،خبرگیری،پاس ولحاظ،سب کچھ تھا۔آج کی طرح سجے ہوے گھر اورجامہ زیبی ،نہ شرافت تھی نہ امارت وہ تو صرف سلیقہ تھا جو غریب امیر دونوں مین مشترک تھا۔ نانا نے ماں اور ہم تینوں بہن بھائیوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا،کہ میں ابا کے ساتھ مشاعروں میں جایا کرتا تھا۔اُسی زمانے میں ،میں نے جگرؔمرادآبادی کو بھی دیکھا تھا۔اُن کا گھرلال باغ میں تھا اور یہ ہمارے محلہ رفعت پورہ سے متصل تھا۔مشاعروں میں تو اُن کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ابا سے اُ ن کی اچھی دوستی تھی۔گہرا سانولا رنگ تھا۔زلفیں گردن تک،لیکن چہرہ مہرہ پر کشش تھا۔رئیس امروہوی،کوکب صاحب اور میرے والد میں بہت گہری چھنتی تھی۔ان تینوں نے ایک رسالہ نکالا تھا ،،مسافر،،۔ جس دن ابا کا انتقال ہوا،تدفین کے بعد کوکب صاحب نے ایک چیخ ماری اور ہمیشہ کیلئے ذہنی توازن کھو بیتھے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا،یوں میں ایک ہی لمحے میں اپنا بچپن کھو بیٹھا۔نانا نے مجھے مدرسہ قاسمیہ میں حفظ قرآن کیلئے بٹھلا دیا۔مار تو میں نے کھائی۔زندگی میں چوٹیں بھی بہت لگیں،لیکن زندگی نے سکھایا بہت کچھ ۔
نہیں معلوم یادوں کی حرارت تھی یاجذبات کی آنچ۔،شکیل عادل زادہ کے چہرے پر پیاس کی سی کیفیت دکھای دی۔میں نے صراحی سے مٹی کے آ بخورے میں پانی بھرکراُنھیں پیش کیا۔اُنھوں نے دونوں ہاتھوں سے کٹورا تھام لیا،دو گھونٹ لے کر دیر تک پانی کو تکتے رہے پھر تپتے ہوے صحرا کو دیکھا اور کہا،،آپ کے پاس میرا حرف خفی بھی ہے اور اپناجام سفال بھی،جن کے پاس جام سفال ہو ،اُن سے کچھ کہنا کیا دکھلانا کیا۔جن کے پاس جام جم کی توقیر نہ ہو وہ اپنے جام سفال میں سب کچھ دیکھ لیتے ہیں،ماضی بھی حال بھی اور پھر یہ بھی کہ!
اور لے آئیں گے بازار سے جو ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
جاری ہے
– – – – – –
Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
NEAR SRAVANI HOSPITAL ’HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612۔ ۔ afarruq[@]gmail.com
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علامہ اعجازفرخ کا ویڈیو ملاحظہ ہو جس میں علامہ نے اس مضمون کودلچسپ انداز میں پڑھا ہے۔
۱۰ thoughts on “شکیل عادل زادہ – قسط ۔ 3۔ علامہ اعجازفرخ”
حضرت Allama Aijaz Farruq
حضرت علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ کے مضمون کا جو سلسلہ جہانِ اردو پر جاری ہے، اب اس کے ساتھ حضرت العلام کے ویڈیو کو بھی اپ لوڈ کیا گیا ہے،
جہانِ اردو کی اختراعی کاوش پر پُر خلوص مبارکباد
حضرت علامہ اعجاز فرخ صاحب قبلہ نے اس درخواست کو قبول فرمایا، گویا یہ میری دِلی مراد تھی، جو بر آئی، …. میں نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ آپ کی خدمت میں یہ مؤدبانہ درخواست کی تھی کہ آپ ہر چیز خاص طور پر ہر ویڈیو کلپ، دستاویزی نوعیت کی حامل ہے اور محفوظ کی جانی چاہیے، آج مجھے رائے چوٹی، ضلع کڈپہ، میں یہ ویڈیو دیکھ کر یوں لگا جیسے میں آپ کی بارگاہِ ادب میں حاضر ہوں، اور آپ کی زبانی آپ کی تحریر سن کر یوں لگ رہا ہے جیسے کانوں میں شہد گُھل رہا ہے، سُروں کا ترنم حسنِ سماعت کے معنی آشکار کر رہا ہے، آواز میں نغمہ اور عبارت خوانی میں ترنم، حسن اور اس کے سامنے حسنِ مجسم، آپ کے پڑھنے کا انداز، اور آپ کے پڑھنے کے انداز میں آپ کی کیفیات، آواز کا زیر و بم، صاحبِ تحریر کا اتار چڑھاؤ، صاف و شستہ تلفظ، عبارت خوانی کسے کہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے، اس سلسلے سے جہاں
حرف و صوت کی یکجائی، روح میں سرور و نشاط کا باعث بنتی ہے، وہیں کیف و انبساط کا ذریعہ بھی،
ہم ایسوں کے لیے ایک بہترین سوغات اور نعمتِ غیر مترقبہ!!
بہت جلد جہانِ اردو کا ایک چینل یو ٹیوب پر آ جائے گا اور اس میں بہت سے اہم ویڈیوز شیئر کئے جائیں گے، اور اس کی لِنک جہان اردو پر دی جاے گی 🌹🌹🌹
___وصی بختیاری Vasi Bakhtiary
Jaddah main taweel qayam ke dauran ” SAB RANG” pabandi se padha karta tha. Isi mayarri risale se Shakeel Sb se mutarif hua yeh jan kar dukh hua ke Sab Rang band hogaya . Aise qabil log aur risala URDU ADAB KE ” JUMUD” WALE NAHI BALKE TANUZZAL KE DAUR MAIN KAHAN?
شکیل عادل زادہ سے ایک دو بار بھائی جون ایلیا کے ” عالمی ڈالجسٹ” کے دفتر میں ملاقات ھوئی۔ منہ میں پان ھوتا تھا دوسروں کی بات بہت سنجیدگی سے سنتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے اور جناب رئیس امروہوی کے اخبار شیراز اور ماہنامے انشا سے وابستہ رہے ۔ انھوں نے انشا کو عالمی ڈائجسٹ کی شکل دی جو بہت جلد ایک کثیر الشاعت جریدہ بن گیا ۔ 60 کی دہائی میں جب اردو ادب لوگوں کے ہاتوں اور ذہنوں سے کسک رہا تھا۔۔ تو شکیل بھائی نے ” سب رنگ ” جاری کیا۔ شکیل عادل زادہ نے جنوری 1970ءمیں اپنا جریدہ سب رنگ جاری کیا۔ اس جریدے میں دنیا بھر کی شاہکار تحریروں کا انتخاب شائع کیا جاتا تھا اور قواعد ، املا، انشا، زبان کی صحت اور درستی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سونا گھاٹ کی پجاری، غلام روحیں، انکا ، امبر بیل اور بازی گر اس ڈائجسٹ کے مقبول ترین سلسلے تھے۔ جس میں نئی کہانیاں، اور عالمی ادب سے بہتریں کہانیوں کا انتخاب ھوتا تھا۔ عالمی افسانوں ادب سے ایڈگر ایلن پو، موپساں اور اوہنری جیسے کہانی کارون کی کہانیاں شامل رھتی تھیں۔ وہ کئی کئی دن کمرے میں بند ھوکر کہانیوں کا انتخاب کرتے۔ اور ایک معیاری رسالہ ” سب رنگ ” کی صورت میں خلق کرتے تھے۔ اسی سبب یہ رسالہ ہاتوں ہاتھ فروخت ھوجاتا تھا۔ اس کے قارئیں اس کا انتظار کیا کرتے تھے۔ے۔ وہ کرشن چندر سے نئی نئی کہانیاں لکھواتے تھے۔۔ کرشن چندر اگر کوئی کہانی بھجواتے بھی نہ تھے۔ مگر وہ پابندی سے انھیں رقم بھجوایا کرتے تھے ۔ شکیل بھائی ایک محنتی، کریم النفس انسان ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھو گی کی شکیل بھائی حافظ قرآن بھی تھے۔ شکیل عادل زادہ کے متعلق علامہ اعجاز فرخ نے اپنے ایک مضمون میں ان کا سراپا یوں کھنچا ھے ۔۔” شکیل عادل زادہ جو محبتوں سے اسیر کرے اور بے رُخی سے پروانۂ رہائی جاری کردے۔اس کی محبتیں سمندر سمندر جس کے آگے نسرینِ ناز آفریں، عذرائے گل عذار، نسترنِ غنچہ دہن ، سمن پیرہن، لالہ رُخسار، شیشہ اندام ہیچ ہوں ۔ ایسا سفاک جو محبت سے زخم لگائے اور اجنبیت میں وہ تاثیر مسیحائی رکھے کہ اس کے قلم کا لمس اندمال کے سارے سامان بہم پہنچائے ۔ شکیل عادل زادہ تو دلِ سرکش کا دوسرا نام ہے لیکن اسی دلِ خانہ خراب سے تو زندگی کا رنگ ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر وہ دراصل صرف ایک ادیب ہوتے تو شایداتنے قیمتی نہ ہوتے ان کی تحریروں کے پیچھے تو کتاب زاروں کی تہذیب اور فکری رزم گاہوں کا تمدن ہے ۔ ان کے وجود کی فضاء مصنوعاتی نہیں بلکہ تو فیقی ہے اس لئے بیرونی زبوں حالیوں میں بھی ہمیشہ نہال و بحال رہتی ہے ۔ اور یہی اُن کے افکار کی آراستگی کے باوجود انفرادیت کے ادراک سے مکمل آراستہ ہے ۔ تخلیق اور پھر حُسن کو کمال تک پہنچانے کیلئے کتنا خونِ جگر درکار ہے یہ ہنوز قرار نہیں پاسکا ،اسلئے بھی کہ اندر کا فنکار جس کمال حُسن پر ہے وہ تخلیق میں بھی اُسی کمالِ حُسن کا متقاضی ہے ۔ شکیل عادل زادہ کی کہانی کا بدن کرنوں سے تراشیدہ ہے اور اس پہلوی بدن کو جہاں کرن چھولیتی ہے اندر سے رنگ اُچھال دیتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بازیگر کے ہر کردار کو شکیل عادل زادہ نے نہایت احتیاط سے تراشا ہے ۔ اور پھر اس بتِ طناز کو میں نے تراشا ، میں نے پرستش کی اور میں نے توڑدیا والی بات بھی نہیں ہے اس صنم خانے کا ہر پیکر صرف اپنی تراش کی وجہ سے محو کلام ہوتا تب بھی یہ آذری ، ایک کمال تھی لیکن انہوں نے ہر کردار کو تراشنے سے پہلے اُس کے خمیرکو پرکھا ہے پھر تراشنے کے دوران جتنے زخم مجسمہ کے بدن پر آئے کچھ اس سے سواء ان کی ہتھیلیوں پر بھی آئے۔ ” ۔۔۔۔ ایک معیاری ڈالجست جس کا نام ” سب رنگ” تھا دسمبر 2009ء میں بند ہوگیا۔ بس اب اس کی یادیں ھی باقی رہ گئی ہیں۔
علامہ ! آپ کا نیا مضمون لاجواب ہے ۔پھر سے شکیل عادل زادہ کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔میں نے شکیل زادہ کو تفصیل سے اور سنجیدگی سے نہیں پڑھا ہے البتہ میری والدہ سب رنگ پڑھا کرتی تھیں ۔ان دنوں اردو ادب کے مطالعہ سے مجھے قطعی دلچسپی نہیں تھی کیوں کہ میری اپنی اسٹڈیز تھیں ۔آپ کے مضمون کے بعد انھیں پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔اب کے چھٹیوں پر گھر جاؤں تو سب رنگ کے شمارے تلاش کروں گی اور مطالعہ کروں گی ۔پہلی دوسری قسط تو بہت پہلے لکھی گئی تھی ۔
پورا مضمون شکیل زادہ صاحب کی تعریف و توصیف سے بھرا ہوا ہے ۔نوٹ سے پتہ چلا کہ اب تک کسی نے ان پر لکھنے کی پہل نہیں کی۔ یہ نیک کام بھی علامہ کے حصہ میں آیا ہے۔کیا شکیل زادہ آپ کے رشتہ دار یا قریبی دوست ہیں علامہ ؟آپ نے بڑی محبت سے مضمون لکھا ہے۔ان کی تعریف میں لفظوں کا دریا بہادیا آپ نے ۔معلوم نہیں لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں کہ تعریف کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہے ؟ ان لوگوں کو چاہیے کہ علامہ کی تحریریں پڑھیں تاکہ الفاظ کی کمی کا شکوہ نہ رہے۔بہت مبارک باد ۔اگلی قسط اگلے جمعہ کو ہی ملے گی نا ؟
خالدہ فرحت