سانپ ۔ مختصرتعارف
زاہدہ حمید
سانپ ایک رینگنے والا جانور ہے جو جانوروں کی کلاس حشرات الارض سے تعلق رکھتے ہیں ۔جب ہم کسی سانپ کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک ٹیوب جیسا نظر آتا ہے۔جس میں کوئی ابھارنظر نہیں آتا ‘جوبازؤں یا ٹانگوں کا کام دے سکے ۔چپٹا سا سر اور آخر میں دُم ہوتی ہے ‘اس کے درمیان لمبا اور پیچیدہ جسم ہوتا ہے۔ سانپ کے جسم میں حیرت انگیزطور پرریڑھ کی ہڈی پائی جاتی ہے۔اور وہ تمام اعضا اور نظام پائے جاتے ہیں جو ریڑھ کی ہڈی والے جانور میں ہوتے ہیں۔جیسے نظامِ ہضم‘ دل ‘ جگر ‘ غدود ‘ عضلات اور دوسرے اعضاء۔سانپ کی آنکھ کے پپوٹے شفاف ‘ حرکت سے عاری ہمیشہ آنکھوں کو ڈھانکے رہتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں شیشے کی طرح چمکدار نظر آتی ہیں اور پپوٹوں سے محروم ہونے کی وجہ سے سانپ ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سانپ تمام چیزوں کو گہری نظر سے دیکھتا ہے اور جسامت کے بجائے حرکات اور سکنات سے پہچاننے کی کوشش کرتاہے ۔اس کے علاوہ سانپوں میں سونگھنے کی صلاحیت بہت عمدہ ہوتی ہے ۔یہ اپنے شکاری جانوروں اور دشمنوں اور دوسری چیزوں کو سونگھ کر پہچانتے ہیں۔یہ ہوا میں کیمیائی ذرات کو بھی پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ یہ کسی انسان کے ہیں کہ دوست یا دشمن کے یا خوراک کے ہیں ۔
سانپوں میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے نتھنوں کے ذریعے ہوا اندر کھینچ سکیں یا تیزی سے اپنے شکار کی بو محسوس کر سکیں۔ایسا کرنے کے لئے ایک خصوصی عضو پر انحصار کرنا پڑتا ہے جسے ’’جیکب سنس أرگن‘‘ یا عضو کہتے ہیں ۔یہ منہ کے اندر بالائی سطح کی گہرائی میں پایا جاتا ہے۔یہ عضو سونگھنے اور باس محسوس کرنے میں مدد دیتا ہے ۔سانپ کی دو شاخہ زبان نہ صرف فضا میں حساس اینٹینا کی طرح مدد کرتی ہے بلکہ شکار کا مقام‘سمت اور رفتار کے بارے میں بھی معلومات مہیا کرتی ہے ۔اسی حد تک اس کا کام راڈار کی طرح ہوتاہے۔ِ
بیشتر سانپوں کو ایک ہی پھیپڑا ہوتا ہے ۔مگر اژدہوں اور دوسرے سانپوں میں دو پھیپڑے بھی پائے جاتے ہیں۔سانپ کے کان بیرونی سطح پر دکھائی نہیں دیتے لیکن اس میں زمین کے اندر ہیدا ہونے والی لہروں و ارتعاش کو محسوس کرنے کی زبردست حس پائی جاتی ہے ۔
سانپ سبزی خور نہیں ہوتا۔سانپ کے معدے میں ہاضمے کے رس بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ شکار کو ثابت بھی نگل لیتے ہیں۔نہ ان کی پرندوں کی طرح چونچ ہوتی ہے اور نہ ہی بلیوں کی طرح چیرنے پھاڑنے والے دانت ۔تمام سانپ کسی ٹیوب کی طرح کھوکھلے اور صرف شکار کو پکڑنے کے لئے سوئی جیسے باریک دانت ہوتے ہیں اس طرح یہ اپنے شکار کو کبھی چباتے نہیں۔
سانپوں اور اسکی خوراک کے متعلق ایک غیرمعمولی اور دلچسپ خصوصیت یہ کہ دانتوں کے پیچھے ایک جبڑا پایا جاتا ہے اس جبڑے کی ہڈی خوراک نگلنے میں مدد دیتی ہے ۔جبڑے کے کنارے دانت ہوتے ہیں اور جبڑا کھوپڑی کی ہڈی سے جڑا نہیں ہوتا۔بعض سانپوں میں تالو کی چھت پر دانتوں کی دوقطار ہوتے ہیں اور ہر قطار کے دانت ہڈیوں کے اوپر خاص قسم کے عضلات کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔پہلے جبڑے سے سانپ خوراک کو آگے دپکھتا ہے جبکہ دوسرا اس کو پکڑتا ہے اور اگلے جبڑے کی ہڈی اس پر دباؤ ڈالتی ہے ۔اس طرح شکار سانپ کے حلق سے نیچے اترتا ہے ۔جبڑوں کی ایسی ترتیب کے باعث سانپ اکثر اوقات بڑے جانور بھی کھا جاتے ہیں۔
بڑے سانپ جیسے اژدہے ہرن اور چیتے کو بھی کھا جاتے ہیں۔ عام سانپ مناسب سائز کے جانور ہی کھاتے ہیں جن میں گھاس کے ٹڈے‘ مینڈک ‘ مچھلیاں‘ چوہے اور پرندے بھی کھاتے ہیں ۔کچھ اندھے سانپ صرف دیمک وغیرہ ہی کھاپاتے ہیں ۔اسی طرح پانی کے سانپ صرف مچھلیاں اور مینڈک ہی کھاتے ہیں۔ (ماہنامہ سائنس ۔نئی دہلی)