خا کہ : میر ے ابّا
مہرافروز
دھارواڑ ۔ کرناٹک
موبائل : 09008953881
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باپ سائبان ہوتا ہے۔ اسکی حقیقت اُس سے پوچھیں جو یہ سائبان کھوچکے ہیں۔ ہمیں تو یہ سائیبان کھوئے ہوئے تقریباً 22سال پورے ہو رہے ہیں۔ اور زندگی کی جلتی دھوپ کی تپش ہمیشہ یہ یاد دلاتی ہے کہ والد کی دعائیں ہوتیں تو شایدیہ گرمی کی حدّت اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔
گھر میں میرے بچپن کی لگی بہت سی تصاویر دیکھ کر ہمیشہ حیرانی ہوتی کہ ابّا نے اتنی تصاویرکیوں نکلوائیں ہونگی۔تب امّی کہتی وہ’’تجھ سے بہت پیار کرتے تھے‘‘۔مگر میں نے اپنے ہوش میں کبھی ابّا کو مُربی اور محبت والا نہیں پایا۔ ہمیشہ اُنکی ڈانٹ ڈپٹ اور غصّہ ہی دیکھا وہ بہت سخت والد تھے۔ایسے کیوں بیٹھا۔’’یہ کیوں کیا‘‘ وہ کہاں رکھا‘‘۔’’یہ آج‘‘ اس جگہ سے کھسکا کیوں ہے‘‘ کس نے میری الماری کو ہاتھ لگایا‘‘۔ یہ ابّاکے ہمیشہ سے سوال اور گرج ہوتی جب کبھی وہ گھر میں داخل ہوتے ..اُنکے مزاج میں بہت زیادہ دُرستگی تھی۔ گھر کی ہر چیز صاف ستھری ۔ اپنی جگہ موجود اور درست ہونی چاہئے تھی۔ اگر نہ ہوتی تو پھر آسمان سر پر اُٹھالیا جاتا۔ اور ہمیں جلدی جلدی سب کو ٹھیک ٹھاک جگہ پر رکھنا ہوتا۔ ابّا کا غصّہ اور خوف ہر جگہ اور ہمیشہ طاری رہتا۔ اور دل میں گھبراہٹ لگی رہتی آج کچھ غلطی نہ ہوجائے اور ڈانٹ ڈپٹ حتیٰ کہ بڑی غلطی پر مار بھی کھانی نہ پڑجائے۔
پٹھان تھے۔ خوددار طبعیت اور بہت زیادہ غصّے والے۔
ہماری صبح تہجدّ سے ہوتی۔ جیسے وہ اُٹھتے آوازیں لگانا شروع کردیتے۔ یہ تم اُٹھو، تم اُٹھو۔ کچھ سستی ہوتی یا طبعیت خراب ہوتی تو ’’شروع ہو جاتے۔ مُردوں کی طرح سونا اﷲ کو پسند نہیں۔ رزق کے فرشتے رزق واپس لے جاتے ہیں۔ اُٹھو۔ اور ہم سب کو بادل ناخواستہ اُٹھنا پڑتا۔ اُنکی وہ تربیت آج بھی زندگی کا حصّہ ہے۔ صبح سویرے آنکھ کھل جاتی ہے۔ زیادہ دیر سوجائیں تو ابّاکی آواز بے ساختہ کانوں میں گونجتی ہے۔ ’’سورج نکلنے کے بعد کا سونا مُردوں کاسونا ہے‘‘۔اور میں گھبرا کر اُٹھ بیٹھتی ہوں ہمارا ہر چیز کا وقت مقرر تھا۔ نماز کے بعد فوراً تلاوت قرآن کرتے باآواز بلند قرات اتنی عمدہ تھی کہ دل میں اُتر جاتی آج بھی قران پڑھتے وقت اُنکا تلفظ اور آواز کانوں میں گونجتی ہے۔ اور دل بے ساختہ چاہتا ہے کوئی باآواز بلند گھر میں ایسی قرآت کرے۔
ہم چاروں بہن بھائی سات سال کے اندر قرآن سیکھ گئے ۔کیونکہ سکھانے والے خود ابّا تھے۔
آج اُردوہم سب کو جو بھی کچھ آتی ہے وہ صرف اور صرف ابّا کی وجہ سے ہے امّی مرہٹی میڈیم کی پڑھی تھیں۔ امّی کو بھی اُردو ابّا نے ہی سکھائی۔ اُنکی اپنی زبان میں’’ مجھے بچہ دو دو ماہ میں طوطا بنادوں گا‘‘اوروہ واقعی دو ماہ میں بچوّں کو اُردو بہ آسانی سے پڑھنا اور لکھنا سکھا دیتے ہیں۔ آج ڈانڈیلی میں جتنے بھی اُنکے شاگرد ہیں۔ سب کے سب دم بھرتے ہیں۔ "آج ہم یہاں پر ہیں تو صرف اور صرف پٹھان جناب کی وجہ سے ہیں۔”
ابّا جن کا طریقۂ تعلیم یہ تھا کہ کھیل کھیل میں الفاظ بنانا، جوڑنا، بولنا ،کہنا، پڑھنا اور پھر زمین پر اُنگلی سے لکھنا ‘ہوا میں لکھنا ،پھر تختی پر لکھنا سکھاتے۔ خطاطی کے ماہر تھے ایسی خوبصورت تحریر کہ دیکھتے بنتی۔ ابّا اُردو پڑھنا لکھنا نہ سکھاتے تو شاید آج جو کچھ ہوں وہ بھی نہ ہوتی۔ شاعری کرتے آزاد تخلص کرتے اور کمال لکھتے۔ اُن کی ڈائرئیوں میں بند اشعار دل کو چھولیتے ہیں۔ مگر خود کی تشہیر کبھی نہیں کہ نہ شاعری چھپوا ئی ،نہ مضامین چھپوائے، نہ کہیں بھیجے۔ کمال کی یاداشت تھی۔ جانے کس کس کے مقولے تحاریر یاد تھیں۔ کسی کا ذکر ہوا تو کہا لائبریری سے فلاں کتاب لو اور فلاں صفحہ دیکھو۔ وہ بہت اچھے خطیب و مقرر تھے۔ میں نے انکی پرجوش تقاریر کئی مرتبہ سنئی ہیں۔ عوام کو روتے دیکھا ہے۔ اور جوش میں نعرۂ تکبیر کی آوازیں لگاتے بھی سنا ہے۔ آج ہم میں اگر دین ،اُردو ادب کی معلومات, اور یاداشت کا مادّہ ہے تو صرف اور صرف ابّا کی دین ہے۔ مجھے یاد ہے 1992میں شادی کے بعد میں اُردو۔ ایم۔ اے۔ کر رہی تھی۔ سب سے بڑی مشکل بنیادی اُردو کی تھی۔ نہ فارسی سمجھ میں آئی نہ ثقیل اُردو کے الفاظ اور اقبال تو سر پر سے گذرجاتے۔ بڑی پریشان تھی۔ ابّا نے پوچھا کیوں پریشان ہو۔ میں نے اپنی تکلیف بتائی۔ ارے اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ تم آجاؤ میں چُھٹیوں میں مائیکے چلی گئی۔ ۔ اب روزانہ صبح ہوتی تو میری کلاس لگتی۔ ابّا کلامِ اقبال برزبانی سناتے پھر گھنٹوں تشریح کرتے۔ پندرہ دن میں اقبال پورے کے پورےذہن میں اُتر گئے،پھر غالب حالیؔ ۔سرسید ۔ مولانا آزاد۔ جانے کس کس کی باری آئی۔ ابّا تشریح کرتے اور میں ضروری نوٹس بناتی۔ اور پھر میں نے امتحان دیا۔ حالانکہ ایک دن بھی یونیورسٹی نہیں گئی نہ کسی کی کلاس سنی بس امتحان دیدیا۔ اور ماشاء اﷲ کامیابی نمایاں تھی ۔ میں نے ایم۔اے کی ڈگری لی اور ابّاایسے خوش ہوئے جیسے اُنھوں نے لی ہو۔ حالانکہ میرے ابّاجی 1955کے صرف ساتویں پاس ہی تھے۔
مجھے میرا بچپن یاد ہے۔ گرمیوں کے دن بجلی تو نہیں تھی شام ہوتے ہی لالٹن جلتے۔ میرا اور میرے چھوٹے بھائی کا کام ہوتا۔ لالٹین کے گولے پونچھتے۔ مٹی کا تیل ڈالتے۔ اور شام سے ہی چراغ جلالیتے۔ دس بجے تک سارے لالٹین بند ہوجاتے۔ مٹی کا تیل بھی راشن میں ملتا۔ صرف چھوٹی سی ایک بتی جلتی رہتی اور ہم سب صحن میں ابا کے ارد گرد۔ بیٹھ کر کہانیاں سنتے، راجا رانیوں اور پریوں کی نہیں بلکہ تمام پیغمبران کی۔ آدم علیہ سے اسلام سے لیکر حضورؐ تک سب کی کہانیاں اباکی زبانی مگر کہانیوں کی جو خصوصیت ہوتی وہ ابّا کی بیان بازی تھی۔ کہانی ایسے سناتے کہ جیسے ہم اُن سب کو ہوتا دیکھ رہے ہوں۔ آج جب اپنے بچّوں کو کہانی سنانے بیٹھوں تو سنانا نہیں آتا۔ بیساختہ آنسوآتے ہیں اور ابا یاد آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے۔ طوفان نوح کا قصّہ سناتے وقت ابّا نے جو سماں باندھا تھا۔ وہ اتنا ذہن میں مرصع تھا۔ کہ سونامی کی طوفانی لہروں کو دیکھا تو ڈر نہیں لگا کیونکہ اُس سے زیادہ بڑا طوفان میں نے تخیّل کی نگاہ سے دیکھ رکھّا تھا۔
موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے دربار میں جادوگروں کے ساتھ جب مذاکرہ سنایا۔ تو جادوگر سامری کا اژدھا ایسا ہماری طرف بڑھ رہا تھا کہ ہم سب کی چیخیں نکل گئی تھیں۔ حضور ابراھیم علیہ السلام کی نمرود کے آگ میں پھینکے جانے کا منظر اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اور حضرت جبرئیل علیہ کے پروں کا لمس جب اُنھوں نے حضرت ابراہیم کو سمٹا تو وہ لمس ابھی کہیں تخیل میں باقی ہے۔ حضور شہنشاہ ؐ دو جہاں پر پھینکی جانے والی غلاظت اپنی پیٹھ پر محسوس کی۔ طیف کے پتھروں کی وجہ سے حضورؐ کا خون مبارک کا بہنا، اور جوتوں میں جم جانا دیکھا۔ حضورؐ کی اونٹ پر مکہ سے مدینے کی ہجرت کو آنکھوں سے دیکھا۔ اور نہیں لگا کبھی کہ ہم اُس زمانے میں نہیں تھے۔ایمان صرف سیکھنے سے نہیں بنتا۔ سننے تخیّل کی نگاہ سے دیکھنے اور سنانے سے بنتا ہے ۔ آج ایمان کی جو بھی حالت ہے ابا کی وجہ سے ہے۔ بالکل ایسا لگتا ہم اُسی زمانے میں ہیں۔ آج کی HDL ٹی۔وی۔ پر چلتی منظر نگاری میں وہ مزہ نہیں ہے۔جو ابّا کے اُس بیان میں تھا۔ آج افسانہ نگار ہوں۔ شاعرہ ہوں مقررّ ہوں۔ تو صرف صرف میرے ابّا کی مرہون منّت ہے۔ اُنکے ناخن بھر کاعلم مجھ میں نہیں ہے۔ مگر اُنکی کہی باتیں اب بھی یاد ہیں ۔ اور وہی یاد مجھ سے لکھواتی ہے۔ اور زبان گنگ ہوجاتی ہے۔
خودداری بہت تھی غربت کا معاملہ پرائمری اسکول کے اُستاد تھے۔ کم تنخواہ ہم۔ بھائی بہن چار۔ پھر ایک چچا کا لڑکا اور ایک خالہ کی بچّی کو بھی گھر میں رکھاتھا۔ ایک پھوپی تھیں۔ بیوہ اُن کی آٹھ اولادیں۔ اُن کی تعلیم کا انتظام بھی اپنے سر لے رکھا تھا۔ باقاعدہ پھوپی کو پیسہ بھیجتے ہر ؛ماہ تاکہ اُنکو تکلیف نہ ہو۔ ہمارا سارا معاملہ اﷲ پر ڈال رکھتے۔ توکل کا عجیب عالم تھا۔ کہتے کل کا مت سوچو اﷲ دیگا۔ اور اﷲ دوسرے دن انتظام کردیتا۔ اسکول سے لوٹنے پر ایک دکان میں حساب کتاب کا کام دیکھتے اور رات میں جو بھی وہ دیتے اُس سے سودا سلف لاتے اور گھر چل جاتا۔بچپن تنگ دستی میں گذرا کبھی کبھی کپڑوں اور جوتوں کے لئے بھی مشکل آتی۔ شاید میں نے ہائی اسکول میں آنے کے بعد چپل پہنی ہے ۔ اُس سے پہلے جوتے نہیں دیکھے۔ مگر ایک واقعہ یاد ضرور ہے۔ شاید چوتھی جماعت میں تھی۔ اسکاؤٹ گرلز میں شامل تھی۔ ساری ورزش اور سارے آسن کرتی تھی۔ مگر سال کے آخر تک ابّا یونیفارم کے پیسے نہیں دے سکے۔ 26جنوری کو میونسپلٹی کے میدان میں ہمارا مظاہرہ تھا۔ 25جنوری کی شام کو آخری ڈرل ہو رہی تھی۔ سکاؤٹ ماسٹر نے مجھے باہر نکال دیا کہ کل کا پرچم کوئی اور پکڑے گی کیونکہ میرے پاس یونیفارم نہیں تھا۔ اور میں روتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔ میری وہ تقریر بھی منسوخ کر دی گئی جو مجھے میونسپل میدان میں کرنا تھی۔ میرے آنسو دیکھ کر پتہ نہیں کہاں سے اُنکی غیرت جاگی۔ بولے چل۔‘‘اور میں چل پڑی۔ بازار گئے سب سے اچھا اور مہنگا فراک میرے لئے خریدا۔جوتے لئے سفید، سفید ربن اور چوڑیاں بھی, پھر گھر آکر امّی سے کہا اسے رات میں نہلانا۔ صبح میں لے جاؤن گا ۔ صبح مجھے اسکول نہیں بھیجا گیا۔ ابّا مجھے لیکر میونسپل گراؤنڈ پہنچے۔ ہمارے اسکاوٹ گروپ کا مظاہرہ ہوا۔ دوسری لڑکی ۔ کپتانی کر رہی تھی ۔ میں حسرت سے دیکھتی رہی۔ پھر تقریر بھی کسی اور نے کی۔ ابّا نے میونسپل آفیسر سے خصوصی اجازت لی۔ اور میری بھی تقریر ہوئی اُن دنوں میں بہت چھوٹی اور کم قد کی تھی۔ اس لئے مجھے ایک میز پر کھڑا کیا گیا تھا۔ اورجب میری تقریر ختم ہوئی تو میدان میں تالیوں کی گونج تھی۔ وہ لمحہ تھا۔ اور آج ہوں اس کے بعد میرے اندر وہ اسٹیج فیر۔ڈر)کبھی نہیں آیا۔ اسکی وجہ میرے ابّا تھے۔
میں نے ایس۔ایس۔ایل۔سی۔ میں ٹاپ کیا تھا۔ اپنے ضلع کو۔ ابّانے پیڑے منگوائے۔ اور خوب بانٹے۔ ہمارے گھر سے کالج جانے والی پہلی لڑکی میں ہی تھی۔ مجھے پی۔یو۔سی میں داخلہ کے لئے گئے تو میں بہ ضدتھی سائنس لونگی۔ ابّا نے کہا کیا کرنا ہے۔ بس نہیں, جو آزادی دی ہے وہ کافی ہے۔ میں نے پی۔یو۔سی میں بھی ٹاپ کیا تھا۔ اور آج بھی اُس جگہ میرے نام کے بورڈس لگے ہیں۔ ابّا بہت خوش تھے۔ ڈگری کالج گھر سے پانچ کلو میٹر تھی۔ جانا آنا تکلیف کا معاملہ تھا۔ کبھی کبھی ابّا سائیکل پر لے جاکر چھوڑتے ,,,لڑکے میرا مذاق اُڑاتے۔ میں نے پھر چل کر جانا شروع کیا۔ مجھے یاد ہے پرنسپل نے کہا تھا۔ ’’ماسٹر لڑکی بڑی ہوگئی ہے۔ اُسے چلنے دیں کب تک سائیکل پر لاکرچھوڑیں گے۔‘‘ابّا کو ہم سب کی فکر لگی رہتی۔ ہم سب لڑکیوں کو آرٹس کروایا۔ اور لڑکوں کو سائینس,,, اس بات کے لئے ہمیشہ مجھے اُن سے شکایت رہی۔ ابھی ڈگری ۔ کے دوسرے سال میں تھی۔ نوکری مل گئی۔
بھائیوں کی پڑھائی کے لئے مجھے نوکری کرنی پڑی۔ مگر میری شادی بھی بہت جلد کردی گئی اُنکا یہ خیال تھا۔ لڑکیوں کی کمائی نہیں لینی ہے۔ میں نے اپنی باقی کی پڑھائی سسرال میں پوری کی۔…. ابّا بہت مہمان نواز تھے۔ بنا مہمان کے کبھی کھانا نہیں کھایا۔ جب بھی دوپہر گھر آتے تو کوئی نہ کوئی نمازی ساتھ ہوتا۔ ظہر کے لئے مسجد جاتے تو کسی مسافر کو ساتھ لے آتے جو گھر میں ہوتا۔ سامنے رکھ دیاجاتا۔ کبھی کبھی پچھلوں کو کھاناکم پڑجاتا۔ مگر مہمان کے بنا ابّا نے کھانا نہیں کھایا۔
علماء دین اور ادیبوں کے بہت عقیدت مند تھے۔ جو بھی گاؤں میں عالم یا ادیب یا قاری آتا۔ اُسے ہمارے ہی گھر میں ٹہرا یاجاتا۔ اور ہم پر سختی سے پردہ کا حکم لگایاجاتا۔ اور ہم نہ بلند آواز میں بات کرسکتے نہ ہنس سکتے نہ مستی کر سکتے۔ اُن دنوں بڑا غصّہ آتا۔ جانے کہاں کہاں سے لوگوں کو لے آتے ہیں۔ اور رات کابیان سنواتے ہیں۔ مگر آج اُن میں سے چار اولیائے کرام کی روضہ مبارکہ دیکھتے ہیں تو لگتا ہے۔ اﷲ نے کیسے کیسے بندوں کو ہمارے گھر ابّا کے توسّط سے ٹہرایاتھا ۔ وہ اولیاء کرام ابّا کے وقتوں میں ہمارے گھر مہمان تھے۔ اُن کی دُعائیں ہمارے گھر میں ہوتیں۔ اُنکے ہاتھ ہمارے سروں پر اور اُن کی دلی دعائیں شاید ہمارے حق میں قبول ہوئی ہیں۔ جو آج اﷲ نے ہم سب بھائی بہنوں کواس مقام پر رکھا ہے۔
ابّابہت محنتی۔ اور عاجزمزاج تھے۔ صبح گھر اور آنگن میں جھاڑو لگانا خود پر لازم کر رکھّا تھا۔ امّاں ۔ چونکہ اعلیٰ گھر سے تھیں۔اسلئے کبھی امّاں کو جھاڑولگانے نہیں دیا ۔ نہ گھر کا بیت الخلاء اور موریاں صاف کرنے دیں۔ کہتے میں پٹھان ہوں اور تمہاری امّاں شیخ اور سید گھرانے سے ہے۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ہم نے وہ کام سنبھال لئے ۔سیدوں اور شیوخ کا بہت احترام کرتے اور بہت عزت کرتے۔
مطالعہ کا بڑا شوق تھا۔ کبھی بھی جس شہر گئے وہاں سے کتابیں لے آئے۔ قرآن کے نایاب نسخے، اور نادر کتب آج ہماری لائیبریری کا حصّہ ہیں۔ صرف اسلئے کہ ابّا کا شوق تھا۔ 1952سے شایدہفتہ واری’’ انقلاب‘‘ کے تمام پرچوں کو جمع کر رکھّا تھا۔ اُس میں مولانا آزاد کی کتاب ’’ہندوستان نے آزادی حاصل کی‘‘ India wins freedom کی پوری کتاب قسط وار آئی تھی۔ اُسے جمع کر رکھّا تھا۔ بعد میں ہندوستان میں1977کی ایمرجنسی کے دوران اُس پر بابندی لگی۔ اور وہ کتاب قید میں رکھی گئی۔1984میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد راجیوگاندھی کے زمانے میں اُس کتاب کے آخری تیس صفحات کو کلکتہ کی لائبریری میں قید رکھ کر باقی کی کتاب آزاد کردی گئی۔
مگر وہ پوری کتاب ننگی حقیقتوں کے ساتھ آج ابّا کی وجہ سے میرے پاس ایک قیمتی اثاثے کی طرح موجود ہے۔ اورنگ زیبؒ ، ٹیپو سلطانؒ اور اقبالؒ کے شیدا تھے۔ بار بار اُنکی ساری تاریخ بتاتے رہتے۔اور واقعات سناتے رہتے….
ساری زندگی جب تک وظیفہ یاب نہ ہوئے کبھی کرسی پرنہ بیٹھے۔ بلکہ سارا دن ٹہر کر پڑھا تے رہے۔ جس دن وظیفہ ہوا اُس دن بڑے آزردہ تھے کہ اب بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا۔
ابّا کو سرکاری یا غیر سرکاری انعام کبھی نہیں ملا۔اُسکے برعکس ناکارہ اساتذہ جو آفسراں کی چمچہ گیری کرتے اُنکے انعامات ملتے۔ میں ہمیشہ شکایت کرتی یہ لوگ آپکو انعام کیوں نہیں دیتے۔ تو بڑی حلیمی سے جواب دیتے یہ لوگ مجھے کیا انعام دیں گے بیٹا! میرا انعام مرنے کے بعد دیکھنا۔‘‘ اُنکی یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہ آئی۔ آئی بھی تو اُس دن جس دن اُنکا جنازہ اُٹھا۔
ہم چاروں بہن بھائیوں نے اینگلو اُردو ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ جیسے ہی وظیفہ کے پیسے آئے۔ اُسوقت اینگلو اُردو ہائی اسکول کی عمارت بن رہی تھی۔ اُس وقت ہائی اسکول کے لوگ ابّا سے چندہ مانگنے آئے تھے۔ ابّا نے کہا پیسہ نہیں دونگا۔جو استطاعت ہوگی وہ سامان دلوادونگا۔ ہم چاروں کے نام سے ساگوان کے نقش و نگار سے بنے چار دروازے اسکول میں لگوائے کہ میرے چار بچّوں نے یہاں سے علم حاصل کیاہے۔ اُن دروازوں کو دیکھتی ہوں تو ابّا بے ساختہ یاد آتے ہیں۔
مسجد فیصل کی تعمیر کا وقت تھا۔ اُسوقت بھی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مسجد کی امانت کو بہت سنبھال کر رکھا اور خود مزدوربن کر مسجد کی تعمیر میں حصّہ لیا۔
ابّا کو بہت کم عمر میںیعنی 35سال میں ضیابطیس ہوگئی تھی۔ اُنکا غصّہ شاید اسی وجہ سے رہا ہو ۔ خوش لباس تھے ۔ سفید کپڑے پٹھانی شلوار سوٹ۔ کرتا اور ازار پہنا کرتے۔ پہلے سوٹ پہنتے بھی دیکھا ہے۔کھانا سادہ کھاتے۔ چاول بہت پسند تھے۔ چونکہ ساحلی علاقوں کی پیداوار تھے اس لئے مچھلی بہت شوق سے کھاتے۔ گائے کا گوشت پسند نہیں کرتے۔ بکرا یا پھر مرغی ہفتہ اتوار بن جاتی ورنہ مچھلی کا سالن اور چاول مرغوب غذا تھی۔ میٹھا بھی پسند تھا۔ مگر شوگر کی وجہ میٹھا نہیں کھا پاتے جسکا اُنھیں افسوس رہتا۔
ہم چاروں کی تربیت بڑی سختی سے کی۔ہم جب چھوٹے تھے تو ہمارے بال بنانا۔ ناخن کاٹنا ,لباس بدلوانا۔ نہلانا سب کام خود کرتے ۔ ہم بڑے ہوئے تو سکھاتے کس طرح رہنا ہے کیا کرنا۔ عبادات کے طریقے تسبحیات ۔ ذکر کا معمول ۔ قرآن کی تلاوت بچپن سے عادی بنادیا تھا۔ اُنکا مقولہ تھا ’’بچوّں کو چاہے سونے کا نوالہ کھلاؤ مگر شیر کی نگاہ رکھو تاکہ تربیت صحیح ہو۔’’تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی سختی نے آج ہم چاروں کو اچھا انسان بنایا ہے ورنہ اس پراگندہ ماحول میں جانے ہم راستہ بھٹکے کہاں ہوتے۔
میری سسرال میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ خودداری اتنی تھی کہ آتے خیریت دریافت کرتے اور بنا کھائے پئے نکل جاتے۔
اچھے وقتوں میں یعنی جب صحت اچھی تھی تو چھٹیوں میں کبھی کبھی جنگل میں شکار کے لئے چلے جاتے گھر میں دو نالی بڑی رائیفل تھی۔ جو اُنکی وفات کے بعد ہم نے پولس کو سرنڈر کردی۔ جنگلی، بھیسنا، ہرن، بارہ سنگھا ۔ خرگوش کا گوشت مہینے دو مہینوں میں ہم نے کھایا ہے۔ اُسوقت شکار کی مناہی بھی نہیں تھی۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ ندی کنارے مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے اور بڑی بڑی مچھلیاں بھی لے آتے ۔ امّی مچھلیوں کی صفائی کرتے کرتے پریشان ہوجاتیں۔
قوالی ۔غزلوں اور اردو شاعری کا بڑا شوق تھا۔ اپنی سطح پر بچّوں کے لئے تقاریری مقابلے ، نعت خوانی ، بیت بازی، قرات کے پروگرام کرواتے ۔مشاعرے کروانے اور ہر ادبی محفل میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔
مطالعے کا بہت شوق تھا۔ کئی کتابیں پڑھ رکھیں تھیں۔ اور نیند آنے تک پڑھتے رہتے۔
بذلہ سنج تھے۔ ادبی مذا ق کرتے ,چٹکلے سناتے۔ اچھا موڈ ہوتا تو کبھی کبھی قہقہ لگاتے ورنہ مسکراہٹ اور حلیمی چہرے پر واضح رہتی۔تاریخ اور حالات حاضرہ سے باخبر رہتے۔ اور بہت اچھے تجزیہ نگار تھے۔ خبریں سنتے… صبح سات بجے ، آٹھ بجے نو بجے، گیارہ بجے، دو بجے پانچ بج شام ساڑھے سات بجے آٹھ بجے اور رات نوبجے کی ریڈیو پر خبریں سننا معمول تھا۔ اور خبروں کا تجزیہ بہت گہرائی سے کرتے اور بتاتے کیوں ہوا کیا ہوا اور کیا ہونے والا ہے۔
اُردو ۔ عربی۔ کنڑی زبانوں کے علاوہ کونکنی ,مرہٹی اور سنکسرت پر بھی عبور تھا۔ گہرا مطالعہ اور بات دوراندیش اور بصیرت والی کرتے۔ کئی احادیثؐ بر موقع و محل سناتے استادوں کے کلام تو تقریباً ازبر تھے۔
آج کے اساتذہ کو دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے ۔ کہ ایک شعر ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکتے۔
مربی انسان تھے۔ سب سے خلق اور حسن اخلاق سے ملتے۔ بغض و عناد نہیں تھا۔ نہ مسلکی اختلاف رکھتے۔ ہمیشہ کہتے ۔ بیٹا انسان اﷲ کی مخلوق ہیں سب سے محبت کرو۔ ہم آدم کی اولاد ہیں۔ اﷲ کے بندے ہیں ایک رسولؐ کا کلمہ پڑھنے والے ۔ سب سے محبت کرو۔ یہ ہمیشہ سکھایا گیا۔ اور ہم اس پر قائم رہے اور ہیں۔
قوم کا بہت درد تھا۔ اور قوم کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے۔ سماجی سرگرمیوں میں بیداری کے کاموں میں علمی اور عوامی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے پکے کانگریسی تھے۔ اور ہمیشہ الیکشن کے وقت گھر گھر جاکر کہتے ووٹ متفق ہوکر ڈالو۔ اپنے ووٹوں کا بٹوارہ مت کر لو۔
اندراگاندھی کی امیرجنسی کے دوران جب مسلمانوں پر نسل کشی اور انسداد تخلیق کا عمل تیز ہواتو راتوں رات قرآن کی آیات لکھ کر انکی تشریح کرواکر خود بھی لکھتے ہم سے بھی لکھواتے اور بانٹتے کہ آپریشن کروانا حرام ہے۔ اولاد کا قتل گناہ ہے اس میں شامل مت ہو۔ اُس وقت پہلی بار جنتا دل کی حمایت کی۔ اور کانگریس ہار گئی ۔ 1984 ٗ ء میں اندراگاندھی کے قتل کے دن بہت اُداس تھے 1991میں راجیوگاندھی کے قتل کے دن بھی ہراساں ہوئے اور کہا اب تشدد پرستوں کی حکومت آنے والی ۔چھ دسمبر 1992 جس دن بابری مسجد گرائی گئی۔ اور اُنھوں نے ٹی۔ وی پروہ منظر دیکھا تو روئے۔ بہت روئے اور عصر کے وقت دعا مانگی یاﷲ ان گنہ گار آنکھوں کو ملک کی تنزلی کا تماشہ مت دکھا,اٹھالے۔ پھر بیمار ہوئے ۔ دسمبر کا مہینہ سرد گرم گذرا۔ جنوری کا مہینہ زرا بہتر ہوئے مگر وہ حوصلہ اور اُمنگ نہ تھی جو پہلے اُنکی طبعیت کا خاصہ تھی۔ پژمردہ رہتے۔ سوئے رہتے۔ تسبیح ہاتھ میں رہتی۔ اور ذکر میں مشغول رہتے۔ نماز اور تلاوت کے معمولات کبھی ترک نہ ہوئے۔ جب تک ہوش رہا نماز قضا نہیں کی۔
25جنوری کو اُنکی شادی کی بتیسویں سالگرہ تھی۔ میں میکے گئی تھی ۔ میں نے مذا ق کیا ابّا آج دیسی مرغ کی دعوت ہوکہا۔ آج نہیں کل کریں گے۔ مگر دوسرے دن 26جنوری تھی اور مجھے واپس دھارواڑ آنا پڑا۔
ستائس جنوری کو بخار کی وجہ سے ایڈمٹ کیا گیا۔ شوگر بھی زیادہ تھی۔ دو دن سلائین پر تھے۔ ڈاکٹر نے شوگر کی وجہ انسولین دینی شروع کردی مگرشوگرلیول چیک کرنا بھول گئے۔ 30جنوری ۔’’برین ڈیڈ ڈیوٹو اوور ڈوز انسولین‘‘ ڈاکٹرس کی غلطی۔ ،ﷲ کی مرضی۔ کو مامیں چلے گئے۔ پانچ دن کو ماکی حالت میں رہے۔ اور4فروری صبح پانچ بجکر بیس منٹ اذان کے وقت آخری سانس لی۔ جمعرات کا دن تھا۔ دس بجے گھر لایاگیا۔ چار بجے جنازہ اُٹھا ۔ قبرستان کے لئے ۔اور انکی وہ بات یا دآگئی ’’میرا انعام میرے مرنے کے بعد دیکھنا۔ اُن دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو اور اُن آنسوؤں کو جو میری مغفرت اور وصال کے دن بہیں گے۔”!!!
ڈانڈیلی کی سڑکیں جام تھی۔ لوگوں کاجم غفیر تھا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ آئے تھے۔ تل بھر پیر رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ مسلکی اختلاف تھا۔ حالانکہ ڈانڈیلی ایک ایسا شہر ہے جہاں پر مسلکی اختلاف تھا اوراب بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر مسلک اور ہر فرقے، یہاں تک کہ ہندو برادران تک نماز جنازہ میں شامل تھے۔ ابّا کے بعد جناب کلیم ﷲ خان کتور کا ایک جنازہ بھی ویسا ہی دیکھا۔ اور یقین آگیا ۔ اصل دولت دلوں کا جیتنا ہے سرکاری انعامات نہیں۔ اور ابّا ڈانڈیلی کے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے۔
میرے ابّا شاید دنیا میں نہیں ہیں۔ مگر میری ہر سوچ ، ہر سانس اور ہر بات میں ابّا کی بات، آواز اور خیال اور جذبے گونجتے ہیں۔
مجھے فخر ہے میں میرے ابّا کی بیٹی ہوں۔ اور اُنکی پرچھائی ہوں۔ اُنکی عادت ہوں۔ اُنکی چلتی پھرتی تربیت ہوں اور اُنکا دنیا میں چھوڑا گیا سایہ اور ورثہ ہوں۔ ﷲ میرے ابّا کو جوار رحمت میں رکھے اور اُنکی دعاوؤں کا سائیبان ہم پر بنا ےء رکھے۔ آمین
– – – – – – – –
پیدائش15ایپریل1926
وفات4فروری 1993
ملازمت1941 ء سمسی ۔ ہوناور۔ سے شروعات کی۔ پانچویں پاس تھے۔1964میں پرایئوئٹ یس یس سی کا امتحان پاس کیا 1957پونہ ٹریننگ کالج سے استاذی کی دوسالہ تربیت کا کورس کیا تھا
بھٹکل۔ منکی۔ بنواسی۔ ہلیال ۔ ڈانڈیلی. میں ملازمت کی اور ڈانڈیلی بنگور نگر ھایر پرایمری اسکول سے وظیفہ یاب ہوئے۔
وظیفہ یابی30اپریل1981ء بانگور نگر اُردو ھائیرپرائمری اسکول ہیڈ ماسٹر ۔ وظیفہ یابی کے بعد بارہ سال زندہ رہے ۔55سال میں وظیفہ یابی ملی۔ وفات کے وقت67سال کے تھے۔
اولادیں۔ مہرافروز۔ الطاف حسین خان۔ عطیہ خان۔ محمد ایاز خان
سات بھائی دو بہنیں
دو بیویاں۔ پہلی بیوی دو سال کے اندر فوت ہوگئی۔
دوسری بیوی۔ زبیدہ بیگم بنت عبدالرحمٰن ساکن ہلیال حیات ہیں۔
ذاتی جائیداد۔ ایک رہائیشی مکان۔ پانچ ہزار کتب اور چند کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑا۔
اُنکا چشمہ قلم ۔لاٹھی۔ بستر۔ اوڑھنا۔ جاء نماز اور تسبیح میں نے تر کے میں لی ہے۔ دُعا کی صورت باقی کچھ نہیں لیا۔
– – – – – – –
مہرافروز
الرّحمٰن۔ تیسرا مرحلہ کے۔ایچ۔ بی۔ کالونی
ڈی۔ این۔کوپ – دھارواڑ580008
9008953881
۷ thoughts on “خا کہ : میر ے ابّا – – – – مہرافروز”
آپ بہت اچھا لکھا ہے لگ رہا تھا کہ میں دیکھ رہی ہوں میرے بابا بھی قریب قریب کچھ ایسے ہی تھے آپ نے تو مجھے آج رولا دیے ہیں آپ کو کلجگ نے چاہتے ہوئے بھی میرے جذبات احساس اتنی مرغوب ہوگئی ہوں کہ لکھ نہیں پا رہی بس آپ کو دل کی گہرائیوں سے سلام عرض کررہی ہوں جیتی رہیں سدا خوش رہیں اپنے والد کی تربیت و تعلیم سے زمانہ کو سیراب کرتی رہیں
مہر افروز صاحبہ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے اپنے والد کا خاکہ اس انداز میں پیش کیا کہ پوری تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ آپ کی اپنے والد سے محبت اور عقیدت کا جیتا جاگتا ثبوت اردو ادب میں اپنی جگہ محفوظ کرلے گا۔ آپ کے تحریر کردہ خاکے کو پڑھنے کے بعد بزرگوں کا وہ مقولہ سچ ثابت ہوا کہ بیٹی زندگی بھر بیٹی رہتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کے والد کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔
واہ ایک بیٹی نے بہت خوبصورت انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ھے پڑھتے پڑھتے آنکھ میں آنسو آگئے مجھے میرے والد صاحب یاد آگئے
جو ٤ سال پہلے فوت ھو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ وقت بہت بڑا مرہم ھے لیکن نہیں اس دکھ اس غم پہ کوئی مرہم اثر نہیں کرتا
مجھ پہ بیت رہی ھے مجھے اس دکھ کا اندازہ ھے مجھے تو صرف ٤ سال ھوئے ہیں آپکی ہمت کو داد دیتا ہوں کہ ٢٢ سال سے اس دکھ کو جھیل رہی ہیں ۔ اللہ پاک آپکے والد محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔۔ آمین
سلام عرض ہنے .واقعی بڑا عمدہ خاکہ ہنے . خاکہ میں جزبات کی عکاسی بے مثال ہنے ،،الفاظ کی روانی لا جواب ہنے ،اندازبیان بھی دل کو چھو لیتا ہنے ،،اور تھوڑی دیر کے لے عقل ٹھر جاتی ہنے .دل بھر آتا ہنے .اللہ ہر لڑکی کے نصیب میں آپکے والد جیسی شخصیت کا رول ادا کرنے کا مادہ پیدا کرے ، کہ پھر اور ایک مہر افروز جیسی ہو نہار ،زیرک ،محنتی ،مخلص ،انسانیت پرست ،ادب پرست ،اردو کی شیدا ی ،ایک بہترین معلمہ پیدا ہو ،تاکہ قوم و ملت کی ،خصوصا طلباء و طالبات کی رہنمای کر سکے ،،،صد آفریں ،،اللہ آپکے والد محترم کی قبر کو نور سے بحر دے ،،،امین ،،،ویسے اپکا اثاثہ بڑا جاندار و شاندار ہنے ،،جو تمام مضمون پر بھاری ہنے ،،یہ جملے بڑا اثر چھوڑ گے ہیں …چراغ ھبلوی ،،دھارواد .کرناٹک ،،انڈیا ،،
ایک بیٹی کے احساسات کو بہت ھی عمدہ سلیقہ سے ضبط تحریر میں لایا ھے Mehar Afroz آپی آپ نے اور آپ نے اس بات کو اور بھی تقویت دے دی کہ باپ سے سب سے زیادہ قریب بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیاں ھوتی ھیں اسی لئے تو زیادہ تر باپ اپنی بیٹیوں کو ‘ مما ‘ کہہ کر پکارا کرتے ھیں رھی بات آپکے والد محترم کے اچھے اور عظیم انسان ھونے کی تو یہ سارے گُن آپ میں منتقل ھوگئے ھیں ۔۔۔ اللہ آپکے والد محترم کے درجات بلند فرمائے اور آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین ۔۔
محترمہ مہر افروز۔ بیٹی باپ کیلئے ایک نعمت غیر مترقبہ تو ہے ہی۔لیکن آ پ نے جس چاہ سے لکھا ،وہ اشکبار کر گیا۔ اللہ آپکا گھر ٹھنڈے چشموں کے کنارے آباد رکھے۔
مہر افروز صاحبہ ۔۔۔خاکہ پڑھ کر آنکھیں بھر آئیں ۔آپکے ابّا ایک اسکول تھے ،ایک مدرسہ تھے ایک رہنماء کے علا وہ دنیا کے لئے ایک مثال تھے ۔اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے (آمین )
آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ نے انکی تر بیت پائی ۔سلا مت رہیں