طنزومزاح : یہ کتے ۔ ۔ ۔ تحریر: سیدعارف مصطفیٰ

Share

dogs

طنز و مزاح : یہ کتے

سیدعارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :
 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ: جناب سید عارف مصطفیٰ ادارہء جنگ / جیو سے وابستہ صحافی ہں اور سیاسی تجزیہ نگاری کے علاوہ مزاحیہ نگاری بھی ان کا معمول ہے ۔ان کے متعدد مزاحیہ مضامین روزنامہ جنگ کراچی کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوچکے ہیں اور ان کی پہلی مزاحیہ تصنیف ‘ترنگ آمد’ شائع ہونے کو ہے- جناب کا ایک طنزیہ ومزاحیہ مضمون پیش خدمت ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کچھ دنوں سے میں چند ناہنجار کتوں کو بہت مرغوب ہو گیا ہوں ،،، رات گئے گھر آتے ہوئے یک بیک پانچ سات کتے نجانے کہاں سے لپکتے لڑھکتے آن موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے چند تو مجھے یہاں وہاں سے چکھنے کے زبردست آرزو مند بھی معلوم ہوتے ہیں ، دو تو بلحاظ صحت ایسے ہیں کہ اگر انہیں گوندھ کر ملایا جائے تب بھی اک قابل لحاظ کتا نہیں بن پائے گا ۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ جوشیلی پرفارمنس ان ہی کی ہوتی ہے۔۔۔ دم اٹھائے اور زبان لٹکائے ہر طرف سے کانپ رہے ہوتے ہیں ،،، سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈیڑھ کلو کے کتے میں بھی اتنی من بھر بھونک کہاں سے سما جاتی ہے ،،، ان میں سے زیادہ تر تو سیفٹی اسٹینڈرڈزسے بھی آگاہ ہیں اور پتھر پڑنے کی رینج سے ذرا پرے پرے ہی رہتے ہیں جو نابالغ و نا سمجھ ہیں وہ محض ایک پتھر اچھالتے ہی چیاؤں چیاؤں کرتے گلی کا موڑ مڑ جاتے ہیں اور باقی ماندہ چیاؤں چیاؤں کا کورس وہیں کھڑے رہ کراورسرکو جھکائیاں دے دے کر پورا کرتے ہیں ،،، پھر میرے آگے بڑھ جانے کے بعد دوبارہ چند قدم آگے آکر اپنی بہادری کا وہ واویلا کرتے ہیں کہ مجھے کان لپیٹتے ہی بنتی ہے ،،،،کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مستقل مزاج کتے اس درجہ لگن سے میری گلی کیوں آئے ہوئے ہیں ان کے اہداف کیا ہیں اور آخر ان کا منشور کیا ہے ،،،!
یہ بات تو بالکل فضول سی ہے کہ میری ان کتوں سے پرانی دشمنی ہے،،،ویسے بھی دشمنی کرنے کیلیئے اپنے دشمن کو پہچاننا ضروری ہے اور میرا یہ حال ہے کہ سارے رنگوں کے کتے ایک ہی جیسی شکل کے دکھتے ہیں یعنی کوئی کالا کتا سبھی کالے کتوں جیسا معلوم ہوتا ہے اور کوئی مٹیالے رنگ کا کتا اسی رنگ کے دیگر ہم جنسوں کی مانند نظر آتا ہے،،، اور کم سے کم فاصلے کی میری ازخود مقررکردہ حد عبور ہوجانے کے بعد تو ہر کتا مجھے بہت ہی کتا معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ میں کتوں کو پہچاننے کی مطلق کوئی حس ہی نہیں رکھتا،،، میں کتوں کو صرف 2 اقسام سے پہچانتا ہوں یعنی اصیل کتا اور رذیل کتا،،،
اصیل کتے کو آپ کتوں کی اشرافیہ سمجھیئے ، وہی تام جھام یعنی گلے میں خوبصورت سا پٹہ ، شیمپو سے دھلا دھلایا ، بھرا بھرا پیٹ ، چال میں تمکنت ، اداؤں میں نخوت اور تھوتھنی پہ بیوروکریٹک سا وقار۔۔۔ یہ جواصیل کتے ہیں انہیں تو کتا کہتے ہوئے ان کے مالکان کا دل بھی دکھتا ہے۔۔۔ اور کسی چپڑ قناتی کے ساتھ بٹھا دیا جائے تب تو انہیں کتا مانتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے،،، یہ ہر ایسے ویسے پہ اپنی وی آئی پی بھونک ضائع بھی نہیں کرتے بس رئیسانہ نخوت سے ہلکا سا غرا کر ہی کام چلالیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی ٹچہ سامنے ہو تو حسب اوقات ایک ہلکی سی ‘بخ ‘ یا ‘بھوں’ ہی کو کافی سمجھتے ہیں،،، ان ہی میں سے ایک قسم ایسےجھبرے و بالدار کتوں کی ہوتی ہے کہ جن کے جسم کا نوے فی صد ان کے بالوں پہ مشتمل ہوتا ہے اور قدرت نے ان کے دیگر سب اعضاء کو باقی کے دس فیصد میں ہی ایڈ جسٹ کردیا ہوتا ہے۔۔۔ ان بالوں کے انبار میں کتے کے آغاز و اختتام کا سراغ لگانا بھی کوئی آسان کام نہیں اور عام طور پہ اسکے منہ کا تعین اسکے بھونکنے سے ہی کیا جاتا ہے
ادھر رذیل کتے کو سمجھنے کی مطلق ضرورت ہی نہیں کیونکہ اسکا کو ئی فائدہ نہیں ،،، اسے سمجھنے سے پہلے وہ آپ کو سمجھ چکا ہوگا ،،،، ۔عموماً نقاہت سے اسکا پیٹ بہت اندر اور آنکھیں بہت باہر نکلی ہوتی ہیں ۔۔۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ کھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ،،، درحقیقت وہ سب کچھ اور ہروقت کھانے پہ یقین رکھتا ہے ،، پھر بھی وہ ہروقت بھوکا ہی معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ ،،، یہ کتوں کا وہ طبقہ ہے کہ جس کی صرف 2 حسیات ہی مسلسل کام کرتی ہیں ایک بھوک کی حس اور دوسری مسلسل بھونکنے کی حس ۔۔۔ بعضے لوگ ایک تیسری حس کا حوالہ بھی دیتے ہیں لیکن اصل میں وہ بھوک کی ذیل میں ہی شمار کی جانی چاہیئے ۔۔۔ لیکن اسکا کھایا پیا جاتا کہاں ہے یہ برمودا ٹرائی اینگل جیسا کوئی اسرار ہے ، اس قسم کے کتوں میں جو جتنا بھوکا ہوتا ہے اتنا ہی بھونکتا ہے اور اسکے درجات اپنے طبقے میں اتنے ہی بلند ہیں ۔۔ رذیل کتا اسلیئے بھی رذیل سمجھا جاتا ہے کہ وہ لنگی پاجامے اور پتلون پہ یکساں مستعدی سے بھونکتا ہے،،، تاہم پتلون پہ اگر کوٹ بھی ڈ ٹا ہوا ہو تو اس ہی قبیل کے شہری کتوں کی آواز میں شدت و خباثت کی مقدار کسی قدر کم پائی جاتی ہے۔۔۔
خصلت کے اعتبار سے کتے یکساں سمجھے جاتے ہیں لیکن کچھ کتوں کو قدرت سے مصلحت کوشی فراواں عطا ہوئی ہوتی ہے اوران کی جسمانی صحت انہیں حد درجہ پر امن بلکہ صلح کل کا اشتہار بنائے رکھتی ہے اور وہ کتا گیری کی حد کو عبور کرنے کی خود سے بھی کوشش نہیں کرتے ،،،لیکن اگر آپکے ہاتھ میں کوئی مضبوط سا ڈنڈا یا بڑا سا پتھر ہو تو آن دی اسپاٹ بھونکنے سے پہلےکچھ دیرغرانے کو ترجیح دیتے ہیں اورایسے میں ان کی غراہٹ میں بھی بڑی عملیت پسندی جھلکتی ہے ۔۔۔ جس کا فوری ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ تو میرا بھرم رکھ بھائی میں تیرا لحاظ کروں گا،،، تاہم دور سے دیکھنے والے کو بھی بخوبی محسوس ہوجاتا ہے کہ ۔۔۔۔ دونوں طرف ہے ہوا برابر کی نکلی ہوئی،،،
عجب بات ہے کہ کہیں اجنبی اور سنسان سی جگہ پہ اگر 2 کتے بھی کھڑے ہوں تو نجانے کیوں چاریا پانچ سے کم نہیں لگتے ۔۔۔ لیکن شرافت کے قرینوں اور عام جسمانی کیمسٹری کی رو سے اوسان خطا کرنے کیلیئے تو ایک کتا بھی کافی سے زیادہ ثابت ہوتا ہے۔۔۔ ایسے موقع پہ اگر آپ نے پہلے سے کوئی دفاعی اوزار نہیں تھاما ہوا تو پھر خود سے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب جو کرے گا وہ کتا ہی کریگا ۔۔۔ تاہم اطمینان رکھیئے کہ بعضے کتے برائے نام کتے ہوتے ہیں اور وہ صرف سونگھ کر آگے بڑھ جانے پہ یقین رکھتے ہیں ،،، ایسے میں بس یہی دعا کرنی چاہیئے کہ ایسے کسی سونگھتے کتے کو آپکی بو ناگوار محسوس نہ ہو ،،،اور اسکی قوت شامہ کو شدید صدمہ نہ پہنچے،،،، ورنہ وہ یہ صدمہ آپ کو ہسپتال منتقل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا،،، لیکن اس نازک وقت دعا مانگنے سے متعلق ایک مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ یہ دعا کرنا یاد کیسے آئے کیونکہ اس ہولناک مرحلے پہ تو بڑے بڑے خطرات ٹالنے والی سادہ سی دعا بھی یاد نہیں آپاتی،،، پھر بھی شانت رہنے کی اپنی سی کوششیں ضرور کرنی چاہیئیں کیونکہ کوئی بھی کتا ۔۔۔ اگر وہ واقعی کتا ہے تو اسے ایسے میں کتا پن کرنے سے روکنا آپ کا نہیں اس سے بھی بڑے کتے ہی کا کام ہے۔۔۔-

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Syed Arif Mustafa
10/9, 5D, Nazimabad No.5 Karachi
syed mustafa

Share

۳ thoughts on “طنزومزاح : یہ کتے ۔ ۔ ۔ تحریر: سیدعارف مصطفیٰ”

Comments are closed.

Share
Share