مولانا محمدعلی جوہر: فن اورشخصیت ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

johar

مولانا محمد علی جوہر: فن اورشخصیت
(دس ڈسمبر‘ ۱۸۷۸ء تا چار جنوری ‘۱۹۳۱ء)

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340
ای میل :

نوٹ : آج مولانا محمد علی جوہر کا یوم پیدائش ہے ۔ اس مناسبت سے محترم محمد رضی الدین معظم صاحب کا مضمون پیش خدمت ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رئیس الا حرار شہید آزادی ‘ قائد ملت صاحب طرز ظرافت نگار مولانا محمد علی جوہر کی لئیق وعظیم شخصیت میں جو صفات بہ یک وقت جمع ہوچکی تھیں اگر ان میں سے ایک وصف بھی آج کسی آدم زاد بنت حوا میں جمع ہوجائے تو اس کی دوامی شہرت کے لئے بہت کافی ہے ۔ مولانا مفکر اعظم تھے اپنی بے پناہ قوت استدلال کی جسارت نظیر سے عظیم شخصیتوں کو محوحیرت کردیتے۔ ان کے فکر کی بنیاد کوئی خشک اور نظری فلسفہ نہ تھی بلکہ ایک سوتی ہوئی امت کو بیدار کرنے کی تدابیر اور منصوبے تھے ۔ ان میں عقل اور دل کے نہایت نازک امتزاج کے باعث جوش عمل کی فراوانی تھی جس کے باعث منطق کبھی ان کے عمل کی پشت پنا ہی کرتی تو کبھی ان کا جوش عمل کی افسرد گی کو علحدہ کرتا ۔

مولانا کی تقریری مہارت سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی صفات عالیہ میں ایک صفت بے باکی و نڈر پن تھا ۔ ان کی یہ صفت تحریر ، تقریر عمل سب پر حاوی تھی معرکہ حق و باطل میں مولانا سے ٹکرلینا ایسا ہی تھا جیسے لوہے سے چقماق کا اثر ہوتا ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ حق کو ثابت کرنے کے لئے کبھی اپنی ذات کی پروا نہیں کی او ربلا لحاظ مخالفت وہی کیا ‘ وہی کہا اور وہی لکھا جسے حق جانا ۔
مولانا کو اردو زبان سے زیادہ انگریزی زبان میں فن مخاطب میں مہارت اولیٰ حاصل تھی ۔ ان کی طرز مخاطب میں شوخی کے ساتھ ساتھ ظرافت کی چاشنی اور موقع شناسی پر طنز بھی ہوتا ۔ اگر انہیں کسی مخالفت کی جواب دہی کرنی پڑتی تو ان اجزا کی تیزی اور بھی بڑھ جاتی ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بر صغیر ہند وپاک میں ان سے اچھا طنز و ظرافت نگار پیدا نہیں ہوا ’’ ایک بار کا واقعہ ہے مولانا بمبئی کے مارواڑی ودّیا ہال میں مخاطب فرما رہے تھے ان میں ‘‘ ریاض الحسن صاحب بھی مجمع عام میں ان کی تقریر سن رہے تھے اس وقت ممتاز روزنامہ ٹائمز آف انڈیا کے مدیر محترم جو انگریز تھے جن کا نام ایس ٹی شئے پھرڈ(S.T.Shepherd) تھا ۔ مولانا پر کچھ اعتراضات کربیٹھے تھے ۔ تو مولانا نے اپنی تقریر شروع کرتے ہی پہلے مسٹر شے پھرڈ کے اعتراضات کا دندان شکن جواب دیا ۔ مولانا نے ان کے نام کی طرف حضار محفل کی توجہ مبذول کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریزی زبان میں ’’ شے پھرڈ‘‘ گلہ بان یا گدڑنیے کو کہا جاتا ہے ۔ گلہ بان کا تصور ہوتا ہے یعنی جب تک گلہ نہ ہو گلہ بان کا تصور لغو ہے ۔ لیکن مسٹر شے پھرڈ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ گلہ نہیں اور یہ خواہ مخواہ گلہ بان ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ (He is a shepless sheepherd) ہیں مطلب یہ کہ اس ملک میں کوئی ان کا ہم خیال نہیں ہے پھر یہ کیوں اپنا راگ الاپے جارہے ہیں‘‘(ماہ نو کراچی سنہ ۱۹۵۱ء‘ تحریر ریاض الحسن صاحب )۔
مولانا کی شخصیت بحیثیت مجاہد آزادی بھی خوب ہے ۔ بمبئی کے ایک ممتاز پروفیسر بھولا بھائی دیسائی نے مولانا کے انتقال کے بعد کہا تھا کہ مولانا محمد علی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اس براعظم کے لوگوں کو صحیح آزادی کے تصور سے روشناس کروایا۔ لندن میں گول میز کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر مولانا نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا شمار یقیناًدنیا کی اہم تقاریر میں کیا جاسکتا ہے ۔ اپنی خرابی صحت کا ذکر فرماتے ہوئے مولانا نے کہا تھا ’’ میری یہ کیفیت ہے کہ قلب کی حالت درست نہیں بینائی میں فرق آگیا ہے پیر متورم ہیں ۔
ذیابیطس کا عارضہ ہے ۔میں کہتا ہوں کہ جس آدمی کے حواس بجا ہوں وہ بھی ان بیماریوں کے ساتھ سات میل کا سفر بھی نہیں طے کرسکتا ۔ لیکن میں خشکی اور سمندر کے سات ہزار میل کا سفر طے کرکے یہاں پہنچا ہو ں کیونکہ جہاں آزادی کا معاملہ آتا ہے وہاں میری حالتدیوانوں کی سی ہوجاتی ہے ۔
جب بھی مولانا تقریر کرتے تو ان کی تقریر کا رنگ عالمانہ ہوتا اور اس سے پر مجمع پر سکتہ طاری رہتا ۔۱۹ مارچ سنہ ۱۹۲۰ء کو وزیر اعظم برطانیہ مسٹر للائیڈ جارج (Liloyd George) نے تحریک خلافت(Khilafat Movement) کے وفد سے پہلی بار ملاقات کی ۔ وہ مولانا کی تقریر سے بیحد متاثر ہوئے ۔ان کے ساتھ سنٹر فشر جو آکسفورڈ میں تاریخ کے پروفیسر اور اس زمانے میں وزیر تعلیم تھے ، ہمراہ تھے ۔مولانا کی تقریر کے بعد مسٹر فشر نے مولانا کو مخاطب کرکے فرمایا ’’جناب والا آپ کو موثر و دلپسند تقریر سننے کے بعد مجھ پر انگریزی زبان کے کئی اوصاف جن سے میں آج تک نابلد تھا عیاں ہوگئے ۔ جس کے لئے میں آپ کابیحد ممنون وشکر گذار ہو ۔ اور ہندوستانی ہونے پر نازکرتا ہو ں‘‘۔ ایک بار مسٹر للائیڈ جارج مولانا کی سحر بیانی کی تعریف وستائش میں لندن کے ایک اخبار میں اس طرح رقمطراز ہوئے ۔’’ محمد علی جیسے بیرسٹر کم دیکھے جو کسی مسئلہ کو اتنی صاف گوئی اور دلپسندی و نفاست کے ساتھ پیش کرسکیں ‘‘ ان کا خیا ل تھا کہ محمد علی شاید بیرسٹر ہیں کیونکہ تقریر میں اس قسم کا کمال فن اکثر وبیشتر وکلا‘ بیرسٹرس ہی میں پایا جاتا ہے ‘‘۔ پہلی جنگ عظیم۴ ؍اگست سنہ ۱۹۱۴ء کو جب شروع ہوئی تو ایک طرف جرمنی ‘ ھنگری اور آسٹریلیا شامل تھے تو دوسری جانب روس‘ انگلستان اور فرانس تھے ۔ ترکی میدان جنگ میں جنگ کے آغاز کے دو ماہ بعد جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے شامل ہوا ۔ درمیانی عرصہ میں انگلستان کے اخبارات نے ترکوں کو صلاح ومشورہ دیا کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ شریک ہوجائیں ۔ لندن کے معروف اخبار‘ ٹائمز نے بھی یہی مشورہ دیا تھا جو ’’ ترکوں کی نظر انتخاب‘‘ کے عنوان شائع ہوا تھا ۔ مولانا محمد علی نے اس مضمون ’’ ترکوں کی نظر انتخاب‘‘ کا منہ توڑ جواب چالیس گھنٹوں کی مسلسل محنت شاقہ میں صرف قہوہ پر گذار کر اپنے جریدہ ’’ کامریڈ‘‘ میں بیس کالم میں شائع کیا مضمون شائع ہوتے ہی دھوم دھڑاخا ہوگیا ۔ یہ اصل میں مولانا کی انشاپروری کا ایک شاہ کار تھا ۔ لندن کے کئی اخبارات نے جب اس کا جائزہ لیا تو صرف تعریف کی لیکن حکومت ہند نے اسکو ضبط کرلیا اور ساتھ ساتھ ’’کامریڈ‘‘ کی ضمانت بھی ضبط کرلی ۔ مولانا نے اس ضبطی کے خلاف اپیل کرکے مقدمہ کی بذات خود پیروی کی ۔ عدالت میں انہوں نے قانونی نظائر کی وہ طومار کردی کہ وکیل‘ بیرسٹر س ان کی بحث سن کر انگشت بدنداں رہ گئے ۔ مقدمہ کی سماعت کے بعد جب وہ عدالت سے باہر نکلے تو تمام وکلا بیر سٹروں نے یک زبان ہو کر صدا بلند کی ’’ مولانا آج آپ کا ش بیرسٹر ہوتے ‘‘ ۔
سچ پوچھئے تو مولانا محمد علی کا کارہائے نمایاں سنہری حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے وہ دراصل عہد عتیق وعہد جدید کی آمیزش ہے ۔موجودہ صدی کی ابتداء‘ میں مسلمانوں کا انداز فکر اور ذہنی نشو ونما دو عظیم گروپوں میں منقسم تھا ۔ ایک گروپ قدیم خانقاہوں کی تربیت یافتہ پیری مریدی کو لذت زندگی سمجھنے والا اور دینی درسگاہوں میں قال اللہ وقال الرسول کا بلا سوچے سمجھے ورد کرنے والا تھا ۔ تو دوسرا گروپ جدید یعنی مغربی تعلیم یافتہ لوگ تھے ۔ جنکا قبلہ اول علی گڑھ تھا۔ یہ لوگ تجربہ اور مشاہدات پر ایقان رکھتے اور اپنی گفتار وطرز خیال میں یوروپ کی ہرچیز کی سراہنا کرتے تھے۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ عہد عتیق والا گروپ گویا ایک ایسے مسافر کی طرح تھا جو ساحل پر کشتی کے انتظار میں کھڑا ہومگر کشتی کا کہیں پتہ نہ ہو ۔ برعکس عہد جدید والا گروپ اس مسافر کے مانند تھا جو کشتی میں سوار تو ہو لیکن اس کے سامنے ساحل کا کہیں پتہ ہی نہ ہو یعنی ایک کے پاس مقصد ہے تو ذریعہ نہیں اور دوسرے کے پاس ذریعہ ہے تو مقصد نہیں اس طرح اس قسم کا بعدقوم کی مجموعی ترقی کے لئے رکاوٹ کا سبب بنا کیونکہ اس میں افراد کی ذہنی ‘ دماغی اور روحانی قوتیں اسراف بے جا کا شکارہوتی ہیں ۔ مولانا نے ان مختلف قوتوں کو ایک مرکز پر جمع کردیا یہ مرکز تحریک خلافت تھا جس کے تحت جدید تعلیم یافتہ افراد ایک قدیم مقصد کے لئے جدوجہد کررہے تھے ۔ اسی میدان میں مذہب و سیاست کا دوبارہ امتزاج ہوا اور یہیں سے ہی وہ نظری زاویہ متعین کیا گیا جس نے سب کو اپنی حقیقی منزل کی راہ دکھلا دی ۔
مولانا کی صحیفہ نگاری بھی اپنی مثال آپ ہے وہ اس طرح کہ سنہ ۱۹۱۰ء کے اواخر میں مولانا نے ’’ کامریڈ‘‘ نامی انگریزی اخبار نکالنے کا قصد فرمایا ۔ اس وقت وہ بڑودہ کی ملازمت سیوابستہ تھے ملازمت تر ک کرکے کلکتہ تشریف لائے تو ان کی جیب میں صرف دو روپے آٹھ آنے تھے ۔ پٹنہ کے ایک بیرسٹر کی وساطت سے ’’ کامریڈ‘‘ کے انتظامات مکمل ہوگئے ۔ چنانچہ جنوری سنہ۱۹۱۱ء میں ہفتہ وار کامریڈ انگلستان کے ممتاز ہفتہ وار ’’ سیاٹر ڈے ریویو‘‘(Saturday Review) کی طرز پر اجرا فرمایا ۔ اور کچھ ہی عرصہ میں خوب شہرت حاصل کی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی اشاعت تین ہزار تک پہنچ گئی مگر قاری تیس ہزار سے زائد تھے ۔ انگریزی زبان میں کامریڈجیسا ہفتہ وار شائدہی آج تک اس براعظم سے نکلا ہو۔ لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہند ہر شب جمعہ کو کامریڈ کا بے چینی سے منتظر رہتے تھے ۔ ان کی مجلس انتظامی کے رکن مالیات سرگائی فلیٹ ووڈولسن جب وظیفہ پر علحدہ ہوئے تو ولایت جانے لگے تو مولانا انہیں ’’ سی آف‘‘ کرنے گئے ۔ سرولسن نے مولانا سے کہا کہ میں اپنے ایک رفیق و شفیق دوست جو انگلستان کے مزاحیہ اخبار’’ پنچ‘‘ کے ایڈیٹر تھے ہندوستان کا ایک بے نظیر تحفہ لئے جارہا ہو ں۔
مولانا نے پوچھا ’’ وہ کیا تحفہ ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ کامریڈ‘‘ کے پرچے جن میں ’’گپ شپ‘‘ کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ میرا دوست اس تحفہ کو ضرور پسند کرے گا ‘‘۔ مولانا انتہائی زود نویس تھے ۔ کامریڈ ہفتہ کے روز نکلتا تھا اکثر ایسا ہوا کہ تقریباً تمام ہفتہ وہ کسی نہ کسی کام میں مشغول رہتے اور لکھنے کا موقع نہیں ملتا ۔ اور جب منیجر نے ان سے کہا کہ آج بدھ کی شام ہے اب تک کوئی مضمون نہیں ملا۔ تو مولانا نے کہا کہ کل ضرور لکھدوں گا ۔ بس کیا تھا جمعرات کی صبح کو لکھنے بیٹھ گئے اور شام تک سارا اخبار اپنے مختلف النوع مضامین سے بھر ڈالا ۔ اس میں دیڑھ دو صفحات والا وہ مضمون بھی ہوتا جو ’’ گپ شپ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا ظرافت کا ایک اعلیٰ نمونہ اور قاری کو متاثر کئے بغیر نہ رہتا۔ قارئین کرام!
اندازہ لگالیتے کہ اس قسم کے کالم لکھنا کوئی آسان کام نہیں ‘ محمد علی جوہر ہی تھے کہ ان کے ہاتھ میں قلم آیا اور پھر کاغد پر لکھنا شروع کردیا ایسے وقت وہ دنیا و مافیہا سے بالکلیہ بے خبر ہوجاتے خواہ ان کے ارد گرد کتنا ہی شور وغل کیوں نہ برپاہو۔ انکا قلم رک کر ہی دم لیتا ۔
ڈسمبر سنہ۱۹۱۲ء کومولانا کلکتہ کی سکونت ترک کرکے دہلی تشریف لائے ۔ تو ہر طرف کامریڈ والے محمد علی کا چرچا ہوگیا ۔ مولانا کے ایک ہم عصروممتاز صحافی قاضی عبدالغفار صاحب رقمطراز ہیں ’’ محمد علی کو میں نے ایک دو مرتبہ دورہی سے دیکھا تھا لیکن۴ دسمبر سن۱۹۱۲ء کی صبح سے میرا ان کا رابطہ شروع ہوا تھا جو ان کی زندگی کے غروب آفتاب تک رہا ’’ کامریڈ‘‘ والے محمد علی سے اس قدر قریب آنے کا شوق میری جوانی کو بیتاب کررہا تھا ۔( اس وقت قاضی صاحب۲۳ سال کے تھے ) مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ اسٹیشن کے اس پلیٹ فارم پر ڈسمبر کی وہ صبح اور علاقہ دہلی کا ‘ میری زندگی کا ایک نیا باب شروع کررہی تھی ۔ مختصر یہ کہ اس دن صبح کو دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر جب میں نے اس شخص کو دیکھا جس سے میری زندگی کو سالہا سال وابستہ رہنا تھا ۔ سچ پوچھئے تو میں سرکاری ملازمت کے ڈھانچے میں نہ ڈھل سکا ۔ ابھی اپنی نظر کا زاویہ کسی طرف بھی قائم نہ تھا ۔ میں کامریڈ کے مضامین پڑھا کرتا تھا ۔ میرا دل اور میری طرح اس زمانہ کے ہزار ہا نو جوانوں کا دل جدید افکار کی وسعتوں اور خیالات کی بلندیوں سے نا آشنا تھا ۔’’ ہمدرد‘‘ کے شعبہ ادارت میں جب ایک ادنی شاگرد بن کر محمد علی کے سامنے بیٹھا تب کہیں میں نے ان چنگاریوں کی گرمی محسوس کی جو کامریڈ کے جواں سال اور بیباک ایڈیٹر کی حیثیت سے نکل کر ان کے نو عمر شاگردوں کو اذیت کو ش ہونے کی دعوت دیتی تھی۔۲۳ فروری سنہ۱۹۱۳ ء کو ہمدرد کا ایک ورقیہ نقیب ہمدرد کے نام سے شائع ہوا اس وقت تک بیروت سے ٹائپ کی کافی مقدار وصول نہ ہوتی تھی ۔ اس لئے یکم جون سے شعبہ ادارت کا پورا کام از سرو نو شروع ہوا اور میں نے پہلی بار محمد علی کے مددگار کی حیثیت سے صحافت کے میدان میں قدم رکھا ‘‘۔
جب تک سہ ۱۹۱۴ء کی جنگ کا ہنگامہ شروع ہوا اس وقت تک محمد علی شعبہ ادارت ہمدرد کی نگرانی کرتے رہے ۔ وہ ایک ایسے استاد کی طرح تھے جو بیک وقت شفیق بھی اور سخت گیر بھی ۔ آپ نے صحافت کے ابتدائی اصول اپنے نوجوان مددگاروں کو بتلائے ۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہفتے میں صرف ایک دو مضامین لکھوائے جاتے تھے ۔ ہر روز شام کو شعبہ ادارت کے اراکین مجلس مشاورت چیف ایڈیٹر کے کمرے میں منعقدہوتی تھی ۔ اس مجلس میں مولانا ہر مددگا کے لئے ایک ایک مضمون تجویز کرتے تھے ۔ اور بار بار اس اصول کو ذہن نشین کروایا کرتے تھے کہ لکھنے سے پہلے زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ بعض دفعہ دس بارہ کتابیں پڑھنے کے بعد ایک اداریہ بنتا تھا ۔ قاضی عبدالغفار صاحب بھی جو مدد گار و احباب سے ایک تھے ایک اور جگہ رقمطراز ہیں۔ ’’ میری پہلا اداریہ ہمدرد کی پہلی جلد کے آٹھویں پرچہ میں۱۰ ؍ جون کو شائع ہوا تھا ۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ وہ لکھا‘ کس طرح گیا اور فن صحافت میں محمد علی کے شاگرد کس طرح تربیت حاصل کرتے تھے دس بارہ کتابیں مجھے دی گئیں‘ کچھ نوٹ محمد علی صاحب نے خود لکھائے آٹھ دس دن تک لکھنے کی تیاری کرتا رہا جب ایک حصہ لکھ چکا تو مسود محمد علی کے سامنے پیش کیا چند سطریں پڑھنے کے بعد انہوں نے ایک خاص طرز سے منھ بنایا اور یہ کہ کر مسودہ پھینک دیا کہ کیا فضولیات گھسیٹ لاتے ہو۔ اس پر ذلت اور شرمندگی محسوس ہوئی کچھ غصہ بھی آیا ۔ مگر اتنی جسارت نہ تھی کہ غصہ کا ذرا بھی اظہار کیا جاتا ۔ پھر دوبارہ از سرنو مضمون لکھا اور جب پیش کیا تو پورا مضمون پڑھا اور گلے لگالیا ۔ تعریفوں کے پل باندھ دئیے پہلے جس قدر ان کی تنقید سے شرمندہ ہوا تھا اب ان کی توصیف سے بھی شرمندہ ہوا کہ ان کی تنقید کی تلخی میں شہد اور دودھ کی لبریز نہریں بہا کرتی ہیں۔ ہفتوں میرے مضامین کی تعریف ہوتی رہی جو ملنے والا آتا اسکو ’’ کہتے ‘‘ دیکھا آپ نے ہمدرد کا مضمون غفار نے لکھا ہے ۔ قلم توڑ دئیے ہیں’’ اس طرح حوصلہ افزائی کرکے ہر ایک میں خود اعتمادی پیدا کرتے ۔ خود محمد علی صاحب کو جب مضمون لکھنا ہو تو راتوں کو اس طرح جاگتے تھے کہ ان کے بستر پر کتابوں ‘ اخباروں رسائل اور تراشوں کا ایک انبار لگ جاتا تھا ۔ اور ایک سرخ پنسل ہاتھ میں ہوتی تھی ۔ ان تیاریوں کے بعد مولانا لکھنے بیٹھتے تو اپنی طرز نگارش کے ساتھ اپنی بے پناہ معلومات سے دلائل کے وزن میں اضافہ کرتے تھے اور بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بال کی کھال نکال رہے ہیں۔ لیکن بعد کو یہ عیاں ہوجاتا تھا کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے دلائل مستحکم کئے جاتے ہیں۔ ہر شریک کار کو ان کو خلوص اور محبت سے بھرے ہوئے دل میں جگہ ملتی تھی ظاہری عتاب اور غصہ محض اعصابی امراض کی شدت کے باعث پیدا ہوگیا تھا ۔
ایک دفعہ قاضی عبدالغفار صاحب نے مولانا کے مضمون کا پروف ملا حظہ فرمایا تھا لیکن اتفاقاً اس میں کوئی غلطی رہ گئی ۔ بس کیا تھا مولانا کا مزاج برہم ہوگیا ۔ دفتر میں آکر غفار صاحب پر برس پڑے تو غفار صاحب بھی عضہ میں آگئے ۔ اور فوری مولانا کو استعفیٰ پیش کردیا ۔ دوسرے روز مولانا کے بھائی شوکت علی صاحب زبردستی کی کہ آپ بھائی کے پاس چلیں۔ کل سے وہ کھانا نہیں کھائے ہیں اس پر غفار صاحب جیسے ہی پہنچے تو مولانا غفار صاحب سے لپٹ کر اتنا روئے کے غفار صاحب بے حد شرمندہ ہوگئے ۔ اصل میں غفار صاحب کی شکایت ندامت بن گئی۔ اپنے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی محبت کے جواب میں وہ محبت مانگا کرتے تھے اور اگر کوئی اپنی کم فہمی سے مولانا کی شکایت اور غصہ کو ناروا سمجھ کر خفا ہوجاتا توان کے قلب کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ وہ خود بھی حیران ہوجاتے تھے ۔ کہ میں نے یہ کیا کیا ۔ صحافت ان کی زندگی کا کوئی واحد مقصد نہ تھا ۔ ہمدرد کے اجرا کے بعد ان کی قومی مصروفیات نے اپنے لئے بڑے میدان اور خار زار پیدا کرلئے اس لئے صحافت کو وہ اب اپنی نظیر میں اسے سے زیادہ کچھ نہ سمجھتے تھے کہ ؂
’’ مرے دریائے بیتابی میں
ہے ایک موج خوں یہ بھی ‘‘
قاضی عبدالغفار صاحب ایک اور مقام پر اس طرح رقم طراز ہیں ’’ مولانا محمد علی صاحب کا رفتہ رفتہ ’’ کامریڈ‘‘ اور ’’ ہمدرد‘‘ کے کاموں سے تعلق کم ہوتا گیا تو مولانا نے ہمدرد کی کئی ذمہ داریاں مجھ پر عائد کردیں اور ’’ کامریڈ‘‘ کی ذمہ داریاں راجہ غلام حسین پر عائد ہوئیں ۔ مولانا کو جب نظر بند کیا گیا تب بھی کچھ عرصہ تک ہمدرد نکلتا رہا ۔ لیکن بعد میں قاضی صاحب ‘ کلکتہ چلے گئے وہاں سے ایک روزنامہ ’’ جمہور‘‘ کے نام سے اجرا فرمایا۔ اس طرح میری صحافت کلکتہ میں خوب چمکی اورجو کچھ میں نے مولانا سے سیکھا تھا وہی ہروقت کام آیا ‘‘۔
قارئین کرام ! یہ تھے محمد علی جن کی صحیفہ نگاری نے اردو صحافت کا ایک نیا دور شروع کیا تھا اور وہ اردو کی پسماندہ صحافت میں بعض اہم اصلاحات کے بانی ہیں جیسے’’ ہمدرد‘‘ پہلا روز نامہ تھا جو لیتھو کے بجائے ٹائپ میں چھاپا گیا ۔ ’’ ہمدرد‘‘ پہلا روزنامہ تھا جس کے مضامین کا معیار اسزمانہ کی عام صحافت سے بھی زیادہ بلند تھا ۔بہت سے مشہور شعراء اور ادیبوں کو جو صحافت سے دور رہتے تھے۔ محمد علی صاحب کی شخصیت نے پہلی ہی دفعہ ’’ ہمدرد‘‘ کے صفحات پر پیش کیا ۔ مولانا حالی ‘ علامہ اقبال اور مولانا شبلی کی نظمیں اور پریم چند کے افسانے پہلی بار اسی روزنامہ میں شائع ہوئے ۔ مزاح نگاری کا ’’ ہمدرد‘‘ نے ایک ایسا معیار قائم کیا جس کا اس سے قبل اردو صحافت میں کوئی وجود نہ تھا ۔ آج بھی جو اچھے بلند پایہ افسانہ نگار‘ مزاج نگاریا طنز نگار ہیں انہوں نے ’’ ہمدرد ‘‘ کی روایات سے بہت کچھ حاصل کیا ہے ۔ یہ درحقیقت سب مولانا محمد علی جوہر کی ممتاز ‘ معظم‘ لیق و جمیل شخصیت کا کرشمہ ہے ۔ ان حالات میں ہر ایک قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ اگر سیاسی اختلافات کی الجھنوں میں نہ پھنس گئے ہوتے اور صحافت و تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے تو خدا جانے وہ کیا سے کیا بن جاتے ۔
مولانا ‘ علی گڑھ کے ایک قابل فخر سپوت تھے۔ مولانا کو علی گڑھ اور علی گڑھ کے مسائل سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ علی گڑھ کی تحریک کے بہت بڑے حامی ہوتے ہوئے وہ علی گڑھ کے بڑے بڑے لیڈروں سے ٹکراتے رہے ۔ محسن الملک ‘ وقار الملک اور ان کے جانشین اور انگریز اسٹاف سب ہی ان کی تنقید کی زد میں آئے لیکن تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے ہنگامہ میں وہ علی گڑھ سے گذر کر دوسرے میدانوں میں چلے گئے ۔ تاہم آخر تک ان کے دل میں علی گڑھ کی یاد تازہ رہی ۔ علی گڑھ کے کھلنڈروں کے سردارتو ان کے بھائی شوکت علی تھے لیکن محمد علی بھی اس زمانہ میں نوجوانوں دانشمندان علی گڑھ کی پہلی صف میں تھے ۔ وہ عرصہ تک سرسید کے مسلک کے حامی رہے ۔ لیکن سرسید کے جانشینوں سے ان کی ترقی پسندی بار بار ٹکرائی۔ ایک زمانہ تو وہ بھی آیا کہ ان کا بس چلتا تو علی گڑھ کا سارا نقشہ بدل دیتے ۔ جس وقت علی گڑھ کا انگریزی اسٹاف حکومت کا نمائندہ بن کراپنے اقتدار کو علی گڑھ پر مسلط کررہا تھا ۔ تو محمد علی ، علی گڑھ کے قدیم داد یست سے بغاوت کی تبلیغ کررہے تھے ۔ اب انکی آواز عوامی زندگی میں وزن رکھتی تھی ۔ اور جب بلند ہوتی تھی تو بہت گونجتی تھی ۔مزاج قلم اور زبان کی شدت‘ حدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ۔ اس کی ایک مثال ان کے وہ خطوط ہیں جو اس زمانہ میں علی گڑھ کے ارباب کار کو لکھتے تھے ۔ جس وقت نواب محسن الملک مرحوم پر انگریزی اسٹاف اور حکومت کا دباؤ بڑھ رہا تھا تو محمد علی اس پر زور دے رہے تھے کہ جو اسٹاف بورڈ آف ٹرسٹیز اور سکریٹری سے سرتابی کرے تو اسے نکالدینا چاہئے ۔ چنانچہ ایک خط میں وہ نواب محسن الملک کو لکھتے ہیں:
’’ اب آپ عمر کی اس منزل پر آگئے ہیں کہ ذرا گردن اٹھا کر ( عالم ) جزا کی بھی سیر کیجئے ۔ آپ کی نظر میں یہاں کے انعام صلے اپنے اور جھوٹے سلمے ستارے سے زیادہ وقعت نہ رکھیں گے جو راستہ آپ نے اختیار کیا ہے وہ آپ کو منزل مقصود تک ہر گز نہ پہنچائے گا یہ کعبہ کی راہ نہیں ہے ترکستان کا راستہ ہے غلطی آپ کے دل کی نہیں دماغ کی ہے ‘‘۔ ( خطوط محمد علی ۔ مرتبہ پروفیسر سرور)۔
بہر حال علی گڑھ والوں کے لئے آج بھی ان کا نام اپنے اندر ایک بے پناہ جاذبیت رکھتا ہے ۔
مولانا کی انشا پروازی ولطیفہ گوئی : مولانا محمد علی جوہر بلند پایہ انشا پر داز ولطیفہ گو تھے ۔ قدرت نے انہیں یہ بلکہ فطری طور پر ودیعیت کیا تھا ۔ ان کا عالم یہ تھا کہ ان پر ایک کیفیت طاری ہوتی جو تحریر کا متقاضی بنتی اور جب تک وہ لکھ نہ لیتے چین و سکون نہیں پاتے ۔ آپ نے بعض معرکہ عظیم کے مضامین ایک ہی نشست میں نہایت نامناسب ماحول میں قلمبند فرماگئے ۔ یوں سمجھئے کہ مولانا جتنے اچھے انشا پرداز تھے اتنے ہی زود نویس بھی تھے ۔آپ نے اوپری سطور میں ’’ ترکوں کی نظر انتخاب ‘‘ کے بارے میں ملاحظہ فرمایا ۔ یہ اسی قسم کا مضمون ہے جو آپ نے آئرستان کے ممتاز مصنف و مقرر برک کے انداز تحریر میں قلمبند فرمایا جو ٹائمز آف انڈیا بمبئی کی مسلسل کئی اشاعتوں میں موجودہ بے چینی پر چند خیالات ‘‘ کے زیر عنوان زیو طبع سے آراستہ ہوا تھا ۔ اس وقت مولانا بڑودہ کی ملازمت سے منسلک تھے ۔ اور کسی دیہات کا دورہ فرما رہے تھے کہ رات کا وقت آگیا ۔ اپنے خیمے میں لیٹے لیٹے انہیں لکھنے کا خیال معاً ان کے دل میںآگیا اور نوک قلم سے حروف کاغذ پر رونما ہونے لگے ۔ لکھنے میں محو تھے کہ بارش شروع ہوگئی اور وہ بھی موسلا دھار بارش۔ ایسے وقت انہیں نیند کہاں سے آتی ۔ شب بیداری کے عالم میں ان کا قلم برابر چلتا رہا اور صبح ہوتے ہوتے جب برسات نے سنبھالا لیا تو مولانا کا قلم بھی نڈہال ہوگیا ۔
قارئین کرام! بعد کو جب یہ شب بیداری کی تحریر کتابی صورت میں ستر صفحات پر مبنی منظر عام پر آئی تو ایک دیدہ زیب مرقع جس نے بھی دیکھا پھڑک اٹھا۔ واہ واہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔
اب مولانا کی بذلہ سخی اور شوخی کی کچھ مثالیں بھی ملاحظہ فرمالیجئے ۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی ضروری ہے کہ مولانا ہندوستان کے سیاسی لیڈروں میں بڑے حاضر جواب واقع ہوئے تھے اور ان کی ایک ایک بات محفل کو قہقہہ زار بنادیتی تھی ۔
’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دہلی میں حکیم اجمل خان صاحب کے مکان پر خلافت کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا ۔ مولانا کچھ علیل تھے ۔ اس لئے لیٹے ہوئے تھے ۔ ایک ممتاز روزنامہ کے مدیر اس کے مالک معہ اپنے صاحبزادے کے اجلاس میں شریک تھے ۔ تینوں بحث کے دوران کبیدہ خاطر ہو کر اٹھ گئے ۔ اور جانے لگے تو مولانا ایک دم بول اٹھے ’’ غضب ہوگیا باپ بیٹا روح القدوس تینوں ناراض ہوگئے ‘‘۔ محفل میں یا تو خطرناک سنجیدگی طاری تھی یا پھر تھوڑی دیر میں قہقہے شروع ہوگئے ‘‘۔
’’ کانپور کے اسٹیشن پر لکھنوں میل تیار کھڑی تھی دو حضرات شہر کی جانب سے لپکے ہوئے آئے اور جلدی سے ٹکٹ لیکر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ دو انگریز بھی ڈبے میں براجمان تھے۔ آنے والے شکل وصورت سے مسلمان نظر آرہے تھے ۔’’ داڑھی بڑھی ہوئی کھدر پوش مولانا ٹائپ‘‘ ان میں ایک مولانا محمد علی اور دوسرے عبدالماجد دریا بادی تھے ۔ محمد علی انگریز کے پاس بیٹھ گئے ۔ فریق ثانی نے سامنے کی سیٹ پر قبضہ کیا ۔ گاڑی اسٹیشن چھوڑ چکی تھی ۔ کہ تھوڑی دیر میں گنگا کا پل آگیا ۔صاحب بہادر نے ناک بھنویں چڑھا کر طنز سے کہا (This is mother Gonga) اور لفظ (Mother)پر خصوصاً زور دیا محمد علی مسکرا کر کہا ۔ یہ ماں اور خالہ کے رشتے تو آپ ہی جانتے ہوں گے ، میں تو یہ جانتا ہوں کہ دریا میں دریا ہے ۔ انگریز سن کر بھنا گیا ۔اس کوشان وگمان بھی نہ تھا کہ یہ ملانما انسان انگریزی سمجھتا ہوگا ۔ انگریزی میں جواب دینا تو در کنار ۔ خیر صاحب بہادرجھنپ مٹانے کے لئے اپنے پرانے رفیق سفر سے باتیں کرنے لگے اس زمانہ میں ہندوستان میں برطانیہ کی مشہور و ممتاز کرکٹ ٹیم(M.C.C) آئی ہوئی تھی ۔ صاحب بہادر اسی پر گفتگو فرمارہے تھے ۔کھدر پوش پہلے تو ضبط کرتے چلے گئے ۔ آخر جب رہانہ گیا تو بول اٹھے آپ جو کھلاڑیوں پر تنقید کررہے ہیں یہ صحیح نہیں ہے ۔ فلاں میں یہ خوبی ہے فلاں میں یہ خرابی ہے ۔ غرض کہ الف سے والسلام تک سب باتیں بتلادیں اب تو انگریز چکرا گیا بولا کرکٹ کے متعلق آپ کو بہت معلومات ہیں ۔ مولانا محمد علی نے بڑی انکساری سے جواب دیا ’’ مجھی کو نہیں ہر علی گڑھی کو ہوتی ہے ‘‘۔ معلوم ہوتا ہے آپ علی گڑھ میں کپتان رہ چکے ہیں۔ جی میں نہیں میرے (Big Brother)تھے ( مولانا اپنے برادر معظم مولانا شوکت علی کو (Big Brother) کہا کرتے تھے اور یہ بات خاصی مشہور بھی ہوگئی تھی ) اس پر وہ انگریز جلدی سے بولا ’’You Talk like Md. Ali‘‘( تم محمد علی کی طرح گفتگو کرتے ہو)‘ (I am Ali) ( میں علی ہوں) انگریز ایکدم گھبرا گیا بڑی مشکل سے اس کے منھ سے یہ جملہ نکلا(Really one of the two brothers)‘( وہی محمد علی جو علی برادران میں سے ایک ہے )۔ اب تو مولانا کو مذاق سوجھا ۔ بول اٹھے اتنا گھبرا گئے کیا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ علی بردران جس انگریز کو بھی دیکھتے ہیں اس پرحملہ کربیٹھتے ہیں ‘‘۔ اس پر انگریز بے انتہا چھٹ گیا۔ پھر اس کے منھ سے کچھ نہ نکل سکا ‘‘۔
ایک جگہ انگلستان میں مولانا کو تقریر کرنی تھی ۔ وقت صرف پانچ منٹ کا دیا گیا تھا ۔ انہوں نے تہمید شروع کی میں چھ ہزار میل کا سفر طے کرکے آیا ہوں ۳۲ کروڑ نمائندوں کا قائد ہوں ایک منٹ تو در کنار ایک سکنڈ بلکہ سکنڈ کے حصے میں مجھے کتنے نفوس کی ترجمانی کرنا ہے ۔ لوگ اس جملہ پر پھڑک اٹھے اور بولے آپ کو اجازت ہے کہ اپنے وقت کے مطابق ’’ تقریر جاری رکھیں ‘‘۔
مولانا کی وفات: مولانا محمد علی جوہر جیسے نامور ممتاز معظم لئیق جمیل جیالے وطن دوست کی جس عظیم شخصیت سے ہماری گرمی محفل قائم تھی جس آواز سے ہمارا ملک گونجتا تھا اور جس کے جوش عمل سے بہ یک وقت تینوں براعظم متاثر تھے کہ اچانک4 جنوری سنہ۱۹۳۱ء کو اس دار فانی سے کوچ کرنے کی اطلاع آگ کی طرح پھیل گئی ۔ مولانا کی موت پر لوگوں کو یقین نہ آتا تھا کہ انہیں ابدی نیند بھی آسکتی ہے ۔ لیکن قدرت کا فیصلہ اٹل ہے ۔ کل من علیہا فان۔ لاکھوں عقیدتمندوں نے بادیدہ پرنم مولانا کے جسد مبارک کو سپرد خاک کرکے جنت الفردوس کی اعلیٰ جگہ پانے کیلئے لاکھوں ہاتھ دعا کے لئے بلند کرلئے۔ مولانا کی وفات پر علامہ اقبال نے جو مرثیہ قلمبند فرمایا ہے وہ اس المناک حادثہ پر تمام قوم کی ترجمانی کرتا ہے ؂
اے خوشا مشت غبار او کہ از جذب حرم
از کنار اندلس واز ساحل بدساگذشت
خاک قدمی ادبہ آغوش تمنا در گرفت
سوئے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گذشت
می نگنجند جزبہ آں خاکے کہ پاک از رنگ درست
بندہ کواز تمیز اسودا واحمد گذشت
جلوہ اوتا ابد باقی بہ چشم آسیاست
گرچہ آں نور نگاہ خاور از خاور گذشت
مولانا ایک انمول جواہر تھے۔ آخر میں مولانا کے مختلف اقوال کا ایک مختصر اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں جو پراز معلومات ہے جنگ آزادی ہندوستان کے اس جیالے سپاہی کو خود ان کے الفاظ کے آئینہ میں دیکھنے سے مختلف اوقات میں مختلف طور پر تحریری اور تقریری انداز میں جریدہ عالم پر ایک لافانی یادگار ملتی ہے ۔ اس سے یہ بخوبی اندازہ ہوجائے گا کے جنگ حریت کی تگ ودو میں مولانا کو کن کن منازل سے گذرنا پڑا 🙁 ہدف ڈائجسٹ جولائی۱۹۷۰ء)
(۱) سب حانتے ہیں کہ میں اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہندومسلم اتحاد کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہمارا مذہب بھی ہم کو یہی تعلیم دیتا ہے ( سنہ۱۹۲۹ء)
(۲) ہمارا سو راج تمام قوم کا راج ہونا چاہئے (سنہ۱۹۲۳ء)
(۳) یاد رکھو بز دل ہی ڈرتا ہے اور بزدل ہی دوسرے کے سامنے کمزوری ظاہر کرتا ہے ( سنہ۱۹۲۳ء)
(۴) تعصب کی آگ جاہل اور ان پڑھ لوگوں کے دل میں نہیں بلکہ ان لوگوں کے سینہ میں ہیجان و تلاطم پیدا کئے ہوئے ہے جنہیں اپنی ڈگریوں اور اسنادات پر ناز ہے ۔
(۵) دوستو! میری دعا ہے کہ خدا ہندوستان کو اپنے اتحاد واتفاق کی ایک جھلک پھر نصیب کرے میری دعا ہے کہ دونوں قومیں اتحاد کی وہ تصویر وآزادی کا منظر سامنے رکھیں جو اتحاد قومی کی فضا میں رکھ سکتے ہیں (سنہ۱۹۲۳ء)
(۶) میں سردار دو عالم رسول معظم کا امتی ہونے کی حیثیت سے دشمن سے اسو قت تک لڑوں گا جب تک اس ہتھیار سے اسی کو شکست زہ دیدوں( سنہ ۱۸۲۳ء)
(۷) جس قوم کی تعداد ۳۲ کروڑ ہے اس کے لئے تشدد کا استعمال بہت بڑی ذلت ہے تشدد کے ساتھ جو فتح حاصل کی جائیگی و تمام قوم کی فتح نہیں کہلائے گی بلکہ وہ صرف جنگجو طبقہ کی فتح قرار پائے گی ۔(سنہ۱۹۲۳ء)
(۸) اختلافات دور کرنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے اور بھول جانے کی صلاحیت پیدا کی جائے ( سنہ ۱۹۲۳)
(۹) مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ لڑائی بری چیز ہے لیکن اس کے ساتھ میرا یہ اعتقاد بھی ہے کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری چیز ہے ( سنہ۱۹۲۳)
(۱۰) میں بیس برس سے بھی زیادہ عرصہ سے ایک ایسے متحدہ محاذ کا خواب دیکھتا چلا آرہا ہوں جو ریاست ہائے متحلہ امریکہ سے بھی زیادہ عظمت ‘ زیادہ شریفانہ اور زیادہ روحانی ہو(سنہ۱۹۱۱ء)
(۱۱) ہم جس شخص سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور جس سے زیادہ خوف کھاتے ہیں وہ منصوبہ باز مصلح قوم ہوتا ہے ( سنہ ۱۹۰۴ء)
میں اپنی اس تحریر کو مولانا محمد علی جوہر صاحب ہی کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوں؂
جیتے جی توکچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے
Article: Mohammed Ali Johar
Written by : Md Razi Uddin Moazzam
محمد رضی الدین معظم

Share

۲ thoughts on “مولانا محمدعلی جوہر: فن اورشخصیت ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم”

Comments are closed.

Share
Share