میٹھے لوگ ۔ طنزومزاح
نعیم جاوید ۔۔ سعودی عرب
کتنا پیارا سا نام ہے۔۔شکر کی بیماری۔۔۔۔مٹھاس ہی مٹھاس ۔۔۔دور دور تک کسی کڑواہٹ کا ذکر ہی نہیں۔کئی بیماریاں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے نام سنکر منہ لگانے کو جی نہیں چاہتا۔جیسے ۔لقوہ‘ دق‘ دمہ‘پیچش‘ کھجلی ‘ہرنیا اور عرق النسأ وغیرہ۔بلکہ کبھی کبھی تو ان بیماریوں کے تذکرے پر طبیعیت میں شوخی و شرارت جوش مارتی ہے۔کہ جی کھول کر مریض کو مرض کے حسنِ انتخاب پر داد دی جائے۔کیونکہ کئی بیماریا ں تو فرحت بخش جوانیوں کا آخر ی بمپر ڈرا ہوتی ۔ اس شکر کی بیماری کو بھلے ہی ہم ’’لبلبہ گھٹالہ ‘‘ کہیں لیکن اس کے نام کی شیرینی کا جواب نہیں ۔کیونکہ یہ’’ شکر ‘‘ کی ہے’’ زہر‘‘کی نہیں۔یہ بیمارکی خوش بختی ہے کہ اسے اپنے غم کے نام کی شیرینی نصیب ہوئی۔کیا عجب کہ یہ حلاوت کم از کم کانوں میں رس گھول کرزندگی کا ایک نیا مفہوم دے جاے ۔جیسے کسی بد شکل عورت کا چاند سلطانہ سا کوئی خوبصورت نام ۔شاعر سچ ہی کہتے ہیں۔ایک شعر سئے
اپنے ذروں کے بھی نا م ماہ وانجم رکھنا اس سے ذہنوں کی بلند ی کا پتہ چلتا ہے
شکر کی بیماری نے اچھے اچھے کاہلوں کوغیرت دلا کرکام پر لگایا ہے۔ ابتدأ میںیہ’’ میٹھے لوگ ‘‘ جب جب اپنی کارکردگی کو ملفوف شیشیوں میں تہمت کی طرح اٹھا اٹھا گھومتے تھے تب تب ڈاکڑانکی طبی شکررنجیاں دیکھ کر دھمکی دیا کرتے تھے کہ۔
اب وقت کام و دہن کی آزمائش کا نہیں بلکہ جان و تن کی آزمائش کا ہے۔یہ مشورہ کسی کاہل چٹورے کے لئے کامِ نہنگ والی آزمائش سے زیادہ جوکھم کا ہوتا ہے۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا کی بنیاد پر میٹھے لوگ دھڑلے سے کام دھام شروع کرکے خود اپنے خلاف جیسے سازش کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے ہی خاندان کے چو راستے پر اپنی کاہل شخصیت کا پتلا جلا کر جیسے کوئی سیاسی عمل ہو۔
ایک خوبصورت مریضہ نے ایک ڈاکڑ پرشوخی کا الزام لگایا‘ جب تسلی دینے کیلیے ڈاکڑ نے مریضہ کو How sweetکہکرحیرت کا اظہار کیا۔ اس نازک بدن نازنین کے بدن میں شکرکے سبب پیدا کڑواہٹ پر خود ڈاکڑحیران تھا۔بلکہ ڈاکڑ نے گفتگو کے دوران اس کے خاندان میں موجود ذیابیطس کے لوگوں کی تعداد دیکھ کر کہا۔صرف آپ کے گھر کوHome sweet home کہنے کا حق ہے ۔ ہمیں ایک بارایک ترش لہجہ مریض شکر نے کہاکہ ڈاکڑوں نے انھیں رزق کا علامتی کوٹہ الاٹ کیا اور باقی ماندہ زندگی کومشقت کے کھوٹے سے باندھ کرپاؤں کی گردش پر Bonus عمر لکھ دی اور کہا ’’چن چن کھاؤ اور جُگ جُگ جیو ‘‘۔ ایک اور سکہ بند کاہل جسے ہم ’’بحرالکاہل‘‘ کہہ سکتے ہیں۔جن کی’’ بند شیشی ‘‘ کا میٹھا جِن جب باہر آیاتو ہم نے انھیں اس قدر فعال پایا جیسے کہ کوئی چلتا پرزہ ہو۔ ہر وقت کام بلکہ اس وقت بھی کچھ گل کھلادینے کو تیار جب ضرورت ہی نہ ہو ۔ اس بحرالکاہل شخص نے اپنے بدن کو شکر کا گودام بلکہ شکر کی فیکڑی بنارکھا تھا۔ہم انھیں ازراہِ محبت کوسا کرتے تھے کہ ’’ خدا تمہاری شوگر فیکڑی غارت کردے۔
اس کے گودام میں آگ لگ جا ۔خدا تمہارے شکر افروز پرزے کی بد قماشی کو جوتے مار کر ٹھکانے لگادے بلکہ اس کی چال چلن بہتر کردے۔ وغیرہ غیرہ۔ہمیں حیرت اس با ت پر ہوئی کہ انھیں ہمارے لہجے کی تلخیوں میں ڈوبا ہوا خلوص نظر آیاجیسے کسی سرپھرے پیر کی دیوانہ وار’’ حق ہو حق ہو‘‘ سی سرگرمی یا دعا ہو۔ اسے کہتے ہیں عیبوں سے ہنر سرزرد ہونا۔جو لوگ دعوتِ عمل کی ہر تحریک کو شک کی بھینگی نظروں سے تاڑتے ہیں۔انھیں کو ئی نصیحت معتبر نظر نہیں آتی۔حیدرآبا د دکن میں ہمارے بزرگ ہمیں دکنی لہجے کی شیرینی میں ڈوبی ہوئی ایک بات کہتے تھے کہ ’’میاں کیاتو بھی کرے تو کچھ تو بھی ہوتا‘‘۔لیکن ہم اس دکنی نصیحت کو اُردو کی غیرمعتبر اور غیر ٹکسالی بولی گردان کر رد کردیتے تھے۔ سچ ہے لسانی عصبیتوں نے ہمیشہ سے حکمتوں کوپامال کیا ہے۔
آپ نے بھی سنا ہوگا کہ انسانی بدن میں یہ میٹھے بارود کی سرنگیں بچھ جانے کی ایک وجہ ٹس سے مس نہ ہونے والی بے عملی ہے۔(اسکے علاوہ دیگر وجوہات کی زد میں آنے والے لوگوں کے ہم شریکِ غم ہیں)۔لیکن بلاوے بھیج بھیج کر دعوت دینے والی اشتعال انگیز وجہ‘ مفت خوری ‘ پیٹ کے گودام میں حریصانہ ذخیرہ اندوزی اور کھاتے ہی قومی بے حسی کی تصویر بنکرڈھیرہوجانا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مریضان شوگر کا قافلہ سخت جان حفظانِ صحت کے معتبر اصولوں کو کتابوں میں کیڑوں کیلیے فیاضانہ چھوڑ دیتا ہے۔اور طبی اصولوں میں انھیں مغربی تہذیب کی بو آتی ہے۔ مشرقی روایت پسند طبیعت جو غزل آشنا ہے اس کوایسی باتوں میں تغزل نظر نہیں آتا۔ نتیجتاً پوری شخصیت بحر سے خارج ہو جاتی ہے۔دورانِ خون؛ سکتہ آجاتا ہے۔اور نہ جانے کیا کچھ عروضی اغلاط نامہ بن کر شخصیت کی تہہ سے نئے نئے رسواکن گوشے ابھرآتے ہیں۔
ہمارے پڑوس کے ننھے فرشتوں نے ہم پر یہ رازکھولا ہے کہ انکے ابو‘ اب اچھے بچوں کی طرح اپنا کام خود کرنے لگے ہیں۔جبکہ پہلے بہت سارے کام ہماری تربیت کیلیے ہمیں کرنے پڑتے تھے۔حتیٰ کہ وہ حمام چلے جاتے اور وہاں پانی کی سپلائی اور کمک میں لنگی پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہماری ہوتی تھی۔ یہ سنکر ہم نے سوچا کہ کہیں کچھ سن لیا ہوگاکہ کام کرنا ہی کامیابی ہے اور اپنے گھر کے white house سے اپنی کاکردگی شروع کی ہوگی۔ لیکن ہمیں پڑوس کے بچکانہ صفت کھلنڈر ے صحافیوں کی طرح خبریں اچھالنے والے یاجوج ماجوج بچوں سے زیادہ اعتبار انکی قبر (خبر)رساں ایجنسی یعنی بیوی نے خود بتا یا کہ انکے میاں کی شوگرجیسے ایک خوشگواربرائی ہے۔ان دنوں ان کے میاں ہمیشہ کام کرتے رہتے ہیں۔ جیسے کوئی کارچوبی تختۂ ہو اور اپنی بساط پر چاروں سمتوں سے گل کھلارہا ہو۔جبکہ پہلے پہل ڈاکڑوں نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ اپنی شخصیت کے زہر سے فائدہ اٹھاؤاور اس میٹھی بیماری کو زہر دے کر ختم کردو۔ لیکن ان کااپنا زہر کافی نہیں ہوا۔ انکی بیگم نے مزید کہا کہ خدا کی رحمت نے دیر کردی اوربڑھاپے میں اس بیماری نے تاکا اور اس بیماری کی برکا ت کا نزول شروع ہوا۔بچوں کی تعداد کے مہم پر تقدیر پر تکیہ کیےئ اور مولوی کے بہکاؤے میں آئے بغیرخود بھی محتاط رہنے لگے۔جبکہ میں کئی بار انھیں اقبالؔ کے شعرمیں ترمیم کرکے سمجھاچکی تھی کہ
حمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ ناری ؔ اپنی فطرت میں کنواری تھی کنواری ہے
مٹھاس اساس بیماری میں ’’لبلبہ کی شوخیاں ‘‘ بدن کی سنجیدہ طبی اسکیم کو ناکام کردیتی ہیں۔اسی لبلبہ کی دھاندلی والی سیاست کے نتیجے میں جسم کے عدالت میں دیگر صحت منداعضاکی بھی ضمانتیں ضبط ہوجاتی ہیں۔ اسے ہم لبلبہ اسکام بھی کہہ سکتے ہیں۔ ذرا سوچو! جب لبلبہ کی تنہا بدعملی کے شاخسانے پورے بدن کو ڈھونے پڑتے ہیں تب بڑی بڑی ڈگری یافتہ ڈاکڑ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ لیکن کچھ نہیں کرسکتے۔نہ معلوم خدائی اسکیم میں افراد کی منہ زور طبیعتیں کتنے روڑے اٹکاتی ہونگی۔جہاں سماجی خیرکی آرزو لیکرابھرنے والے مصلح کی بصیرتیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہونگی۔لیکن مایوسی کی فضأ میں ایسے شِکروں کی کمی نہیں جو اپنے حسنِ عمل سے بھلے کام اور برے کام کو شیر وشکر ہونے نہیں دیتے۔بلکہ اپنے بدن کے شکر کے پہاڑوں سے جست لگاکر بھی سالم شاکر رہتے ہیں اور ایک اچھے عبدالشکور بن کرپوری زندگی گذار دیتے ہیں۔
ڈاکڑوں کی خوفناک رجائیت کا جواب نہیں۔دل چاہتا ہے اُنکے دعووں کو مان ہی لیں بھلے ہی کتنا خسارہ ہو۔ڈاکڑ کہتے ہیں کہ ’’ سلجھاہوا باخبر مریضِ شکر کسی بھی صحت مند آدمی سے زیادہ جی لیتا ہے۔نہ وہ زیادہ کھاتا ہے (نہ کھلاتا ہے)۔ بلکہ احتیاط اسکو تمام امکانی خطرات سے بچالیتی ہے‘‘۔اسطرح اپنے عیب کے ہنرمندانہ استعمال سے جی بھرکے جی لیتا ہے۔
دوسری طرف نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ’’ شکر کی بیماری کسی کے عشق میں بھاگ کر نہیں آتی بلکہ اس کو تو اس دلہن کی طرح بارات بھیج کر دھوم دھڑاکے سے لانا پڑتا ہے۔ اس نازنین کی بارات میں خیال کی خرافاتیاں، مزاج کی مونہہ زوریاں،
احساسات کی ہنگامہ آرائیاں ، دل دہلادینے والا دھمال، غارت گر غصہ، تباہ کن ذہنی تناو اور جانے کیا کیا کچھ بھیج کر وحشتوں کے کان پھاڑنے والے مرفے بجا بجاکریک طرفہ بیاہ کر کے اس بلائے ناگہانی کو اٹھا کرلانا پڑتا ہے۔اور یہ’’ شاکرہ‘‘ بدن کی ڈولی سے اترتی نہیں تاآنکہ بندے کا ڈولا نہ اٹھ جائے۔
One thought on “میٹھے لوگ ۔ طنزومزاح: نعیم جاوید ۔۔ دمام”
زبان و بيان کے ساتھ چُست جملوں نے بہت لطف دوبالا کيا
موضوع کا بر محل انتخاب الگ داد کا استحقاق رکھتا ہے
مضمون کی بنت تخليق کار کے علم و فن کا آپ ٽبوت ہے
بہت داد بہت دعائيں