ہندوستانی کرنسی ۔ ایک مطالعہ – – – محمد رضی الدین معظم

Share

currency

ہندوستانی کرنسی ۔ ایک مطالعہ

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :
– – – – –
کرنسی (Currency) ہر ملک کی اہم ترین ضروری شئے ہے ۔ مختلف ملکوں میں کرنسی کے مختلف نام رائج ہیں۔ مختلف زبانوں کی وجہ سے کرنسی میں بھی فرق پایا جاتا ہے ۔ جیسے روپیہ‘ ریال‘ درہم ‘ ڈالر‘ پونڈ وغیرہ ۔ ہر ملک کی کرنسی میں اور اس کی قدر و قیمت میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ اور وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلیاں بھی آتی رہتی ہیں۔
کرنسی کا رواج وآغاز :

ایک تحقیقی اندازہ کے مطابق کرنسی کا رواج سب سے پہلے ملک چین میں ۱۰۷۹۔۱۲۲۰ق م میں ہوا تھا ۔ اس وقت چین کے حکمراں لی زنگ وانگ تھے ۔ انہوں نے سب سے پہلے کرنسی کو رواج دیا ۔ چین ہی نے دنیا میں سب سے پہلے کاغذ کی کرنسی کا آغاز بھی کیا تھا ‘ جو تقریباً۱۲۰۰ ق م میں ہوا تھا ۔ اس طرح آہستہ آہستہ سارے عالم میں کاغذ کی کرنسی رواج پاگئی ۔ اس لئے کہ کاغذ پر کرنسی انتہائی سہولت بخش اور بہ آسانی حفاظت کا ذریعہ بھی بن گیا ۔ آج ساری دنیا میں کاغذ ہی کی کرنسی بین اقوامی سطح پر رائج ہے ۔
ہندوستان میں کرنسی کا آغاز:
تحقیق کی روشنی میں ہندوستان میں سکہ یا کرنسی کی ایجاد شیر شاہ سوری کے دور ۴۵۔۱۵۴۰ میں ہوئی تھی ۔ شیر شاہ سوری نے چاندی کا سکہ رائج کیا تھا اور اسے روپیہ کا نام دیا ۔ سنسکرت زبان میں روپیہ چاندی (Silver) کو کہتے ہیں۔ سولہویں صدی عیسوی میں اکبر اعظم نے اپنے دور میں زیادہ مالیت کے سکے سونے (Gold) میں تیار اور رائج کروائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ کم قیمت کے سکے کانسہ (Bronze) اور تانبے پیتل((Brass) کے سکے ہوا کرتے تھے ۔ چاندی کے چمکدار سکہ کا وزن۱۷۸ گرین ہوا کرتا تھا ۔ تجارتی مقاصد کے لئے روپیہ ہی مسلمہ سکہ تصور کیا گیا ۔ اس سے قبل تجارت میں اشیا کے بدلے اشیادئیے جانے کا رواج تھا ‘ جسے بارٹرسسٹم (Barter System) کہتے تھے ۔ اس نظام کے تحت پارچہ کے بدلے پارچہ‘ گیہوں کے بدلہ پسندیدہ اناج وغیرہ سے کاروبار ہوا کرتا تھا ۔
مغلوں نے سوانے کا سکہ رائج کیا ‘ جس پر شاہی مہر (Royal Seal) ہوا کرتی تھی۔ تاریخ دان اس کو اشرفی کہتے تھے ۔ لیکن اشرفیوں کا چلن زیادہ عام نہیں ہوا ۔ متمول افراد ہی دولت جمع کرتے پس اندازی یا بچت (Savings) کے مقصد سے اشرفیاں جمع کرتے تھے ۔ اس لئے یہ خالص سونے کی ہوا کرتی تھیں۔
۱۵۹۵ میں چودہ منٹ (Mint) یعنی ٹکسال یا سکّے ڈھالنے کا دارالضرب کا م کرتے تھے ۔ جہاں چاندی کے سکے ڈھالے جاتے تھے اور چارٹکسال ایسے تھے ‘ جہاں سرکاری مہر(Govt.Seal) کے ساتھ سونے کی اشرفیاں تیار ہوتی تھیں۔ بعدازاں اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں روپیہ کے سکے ڈھالنے کے لئے۴۰ ٹکسال قائم کئے گئے تھے ۔ مغلیہ دورکا یہ شاندار کارنامہ کہا جاتا ہے ۔ ملک میں مختلف علاقوں میں تیار کئے جانے والے سکوں کی ساخت اور وزن یکساں ہوتا تھا ۔ ان میں کوئی تمیز کرنا مشکل ہوتا۔ اسی لحاظ سے سارے ملک میں کرنسی کا یکساں نظام رائج کیا گیا ۔
ماہرین تاریخ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی میں جو کہ افراط وفراوانی کا دور تھا ‘ ہر چیزارزاں وسستی دستیاب تھی ۔ شیواجی نے بھی سکہ رائج کیا تھا ‘ وہ شکل و روپ میں طاقتور سمجھا جاتا تھا ۔ شیواجی کی فوج میں کمترین درجہ کے سپاہی کی ماہانہ تنخواہ صرف تین روپے ہوا کرتی تھی ‘ جس کے ذریعہ اس کا خاندان خوش حال زندگی بسر کرتا تھا ۔اس کے بعد گرانیمیں آہستہ آہستہ اضافہ ہونے لگا ۔ گرانی کے باعث مغلیہ فوج کے ادنیٰ سپاہی کی تنخواہ دس روپے تک پہنچ گئی پھر بھی وہ کسمپرسی کی زندگی گزارتا تھا ۔ خاندانی زندگی تکلیف سے گزرتی تھی ۔
۱۶۷۱میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد ہندوستانی سکوں کی قیمت میں فرق پیدا ہوگیا ۔ روپیہ کی قدر وقیمت ہر علاق میں مختلف ہوگئی ۔ ۱۸۳۵ میں باقاعدہ قانونی منظوری کے بعد برطانیہ کے زیر انتظام سارے علاقے ہندوستان میں روپیہ معیاری سکہ قرار پایا ۔ اس وقت سکہ چاندی ہی کا ہوتا تھا ‘ جس کا مجموعی وزن۱۰۸ گرین ہوتا تھا ‘ جس میں چاندی کی مقدار۱۶۵ گرین ہوتی تھی ۔ کرنسی ایکٹ۱۸۳۵ء کے تحت منظور کیا گیا کہ اس وقت یوروپی ممالک نے چاندی کے سکوں کی قدر گھٹا دی تھی اور اس کرنسی کو منسوخ کرتے ہوئے سونے کو معیار بنادیا تھا ۔ یو روپی ممالک چاندی ہندوستان کو برآمد کرنے لگے لیکن وہ اس بات پر کہ انہیں چاندی کی مناسب قیمت وصول نہیں ہورہی ہے ۔ برطانوی حکمرانوں نے نئے معیارات رائج کرکے روپیہ کو پاؤنڈ اسٹرلنگ سے قابل تبادلہ بنا دیا اور پاؤنڈ‘ اسٹرلنگ سے ہی سونا کی خریداری ہونے لگی ۔ ایک شلنگ چارپنس میں شرح مبادلہ مقرر تھا ۔۱۹۱۷میں سونے سے تبدیلی کی شرح تبدیلی کا نظام بگڑگیا کیوں کہ چاندی کی قیمت میں قابل لحاظ اضافہ ہوگیا تھا ۔ حکومت معیار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی ۔ اس لئے سونے کو مقرر ہ معیار قرار دینے کا نظام ختم کردیا گیا۔ ہندوستان میں سونے کی قیمت سے روپیہ کی قدر کو مربوط کیا گیا ۱۹۲۷ میں سونے کی قیمت۲۱۲۴ روپے فی تولہ تھی اور پونڈاسٹرلنگ سے شرح تبادلہ میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ۔ بیرون ملک روپیہ کو سونے سے تبدیل کرنے کی اجازت دی گئی ۔ حکومت نے۱۹۳۱ میں اس نظام کو ختم کردیا ۔ خود برطانیہ میں بھی سونے کو معیار بنانے کا نظام ختم کردیا گیا ۔ ۱۹۴۶ میں ہندوستان کی بین اقوامی مالیاتی فنڈ کی رکنیت قبول کرنے تک روپیہ اسٹرلنگ سے قابل تبدیل رہا ۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار روپیہ کے سکہ کو متبادل کے طور پر کاغذ کی کرنسی کو رائج کیا اور روپئے طبع کئے جانے لگے ۔ اس زمانہ میں ریزروبینک آف انڈیا نے ایکس چینج کنٹرول کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنے قواعد وضوابط کی موثر عمل آوری کے جتن کئے درآمدات کے لئے لائسنس کا لزوم عائد کیا گیا اور ایکس چینج کنٹرول کی اجازت کے بغیر درآمدات کو نا ممکن بنا دیا گیا ۔ روپیہ ہندوستان میں ایسی کرنسی تھی ۔ جس کا آزادانہ تبادلہ کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن ہندوستان کی حدود کے باہراسے فری کرنسی کا درجہ حاصل نہیں تھا ۔
۱۹۴۹میں آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر مالیات مسٹر جان متھائی نے ہندوستان کے روپیہ کی شرح میں پہلی بار کمی کا اعلان کیا ۔ ہندوستان کی یہ صحت مند کرنسی کی قدر دوبارہ سونے کی قیمت سے مربوط ہوگئی ۔۱۹۰۱ میں معاشی منصوبہ بندی کے باوجود روپیہ کی قدر میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہوا اور کرنسی کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے نتیجہ میں افراط زر اور گرانی بڑھتی گئی ۔ سونے کے محفوظ ذخائر کی مناسبت سے نوٹ چھاپنے کے افراط زرکے نتیجہ میں روپیہ کی قدر بے قابو ہوگئی ۔ اور رفتہ رفتہ ملک کے بیرونی زرمبادلہ کے محفوظات میں کمی ہوتی گئی ۔ وزیر مالیات سچن چودھری‘ جنہیں اکبر اعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ‘ دوسری مرتبہ روپیہ کی قدر گھٹادی ۱۹۶۶ میں روپیہ کی قدر کمی کے بعد سے افراط زر میں اضافہ ہی ہوتا گیا ۔۱۹۷۹ کے دہے میں روپے کا پاؤنڈ اسٹرلنگ سے ربط بالکل منقطع ہوگیا ۔
جب آصف جاہی سکے وکرنسی المعروف سکہ عثمانیہ کا رواج پڑا تو نواب میر قمر الدین علی خان چین خلیج خاں نظام الملک آصف جاہ بہادر ایک عثمان ترک نژادامیر تھے۔۱۷۲۴ میں مغل تخت دہلی کی سازش اور محمد شاہ کی تنک مزاجی و ناتجربہ کاری سے تنگ آکر دکن کا رخ کیا اور یہاں صوبہ اودھ جیسی ایک ینم آزاد دیسی ریاست قائم کی ۔ وہ اور ان کے بعد آصف جاہی حکمراں۱۸۵۷ تک تخت دہلی کے حکمراں رہے ۱۸۵۷ کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری شروع ہوئی تو یہ ریاست برطانوی تاج کے تحت ایک دیسی ریاست میں تبدیل ہوگئی اور۱۹۴۸ میں انڈین یونین میں اس کا انضمام عمل میں آیا ۔ آخری نظام نواب میر عثمان علی خان آصف سابع کے دور میںیہ ریاست خوش حالی ‘ مذہبی رواداری اور تعمیرات کی اپنی مثال آپ تھی ۔ شاہ جہاں کے بعد فن تعمیرات کے نمونے صرف دکن ہی میں ملتے ہیں۔ کرنسی کے معاملے میں دیسی ریاستوں میں صرف آصف جاہی حالی کرنسی المعروف سکہ عثمانیہ کو ہی قانونی حیثیت حاصل تھی۔۱۸۷۸ میں برطانوی ہند نے ۸۰دیسی ریاستوں کو سکے بنانے کی اجازت دی لیکن حیدرآباد کے سوا اور کسی دیسی ریاست نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ ایک تاریخی جائزہ کے مطابق نظام الملک آصف جاہ اول کے دورتک مغل ٹکسال کے تیار کردہ سکے کا چلن تھا ۔ اس کے بعد تین حکمرانوں نے سکے جاری نہیں کئے ‘ جو آصف جاہی خطاب سے محروم رہے ۔ آصف جاہی سکے نواب نظام علی خاں آصف جاہ ثانی کے فرخندہ بنیاد حیدرآباد منٹ کے ملتے ہیں۔ جن پر حضرت علی کی ذوالفقار اور فرنچ منٹ کا نشان ہلال ہوتا تھا ۔ ۱۹۴۸تک سیف آبادحیدرآباد ٹکسال سے آصف جاہی سکے بنتے رہے۔۱۹۴۲ میں ان سکوں سے چاندی کم کردی گئی ۔ سیف آباد ٹکسال میں جو سکے ڈھالے جاتے تھے ۔ ان کی ساخت اور بناوٹ میں ایک رخ پر چارمینار اور دوسرے رخ پر جلوس میمنٹ مانوس طرف فرخندہ بنیاد کی عمارت کندہ ہوتی اور پھر آصف سادس کے دور کے سکوں پر محبوب علی بادشاہ کا سرحرف ( م ) اور آصف سابع عثمان علی پاشاہ کا سرحرف (ع) کندہ رہتا تھا ۔ یہ سکے چاندی کے ہوتے تھے جو وزن میں ایک تولہ کے ہوتے تھے ۔ کھرے اور کھوٹے سکوں کو پرکھنے کے لئے ان کو کسی پتھر پر پٹکا جاتا اور ان کی کھنکھناہٹ سے معلوم کرلیا جاتا کہ کھرا ہے یا کھوٹا ۔تاجر برادری تولہ دوتولہ اشیا کی خریداری کے لئے یہی معیاری سکے تولنے کے کام میں لاتے تھے ۔ اس زمانہ میں روپیہ کے علاوہ اٹھنی ‘ چونی ‘ دونی ‘ اکنی تک چاندی کی قیمت دس آنہ فی تولہ سے زائد نہ تھی ۔ اس لئے خریدو فروخت کے لئے ان سکوں کا چلن عام تھا ۔ ایک روپے کا جب چلر لیا جاتاتھا تو۹۶ پیسہ تانبے کے سکے حاصل ہوتے جو پیسہ کہلاتے تھے ۔ اور پھر ایک پیسہ عوض دو آنہ چھوٹے سکے ملتے تھے ۔ جن کو ’’ دھیلہ‘‘ اور ’’ پائی ‘‘ کہا جاتا تھا ۔ مدارس میں تعلیم کے دوران علم ریاضی کے بچے ‘ بچیوں کو روپے آنے پائی میں حسابArithmetic یاMaths سکھا یا جاتا تھا۔ اسی طرح سونے کے سکوں کا بھی چلن تھا ‘ جنہیں اشرفی کہا جاتا تھا۔ جب کسی پر شاہانہ نوازش ہوا کرتی تھی اور دربار شاہی میں باریابی سے مشرف ہوتے تو انہیں اشرفی ہی بطور نذرانہ شاہی حاصل ہوتی ۔ سونے کی قیمت بھی ۲۵ تا ۳۰روپے فی تولہ سے زائدنہ تھی ۔ ا ب تو اشرفی صرف لوگوں کے ناموں کے ساتھ جڑا ہوا ملتا ہے ۔ ورنہ کسی کے پاس بھی اشرفی نہیں ہے ۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ تو ہوتا ہی رہتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ایسا دور آگیا ہے کہ ہمیشہ صرف قیمتوں میں چڑھاؤہی چڑھاؤ اور گرانی ہی گرانی ہے ۔ حتیٰ کہ سنار کا پیشہ کرنے والے بھی خود کشی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مشہور وممتاز ومعظم شاعر حضرت سکندر علی وجد کا ایک بند ملاحظہ کیجئے ؂
نسترن میں ناز باقی ہے نہ گل میں رنگ و بو
باغ میں اس سے ہے بڑھ کر خار و عکس کی آبرو
موجزن ہے روئے اشیاء پر گرانی سے لہو
روپیہ کا رنگ فق ہے اشرفی ہے زرد رو
حال کے سکّے کو ماضی کا جو سکّہ دیکھ لے
سو روپے کے نوٹ کے منہ پر دو انّی تھوک دے
نظام آصف سابع راج پر مکھ بننے کے بعد ان کا حالی سکہ المعروف سکہ عثمانیہ کا چلن ختم ہوگیا اور یکم اپریل۱۹۵۷ کو جب موجودہ نئے پیسے کا رواج ہوا تب تک سارے ملک میں سکہ ہند کا چلن تھا ۔
ہندوستانی سکوں کا نیا دور ‘ یکم اپریل ۱۹۵۷ سے نئے پیسے کا رواج: یکم اپریل۱۹۵۷ سے جب سے ہندوستان میں سکوں کا اعشاری نظام رائج کیا گیا تو ملک کے سکوں کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوگیا ۔ یہ تاریخ بہت لمبی چوڑی ہے ۔ اور اس میں بہت ساری روایات شامل ہیں۔ آثار قدیمہ کی تحقیقات سے مختلف قسم کے ایسے سکے کا پتہ چلاہے‘ جو بہت قدیم زمانہ میں رائج تھے ۔ ان میں بہت سے سکے ایسے ہیں ‘ جو اس زمانہ کی سیاسی اور اقتصادی حالت کا پتہ لگانے کا واحد ذریعہ ہیں۔ ماضی میں ہندومسلم بادشاہوں اور شہنشاہوں نے جو سکے رائج کئے ‘ ان میں اچھے اچھے ڈیزائن اور کاریگری کے نمونے ملتے ہیں۔
برطانیہ سے پہلے ہندوستانی سکے مشرقی عقیدے کے مطابق بنائے جاتے تھے ۔ یعنی قانونی اعتبار سے رقوم کی پوری قیمت کا لحاظ رکھا جاتا تھا ۔ برطانوی حکومت سے پہلے سرکاری ٹکسالوں میں قیمتی دھاتوں کو جانچا اور پرکھا جاتا تھا اور مناسب سائز کے ٹکڑے بنادئیے جاتے تھے ۔ سرکاری مہر لگ جانے سے سکے کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا تھا ۔ صرف اس کی اصلیت اور وزن کی تصدیق ہوجاتی تھی ۔ اس وقت علامتی دھات یا کاغذی نوٹوں کا رواج نہ تھا ۔ روپیہ پیسہ کے لین دین اور سکوں کے بارے میں جدید خیالات کے ساتھ پرانا نظام بدلا اور نئے عقیدے اور نئے اصول سامنے آئے ۔ قانونی اعتبار سے رقوم کی پوری قیمت کے اصول میں بہت بڑی تبدیلی ہوئی اور پھر علامتی سکوں اور کاغذی نوٹوں کا موجودہ نظام قائم کردیا گیا۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کا کام سنبھالا اور پھر ملک گیری کا پیشہ اختیار کیا تو اس کو شمالی ہند میں سونے اور چاندی دونوں قسم کے سکوں کا رواج ملا۔ چاندی کے ساتھ ساتھ سونے کے سکوں کا بھی کھلا رواج تھا لیکن دونوں میں سرکاری طور پرکوئی مقررہ تناسب نہ تھا اور سچ تو یہ ہے کہ کوئی تناسب رہ بھی نہیں سکتا تھا کیوں کہ سب ہی راجے مہاراجے جاگیرداران یہاں تک کہ گورنر بھی اپنے اپنے سکے چلاتے رہے۔ جنوبی ہند میں سونے کے سکوں کا عام رواج تھا یعنی سکے قیمت کا حساب لگا نے اور چیزوں کے لین دین کے ذریعہ کے طور پر استعمال ہو تے تھے ۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ سونے اور چاندی کے کم سے کم ۹۹۴قسم کے سکے رائج تھے ۔ ان کا وزن اور دھات کا کھرا پن الگ الگ ہوا کرتا تھا ۔
ہندوستانی دارالضرب یا ٹکسالیں‘ ایک جائزہ: ہندوستانی روپیہ اپنی موجودہ شکل اور سائز میں سب سے پہلے۱۸۳۵ میں ڈھالا گیا تھا‘ جس کا وزن۱۸۰ گرین ٹرائے ((Troy) تھا اور اس میں کھرے پن کا تناسب گیارہ یا بارہ تھا ۔ آج کل کے اعتبار سے باقاعدہ ٹکسال یا دارالضرب کی بنیاد۱۸۲۴ میں کلکتہ میں رکھی گئی تھی ۔ اس میں معقول سازو سامان تھا ۔ یکم اگست ۱۸۲۹ سے یہاں سکے ڈھالے جاتے تھے۔ اس کے بعد بمبئی میں ٹکسال قائم ہوئی تو تقریباً ایک صدی تک یہی دونوں ٹکسالیں ملک میں سکے کی ضرورت پوری کرتی رہیں۔ مدراس کی ٹکسال نے کچھ عرصہ تک سکے ڈھالے ۔۱۹۵۲ میں علی پور ( کلکتہ ) میں ایک عظیم الشان ٹکسال قائم کی گئی اور اس نے سابقہ ٹکسال کلکتہ کا کام بھی سنبھال لیا ۔
اعشاری نظام کے قیام کے سلسلہ میں جس قدر سکوں کی ضرورت محسوس ہوتی ‘ وہ علی پور( کلکتہ) اور بمبئی کی ٹکسالوں اور حیدرآباد کے سیف آباد منٹ کو پوری ذمہ داری سونپی گئی ۔ کسی بھی ملک کے لئے یہ بہت بڑا کام تھا اور خاص کر ہندوستان کے لئے تو بہت بڑا کام ۔ کیوں کہ الحمدللہ یہاں اتنی بڑی کثیر آبادی کے لئے روزانہ لین دین کے لئے ہی چھوٹے چھوٹے سکوں ہی کی بہت زیادہ ضرورت تھی ۔ بہر حال علی پور اور بمبئی کے ٹکسالوں کو اتنے بڑے پروگرام کا کام سنبھا لنے کے لئے پوری طرح آراستہ کیا گیا تھا ۔ ان ٹکسالوں نے پوری تندہی کے ساتھ وسیع پیمانے پر سکوں کو ڈھالنے کا کام انجام دیتے رہے ۔ سکے بنانے کا کام نہایت ہی مشکل امر ہے۔ اس کو انتہائی احتیاط و تندہی و انتہائی سیکیوریٹی کے ساتھ کرنا پڑتا ہے ۔ اورٹکسالوں میں ہر موقع پر دیکھ بھال اور معائنہ کرتے رہنا پڑتا ہے ۔ اگر کوئی انتہائی معمولی سی بھی غلطی رہ جائے تو اس کو دور کرنا انتہائی دشوار گزار ہوتا ہے ۔ اور فوراً ہی اس کی تصحیح ناگزیر ہوجاتی ہے ۔ جب نئے سکے اعشاری نظام کے تحت سکے ڈھالنے کا منصوبہ بنایا گیا تو نت نئی مشکلات پیش آئیں۔ بہر حال نئے نمونوں کے سکے کئی ہفتوں کے تجربات کے بعد ہی قابل اطمینان طور پر روبہ عمل لایا جاسکا ۔
بالآخر یکم اپریل ۱۹۵۷ کو ایک نیا پیسہ کے ساتھ ساتھ ۳‘۵ اور ۱۰ نئے پیسے کے سکے بھی جاری کئے گئے ۔ ان نئے سکوں کے ساتھ ساتھ سکۂ ہند روپیہ‘ اٹھنی‘ چونّی‘ دونّی ‘ اکّنی اور پیسہ بھی چلتے رہے ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد۱۰‘۲۵‘۵۰ اور۱۰۰ نئے پیسے کے سکے ‘ جن کی قیمت سکہ ہند کی اکنی‘ دونی‘ چونی ‘ اٹھنی‘ روپیہ سے مماثلت رکھتے ہوئے رفتہ رفتہ سکہ ہند کا رواج ختم کردیا گیا ۔
ایک دلچسپ واقعہ: امیر تیمور کے دربار شاہی میں ایک اندھی ضعیفہ آئی ‘ کہنے لگی ’’ عالم پنا ہ آپ کی فوج نے میرے بے گناہ اکلوتے بیٹے کو قتل کردیا ہے ۔ میں بری طرح لٹ گئی ۔ برباد ہوگئی ۔ میرے ساتھ انصاف کیا جائے ‘‘۔
اتناسن کر امیر تیمور کے تیور پر بل پڑگئے لیکن انہوں نے واقعات جاننے کے لئے اندھی ضعیفہ سے انتہائی شفقت آمیز لہجہ میں پوچھا ۔ بڑی بی آپ کا نام کیا ہے ؟ جواب ملا’’ دولت‘‘ ۔ امیر تیمور کو سخت غصہ آگیا ۔ کیا دولت بھی اندھی ہوتی ہے ۔
اندھی ضعیفہ نے برجستہ جواب دیا ’’ دولت اگر اندھی نہیں ہے تو لنگڑے کے پاس کیوں آتی ۔ یادرہے کہ امیر تیمور کی ایک ٹانگ نہیں تھی ‘‘۔
آخر میں کسی شاعر کا یہ شعر مجھے بار بار یاد آرہا ہے ؂
روپیہ ہوتا تو یہ اطمینان کب ہوتا نصیب
سورہے ہیں اور گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا
کرنسی کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات:
(۱) ہندوستان میں سب سے پہلا روپیہ۲۷؍ اگست ۱۷۵۷ میں کلکتہ کے ٹکسال میں ڈھالا گیا تھا ‘ جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب سراج الدولہ کے ساتھ مل کر ٹکسال قائم کیا تھا۔
(۲) جدید قسم کی پہلی ٹکسال کی کلکتہ ہی میں ۱۸۲۴ میں سنگ بنیاد پڑی تھی ۔ یہ ٹکسال اس دور کی تیرہ لاکھ روپے کی مالیت کی مشینری سے آراستہ ہوئی تھی اور یکم اگست۱۸۲۹ کو سکہ سازی کے کام کا آغاز ہوا ۔ اس میں روزانہ دولاکھ چاندی کے سکے بنتے تھے ۔
(۳) ہندوستان۱۹۱۴ سے کئی دوسرے ممالک مثلاً آسٹریلیا ‘ بھوٹان ‘ مصر ‘ پاکستان ‘ سعودی عرب‘ بھارت کی پرتگیزی نو آبادیات اور برطانوی مشرقی افریقہ وغیرہ کے لئے سکے بنائے ۔ علاوہ ازیں سابق رجواڑوں کے سکے بھی بنائے ۔
(۴) ہندوستان کی تین ٹکسالیں عظیم کہلاتی ہیں بمبئی ‘ حیدرآباد ‘ علی پور( کلکتہ )۔
(۵) جنگ عظیم کے دوران کلکتہ کی ٹکسال میں ۴۵۔۱۹۴۴میں کل ۱۰۴۸۷۲۷۸۰۰ سکے تیار کئے گئے جو ایک عالمی ریکارڈ کا اعزاز تھا ۔
(۶) ایک روپیہ کا نوٹ واحد نوٹ ہے ‘ جسے حکومت ہند جاری کرتی ہے اور اس کو ایک قانونی سکہ کی حیثیت حاصل ہے جب کہ دوسرے کرنسی نوٹ ریزروبینک آف انڈیا کے ذمہ ہے ۔
(۷) ’’ روپے کا لالچ تمام برائیوں کی جڑ ہے ‘‘۔ یہ الفاظ کلکتہ کی ٹکسال کے ایک شوکیس پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس شوکیس میں جعلی سکے برائے نمائش بھی موجود ہیں۔
معصوم بچوں کو کرنسی سے آگہی ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت: ایک روایت یا رواج ہمارے پاس یہ رہا ہے کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو پیسہ کے معاملات سے دور رکھتے ہیں۔ یہ ایک سراسر غلطی ہے ۔ کم عمری میں پیسوں کی جتنی بھی سمجھ بوجھ ہوجائے ‘ وہ بہترینطریقہ ہے ۔ آخر آج کے بچے ہی کو کل ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ممکن ہے کہ اگر آپ اس کی کم عمری ہی سے پیسوں کی اہمیت اور اس کے لین دین کو سکھلاتے ہیں اور اسے اس معاملہ میں نزاکت کا احساس ہو جائے تو پھر وہ ذمہ داری کی عمر تک پہنچنے پر بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے ۔ کیوں کہ اس طرح کا روباری معاملات‘ پیسوں کے لین دین اور مالی مسائل سے ابتداہی سے از بر ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن کے نکات پر عمل پیرا ہوں تو اچھے نتائج برآمد ہوں گے ۔
اگر روزمرہ کے اخراجات بچوں کے سامنے ہم اپنی مثال پیش کریں کہ ہمیں مالی مسائل سے نمٹنے اور پیسے کو درست انداز میں خرچ کرنے میں کتنی احتیاط برتنی ہے تو پھر اس طرز عمل سے ہم بچوں پر اچھا اثر ڈال سکتے ہیں۔ یادرہے کہ آپ کے بچے آپ کی ہر روزمردہ عادات کو خصوصاً پیسوں کی معاملت کو بغور مطالعہ کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ سیکھ کر اس پر عمل آوری بھی دکھاتے ہیں ۔ سب سے پہلے اپنے بچوں میں سخت بچت کی عادت ڈالئے۔ اس کے لئے آپ ایک خوب صورت ڈبہ دین اور ان کو سمجھائیں کہ جو بھی پیسے آپ کو دئیے جاتے ہیں ‘ اس میں سے کچھ پیسے بچاکر ڈال کر کہیں چھپا کر رکھ لیں اور وقت بوقت پیسے ڈالتے رہیں۔ اب آپ کو بچوں کے جیب خرچ کیلئے کچھ زیادہ رقم دینی پڑے گی اور سمجھادیں کہ اس ڈبہ میں پیسے جمع کرتے رہو‘ جب ایک ماہ گزر جائے تو اور زیادہ پیسے ملیں گے جب کہ تمہارے ڈبہ میں بھی خاصی رقم جمع ہوجائے گی ۔ اس طرح عمل سے آپ کے بچوں کو بھی خوشی ہوگی ۔ اس طرح ان میں بچت(Saving) کی بہترین عادت پیدا ہوجائے گی ۔ یہ بھی ضروری ہے جب کبھی آپ کو بینک جانا ہو تو بچوں کو بھی کبھی کبھار بینک لے جایا کیجئے ۔ اس طریقہ سے بچوں میں ابتداہی سے بنک سے واقفیت ہوجائے گی ۔بینک میں پیسے جمع کرانے اور نکالنے کے طریقوں سے واقفیت کراوتے رہیں۔ بہت جلد بچے اس عمل کو سیکھ جاتے ہیں بلکہ ان میں بھی اپنے جو پیسے گھر میں جمع کررہے تھے ‘ وہ بینک میں جمع کرنے کے عادی ہوجائیں گے ۔ اس طرز عمل سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا اور وقت بھی بچ جائے گا ۔ بچوں کومعقول رقم دے کر سودا سلف اور خریدو فروخت کی بھی عادت ڈالئے ۔ بالفرض کبھی پیسے گم کردیں تو خفا نہ ہوں اور انہیں سمجھائیں اور پیسے کی اہمیت کو واضح کرتے رہیں۔ اس کے باعث بچوں کے ہاتھوں میں پیسے نہ ہونے کا باعث فضول خرچی سے بھی باز رہ جاتے ہیں بلکہ اپنی سمجھ و صلاحیت استعمال کرکے نہ صرف بہترین خریدو فروخت کے عادی بن جاتے ہیں ۔ بلکہ بہتر سے بہتر اور کم سے کم قیمت پر خریداری کا ملکہ حاصل ہوجاتا ہے ۔ جو آپ کی زندگی میں قدر ومنزلت کا باعث رہتا ہے ۔
Mohd.Raziuddin Moazzam
Hyderabad – Deccan
محمد رضی الدین معظم

Share
Share
Share