شادی : سیج سے سیج تک – – – علامہ اعجازفرخ

Share

indian bride

زندگی بھر وہ رات یاد آئی : سیج سے سیج تک
حیدرآباد کی شادیاں ماضی کے آئینہ میں

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612
ای میل :
– – – – – –
نوٹ : شادی بیاہ کے رسم ورواج سے متعلق علامہ اعجاز فرخ کا ایک دلچسپ مضمون پیش خدمت ہے ۔رسم و رواج ‘ کسی بھی ملک ‘ علاقہ ‘ زبان اور قوم کا تہذیبی و ثقافتی اثاثہ ہوتے ہیں۔اس مضمون کو اسی حوالے سے پڑھا جاے اس لیے کہ تہذیب و ثقافت ہمارا اثاثہ ہے۔
– – – – – –
ہروجود کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔ اسی طرح حیدرآباد کی بھی ایک منفرد شناخت ہے۔ چار مینار، جس نے حیدرآباد کو ادھورا نہیں دیکھا بلکہ مکمل دیکھا ہے۔ چار مینار نے اپنے معمار کے دل کی وہ دھڑکنیں بھی سنی ہیں، جو موضع چنچلم کی الھڑ دوشیزہ کے سینے سے لگ جانے کے بعد پرسکون ہوجاتی تھیں تو ساتھ ہی اس دوشیزہ کی ہلکی ہلکی لرزش کو بھی محسوس کیا ہے، جس کا جی آسودگی کے بعد سرشاری کے عالم میں خود اپنے وجود سے شرما کر سمٹ جانے کو چاہے، جیسے بھونرا کلی کو چوم کر پرواز کرجاتا ہے تو دیر تک ٹہنی تھرتھراتی ہے۔ کون جانتا ہے کہ چار مینار کے سنگ و بست میں کتنی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔

شاید سارا قصوراس پسلی کا ہے جسے قدرت نے آدم کے جسم سے الگ کرلیا۔ پھراسے نازوادا کی اٹھان دے کرآرزوؤں کے جھولے میں جھلایا۔ شاخ گل کی انگڑائی اوربہاروں کا سراپا دے کرمعطر کردیا تب وہ زمین پر تو اتر آئی، لیکن اسی لمحہ سے چراغ کو طاق تمنا کی اور طاق تمنا کو چراغ کی آرزو ہے کہ جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ اگر یہ آرزو نہ ہوتی تو پھول، خوشبو، تتلی، رنگ، شفق، دھنک، چاند، گھٹا، سر، تال، نغمہ، گیت، برکھا، برہن، نین، پریت، جھیل، افق، کشتی، پتوار، میت، سکھی، ساجن، ملہار سب بے معنی ہو کر رہ جاتے۔ اس لئے انسان کے لئے سب سے دلکش اور دلفریب تقریب شادی ہے۔ شادی چاہے دنیا کے کسی خطے میں ہو، بہر حال ایک رومانی تقریب ہے۔ لیکن ہر خطہ اور ہر طبقہ کے اعتبار سے اس میں بعض رسوم اور طور طریقوں نے اس کو رنگا رنگ کر کے زندگی کے ایک یادگار لمحے میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ مثلاً منگنی ہندوستانی رسم ہے۔ ایران میں شادی سے پہلے عقد کردیا جاتا تھا اور پھر رخصتی سال چھ مہینے بعد ہوتی۔ اس دوران لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملاقات کرتے، لیکن یہ احتیاط ملحوظ رکھی جاتی کہ مقاربت نہ ہو اور اگر مزاجوں میں فرق پایا جاتا تو نوبت طلاق تک آپہنچتی۔ حیدرآباد میں یہ بات انتہائی معیوب رہی ہے کہ رشتے یوں منقطع کر دئیے جائیں۔ اس لئے منگنی کی رسم رکھی گئی کہ سال چھ مہینے منگنی رہے اورلڑکے کو بھی خیال رہے کہ وہ منسوب ہوچکا ہے اورسسرال کے مزاج سے لڑکی بھی آشنا ہوجائے کہ بعد میں ماحول کی تبدیلی کو وہ آسانی سے قبول کرسکے اور یوں بھی شادی سے پہلے خوابوں کے تانوں بانوں کے دن کبھی کٹھن کبھی سہل، کبھی سہیلیوں کی شوخیاں اورچھیڑچھاڑ اورکبھی بند پلکوں کے پیچھے جاگتی آنکھوں کے خواب بن کر گزرجاتے۔ پیاس بڑھ جاتی۔ کبھی کبھی کسی تقریب میں دانستہ نادانستہ کوئی چھپ کے نظرآجاتا یا نظرآکرچھپ جاتا تو فقط لہرا کرگزر جانے والے دوپٹے کا رنگ ہی کئی راتوں کی نیند چرا کے لے جاتا۔ آن بان کا شہرحیدرآباد، جو بہ یک وقت پرانی روایتوں کا امین بھی ہے اورجدت و اختراع کا مظہر بھی، یہاں کی شادیاں اپنے رسم و رواج کے اعتبار سے اتنی پرکشش ہوتی تھیں کہ جہاں ایک خانہ آباد ہوتا، وہیں ہر دل شاد ہوتا۔ رسوم بے مقصد نہیں تھے، عزیز و اقارب خواہ امیر ہوں یا غریب، بلا امتیاز ذات ہی کا حصہ سمجھے جاتے، سب کے لئے سوغات ہوتی، مگر غیر بھی فیضیاب ہوتے۔ نوکر، چاکر، سائیس، کہار، منشی، داروغہ ،اصیل، خادمہ، مغلانی، ماما، کنیز، خواص، انائیں، دوائیں، قلما قلنیاں، جسولنسیاں خواجہ سرا اگردیوڑھی کے اندر حصہ پاتے تو باہر بھی جوہری، سادہ کار، بزاز، خیاط، فرّاش، قلعی گر، نجاّر، منیہار، عطار، گل فروش منہ مانگا معاوضہ اور حسب حیثیت انعام پاتے۔ رشتے عموماً قرابتوں یا ہم منصب خاندانوں میں ہوتے۔ لڑکے لڑکیاں دونوں خاندانوں کی دیکھی بھالی ہوتیں۔ لیکن اگرقرابتوں سے ہٹ کر بھی رشتے ہوتے تو مشاطہ کی بن آتی۔ مشاطہ ایک طرف لڑکی کی تعریف کرتی تو اسے حورشمائل، خوش سلیقہ، شرم و حیاء کا پیکر، تہذیب و اخلاق کا مجسمہ اور امور خانہ داری میں طاق ثابت کرنے میں طاق ہوتی تو دوسری طرف لڑکے کو آدھا ملک سلیمان کا مالک، مردانہ وجاہت کا نمونہ، نجیب الطرفین، وضعدار، بامروت، مہذب اورخود دار ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ رکھتی اوردونوں سے چاندی سمیٹتی۔ جب رشتے مناسبت کی حدود میں داخل ہوجاتے تو کبھی کبھی بردکھاوے کی رسم بھی ہوتی۔ صاحبزادے بن ٹھن کر ٹوئڈ کی شیروانی، چوڑی دار پاجامہ، سلیم شاہی جوتا، نوک پلک سے تیار اپنے مخصوص احباب یا پھر خاندان ہی کے ہم عمرلڑکوں کے ساتھ دلہن والوں کے ہاں پہنچ جاتے اورایسی جگہ بٹھائے جاتے، جہاں دور چلمن کی اوٹ سے خاندان کی ذمہ دارخواتین بھی ایک جھلک دیکھ پائیں اورپھربیگم صاحبہ کومبارکباد دی جاتی کہ داماد مبارک ہو۔ چشم بد دورچاند سورج کی جوڑی ہے اور خاطر تواضع کے بعد زنان خانہ سے خاص دان میں سونے کے ورق میں لپٹا ہوا پان رکھ کر آتا تو گویا منظوری کی سند مل جاتی۔ البتہ لڑکی کو پسند کرنے کا رواج اس طرح نہ تھا۔ کسی محفل یا تقریب میں کسی بہانے لڑکی دیکھ لی جاتی کہ کسی وجہ سے پسند نہ آئے تو گراں نہ گزرے اور آنکھوں آنکھوں میں محاسن اور نقائص چن لئے جاتے۔ اس کے بعد باقاعدہ دولھا کے گھرسے لڑکی کے لئے رشتہ مانگا جاتا تو بخوشی منظور کیاجاتا اور منگنی کے لئے کوئی تاریخ طے کرلیجاتی۔ بعض خاندانوں میں استخارہ کا بھی رواج تھا کہ سلسلہ جنبانی سے پہلے استخارہ کر لیا جائے کہ اس میں اللہ کی مرضی بھی شامل ہوجائے۔ امیر، غریب، رئیس، نادار کسی کے پاس لین دین کی گفتگو نہ ہوتی، بلکہ اشاروں کنایوں میں بھی معیوب ہوتا۔ آج لڑکی دیکھنے سے پہلے جہیز کی فہرست تفصیل سے دیکھی جاتی ہے۔ اخبار میں ضرورت رشتہ کے ساتھ شادی کے معیار ہونے کا اشتہار بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور پھر لڑکی کو بازار کی کسی جنس کی طرح ناپ تول کریہ الزام خدا کے سر رکھ دیا جاتا ہے کہ استخارہ منع آیا ہے تو سوچتا ہوں کہ ’’لوگ زندگی تو فرعون کی گزارتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عاقبت موسی جیسی ہو۔‘‘
مانجھے، سانچق، مہندی مغل شہنشاہ اکبر کے دور سے ہندوستانی شادیوں کی رسم بنی ہیں۔ مانجھے کی تقریب کیا آتی بسنت کی رت چھا جاتی۔ پہلے سہاگنیں ہلدی پھوڑتیں، پھر سات سہاگنیں چکی میں ہلدی پیستی ہوئی چکی کے گیت گاتیں اور پھر سارا گھرزرد پوش ہوجاتا۔ لباس زرد، فرش زرد، کلائیوں میں زرد چوڑیاں ڈھولک کے تھاپ کے ساتھ کھنکتیں تو سازندوں کے سازچپ ہوجاتے اور نقرئی ہنسی کے بیچ راگ اور الاپ تھم جاتے کہ نہ جانے کس ہنسی کا ترنم کس سرسے پیار کرتا ہے۔ لڑکی کو عود، عنبر، اگر، موتیا، صندل، موگرا، گلاب کا ملا جلا ابٹن ملا جاتا اور بدن کی کوری صراحی ان خوشبوؤں کو سمیٹ کر اپنے وجود کی خوشبو بکھیر دیتی تو لباس اور پیرہن کے اترن کی خوشبو حوریں سمیٹ کر لے جاتیں کہ آخر کنوار پن کی خوشبو انھیں بھی تو چاہےئے نا۔ جس کمرے میں لڑکی کو مانجھے بٹھلایا جاتا، وہاں فرش بھی زرد ہوتا، بلکہ دلہن کے آرام کے لئے جو نواڑی پلنگ ہوتا، اس کی نواڑ بھی زرد اور چادریں بھی بسنتی ہوتیں۔ ہاں پلنگ کے چاروں پیروں پر چاندی مڑھی ہوتی۔ ہلکے زردوزی کے زرد کپڑے پہنائے جاتے۔ دن بھر دلہن کی ہمجولیاں کمرے میں گھسی رہتیں۔ ہاتھوں اور پیروں میں مہندی کے گل بوٹے نت نئے طرز سے یوں سجائے جاتے کہ جلوے کے وقت جب دلہن کی ہتھیلی میں مصری کی ڈلی رکھ کر دولھا سے پوچھا جائے کہ مصری میٹھی یا دلہن میٹھی؟ تو وہ یاقوت کے تراشیدہ ہاتھ کے بیچ عدن کے موتی کو دیکھ کر یہ بھول جائے کہ مصری کو میٹھی کہنے کا دن تو شام ڈھلے دبے پاؤں یوں گزر گیا کہ آہٹ بھی نہ سنائی دی۔ مانجھے کی رات کو تمام رات رت جگا ہوتا۔ بالائی اور خشک میوے کو ملیدے میں گوندھ کر فجر سے پہلے مسجد کے طاق بھر دئیے جاتے کہ اللہ کے گھرسے ہرخاص و عام تک حصہ پہنچ جائے۔ رت جگے کی پوریاں اور کھیر میں مغزیات پر سونے چاندی کے ورق چھوٹے لڈوؤں کی شکل میں بڑے بادیہ میں بھر دئیے جاتے۔
حیدرآباد میں ڈوم ڈومنیوں کا رواج نہیں تھا۔ مگر کوئی تقریب میراثن کے بغیر پوری نہ ہوتی۔ ہر گھرانے اور دیوڑھی کی پشتینی میراثنیں ہوتیں، جو شادی کے آغاز ہی سے بلوائی جاتیں اور ڈھولک کی ڈوری کسنے سے جو نیگ کا سلسلہ شروع ہوتا تو قدم قدم پر اتنے نیگ بٹورے جاتے کہ سمیٹنے والوں کا دامن تو بھر جاتا پردینے والوں کا ہاتھ نہ تھکتا۔ گیت تو گیت ہیں، دبی دبی آرزوؤں کا اظہار بھی۔ مسرتوں کے جھرنوں کا آبشار بھی۔ میراثن کی مخروطی انگلیاں جب ڈھولک کی تھاپ پرپڑتیں اور گلے سے گیت کا سر پھوٹتا تو جہاں کئی دل دھڑکنا بھول جاتے تو بعض دلوں کو دھڑکن بھی مل جاتی۔
سانچق عقد سے دو دن پہلے ہوتی، جس میں دولھا کی طرف سے دلہن کو چڑھاوے کی سوغات بھیجی جاتی، جس میں حسب حیثیت چڑھاوا ہوتا، لیکن کم سے کم دو سیٹ ضرور ہوتا۔ ایک صرف سونے کا جس میں چندن ہار، جھمکے، کنگن، انگوٹھی تو دوسرا شادی کے جوڑے کے ساتھ پہنا جانے والا ست لڑا، گلوبند، لرزک، جھومر، کان کے لئے آویزے، بالیاں، جھمکے، کرن پھول، تنکے، گلے کے لئے چمپاکلی، زنجیر، نوسرہار،گلو بند، طوق، ٹھسی، ست لڑا، جڑاؤ نیکلس، بازو پر بازو بند، سمرن کمر کے لئے کمر بند، انگلیوں میں انگشتریاں، پیروں میں پازیب، جھانجر، بچھوئے۔ بعض رئیس گھرانوں میں درغلطاں کی مالا اگردی جاتی تو بہت قیمتی زیور ہوتا۔ در غلطاں اس موتی کو کہتے ہیں جو آب و تاب اور گولائی میں اتنا سڈول ہوتا ہے کہ اگر کسی چکنی سطح پر رکھ دیا جائے تو مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔ اس زمانے میں بن مانگے بھی درشہوار اور درغلطاں جیسے موتی مل جاتے تھے، آج مانگنے پر بھی اتنی بھیک نہیں ملتی۔
لباس میں جو کپڑے استعمال ہوتے وہ کمخواب، اطلس، زربفت، کھیوا، بنارسی ریشم، کامدانی، آری، زردوزی، مقیش اور سلمی ستاروں کے نازک کام سے مزین ہوتا۔ ان تمام ملبوسات میں اصلی سونا چاندی استعمال ہوتا۔ شادی کے دن سہاگ کا جوڑا عموماً کھیوے کی کرتنی، چولی، پاجامہ، کھڑا دوپٹہ اور گھونگھٹ پر مشتمل ہوتا اور اس میں بھاری زردوزی کے ساتھ سانچے موتی ہوتے۔ ان کے ساتھ ہی چوڑیوں کے کئی جوڑے ہوتے، جن کے نگینوں کا انتخاب لباس کے رنگوں کے ساتھ ہوتا۔ لیکن ان کے ساتھ سبز رنگ کی چوڑیوں کا جوڑا بھی ہوتا۔ جو رخصتی کے وقت پہنایا جاتا۔ اسے کھوبڑے کا جوڑا بھی کہا جاتا تھا، جو لاکھ اور سونا بائی کا بنا ہوتا تھا کہ کھنکے بھی کم کم اور ٹوٹ جائے تو چبھن کا احساس بھی نہ ہو۔ چوتھی کی صبح جب پیش باندھی دلہن کے بستر کی شکنیں درست کرنے کے لئے جاتی تو چپکے چپکے ٹوٹی ہوئی کرچیاں چن کر آنچل میں باندھ لیتی، لیکن آنکھوں میں جھلملاتے خواب کو پلکوں کے کسی شکن میں ڈھانک لیتی کہ خود اس کی کلائیوں کی چوڑیاں کبھی اپنی مرضی سے کھنکی تو نہیں پر اپنے ہی اشارے پر چپ ہوجاتی ہیں۔ زیور، جہیز، لباس، رتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے کم زیادہ ہوجاتے، لیکن اقدار، رسوم اور روایات اپنی جگہ برقرار رہیں۔ سانچق میں دلہن کے لئے بری کے نام پر فوا کہات خشک میووں اور مٹھائیوں کے کئی خوان بھجوائے جاتے۔ بعض مرتبہ ان خوانوں اور بانس کے بنے چوکھوں پر سجے ہوئے گھڑوں کی تعداد سو، سوا سو تک بھی پہنچ جاتی اور گیس کے ہنڈولوں کے بیچ تاشہ مرفہ کے ساتھ رات کے وقت جب راستوں سے سانچق گزرتی تو ہر جھرو کے اور دریچے کے پاس لہراتے آنچل اور چلمن کی ٹوٹی ہوئی تیلی کے بیچ سے کبھی امیدوں کے اور کبھی یادوں کے روشن چراغ دکھائی دیتے کہ شاید کبھی خوابوں کا شہزادہ یہ سوغاتیں لے کر ادھر بھی آنکلے۔
شادی میں مہندی کی تقریب جسے حنا بندی بھی کہا جاتا ہے، سب سے شوخ اور توبہ شکن تقریب ہوتی تھی۔ دلہن کے گھر سے چند سہاگنوں کے ساتھ ساری لڑکیاں سالیاں بن کر دولھا کو مہندی لگانے پہنچ جاتیں۔ دولھا کو طرح طرح سے چھیڑتیں۔ ان میں کوئی الھڑ جوان، کوئی نوجوان، کوئی بالکل ہی دھان پان، کسی کی ناک میں ہیرے کی لونگ، کسی میں نیم کا تنکا، کوئی سروقد، کوئی بوٹا سا قد، کوئی سانولی، کوئی سلونی، کوئی چمپئی، کوئی شوخ، کوئی چنچل، کوئی زلف بردوش، کوئی زلف زیر کمر، کوئی سیماب صفت، کوئی نسیم سحر کی طرح سبک خرام، کوئی ندی کی طرح بل کھاتی ہوئی، کوئی جھیل کی طرح پرسکون، کہیں غربت میں بھی جھلکتا ہوا حسن جہاں سوز، کہیں اطلس و کمخواب کے پیچھے بھی آرزوؤں کے بجھتے چراغوں کی ٹمٹماتی لو کہ شاید کوئی دست طلب چراغوں کی لو بڑھادے کہ ماتھے کی لکیروں میں اگربابل کا گیت نہیں تو وداعی کی سسکی ہی سہی، مگر کلی کے چٹکنے کی آواز تو ہو، کہ حسن فقط بدن ہی پر نہیں اندر کے انسان میں بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں دولھا کی بہن بھائی کے سر پر دوپٹے کا آنچل ڈالے سبک خرامی کے ساتھ بھائی کومہ وشوں کے جھرمٹ میں بٹھا کر خود پیچھے کھڑی رہتی۔ سراپا گیتوں کی لہک آرزوؤں کے آسمان کو چھولیتی۔ جو سالی دولھا کو مہندی لگاتی اس کے اور دولھا کے بیچ ایک مہین پردہ لڑکیاں تھامے رہتیں، گویا ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔ سانچق دراصل اسی مہین پردے کو کہتے ہیں، بعد میں یہ رسم اسی نام سے موسوم ہوگئی۔
نکاح اور رخصتی عموماً ایک ہی دن میں ہوتی۔ کہیں نکاح صبح میں ہوتا کہیں شام میں۔ جہاں عقد صبح میں ہوتا وہاں دعوت طعام از صبح تانصف النہار ہوتی اور شام کی تقریب میں عشائیہ ضروری ہوتا۔ عقد صبح میں ہو یا شام میں برات کا اہتمام گھنٹوں پہلے سے شروع ہوتا۔ پھر بھی کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوجاتی۔ دولھا کو عموماً بڑے بہنوئی تیار کرواتے۔ داہنے بازو پر امام ضامن باندھ کر گلے میں سانچے موتیوں کا ست لڑا۔ پہنایا جاتا۔ دستار زیب سر ہوتی۔ پھولوں کی بدھیاں، ہار، بازو بند، کلائیوں کے گجرے، سرپیچ، دستار بند اور آخر میں سہرا باندھنے سے پہلے اسے قبلہ رخ کسی دیوار کو لگا نو نشہ کے سر پر باندھا جاتا۔ نوشہ کی برآمدگی سے قبل باہر نوبت پر شہنائی شاہی سواری کے برآمدی کی دھن سے استقبال کرتی۔ اس مختصر مضمون میں اتنی گنجائش نہیں کہ میں بارات کی تفصیل لکھ سکوں۔ بہر حال سجی ہوئی گھوڑی پر جو عموماً سفید، بلند قامت اور بے عیب ہوتی، کمر میں خاندانی تلوار لگائے نوشہ سوار ہوتا۔ ایک اور گھوڑی پر دولھا کا چھوٹا بھائی گلے میں ہار ڈالے شہ والا بن کر سوار ہوتا۔ آگے آگے نوبت، اس کے پیچھے تاشہ مرفہ، درمیان میں مشکی بینڈ اور آخر میں دف ٹھلیا اور ڈھول لئے حبشی برہنہ شمشیروں کے ساتھ رقص کناں ہوتے۔ امراء اور رئیسوں کی شادی میں خال خال تخت رواں بھی ہوتا، جس پر ایک طرف سازندے اور دوسری طرف رقاصہ اپنے بھاؤ دکھلاتی۔ نوشہ کے پہلو میں مورچھل بردار، ساتھ میں براتی۔ بزرگ بگھیوں میں اور نوجوان پیادہ بارات کے ساتھ چلتے اور کشاں کشاں گھنٹوں میں یہ بارات دلہن کے گھر پہنچ جاتی۔ مہمانوں کا شایانِ شان استقبال ہوتا۔ ایجاب و قبول میں کبھی کبھی زر مہر پر تھوڑی سی ردوقدح ہوتی اور بالآخر نوشہ یہ سوچ کر کہ جس کے ہاتھوں زندگی ہاردی، اس سے اب سودا کیا! اپنی ہاں کر دیتے اور قاضی صاحب قلعہ محمد نگر اپنی طویل ریش مبارک میں انگلیاں پھیرتے ہوئے خطبہ نکاح انشاء فرما دیتے۔
طعام خانے میں سجی ہوئی چوکیوں پر انواع و اقسام کے کھانے چن دئیے جاتے۔ لقمی، سیخ کباب، بوٹی کباب، ران مسلم، پتھر کا گوشت، دم کا گوشت، لگن کا گوشت، بھنا ہوا گوشت، ماہی مسلم، مرغ مسلم، تیتر، بٹیر، چوگوشتہ پلاؤ، سادہ پلاؤ، نورتن پلاؤ، دو گوشتہ بریانی، ورقی پراٹھے، باقر خانی، شاہی قورمہ، بگھارے بیگن، ہری مرچ کا سالن، دہی کی چٹنی، متنجن، زردہ، گل فردوس، حب کے لوز، جوزی حلوہ اور دیگر لذتیں کام و دہن کا لطف دوبالا کرتیں۔
چوتھی صرف قریبی عزیز اور رشتہ داروں کی تقریب ہوتی۔ جب چھوٹے سالے اور سالی کے ساتھ چوتھی کی دعوت کہلوائی جاتی اور ان کی گلپوشی کے ساتھ جب دعوت قبول کر لئے جانے کی خبر دلہن کی ماں کو پہنچتی تو فخر و انبساط سے چہرہ سرخ ہوجاتا کہ تربیت کی اٹھان اور دودھ کا اثر اسی لمحہ رنگ دکھاتا ہے۔
چوتھی کی تقریب تھوڑی سی بے تکلف ہوتی۔ دلہن سبز زردوز لباس اور زمردی نگینوں میں شرمائی سی، سمٹی سمٹائی سی، پیشانی پر شرم و حیاء کا عرق، بند پلکوں کے پیچھے خوابیدہ بیداری کا خمار، ہونٹوں پر آسودگی کا تبسم، چہرے پر سہاگنوں کا وقار لئے حسن کے اس دہکتے نگینے کے آگے ساری کائنات کے جواہرات ماند دکھائی دیتے۔ دلوں سے دعاء نکلتی ’’چاند سورج کی جوڑی آباد رہے شادرر ہے، دودھوں نہائے پوتوں پھلے‘‘۔
آج کل رات کے سناٹے میں چار مینار کے بوڑھے وجود کو کوئی چیخ سنائی دیتی ہے۔ کسی ساس نے بہو کو جہیز کے لئے زندہ جلادیا۔ پھر کوئی چیخ سنائی دیتی ہے کہ کسی ہوس پرست نے اپنے ہاتھوں سے اپنی بیوی کا گلا گھونٹ دیا کہ وہ مطلوبہ جہیز نہ لاسکی۔ تو چارمینار کی بوڑھی پلکوں پر آنسو لرز کر رہ جاتے ہیں۔ ٹپکتے اس لئے نہںے کہ کہیں زمین شق نہ ہوجائے، آسمان پھٹ نہ پڑے۔ دور گولکنڈہ کے کھنڈر سے سسکیاں ابھرتی ہیں ’’پیا باج پیالہ پیا جائے نا‘‘۔ کسی ویرانے سے اکتارہ کے ساتھ کوئی درد بھری لے میں الاپتا ہے ’’گوری سوئی سیج پرمکھ پر ڈاروکھیس‘‘۔ پھر کسی مسجد کا مؤذن اذان دیتا ہے کہ کبریائی اللہ کے لئے ہے۔ پھر کسی دلہن کے جنازے پر سرخ گلاب کے پھول رکھ دئیے جاتے ہیں۔ سیج سے سیج تک۔ سارا قصور اس پسلی کا نہیں تھا جو آدم کے وجود سے الگ کر کے اس زمین پر بھیجی گئی تھی اور جس کے طاق تمنا کو چراغ کی آرزو تھی، بلکہ سارا قصور اس باپ کا تھا جو اپنی بیٹی کو جہیز میں کفن دینا بھول گیا تھا۔

Aijaz Farruq

Allama Aijaz Farruq
,18-8-450/4 ,SILVER OAK, EDI BAZAR
NEAR SRAVANI HOSPITAL ’HYDERABAD- 500023
Mob.: +919848080612۔ ۔ afarruq[@]gmail.com

Share

۱۱ thoughts on “شادی : سیج سے سیج تک – – – علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share