اقبال کا شعری اظہار۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرقطب سرشار

Share

Iqbal

علامہ اقبال کی یوم ولادت کے موقع پر
اقبال کا شعری اظہار

ڈاکٹرقطب سرشار
موظف لیکچرر ۔محبوب نگر ۔تلنگانہ
موبائل : 09703771012
– – – –
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم وبیچ
شاعر اسی ’’افلاس تخیل‘‘ میں گرفتار
ترسیل وآگہی کے مرحلے میں اقبالؒ کے شعری اظہار کی انفرادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے، ’’اہل سیاست‘‘، ’’ کہنہ خم وپیچ ‘‘ ، ’’ افلاس تخیل‘‘ ان اصطلاحوں سے اس شعر کی معنوی تعمیر ہوئی ہے، شعر کا موضوع شاعر اور اس کا تخیل ہے، عام نظریہ ہے کہ شاعر اپنے اور اس کا تخیل ہے، عام نظریہ ہے کہ شاعر اپنے مخصوص الفاظ کے عدسوں کے ذریعے دنیا کو اپنے تخیلات کے گونا گوں مناظر دکھاتا ہے، جو کچھ محسوس کرتا ہے محسوس کرواتا ہے، اقبالؔ منصب شاعر کو محدود نہیں مانتے، ان کا ماننا ہے کہ شعر ایسا وسیلہ اظہار نہیں ہوسکتا جو محض لفظی پیکر تراشی اور ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کرتا ہو، شعر ’’ حیات ابدی کا پیغام ‘‘ نوائے جبریل یا بانگ سرافیل ہے۔

وہ شعر جو پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل
ایک جگہ اعترافی لہجے میں کہتے ہیں کہ وہ اسرار شعر کے محرم نہیں تاہم انھوں نے جس انکشاف کیلئے شعری اظہار کوو سیلہ بنایا ہے وہ گمراہ امتوں کی تہذیب اور پراگندہ ملتوں کی تاریخ کی آئینہ داری ہے۔
میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن
یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل
اقبال خود کو شاعر باورکرانے سے کتراتے ہیں، بلکہ اپنے کلام کو پیام کا عنوان دے کر اسے ایسی توانائی اور روشنی سے تعبیر کرتے ہیں جو ذہن کی کھڑکیاں کھول کر اندر داخل ہوجائے تو بے پناہ توانائی اور تازگی کا احساس ہونے لگے، اہل سیاست کی عیاریوں یا عیار ذہنوں کی سیاست نے ماحول کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، ایسے ماحول کا پروردہ شاعر ’’افلاس تخیل‘‘ کا شکار ہے، یہ افلاس قوموں کو مجہول اور جامد کردیتا ہے، چنانچہ اقبال شاعر (گنجینۂ فکر واحساس ) کو اعلی منصب پر دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے برعکس انھیں لگا کہ ؂
شاعر کی نوا مردہ ، افسردہ وبے ذوق
افکار میں سرمست ، نہ خوابیدہ نہ بیدار
نوائے مردہ، افسردگی ، بے ذوقی ، افکار میں سرمستی کا فقدان جیسی منفی کیفیات کے زیر اثر شاعر سوتا ہوا لگتا ہے نہ جاگتا ہوا، انھیں منفی اور مایوس کن کیفیات کو اقبال نے ’’افلاس تخیل‘‘ سے تعبیر کیا ہے ان کی نظر میں معقول شعر وہی ہے جو بے مائگی کی پستیوں سے ابھر کر ’’ نغمہ جبریل‘‘ (ترجمانی کلام وحی ) کی وسعتوں میں پھیل جانے کی توانائی رکھتا ہو، شعر جو آئینہ امم بھی ہو شعلہ نوا بھی، جو مفاد عالم ہو توازن فکر وعمل ہو۔
عشق
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر وبم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دمبدم
عشق وہ آفاقی موضوع ہے جس کو عالمی سطح پر مختلف زبانوں کے ادب عالیہ نے اپنے اندر سموئے رکھا ہے۔ عشق طاقتور ترین اور بے کراں نفسیاتی توانائی ہے۔ جو کائنات کی ہر ذی حیات شئی میں متحرک ہے اور اقبالؔ بھی عشق کو نوائے زندگی کے زیر وبم کا محرک مانتے ہیں۔ مصرعۂ اولی کی روح تک رسائی کے لئے نوائے زندگی کے زیر وبم کی معنوی گرہیں کھولنی ہوں گی۔ نوائے زندگی یا نغمۂ حیات اس ترکیب لفظی کو اقبالؔ نے استعارہ بنالیا ہے۔ سر، تال، آہنگ اور زیر وبم اقتضائے نغمہ کے چار نام ہیں۔ اس طرح نوائے زندگی مکمل استعارے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ حیات کے سرد وگرم ، عروج وزوال اور رد وقبول کی ترجمانی کے لئے ’’زیر وبم ‘‘ جامع لفظ معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ انسانی حیات اور نغمہ دونوں میں زیر وبم مشترک ہے۔
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دمبدم
’’ سوز ‘‘ اقبالؔ کی نظر میں ایک طاقتور صفت ہے جو عشق کے باوصف مٹی کی تصویروں (انسانوں) میں جاگزیں ہوتا ہے، اس حقیقت کے برعکس جہاں خانہ عشق خالی ہوتا ہے وہاں ویرانی، جمود اور بے لذتی جیسی خباثتوں کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ توصف وتعبیرات عشق سے دنیا بھر کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اقبال کی نظر میں ’’موضوع شعر‘‘ حقیقت عشق ہے یا حقیقت سے عشق ؟ حقیقت عشق یہی کہ عاشق کی معشوق کے حق میں ’’مکمل سپردگی‘‘ ہو اور حقیقت سے عشق کا مطلب ہے خود کو سچائی کے حوالہ کردینا، سچ کو معشوق بنالینا اور سچ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ثابت الثبوت ہوتا ہے۔ اقبالؔ عاشق کو زندہ کردار مانتے ہیں۔ عشق کے بغیر گوشت پوست کے چلتے پھرتے ہنستے بولتے انسان محض مٹی کی بے روح تصویریں ہیں۔ پیکر سفال جو ذائقہ عشق کی بے روح تصویریں ہیں۔ پیکر سفال جو ذائقہ عشق کی آگہی نہیں رکھتا حیوان ہے۔ حق ایک لافانی توانائی ہے جس سے عشق پیدا ہوجائے تو زندگی توازن اور توانائی سے معمور ہوجائے۔ حق وہ گنج محاسن ہے جو اپنے عاشق کو جہت فنا کے بجائے جہت بقا سے روشناس کرواتا ہے۔ عاشق حق کا پیراہن ، پیراہن نور سے جو کبھی تار تار نہیں ہوتا اقبال کا ایک اور شعر غالباً اسی حقیقت کا ترجمان ہے۔
مرے جنوں کو زمانے نے خوب پہچانا
وہ پیراہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
اقبال نے جذبۂ عشق کو اک نئی جہت عطا کی ہے۔ جس میں فنا کے برعکس بقائے انسانی کے امکانات کی نشاندہی ملتی ہے۔ یہ محض فکری تنوع نہیں بلکہ منطقی حقیقت ہے۔ جس کی باز یافت صرف اقبالؔ ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔
استغنا
خدا کے پاس بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
اس شعر میں ایک معاشرتی ماحول ہے جس کے کردار خدا کے پاک بندے ، حکومت اور حالت غلامی (میں رہنے والے بندے) ہیں۔ اس تناظر میں ایک ایسی تہذیب کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جہاں مختلف جہتوں سے بندگان خدا پر منفی طاقتوں کی ناگوار اور تکلیف دہ یلغار کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ ہر طرح کی یلغار سے مدافعت کی عموما دو امکانی صورتیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک سے سمجھوتہ اور دوسری سے دم آخر تک نبرد آزمائی۔ سمجھوتہ مصلحت کے تحت ہوسکتا ہے یاپھر کمزوری کے باعث اور دوسری صورت ٹکراؤ کی نفسیات کے سبب سے ہے۔ جس کا آغاز ہوتا ہے انتقامی رویوں سے پھر یہ فتنہ پروری سے گذرتی ہوئی بالآخر ہلاکت کا ذائقہ چکھاتی ہیں۔ دفاع کے مذکورہ دونوں رویوں سے گریز کرتے ہوئے اقبالؔ نے ایک تیسری راہ کی جانب عقل اور جذبات کے دھارے کو موڑدیا ہے۔ یہ تیسری ترجیحی جہت ہے استغنا کی۔ جہاں تحفظ یقینی بھی ہے اور فتنے سے گریز کا خاموش اور پرامن رویہ بھی۔
اس نظریہ کے مرکزی کردار ’’خدا کے پاک بندے ‘‘ ہیں جن کے مقابل اور مخالف حکومتیں بھیہوتی ہیں اور رعایا بھی۔ معاشرتی ڈھانچے میں صالح اقدار کے حامل افراد کی حیثیت خواہ حاکم کی ہو یا محکوم کی ، خادم کی ہو یا مخدوم کی، مقتدر عناصر کی یلغار کے سبب مجبور مظلوم جیسی ہوتی ہے۔ ظلم واستبداد اور فتنہ وفساد سے تحفظ فراہم کرنے والی واحد طاقت ’’استغنا‘‘ ہے۔ یہ عصائے موسیٰ کی طرح ایک سحر شکن معجزۂ انسانیت ہے استغناء دراصل نفسانی تحریکات اور نفسیاتی ہیجان سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا خوشگوار میلان ہے۔ عزت وشہرت کی چاہ حکومت وصورت کی طلب اور مسابقت کا رجحان زندگی سے اس کے خوبصورت اور پرسکون لمحات چھین لیتا ہے۔ پھر ان لمحات کی بازیافت کا سفر فتنہ وفساد اور قعر مذلت کی جانب ڈھیل لے جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس سفر کا اختتام ، زوال یا ہلاکت کی صورت میں ہوتا ہے۔ اقبالؔ استغناء کو تحریکات نفس کی آلودگیوں سے خود کو بچائے رکھنے کا مضبوط زرہ بکتر مانتے ہیں۔ استغناء بے نیازی اور قناعت کے پروقار تیور کا نام ہے۔ استغنامسائل کا نہ صرف انسداد کرتا ہے بلکہ مسائل کی شرح کو اس درجہ گھٹادیتا ہے کہ زندگی میں صرف ضرورتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ استغنا فقیر کو وقارِ شاہانہ اور شہنشاہ کو شعورِ فقیرانہ عطا کرتا ہے۔
ایک نکتہ اور بھی ہے کہ کیفیت استغنا اس شخص پر طاری نہیں ہوسکتی جو حد اقتضاء سے گریز کرتے ہوئے حدودِ ہوا وہوس میں داخل ہوجاتا ہے۔ شاکر وہ ہوتے ہیں جو تکمیل ضرورت کی حدوں میں رہتے ہیں اور شاکی وہ ہوتے ہیں جو حدودِ ضرورت کو پھلانگتے ہوئے چاہتوں کے پیچھے بھاگا کرتے ہیں۔ یہ ادھورے لوگ کنگال ہوتے ہیں جنھیں کبھی دولت استغنا نصیب نہیں ہوتی۔
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ
گدائے میکدہ کی شان بے نیازی دیکھ
پہنچ کے چشمۂ حیواں پہ توڑتا ہے سبو
اقبال کو فلسفی کہا گیا ہے انھوں نے قرآنی کانسپٹ کو موضوع بنا کر بیدارئ ملل کا کردار نبھایا ہے ان کے بیش تر اشعار معاشرتی زندگی کے ایسے منظر نامے ہیں، جن میں ہمارے اطراف ونواح کے دیکھے بھالے مناظر اور جانے پہچانے چہرے صاف دکھائی دیتے ہیں اور ہرمنظر میں خود اقبالؔ بھی کہیں نہ کہیں اونچائی پر کھڑے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ اقبالؔ پہلے منظر ناموں میں چند کرداروں کو ابھارتے ہیں پھر ان کا تجزیہ اپنے نقطہ نظر سے کرتے ہوئے انھیں اس جہت کی طرف مائل کردیتے ہیں جہاں حیات کے صحت مند اقدار اپنے دامن میں انسانیت کا وقار لئے بے سمت نوع انسان کی منتظر کھڑے ہیں، مثلا زیر نظر شعر دیکھئے یہ اسی قبیل کا ہے۔ اس میں میکدہ ، گدا،چشمہ حیوان، سبو، شان بے نیازی جیسے الفاظ کے وسیلے سے ایک منظر ابھارا گیا ہے۔ میکدہ ایک اسپاٹ (حرف مکاں) ہے اورکردار کا نام گدائے میکدہ ہے جو طلب مئے کی جستجو میں ہاتھ میں کاسہ ( سبو جو علامت ہے) لئے ایک طویل سفرجستجو طے کرتا ہے جسے تلاش تو تھوڑی سی شراب کی ہوتی ہے لیکن سفر جستجو میں اس کی رسائی چشمۂ حیواں (آب حیات کا کنواں) تک ہوجاتی ہے پھر یوں ہوتا ہے کہ گدائے میکدہ اس سے پہلے کہ چشمۂ حیواں سے اپنا سبو لبریز کرلیتا ہے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے سبو کو توڑ کر آگے نکل جاتا ہے، بادی النظر میں گدائے میکدہ کا یہ رویہ عجیب اور غیر سائنٹفک لگتا ہے، لیکن اقبال گدائے میکدہ کے اس رویے کو ’’شان بے نیازی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، ایک شخص اپنی مطلوبہ شئے کی تلاش میں زندگی کے بیش قیمت لمحات صرف کرتا ہوا ایک طویل سفر جویائی طے کرتا ہے یہاں تک کہ اسے اس کی مطلوبہ شئے بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر دستیاب ہوجاتا ہے لیکن وہ اس کو ٹھکرا کر آگے بڑھ جاتا ہے اس واقعہ کی گتھی کو سلجھانے کے لئے لازمی ہوجاتا ہے کہ تعمیم فکر ومشاہدہ سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھیں، تبھی رمز اقبال کا انکشاف ہوسکتا ہے، اقبالؔ کے اس شعر کا موضوع ’’ذوق جستجو‘‘ ہے ،ذوق جستجو ایک بے پناہ اسپرٹ سے عبارت ہے، جو انسان کو ذوق طلب کی محدود فضاؤں سے آزاد کرتے ہوئے جستجو کی بے پناہ لذتوں سے آشنا کرتی ہے، اقبالؔ نے اس توانائی کو ’’ شان بے نیازی ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، گدائے میکدہ ، یہ استعارہ ایک ایسے کردار کا تعارف کرواتا ہے جو اپنی محدود ضرورتوں کی تکمیل کے مرحلے میں خود مکتفی ہے۔ استغنا اور ذوق جستجو نے اس کے اندر شان بے نیازی پیدا کردی ہے اس کے باوصف وہ دستیاب منزلوں کو ٹھکرا کرآگے نکل جاتا ہے۔
نوائے شوق کے باعث
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں اقبالؒ کا ہر شعر بلند آہنگ ہوتا ہے، پر وقار تیور، شدت تاثر اور استدلال کی قطعیت کے باوصف شعر میں توازن فکر اور تمکنت محسوس کی جاسکتی ہے، اقبال کا اسلوب گفتار شاعرانہ سہی مافی الذہن حکیمانہ ہے، سلیس فارسی الفاظ کی تخلیقی ترکیب سے جو نئی اصطلاحیں وضع ہوئی ہیں اس سبب سے اقبالؔ کا اپنا الگ ڈکشن بن گیا ہے، جو کسی اور اردو شاعر کے حصہ میں شاید ہی آیا ہوگا، نوائے شوق ، شور ، حریم ذات ، بت کدۂ صفات، زیر نظر شعر کے تعمیر مضمون میں اساسی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نوائے شوق پیام اقبالؔ کی ایک مانوس علامت ہے لفظ شور، باھنی انقلاب کا حرف نمائندہ ہے، حریم ذات عالم شعور کی گہرائیوں سے عبارت ہے اور بت کدۂ صفات ایک ایسے کردار سے متعارف کرواتا ہے جس کی تشکیل مشرکانہ عقیدوں کے سبب سے ہوئی ہے، شعر کا معنوی خاکہ یہ ہے کہ وائے شوق نے حریم ذات میں جو انقلاب برپا کردیا ہے کہ صفات مشرکانہ کے بد کدہ میں الامان والحفیظ کا ایک غلغلہ مچ گیا نوائے شوق (قرآن مجید کے حکیمانہ ادراک) نے حیطۂ ذات کی خوابیدہ یا الجھی ہوئی ترجیحات کے بے سمتی کو ایک روشن راستے (صراط مستقیم) سے روشنا کروادیا ہے جس کے نتیجہ میں عالم شعور میں تازہ ہوا کا جھونکا سا چل گیا ہے ۔ تضاد ات وصفات کا تضاد یک لخت ختم ہوگیا ۔ تضاد ذات وصفات کی شکست کے ساتھ ہی یک لخت تمام آلودگیاں دُھل گئیں، اس شعر کی مزید توضیحی جہتوں کی کھوج میں قرآن کے نظرےۂ الوہیت کے ٹریک (Track) پر چلنا ہوگا ، قرآن مجید نے اسلام کو دین سے تعبیر کیا ہے، دین ، ضابطہ ، اصول دستور نظام کو کہتے ہیں، اس کے باوجود اسلام کو مذہب باور کرنے والوں کی تعداد قابل لحاظ ہے، دوسری بات یہ کہ عبدیت اور عبادت کی قرآنی تعبیرات سے بھی عموماً بے اعتنائی کا رویہ عام ہے، قرآن نے اِلٰہ کو ۹۹ صفات کا حامل بتایا ان کا تہہ دل سے ماننا اور یقین کرنا عبدیت ہے اور ان ۹۹ صفات کے تناظر میں اطیعوا اللہ کے حکم کے تحت اطاعت یعنی صفات الہی کے حق میں جسم وجان کی خود سپردگی، جس نے اپنی تمام صفات کو صفات الہی کا مطیع نہیں کیا۔ اس کے باطن کو اقبال نے ’’ بت کدہ صفات‘‘ سے تعبیر کیا ہے چوں کہ ایسا باطن اتباع زمانہ اور تحریکات نفس کی آماجگاہ ہوتا ہے جہاں اطاعت اِلہٰ کے بجائے اطاعت نفس ہو، ایسا باطن اطاعت گاہ صفات رب نہیں بلکہ بتکدۂ صفات ہے۔ اقبالؔ کی نوائے شوق انہیں تعبیرات اطاعت کا جامع استعارہ ہے، جس کا ادراک حریم ذات میں انقلاب عظیم کا محرک بن گیا ہے۔
ذوقِ خراش
دل لرزتا ہے ’’حریفانہ کشاکش‘‘ سے ترا
زندگی موت ہے کھودیتی ہے جو ’’ذوق خراش‘‘
اقبال کے اشعار کا یہ خاص وصف ہے کہ ہر شعر میں چند الفاظ لازمی طور پر (معنوی اعتبار سے ) کلیدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، ہر شعر کا ایک مکمل کانسپٹ ہوتا ہے، ساتھ ہی شعر معنوی تنوع اور فکر واستدلال کی صداقت سے معمور بھی ہوتا ہے، یہ وہ کمال اظہار ہے جس کے سبب سے اقبالؒ سب سے مختلف اور ممیز ہوجاتے ہیں، ان کے اسلوب نگارش کی ترسیلی جہت اپنی روش جداگانہ رکھتی ہے، اس روش کے نشیب وفراز اور وسعتوں کا ادراک اس ذہن رسا کے بس کا روگ ہیں جو اقبالؔ کے ’’فکری مآخذ‘‘ سے کما حقہ آگہی رکھتا ہو خطبہ نہ طرز تخاطب کے باوجود اس شعر کا وجدانی حسن متاثر نہیں ہوا ہے حریفانہ کشاکش ، زندگی، موت اور ذوق خراش، شعر میں یہ ترسیلی وسیلوں کا کردار ادا کرتے ہیں خاص طور پر صنعت نسبتی اور فعل کی ترکیب سے ’’حریفانہ کشاکش‘‘ میں جو معنوی تناظر پیدا ہوا ہے اس سبب سے یہ مرکب لفظ انسان اور اس کے مسائل کے مابین کی کشمکش کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے، چوں کہ مسائل حیات سے بڑا انسان کا حریف کوئی نہیں، مصرعہ اولیٰ میں اقبال نے مسائل حیات سے نبرد آزمائی کو حریفانہ کشاکش کہا ہے تو مصرعہ ثانی میں اس کشاکش کے کاری زخموں کو ’’خراشیں‘‘ کہتے ہوئے ترسیل کے مرحلے سے بہ آسانی گذر گئے ہیں ، یقیناًمسائل کی نکیلی برچھیاں جب احساسات کو مجروح کرنے لگتی ہیں تو انسان لرز اٹھتا ہے، اس لرزیدہ انسان پر کسی کو بھی رحم آجاتا ہے، اس سے ہمدردی ہونے لگتی ہے، اس کی مدد کرنے یا تسلی دینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، لیکن اقبال ؔ ایسا کچھ نہیں کرتے ان کا کردار سب سے الگ ہے وہ نہ اظہار ہمدردی کرتے ہیں نہ ہی مجروح انسان کے زخموں پر عارضی مرہم لگاتے ہیں حتی کہ حوصلہ بھی نہیں دیتے، بلکہ اقبالؔ اس لرزیدہ انسان کو ’’ذوق خراش‘‘ جیسی شعوری توانائی سے فیضیاب کرتے ہیں، ذوق خراچ ، خوف خراش کے مقابل میں ایک بے پناہ قوت ارادی ہے جس کے باوصف انسان کے اندرمکروہات زندگی سے ٹکرانے اور محاسن حیات کے سمت نئے سفر کے آغاز کی آگہی پیدا ہوجاتی ہے ، اقبال نے مسائل حیات کی خراشوں کو اذیت کی بجائے ’’ ذوق ‘‘ سے تعبیر کر کے انسانی نفسیات کو اک نئے تجربے سے روشناس کروایا ہے، انھوں نے مسائل کی یلغار کے ’’دفاعی عمل کو ‘‘ مشغلہ ‘‘ بنادیا، اتنا ہی نہیں بلکہ ’’ ذوق خراش‘‘ کو مثبت طاقت باور کروایا یہاں تک کہ اسے کہ ’’ علامت زندگی ‘‘ قرار دیا اور ذوق خراش کے فقدان کو ’ ’ موت ‘‘ سے تعبیر کیا ، اس طرح اقبال کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے مسائل حیات سے نبرد آزما انسان کی نفسیات کو خوف اور بزدلی جیسی منفی کیفیات سے نجات دلائی ہے اور درون ذات خوابیدہ قوتِ ارادی (شاید خودی) کو بیدار کیا ہے، اقبال کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنے اشعار کے وسیلے سے بیمار امتوں کی مسیحائی کرتے ہیں، یہ بات منصب شاعرانہ سے بھی کہیں زیادہ اونچی ہے پراکٹیکل بھی خود اقبالؔ کی سوچ بھی کچھ ایسی ہے انھیں اعتراف ہے ، ان کا وسیلۂ اظہار شاعرانہ سہی’’ نفسِ اظہار‘‘ شاعری نہیں ہے۔
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکر وفکر وجذب وسرور
’’ذوق خراش‘‘ کی تعبیری جہتیں اور بھی ہوسکتی ہیں، یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ اتھاہ گہرائیوں کو ناپتے چلے جائیں،انشا ء اللہ اگلی کسی اشاعت میں اس موضوع پر اظہار خیال کریں گے۔
Dr.Qutub Sarshar
ڈاکٹرقطب سرشار

Share
Share
Share