مزے برسات کے ۔ ۔ ۔ سیدعارف مصطفیٰ

Share

Rainy

طنزومزاح : مزے برسات کے

سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :
———–
برسات میری دیرینہ کمزوری ہے ۔،۔۔۔ لیکن یہ بھائی تابش کی ان متعدد کمزوریوں کی مانند نہیں کہ جو اکثرموقع بموقع ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہتی ہیں یا جنہیں سوائے قبلہ بڑے حکیم صاحب کے، شرفاء کے سامنے کھلے بندوں بیان نہیں کیا جاسکتا،،،۔۔۔ بلکہ میری دانست میں یہ اک اور طرح کا مستقل نوعیت کا آبی روگ ہے،،، اک ایسا روگ جس سے میرا انگ انگ اور پور پور سرشار ہوجاتا ہے اور جس سے جان چھڑانے کا میرا ہرگز کوئی ارادہ نہیں،،، جبکہ ایک اپنے خواجہ صاحب ہیں۔۔۔ جنہیں میں کور ذوقوں کا کور کمانڈر کہا کرتا ہوں،،، جہاں دو چار بوندیں کیا گریں ناک اور شلوار کے پائنچےایک ساتھ چڑھائے نظر آتے ہیں ،،، برسات کی شدت جتنی ہو اسی اعتبار سے یہ چڑھی ناک اور پائینچے اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں،،، ادھر میرا یہ حال ہے کہ بقول بیگم کے، کہ جہاں آسمان پہ بادل کے چند ٹکڑے ایکدوسرے کے قریب آتے نظر آئے اور ادھر مجھے گھر کاٹنے کو دوڑا ،، ان کا کہنا ہے کہ باقاعدہ بارش نہ بھی ہو تب بھی بھاگ دوڑ کرکے خود کو ہرممکن جگہ سے بھگو کر ہی دم لیتا ہوں تاہم میری جان اس بات سے بہت جلتی ہے کہ کہیں اگر انکے رکاوٹی ہتھکنڈوں کے ہاتھوں میری یہ ذرا سی گیلاہٹ پانے کی نمناک کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکے ،،، پھوار بڑھ کر باقاعدہ برسات تک جاپہنچے تو میری بانچھوں کو مروجہ حد سے بھی زیادہ پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حتیٰ کہ خود میں بھی نہیں،،، اس موقع پہ میں نہایت خشوع و خضوع سے عموماً کوئی پرانا ادھورا کام لے کر صحن میں براجمان ہوجاتا ہوں لیکن اس دن بھی میری اہلیہ کی جھڑپتی مداخلت کے باعث کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ شرابور ہونے کی آشا تو پوری ہو جاتی ہے لیکن وہ ادھورا کام پھر بھی مکمل نہیں ہوپاتا،،،

برسات کیلئے میری یہ وارفتگی صرف خانگی سطح تک محدود نہیں، میں جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا مینیجر ہواکرتا تھا تب بھی یہ سرمئی سرمئی بادل میرے من کو یونہی گدگداتے تھے اور بوندیں برسنا شروع ہوتے ہی دفتری خیالات بھی بہنا شروع ہوجاتے تھے اور مزاج شناس چپراسی لپک جھپک ایک کرسی میرے آفس کی گیلری میں سجا دیتا تھا تاکہ میں اس رم جھم کو قریب نہیں بلکہ عنقریب سے ملاحظہ کرسکوں۔۔۔ اور یہ ملاحظہ بھی کیا ہوتا تھا ہر ہر انگ اور ہر ہر پور میں مانو ایک ایک آنکھ سی ابھر آتی تھی ،،، ایسے مواقع پہ مجھے کبھی کبھی کمال فرض شناسی سے ادھر ادھر کھلے آسمان تلے پڑے پیداواری اسٹاک اور دیگر سامان کی پڑتال کیلیئے سوٹ بوٹ ڈاٹے ہونے کے باوجود میدان عمل میں مسلسل سرگرم دیکھا جاتا تھا اور ایسے میں آسمان میں بھی کیا بجلیاں بھری ہونگی جو میری آنیوں جانیوں میں لپکےمارتی تھیں،،، اس موقع پر بارش تو چاہے تھوڑی دیر میں تھم بھی جائے لیکن دور دور سے ملاحظہ کرنے والوں کے کلمات تحسین تا دیر نہ تھمتے تھے یوں وہ مجھ سے اور ہم نزلے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے ،،،
یہ برسات درحقیقت بڑے کام کی چیز ہے، اکثر ہی میرے اندر ایک بےحد ذمہ دار آدمی کو ابھارتی ہے اسکے باوجود کہ مردم ناشناسی کی وباء کے زیراثر یا چند بدقسمت واقعات کےتسلسل کے سبب کچھ لوگ مجھے مطلق ذمہ دار نہیں سمجھتے (حالانکہ بیگم سے پوچھیں تو وہ نہ جانے کن کن باتوں اور واقعات کا ذمہ دار صرف مجھے ہی ٹہراتی ہیں۔۔۔) لیکن میں ان سب حاسدین کو غلط ثابت کرسکتا ہوں کم ازکم برسات کے پہلے دن تو یقینی طور پہ ۔۔۔ کیونکہ اس روز میرا ذوق ذمہ داری پوری طرح اپنی بلندیوں کو چھولیتا ہے ،،، کوئی قدرشناس ہو تو باآسانی یہ جان سکتا ہے کہ اس دن میرا بدرجہء اتم لائق ستائش جذبہء ذمہ داری قابل فخر حد تک عیاں ہوکر رہتا ہے اور میری حد درجہ متین سوچ سے پوری طرح سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ برسات شدت اختیار کرتے ہی مجھے ایسا کوئی باہری کام یاد آجانا کبھی نہیں بھولتا کہ جسے اسی نازک وقت سرانجام دینا ازحد ضروری بلکہ اشد ضروری ہوتا ہے۔۔۔ تاہم ڈھیروں دل شکنی کی بات یہ ہے کہ میرےاس نہایت ذمہ دارانہ عمل کو کبھی بھی نا صرف سراہا نہیں جاتا بلکہ اسے بہت عجیب عجیب نام دیئے جاتے ہیں ،،،اگر ان ناموں میں میں سے کوئی نام آپ جیسے کسی معزز آدمی کو بتانےلائق ہوتا تو میں ضرور آپ کو بھی بتادیتا۔۔۔ معزز میں نے اسلیئے کہا کہ جبتک آپ تحمل سے میری باتیں سن رہے ہیں میں تو آپکو معزز ہی مانوں گا ،،، مگر آپ کب تک معزز سمجھے سکتے ہیں اسکا فیصلہ مطلق آپکے اپنے اختیار میں ہے میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں
ہاں تو بات ہورہی تھی برسات کی ۔۔۔۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں ،،،، کہ میں ہمیشہ سے ہی برسات کا دلدادہ ہوں ،،، بچپن میں دوستوں کے ساتھ بارش میں خوب خوب نہاتا تھا اتنا کہ پیروں کے تلوے پھول کر لہریئے دار گتے کی مانند ایک ساتھ جڑی کئی نالیوں جیسے ہوجاتے تھے ،، میرا چہرہ بغیر مناسب مدارات کے، بہت سوجا سوجا سا کسی منگول جنگجو کا سا دکھنے لگتا تھا اور ہونٹ چوٹ لگے بغیر پھول کر رشک افریقہ ہوجاتے تھے ،،، پھر یہ کہ میں بارش میں کھیلتا بھی تو بہت تھا،،، اگر روایتی کھیل کم پڑجاتے تو ہاتھ کے ہاتھ کئی نئے اور سستے کھیل بھی ایجاد کرلیئے جاتے تھے جنکے قوانین مصلحت اور طاقت کے ہاتھوں بدلتے چلے جاتے تھے۔۔۔ ان دنوں بارش میں کھیلتے ہوئے پھسل کر بار بار گرنا عام بات تھی ۔۔۔ بعد میں لڑکپن جاتے جاتے معاملہ جب نظر نیت اور قدم تینوں کے پھسلنے کا ہونے لگا تو چوٹ اگر جسم پہ نا بھی لگے تب بھی نجانے کیوں دل پہ زیادہ محسوس ہوتی تھی۔۔۔ ہم بچپن میں بارش تھمتے ہی ساتھیوں کے سنگ زمین میں بیربہوٹیاں کھوجا کرتے تھے،،، بڑے ہوتے ہوتے بیربہوٹیاں شاید آس پاس کے فلیٹوں و بنگلوں کی بالکنیوں میں منتقل ہوگئیں اور یاروں نے اپنی تلاش کو منتخب مقامات کے چھجوں تک ہی محدود کرلیا تو پھر ہم بھی اکیلیے کبتک یہ مہم جاری رکھ سکتے تھے،،، ویسے بھی ہم جیسے، قبل از جوانی ہی زمانے بھر کو بہو بیٹیاں سمجھنے پہ مجبور کردیئے جانے والوں کو ، بیربہوٹیوں کی تلاش جلد ترک کرنی ہی پڑتی ہے،،،
لیکن جو اپنے میاں اچھن ہیں انکے معاملے میں سارا مسئلہ ہی لچھن کا ہے،،، ایک مدت سے یہ معمول ہے کہ بارش کے آثار نمودار ہوتے ہی نہایت پھونسڑے دار کپڑے پہنے نمودار ہوجاتے ہیں،،،لگتا ہے کہ سیلاب متاثرین کے کیمپ سے ہاتھ لگے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ انکی یہ پوشاک بہت تاریخی ہے کیونکہ اسنے ان سے پہلے 5-6 نسلوں کی خدمت کی ہے۔۔۔اور انکی ایسی دیدہ دلیر جامہ زیبی خاص بارش ہی سے مشروط ہے،،، ویسے تو موصوف خواہ کتنےعرصے سے لاپتا ہوں لیکن ادھر بادل چھائے اور ادھر اچھن گھر کر آئے،،، ہمیشہ آبی تخریب کے شرطیہ نئے پلان کے ساتھ آتے ہیں اور جل تھل برسات میں ہر طرف چھپڑ چھپڑ کرتے پھرتے رہتے ہیں اور مسلسل یہاں وہاں ہر سمت انکی آوت جاوت لگی ہی رہتی ہے یوں سمجھیئے کہ بارش پہ انکی ترنت حاضری کا تعلق ویسا ہی ہے جو کہ بڑی والی ہری مکھی کا آم سے ہوتا ہے،،،ادھر دو بوندیں زمین پہ گرنے کیا گریں ادھر جھٹ حاضر ہوگئے ۔۔۔ ویسے تو وہ کوئی کام اپنے سر نہیں لیتے لیکن بارش کی ابتدائی بوندیں گرنے سے پہلے پہلے اپنے سرپہ لے لیا کرتے ہیں،،، بالوں سے محروم انکے چوڑے چکلے سے گنجےسر پہ بارش سے اچھلتی چھینٹوں کا نظارہ ایئرپورٹ کے رن وے پہ برسی بارش جیسا ہی ہوتا ہے لیکن اس موقع پہ اچھن میاں کو حاسدوں کی پھبتیوں کی ایسی کوئی خاص پرواہ نہیں ہوتی ۔۔۔ تاہم انکو اپنی اوٹ میں لیئے رکھنےوالے ایک دو سنگی ہمیشہ انکے ہم رکاب ضرور ہوتے ہیں جن میں سے ایک ہم شمار کئیے جاتے ہیں،،،
اب جبکہ بچپن بھی گیا اور پھرجوانی بھی کچھ ایسا خاص کیئے بنا غارت ہوئی، لیکن برسات سے ہماری رغبت ذرا کم نا ہوئی تاہم اب جوانی کے جاتے جاتے اتنا ضرور ہوا ہے کہ دھواں دار برسات ہو تو ہم تھوڑی ہی دیر میں ٹھاٹھ دار سا نہا لیتے ہیں اور نیچی نظریں کئے گھوم پھر کر گھرچلے آتے ہیں نظریں نیچی رکھنے کی بابت بھی ہمارے حاسدین کو ذرا چین نہیں ۔۔۔۔ وہ اسے ہماری شرافت سے زیادہ ہماری احتیاط پسندی پہ محمول کرتے ہیں،،، دو برس قبل ہم ایک گٹر میں کیا گرے یار لوگوں نےاسے ہمیشہ کا فضیحتہ ہی بنادیا،،، ابتک کوئی نہ کوئی چمک کر اسکا پرسہ دے ہی ڈالتا ہے۔۔۔ لیکن اچھن میاں کے لچھن بدستور وہی ہیں ،،، جلے پیر کے بلے کی طرح ہرحال میں رم جھم میں ہمیں یا کسی عاشق برسات کو اپنے ساتھ ٹانگے ٹانگے خوب خوب گھومتے ہیں ، جہاں تک سردی کی بارش کا معاملہ ہے تو اس میں نکلنےکا معاملہ جہاد جیسا ہے ۔۔ اور اب ہمارے اور اچھن کے عزائم ایسے جہادی بھی نہیں رہے،، عام طور پہ سرما کی بارش میں انکی باہر نہ نکلنےکی وجہ تقوے کی افراط سے زیادہ لقوے سے بچنے کی احتیاط ہوتی ہے،،، سرما کی بارش کے جہاد میں تو اب ہم بھی اپنی کھڑکی ہی میں بیٹھےبیٹھے تلوار لہراتے رہتے ہیں ،،، جس کی داد کئی دن تک اپنی ہی پسلیوں سے ملتی رہتی ہے۔۔۔ تاہم ٹھنڈا موسم بھی زیادہ سرمئی معلوم ہو تو خود کو ذرا سا بقدر عرق ندامت بھگو بھی لیتے ہیں،،، لیکن لڑکپن میں تو ہم ایسے میں بھی ادھر ادھر ٹاپیں مارتے دکھتے تھے اور جبتک نیلے نہ پڑجائیں اور یہ نیل کرتے کے نیل سے بڑھ نہ جائیں اگلے مورچوں کے دورے ہی پہ نظر آتے رہتے تھے۔۔
یہاں برسات کے حوالے سے ان بدتوفیقوں کا ذکر کرنا بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں نہانے کے لیئے کبھی غسلخانے سے باہر نکلنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔۔۔ لے دے کے انکی تمام مصفیٰ حیاتی کا مدار ایک مگے اور بالٹی پہ ہوتا ہے،،، کبھی کسی قدر بے احتیاطی پہ مائل ہوں تو زیادہ سے زیادہ شاور کھول کر دائرہء بوچھار میں سر ڈال لینے کی شرابور عیاشی بھی کرلیتے ہیں۔۔۔ ایسے محتاط لوگوں کی ایک قسم مہذب فلموں میں وضعدار سا کچھا پہنے نہاتے نظرآتی ہے۔۔۔ لیکن انہیں نہاتے دیکھنا سراسر برائے عبرت ہوا کرتا ہے،،، ایسی متعدد فارمولا فلموں کے فلاپ ہوجانے کے بعد ایسے روح فرسا غسل اب یاد ماضی ہوتے جارہے ہیں،،، اب اسکی جگہ آسان غسل کے مناظر شامل کیئے جاتے ہیں اور صحت و صفائی کی اہمیت اجاگر ہوجانے کے بعد سے فلموں میں یہ مناظر وقفے وقفے سےاتنی بار دکھائے جاتے ہیں کہ فلم کی ہیروئن اور فلم کی کہانی پوری طرح دھل جاتی ہے،،، ایسے بد زوق لوگ بھی ہیں جیسے کہ جیسے کہ خواجہ صاحب ، کہ اگر باہر کہیں رستے میں ہوں اور اچانک بارش برس پڑے تو کسی چھجے کے نیچے دبک کر اور دیوار سے بالکل لگ کر دم سادھے بے آواز و بدحواس یوں کھڑے رہتے ہیں کہ گویا صور اسرافیل سن لیا ہو یا کسی نے انکی انتڑی اوجھڑی نکال کر حنوط کرکے لاش کو یہاں برائے نمائش چسپاں کردیا ہو۔۔۔ تاہم قدرت اور فطرت کے کچھ اپنے اصول ہیں پوری طرح بارش رک جانے کا یقین ہوجانے کے بعد وہ جونہی قدم باہر نکالتے ہیں ، رپٹ جاتے ہیں اور کسی طوفانی اولتی کے عین نیچے جاپڑتے ہیں۔۔۔ آناً فاناً کمر یا کولہے میں چوٹ لگ جانے سے چت پڑے پڑے انہیں اٹھنے میں اتنی دیر تو لگ ہی جاتی ہے کہ وہ ان افراد سے بھی زیادہ بھیگے بھالو بنے گھر پہنچتے ہیں کہ جو باقاعدہ اپنی خوشی سے برسات کا مزہ لینے کیلیئے دھڑلے سے کھلم کھلا بھیگے تھے
گو اتنی گفتگو کے بعد ہمارے خواجہ صاحب کے تعارف کی مزید ضرورت تو نہیں لیکن چونکہ ہماری بیگم کے نزدیک وہ کاہلوں ، بدزوقوں اور بد توفیقوں کے غیر منتخب رہنما ہیں اس لئے ان کو جان لینے سے ایک عجیب و غریب طرح کی طرز حیات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے ،، مناظرفطرت و مظاہر قدرت سے پیٹھ موڑے بیٹھنے والے اس قبیل کے لوگوں کو قدرت برسات میں بھی پینے کو مفرح شربت کی کسیلا سا جوشاندہ اور کھانے کو لذیذ پکوانوں کی جگہ کثیف ہڑ کا مربہ عطا کرتی ہے اور جنہیں بغیر بھیگے بھی ایک گھنٹے میں بیٹھے بیٹھے کم از کم تین چار درجن چھینکیں مارنے کا ہنر عطا کرکے قدرت کمرے ہی میں برسات سے زائد نمی فراہم کرتی ہے،،، ایسے نزلاتی لوگوں کے چپچپاتے خیالات کی وجہ سے اسیران برسات ان سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں یوں یہ حضرات اس موسم میں سوائے بند ناک اور بند گٹروں کا شکوہ کرتے رہنے اور بلدیہ و بجلی محکمے کو کوسنے کے، اور کوئی کام کرتے نہیں پائے جاتے۔۔۔ چونکہ عشق اور نزلہ کبھی بھی ہوسکتا ہے اور اسکے ستائے ہوؤں کو باہم قریب آتے دیر نہیں لگتی لہٰذا ایک جہاندیدہ بزرگ نے جو عمر کے بڑے فرق کے باوجود خواجہ صاحب کے نزلہ شریک بھائی بن گئے بالآخر سیاپے کی یکسانیت نے انہیں باہم جوڑ دیا اور ایک دن مارے غمگساری کے، انہیں اپنا داماد بنالیا ۔۔۔ یقینناً ایسا جہاندیدہ شخص ہی انکا سسر ہونے کا سزاوار تھا کہ جسنے اپنی بیٹی کے جہیزکیلیئے سب سے پہلے دو چھتریوں اور دو برساتیوں کو خریدنا یاد رکھا تھا۔۔۔ لیکن اپنے خواجہ صاحب کو انکے اس دفاعی سازو سامان کے استعمال کی نوبت شاذ ہی آئی کیونکہ بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی ان کے پیر تو گویا بھاری سے ہورہتے ہیں اور کمرے میں چھتری تان کے بیٹھنے کا چلن آخر ہے بھی تو نہیں ،،،
Syed Mustafa Arif
Karachi
syed mustafa

Share
Share
Share