غبارخاطرکے خطوط میں ابوالکلام آزاد کی انشا پردازی
ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی
صدرشعبہ اردو‘ گری راج گورنمنٹ کالج ۔ نظام آباد
– – – –
مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے ایک عظیم صحافی‘سیاست دان اور نامورصاحب طرزانشا پردازگذرے ہیں۔ انہوں نے روایتی طورپرکسی مدرسہ ‘کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اپنے والدین اوراساتذہ کی تربیت اورذاتی مطالعے سے ایسی استعداد پیدا کر لی تھی کہ وہ اردو ادب کے ایک منفرد انشا پرداز بنے۔ ان کی انشا پردازی کی جھلک ان کی تحریروں اورخاص طورسے ان کی مکتوب نگاری میں جھلکتی ہے۔یہی وجہہ ہے کہ حسرت موہانی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
اسی طرح سجاد انصاری نے ان کے منفرد اسلوب نگارش کے بارے میں کہا تھا کہ’’ اگرقرآن اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر یااقبال کی نظم منتخب کی جاتی۔
مولانا آزاد کا ایک اہم نثری کارنامہ ان کے مکاتیب پر مشتمل کتاب ’’ غبار خاطر‘‘ ہے۔غبار خاطر کہنے کو تو مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے لیکن اس کے طرز نگارش سے بعض لوگوں نے اسے مضامین کا دفتر کہا‘کسی نے ان خطوط میں روزنامچہ کی خصوصیات تلاش کیں اور کسی نے اس میں خود کلامی یا خود نوشت نگاری کی خصوصیات پائیں۔لیکن چونکہ خود صاحب تحریرمولانا آزاد نے انہیں خطوط قراردیا تو یہ خط ہی کہلائیں گے چاہے ان میں اردو نثرکی کسی صنف کی کچھ خصوصیات پائی جائیں۔تاہم غبارخاطرکے خطوط میں پائی جانے والی انشا پردازانہ صفات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خطوط کم اور انشائیے زیادہ ہیں۔ انشائیہ کی تعریف میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ کسی بھی موضوع پر ہلکے پھلے انداز میں لکھی ہوئی تحریر انشائیہ کہلائے گی جس میں مصنف کے جذبات اوراس کے اسلوب نگارش کی جھلک دکھائی دے۔ اس لحاظ سے غبار خاطر کے خطوط اردو انشائیوں کے بہترین نمونے قرار پاتے ہیں۔
جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ غبار خاطرمیں وہ خطوط شامل ہیں جو مولانا آزاد نے احمد نگر جیل میں قید 10اگسٹ1942سے لے کر جون 1945ء کے دوران اپنے دوست نواب صد یار جنگ مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے تھے۔ مولانا آزاد اور حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے درمیان چالیس سالہ رفاقت تھی۔ جو سیاسی نوعیت کی نہیں بلکہ دوستانہ نوعیت کی تھی۔ چونکہ احمد نگر جیل کا یہ قانون تھا کہ قیدی کی کوئی تحریر باہر نہ جائے چنانچہ مولانا کے لکھے ہوئے خطوط بھی جیل کے قانون کی رو سے ان کی قید کے ایام کے دوران باہر نہیں جاسکے۔ اس لئے ان کے لکھے ہوئے مکاتیب جو وقتاً فوقتاً لکھے گئے تھے وہ ایک فائل میں جمع ہوتے رہے ۔ اور جب 15جون 1945ء کو مولانا جیل سے رہا ہوئے تو ان کے یہ مکاتیب مکتوب الیہ تک پہونچ پائے۔ مولانا آزاد نے خود ان مکاتیب کے مجموعے کا نام ’’غبار خاطر‘‘ رکھا وہ اس لئے کہ اس طرح کے یکطرفہ خطوط لکھ کر وہ اپنے دل کا غبار کم کرنا چاہتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے ہندوستان کی جد و جہد آزادی کے عظیم رہنما‘ الہلال اور البلاغ کے صحافی اور ایک جید عالم اور مقرر تھے۔ انگریزوں کو احساس تھا کہ ہندوستانیوں میں جدو جہد آزادی کی روح کو پروان چڑھانے میں مولانا آزاد جیسے رہنماؤں کا اہم کردار ہے تو انہوں نے اس وقت کے کئی سیاسی رہنماؤں اور صحافیوں کو جیل میں نظر بند کردیا تھا۔ تاکہ جدو جہد آزادی کی تحریک کو کمزور کیا جائے لیکن یہ وہ رہنما تھے جن کی آزادی موج رواں تھی تو قید بھی انگریزوں کے لئے تازیانہ تھی۔ اس طرح کے لوگوں کو جب جیل میں نظر بند کیا جاتا ہے تو وہ مطالعہ اور تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول ہوکر کچھ اہم کارنامے کرتے ہیں۔ چنانچے مولانا آزاد نے مکتوب نگاری سے دل لگایا اور اپنے دوست کے نام یکطرفہ خطوط لکھنے شروع کئے۔ عمومی مکتوبات میں ایک دوسرے کے خیریت جانی جاتی ہے اور اپنے دور کے حالات لکھے جاتے ہیں۔ چونکہ مولانا آزاد کو خط کے دوران اپنی فکر کو پیش کرنا تھا اس لئے وہ جیسے ہی کوئی خط شروع کرتے فوری کسی موضوع پرفکرانگریز گفتگو کرنے لگتے۔ مولانا آزاد نے حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام پہلا خط 10اگسٹ1942ء کو لکھا اور آخری خط 16ستمبر1943ء کو لکھا۔ اس کے بعد اپنی شریک حیات کے انتقال کے غم میں انہوں نے اس انداز کے خطوط لکھنے بند کردئے جس کا رنگ حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام لکھے گئے خطوط میں ملتا ہے۔ بہرحال مولانا آزاد کی رہائی کے بعد ہی ان خطوط کی اشاعت کی راہ ہموارہوئی۔اور مولوی اجمل خان کی ایما پران خطوط کی جلد سے جلد کتابت اور اشاعت عمل میں آئی۔ مولوی اجمل خان کو مولانا سے خاص تعلق تھا اور انہوں نے مولانا سے اجازت لے لی تھی کہ ان کے مکتوبات کی نقول وہ رکھیں گے۔ جیل جانے سے قبل بھی وہ مولانا کے خطوط کو ڈاک میں ڈالنے سے قبل اس کی نقل تحریر کر لیتے تھے۔چنانچہ مولانا آزاد کی جیل سے رہائی کے بعد بھی انہوں نے مولانا کے لکھے یہ خط حاصل کر لئے۔ مولوی اجمل خان کی عادت کے پیش نظر خود مولانا نے انہیں یہ خط حوالے کئے کہ حبیب الرحمٰن خان شیروانی مکتوب الیہ کو حوالے کرنے سے قبل یہ خطوط نقل کر لئے جائیں۔ مولوی اجمل خان ان خطوط کے مطالعے کے بعد حاصل کرنے والے تاثر کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ رہائی کے بعد مولانا نے قلعہ احمد نگر کے مکاتیب میرے حوالے کئے کہ حسب معمول ان کی نقل رکھ لوں۔ اوراصل نواب صاحب کی خدمت میں بہ یک وقت بھیج دوں۔ لیکن میں نے جب ان کا مطالعہ کیا تو خیال ہوا کہ ان تحریرات کا محض نجی خطوط کی شکل میں رہنا اور شائع نہ ہونا اردو ادب کی بہت بڑی محرومی اور ارباب ذوق کی نا قابل تلافی حزمانی ہوگی۔ مولانا اس وقت شملہ میں تھے۔بہ اصرار ان سے درخواست کی کہ ان مکاتیب کو ایک مجموعے کی شکل میں شائع کرنے کی اجازت دے دیں۔ مجھے یقین ہے کہ ملک کے تمام ارباب ذوق و نظر اس واقعے کے شکر گذار ہونگے کہ مولانا نے اشاعت کی اجازت دے دی اور اس طرح میں اس قابل ہوگیا کہ یہ مجموعہ دیدہ وران علم و ادب کی ضیافت ذوق کے لئے پیش کروں۔( مولوی اجمل خان۔ مرتب غبار خاطر۔ بار اول۱۹۴۶ء ۔ لاہور۔ ص۱۳)
ان خطوط میں مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام لکھے گئے کل بیس خط ہیں۔بیشتر خطوط میں صدیق مکرم کہتے ہوئے مولانا آزاد نے متکوب الیہ کو مخاطب کیا ہے۔چونکہ مولانا آزاد کو معلوم تھا کہ یہ خطوط فوری مکتوب الیہ تک نہیں پہونچ پائیں گے اس لئے ان میں مضمون اور انشائیہ کا رنگ غالب آگیا۔ مولانا چونکہ باہر کی زندگی سے کٹ گئے تھے اس لئے ان خطوط میں اس دور کے حالات کی جھلک بھی نہیں ملتی اور چونکہ خط کے جواب میں خط ملے تو موضوعات میں تنوع ہوتا ہے ایسا ان خطوط میں کچھ نہیں ہے۔ اور صرف مولانا آزاد کی انشا پردازی ہی اپنا جوہر دکھاتی رہی۔ مولانا آزاد نے جب تمام خطوط دیکھے تو جیل سے رہائی کے بعد ان کی اشاعت کی فکر کی اور بہت جلد یہ خطوط اپنے انشا پردازانہ رنگ کے سبب مقبول بھی ہوگئے۔
غبار خاطر میں مولانا آزاد نے تقریباً دو درجن شعرا کے ایک سو دس شعراورمصرعے استعمال کئے۔ جن میں غالب کے سب سے زیادہ اشعار ہیں۔ان خطوط میں مولانا آزاد نے تاریخ نگاری بھی کی اور قلعہ احمد نگر کی تاریخ اورصلیبی جنگوں کے احوال بھی بیان کئے۔ چائے نوشی اورموسیقی کے بارے میں بھی تفصیلی باتیں ان خطوط کا حصہ ہیں۔ مولانا آزاد کا جس قدر گہرا مطالعہ تھا اسی قدراشارے ان مکاتیب کی انشائیہ نما تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خطوط مولانا آزاد کے وسیع تر مطالعے ان کی فکر اور ان کے مخصوص طرز نگارش کا نچوڑ ہیں۔غبار خاطرکے ابتدائی خطوط میں مولانا کو جیل لانے کے سفر کا حال اور احمد نگر کی تاریخ اور جیل کے ماحول کے ذکر کیا گیا ہے ۔ بعد کے خطوط میں مولانا کی انشا پردازانہ تحریریں ہیں۔ جس میں انہوں نے زندگی سے متعلق مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔
۱۱ اگسٹ ۱۹۴۲ کو لکھے مکتوب میں آزاد لکھتے ہیں:
’’صدیق مکرم۔ قید و بند کی زندگی کا یہ چھٹا تجربہ ہے ۔۔ پچھلی پانچ گرفتاریوں کی اگر مجموعی مدت شمار کی جائے تو سات برس آٹھ مہینے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ عمر کے ترپن برس جو گذر چکے ہیں۔ ان سے یہ مدت وضع کرتا ہوں تو ساتویں حصے کے قریب پڑتی ہے۔ گویا زندگی کے ہر سات دن میں ایک دن قید خانے کے اندر گزرا۔ تورات کے احکام عشرہ میں ایک حکم سبت لئے بھی تھا۔یعنی ہفتہ کا ساتواں دن تعطیل کا مقدس دن سمجھا جائے۔ مسیحیت اور اسلام نے بھی یہ تعطیل قائم رکھی۔ سو ہمارے حصہ میں بھی سبت کا دن آیا مگر ہماری تعطیلیں اس طرح بسر ہوئیں ۔ ۔۔ زندگی میں جتنے جرم کئے اور ان سزائیں پائیں سوچتا ہوں تو ان سے کہیں زیادہ تعداد ان جرموں کی تھی جو نہ کر سکے اور جن کے کرنے کی حسرت دل میں رہ گئی۔ یہاں کردہ جرموں کی سزائیں تو مل جاتی ہیں لیکن ناکردہ جرموں کی حسرتوں کا صلہ کس سے مانگیں‘‘
( غبار خاطر۔ از مولانا ابولکلام آزاد۔ طبع اول۔ آزاد ہند پبلیکیشنز لاہور۔ ص۵۸۔۶۰ )اپنے اسی مکتوب میں مولانا آزاد نے فلسفہ ‘سائنس اور مذہب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ آزاد لکھتے ہیں:
’’ فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا۔ اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا۔ سائنس ثبوت دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا۔ لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دیتا ہے اگر چہ ثبوت نہیں دیتا۔ اور یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدہ بھی ضروری ہے ہم صرف ان ہی باتوں پر قناعت نہیں کر لے سکتے جنہیں ثابت کرسکتے ہیں اور اس لئے مان لیتے ہیں ہمیں کچھ باتیں ایسی بھی چاہئیں جنہیں ثابت نہیں کرسکتے لیکن مان لینا پڑتا ہے‘‘۔(غبار خاطر۔ ص۔۶۳)
زندگی سے متعلق فلسفے کومولانا نے اپنے مکاتیب میں تفصیل سے بیان کیا ہے اوراس میں اپنی انشا پردازی کے رنگ دکھائے ہیں۔ اپنے اسی مکتوب میں مولانا آزاد رقم طراز ہیں۔
’’جن باتوں کوہم زندگی کی راحتوں اورلذتوں سے تعبیرکرتے ہیں وہ ہمارے لئے راحتیں اورلذتیں ہی کب رہیں گی اگران تقاضوں اورمقصدوں سے منہ موڑ لیں۔ بلا شبہ یہاں زندگی کا بوجھ اٹھا کے کانٹوں کے فرش پردوڑنا پڑا لیکن اس لئے دوڑنا پڑا کہ دیبا و مخمل کے فرش پر چل کران تقاضوں کا جواب دیا نہیں جاسکتا تھا۔ کانٹے کبھی دامن سے الجھیں گے۔ کبھی تلووں میں چبھیں گے لیکن مقصد کی خلش جو پہلوئے دل میں چبھتی رہے گی نہ دامن تارتارکی خبر لینے دے گی نہ زخمی تلووں کی۔ اورپھرزندگی کی جن حالتوں کو ہم راحت والم سے تعبیرکرتے ہیں ان کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کیا ہوئی کہ اضافت کے کرشموں کی ایک صورت گری ہے۔یہاں مطلق راحت ہے نہ مطلق الم۔ ہمارے تمام احساسات سرتا سر اضافی ہیں۔ اضافتیں بدلتے جاؤ راحت و الم کی نوعیتں بھی بدلتی جائیں گی۔ ۔۔ راحت والم کا احساس ہمیں باہر سے لاکر کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ خود ہماراہی احساس ہے جو کبھی زخم لگاتا ہے کبھی مرہم بن جاتا ہے۔ طلب و سعی کی زندگی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی لذت ہے۔ بشرطیکہ کسی مطلوب کی راہ میں ہو۔۔ زندگی بغیر کسی مقصد کے بسر نہیں کا جاسکتی کوئی لگاؤ کوئی بندھن ہونا چاہئے جس کی خاطر زندگی کے دن کاٹے جاسکیں۔۔۔ یکسانی اگرچہ سکون ور احت کی ہو یکسانی ہوئی۔ اور یکسانی بجائے خود زندگی کی سب سے بڑی بے نمکی ہے۔ تبدیلی اگرچہ سکون سے اضطراب کی ہو مگر پھر تبدیلی ہے۔اور تبدیلی بجائے خود زندگی کی ایک بڑی لذت ہوئی۔ یہاں زندگی کا مزہ بھی ان ہی کو مل سکتا ہے جو اس کی شیرینوں کے ساتھ اس کی تلخیوں کے بھی گھونٹ لیتے رہتے ہیں اور اس طرح زندگی کا ذائقہ بدلتے رہتے ہیں۔ورنہ وہ زندگی ہی کیا جو ایک ہی طرح کی صبحوں اور ایک ہی طرح کی شاموں میں بسر ہوتی ہے۔ یہاں پانے کا مزہ ان ہی کو مل سکتا ہے جو کھونا جانتے ہیں جنہوں نے کچھ کھویا ہی نہیں انہیں کیا معلوم کہ پانے کے معنی کیا ہوتے ہیں۔ ( غبار خاطر۔ص۔۶۹۔۷۲)
۱۵ ۔ اگسٹ ۱۹۴۲ کو لکھے گئے مکتوب میں مولانا آزاد نے قلعہ احمد نگر کی جیل میں اپنے شب و روز کا حال بیان کیا ہے۔ جس میں صبح جلد بیدار ہونے کی تعلق سے فکر انگیز باتیں کہیں ہیں۔مولانا آزاد لکھتے ہیں:
’’ وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے صراحی لبریز ہے اور جام آمادہ۔ ایک دور ختم کرچکا ہوں۔ دوسرے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوں۔ ۔۔ صبح کا جانفزا وقت ہو اور چین کی بہرین چائے کے پے در بے فنجان۔ آج تین بجے سے کچھ پہلے آنکھ کھل گئی تھی۔ صحن میں نکلا تو ہر طرف سناٹا تھا صرف احاطہ کے باہر سے پہردار کی گشت و بازگشت کی آوازیں آرہی تھیں۔ ۔۔ سوچتا ہوں تو زندگی کی بہت سی باتوں کی طرح اس معاملہ میں ساری دنیا سے الٹی چال میرے حصے میں آئی۔ دنیا کے لئے سونے کا وقت جو سب سے بہتر ہوا وہی میرے لئے بیداری کی اصلی پونجی ہوئی۔ لوگ ان گھڑیوں کو اس لئے عزیز رکھتے ہیں کہ میٹھی نیند کے مزے لیں۔ میں اس لئے عزیز رکھتا ہوں کہ تلخ کامیوں سے لذت یاب ہوتا رہوں۔ایک بڑا فائدہ اس عادت سے یہ ہوا کہ میری تنہائی میں اب کوئی خلل نہیں ڈال سکتا میں نے دنیا کو ایس جراتوں کا سرے سے موقعہ ہیں نہیں دیا جب وہ جاگتی ہے تو میں سوتا ہوں اور جب سوجاتی ہے تو میں اٹھتا ہوں۔ ۔۔ ایک بڑا فائدہ اس سے یہ ہوا کہ دل کی انگیٹھی ہمیشہ گرم رہنے لگی۔ صبح کی اس صفت میں تھوڑی سی آگ جو سلگ جاتی ہے اس کی چنگاریاں بجھنے نہیں پاتیں۔ راکھ کے تلے دبی دبائی کام کرتی رہتی ہیں۔۔۔ ا س سحر خیزی کی عادت کے لئے والد مرحوم کا منت گزار ہوں۔ ان کا معمول تھا کہ رات کی پچھی پہر ہمیشہ بیداری میں بسر کرتے۔ بیماری کی حالت میں بھی اس معمول میں فرق نہیں ڈال سکتی تھی۔ فرمایا کرتے تھے کہ رات کو جلد سونا اور صبح جلد اٹھنا زندگی کی سعادت کی پہلی علامت ہے۔ ۔۔ میری ابھی دس گیارہ برس کی عمر ہوگی یہ باتیں کام کر گئی تھیں۔ بچپنے کی نیند سرپر سوار رہتی تھی مگر میں اس سے لڑتا رہتا تھا۔ صبح اندھیرے میں اٹھتا اور شمع روشن کرکے اپنا سبق یاد کرتا۔ (غبار خاطر۔ص۔ ۷۶۔۷۸)
مولانا آزاد کو جس طرح صبح اٹھنے کی عادت تھی اسی طرح چائے پینے کی بھی بہت زیادہ عادت تھی۔ جیل میں انہیں سلیقے سے چائے بنا کر دینے والا کوئی نہ تھا اس لئے مولانا آزاد خود اپنے ہاتھ سے چائے بناتے اور پے درپے چائے پیتے۔ اپنے ایک خط میں انہوں نے اپنی چائے نوشی کی عادت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں:
’’ آپ کو معلوم ہے میں ہمیشہ صبح تین سے چار بجے کے اندر اٹھتا ہوں اور چائے کے پے ہم فنجانوں سے جام صبوحی کا کام لیا کرتا ہوں۔ یہ وقت ہمیشہ میرے اوقات زندگی کا سب سے زیادہ پرکیف وقت ہوتا ہے۔ لیکن قید خانے کی زندگی میں تو اس کی سرمستیاں اور خود فراموشیاں ایک دوسرا ہی عالم پیدا کردیتی ہیں۔ یہاں کوئی آدمی ایسا نہیں ہوتا جواس وقت خواب آلود آنکھیں لئے ہوئے اٹھے اور قرینہ سے چائے بنا کر میرے سامنے دھرے۔ اس لئے خود اپنے دست شوق کی سرگرمیوں سے کام لینا پڑتا ہے ۔ میں اس وقت بادہ کہن کے شیشہ کی جگہ چینی چائے کا تازہ ڈبہ کھولتا ہو اور ایک ماہر فن کی دقیقہ سنجیوں کے ساتھ چائے دم دیتا ہوں پھر جام و صراحی کو میز پر دہنی طرف جگہ دوں گہ اس کی اولیت اسی کی مستحق ہوئی قلم کاغذ کو بائیں طرف رکھوں گا کہ سرودسامان کار میں ان کہ جگہ دوسری ہوئی۔ پھر کرسی پر بیٹھ جاؤں گا اور کچھ نہ پوچھئے کہ بیٹھتے ہی کس عالم میں پہونچ جاؤں گا کہ کسی بادہ گسار نے شامپین اور بورڈ کے تہہ خانوں کے عرق کہن سال میں بھی وہ کیف و سرور کہاں پایا ہوگا جو جائے کہ اس دور صبح گاہی کا ہر گھونٹ میرے لئے مہیا کرتا ہے۔( غبار خاطر۔ ص۔۱۰۱۔۱۰۲)مولانا آزاد کو اندازہ تھا کہ چائے پینے کے بعد انسان تازہ دم ہوجاتا ہے اور ایک شاعر کی طرح ایک ادیب کے قلم سے بھی نئے نئے خیالات ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ مولانا صبح اپنے معمولات سے فارغ ہوکر لکھنے بیٹھ جاتے تھے اور ایک مفکر کی طرح فلسفیانہ باتیں لکھنے لگتے ۔ اپنی چائے نوشی کے ذکر کے بعد ایک مرتبہ پھر مولانا آزاد نے زندگی سے متعلق فلسفہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لئے کام میں لائیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی۔ یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہئے۔ جس نے یہ مشکل حل کرلی اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا( غبار خاطر۔ ص۱۰۲)
۵۔ دسمبر ۱۹۴۲کو لکھے گئے ایک مکتوب میں مولانا آزاد نے مسلمانوں کی حالت پر مفکرانہ خیالات بیان کئے ہیں اوردوران خط حضرت رابعہ بصری کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ۔’’ رابعہ بصری پہلے طبقہ کی صوفیہ میں شمار کی گئی ہیں۔ دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی مسیحی میں ان کا انتقال ہو۔ ان کے حالات میں لکھا ہے ایک دن اس عالم میں گھر سے نکلیں کہ ایک ہاتھ میں آگ کا برتن تھا دوسرے میں پانی کا کوزہ تھا۔ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جارہی ہو جواب دیا کہ آگ سے جنت کو جلادینا چاہتی ہوں ۔پانی سے دوزخ کی آگ بجھا دینا چاہتی ہوں تاکہ دونوں ختم ہوجائیں اورپھرلوگ خدا کی عبادت صرف خدا کیلئے کریں جنت اوردوزخ کی طمع اورخوف سے نہ کریں۔(غبار خاطر۔ص۔۱۶۹)
۱۷۔ دسمبر۱۹۴۲ کو لکھے گئے مکتوب میں مولانا آزاد نے چائے اورچائے کی اقسام کے بارے میں دلچسپ معلومات پیش کی ہیں۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں:
’’چائے چین کی پیداوار ہے۔ اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جارہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گذری کہ اس جوہر لطیف کودودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جاسکتا ہے۔ جن ملکوں میں چین سے براہ راست گئی مثلاً روس ۔ ترکستان ۔ ایران وہاں بھی کسی کو خیال نہیں گذرا۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انہیں کے ذریعے ہوا اس لئے یہ بدعت سیہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہونچ گیا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی جگہ دودھ میں چائے ڈالنے لگے۔ ۔۔ لوگ چائے کی جگہ ایک سیال حلوا بناتے ہیں کھانے کی جگہ پیتے ہیں۔ (غبار خاطر۔ ص۔ ۱۹۱)
مولانا کی قید کے دوران ہی ان کی اہلیہ کا علالت کے باعث انتقال ہوگیا تھا۔ مولانا نے انگریزوں سے جیل کی رہائی کی اپیل نہیں کی۔ لیکن اہلیہ کی وفات کے واقعے نے ان کے دل پر گہری چوٹ کی اور وہ غم میں ڈوب گئے۔ ان ہی ایام میں لکھے گئے ایک مکتوب میں وہ انسان کے طرز فکر کے بارے کہتے ہیں:
’’ میں سوچنے لگا ہوں کہ انسان کے دل کی سرزمیں کا بھی یہی حال ہے اس باغ میں بھی امید و طلب کے بے شمار درخت اگتے ہیں اور بہار کی آمد آمد کی راہ تکتے رہتے ہیں لیکن جن ٹہنیوں کی جڑ کٹ گئی ان کے لئے بہار و خزاں کی تبدیلیاں کوئی اثر نہیں رکھتیں۔ کوئی موسم بھی انہیں شادابی کا پیام نہیں پہونچا سکتا۔(غبار خاطر۔ ص۔۲۰۴)
غبار خاطر کے دیگر مکتوبات میں مولانا آزاد نے فطرت کے نظاروں سے اپنی دلچسپی‘جیل میں پودوں کی کیاریوں کی دیکھ بھال‘ دنیا کے تاریخی واقعات‘ ہندوستان کی سیاست‘ مسلمانوں کے مسائل‘صلیبی جنگوں کی تفصیلات اور دیگر واقعات پیش کئے ہیں۔ مولانا آزاد کی نثر کی یہ خوبی ہے کہ اس میں جا بجا اشعار کی مدد لی گئی ہے۔ عربی اور انگریزی کا استعمال کیا گیا ہے۔ شاعرانہ جملے اورفلسفیانہ خیالات بیان کئے گئے ہیں جس کی سبب مولانا آزاد کے یہ مکاتیب اردو انشائیوں کا رنگ اختیار کر گئے ہیں۔ اور آج بھی اردو کا عطر سمجھے جاتے ہیں۔
رشید احمد صدیقی نے ’’غبار خاظر ‘‘ کے اسلوبِ نگار ش کے بار ے میں لکھا تھا کہ’’ غبارِ خاطر‘‘ کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے ، کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے ، پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہار دکھاتے او ر خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔( بحوالہ۔وہاب اعجاز خان کا بلاگ)
نیازفتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا۔
’’ مولانا! آپ کا اسلوب بیان میں مجھ وداعِ جاں چاہتا ہے۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل مم مزید کہتا رہوں گا۔‘‘( بحوالہ۔وہاب اعجازخان کا بلاگ)
مولانا آزاد کے اسلوب کے بارے میں مولوی اجمل خان لکھتے ہیں:
جس زمانے میں الہلال نکلتا تھا تو میں کبھی کبھی وہ خالص ادبی قسم کی چیزیں بھی لکھا کرتے تھے۔ ان تحریروں میں انہوں نے ایک ایسا مجتہدانہ اسلوب اختیار کیا تھا جس کی کوئی دوسری مثال لوگوں کے سامنے موجود نہ تھی اسلو ب کے لئے اگر کوئی تعبیر اختیار کی جاسکتی ہے تو وہ صرف ’’شعر منثور‘‘ کی ہے یعنی وہ نثر میں شاعری کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریر از سر تا پا شعر ہوتی تھی صرف ایک چیز اس میں نہیں ہوتی تھی یعنی وزن اور اس لئے اسے نظم کی جگہ نثر کہنا پڑتا تھا۔ ۔۔ قلعہ احمد نگر کے مکاتیب اکثر اسی طرز تحریر میں لکھے گئے ہیں انہوں نے نثر میں شاعری کی ہے اور جس مطلب کو ادا کیا ہے کہ جدت فکر نقش آرائی کر رہی ہے۔ اور وسعت تخیل رنگ و روغن بھر رہی ہے۔ ( غبار خاطر۔ ص۔ ۱۴۔۱۷)
عبدالقوی دسنوی مولانا کی مکتوب نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’یہ حقیقت ہے کہ غبار خاطر مولانا آزاد کے خطوط کا نہ صرف خوبصورت مجموعہ ہے بلکہ اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ جس کے مطالعے سے ہندوستان کے ایک فرزند جلیل‘جنگ آزادی کے بہت بڑے مجاہد اور اردو ادب کے منفرد نثر نگار کی زندگی شخصیت‘ماحول‘فن او فکر سے سب سے زیادہ آگہی ہوتی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر مولانا آزاد اردو ادب کو غبار خاطر کے علاوہ کچھ بھی نہ دیتے تو بھی اردو ادب میں ان کو نمایاں مقام ملتا۔ (عبدالقوی دسنوی۔ مطالعہ غبار خاطر۔ ص۔164)
مجموعی طور پر مولانا آزاد کے غبار خاطر میں شامل مکاتیب اردو انشا پردازی کے شاہکار ہیں ۔ معیاری ادب سے محروم اردو کی نئی نسل اس طرح کے طرز نگارش کے مطالعے سے محروم ہے۔اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے قدیم ادب کی بازیافت کی جائے اور اسے نئی نسل سے روشناس کیا جائے ۔
DR MOHAMMED ASLAM FAROQUI
Asst Professor & Head
Department of Urdu
Girraj Govt College (A)
Nizamabad-Telangana State 503002.
email:
One thought on “غبارخاطرکے خطوط میں مولانا آزاد کی انشا پردازی ۔ ۔ ڈاکٹراسلم فاروقی”
مضمون محل کے اعتبار سے ٹھیک ہے مگر اس میں کوئی نیا پن نہیں ہے. سب کچھ پڑھا ہوا لگتا ہے.
محمد جواد