بندۂ نوازی تصوف اور اَفکار کے نمائندہ صوفی
حضرت شاہ راجو حسینی ثانی ؒ مرحوم
از: پروفیسر مجید بیدار
(سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد)
Mob:09441697072
– – – –
ہندوستان کی سرزمین کے باشندوں کو علم معرفت‘ ایمانیات اور روحانیت سے مالا مال کرنے والے بزرگانِ دین میں سلاسل اربعہ اور ذیلی سلاسل کے صوفیہ کرام کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دکن کی سرزمین میں تصوفِ کے فیوضات کا سلسلہ تیرہویں صدی سے دراد ہوتا ہے ‘جبکہ دولت آباد کو پایہ تخت کا موقف حاصل ہونے سے قبل اس سرزمین پر قدم رنجہ فرمانے والے صوفیہ کرام یعنی حضرت مومن عارف باللہؒ ، حضرت جلال الدین گنج رواں ؒ اور حضرت منتجب الدین زرزری زر بخش ؒ کے بعد جن اہم صوفیہ کرام نے دیوگری یعنی دولت آباد اورْ خلد آباد کی سرزمین کو روحانی برکتوں سے مالا مال فرمایا‘ ان میں حضرت بندہ نواز ؒ کے والد بزرگوار حضرت سید یوسف شاہ راجو قتال حسینی ؒ (رحلت ۱۳۳۱ھ) کا شمار ہوتا ہے۔
جن کا مزار خلد آباد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔ تاہم دکن میں تصوف کی جس شاخ کو شہرت حاصل ہوئی‘ اس مرحلہ میں حضرت بندہ نواز گیسودراز ؒ کی دکن میں مراجعت کو سب سے بڑی اہمیت کی حاصلہے۔ے شمار بزرگان دین کے روحانی فیض سے دکن کا سارا علاقہ روحانی تصرفات کی روشنی میں جگمگا اٹھا‘ اس کے باوجود بھی بارگاہِ بندہ نوازی سے سرفرازی اور اس سلسلے سے سارے جنوبی ہند کے وابستگانِ دامن کو سرفرازی حاصل ہوئی ۔
اورنگ زیب عالمگیر جیسے شہنشاہ نے جب بارگاہِ بندہ نوازی میں حاضری دی تو اس نے آستانۂ بندہ نواز کو ’’ہست کعبہ در دکن‘‘ قرار دیا‘ جس سے خود بندہ نوازی سلسلے کی اہمیت اور ان کی ہمہ جہت خدمات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بندہ نوازی سلسلے کے بزرگوں اور اس سے وابستگان میں خداداد وصف یہ دیکھا گیا کہ اس سلسلے سے ربط قائم ہونے کے بعد انسان میں روحانی طاقتوں سے وابستگی کا سلسلہ تو دراز ہوتا ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف سے دلچسپی اور شعر و ادب سے آگاہی کے علاوہ ادیبوں اور فنکاروں سے محبت کا بے مثلسلسلہ بھی جاری و ساری ہوجاتا ہے کہ جسے دیکھ کر یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوتی کہ بارگاہ بندہ نوازی سے وابستگی کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کے موقع دستیاب ہوجاتے ہیں۔ حضرت بندہ نواز گیسو درازؒ کے فیوضات اور برکات سے فیض یاب ایک ایسے ہی فرد کی شخصیت اور کارناموں کا ذکر ہیجس نے اپنے ننہیالی تصرفات کو جاری رکھتے ہوئے حیدرآباد کی سرزمین میں اتحاد بین المسلمین کی مثال قائم کردی کہ جس کی ہمسری دکن کے کسی دوسرے خانوادے کے فرع کو حاصل نہیں ہوتی۔جس آستانے سے انہوں نے ناعمر وابستگی اختیارفرمائی۔ اس مسلک کو عام شہرت دینے کا وسیلہ بنے رہے۔ دکن کی سب سے سریہ فلک گنبد اور قطب شاہی سلطنت کے آخری بادشاہوں کے دورمیں اپنے مرید و خلیفہ کو تخت و تاج سے مالا مال کرکے خود فقیری اور خداترسی میں زندگی گذارنے والے بندہ نوازی سلسلے کے بزرگ حضرت شاہ راجو حسینی ؒ نے جب وصال فرمایا تو قطب شاہی بادشاہوں کی سرپرستی میں حضرت کے مزارپرمہتم بالشان گنبد تعمیر کیا گیا۔ جس کی بلندی کی مثال سارے دکن میں ممکن نہیں۔ 16ویں صدی کے اواخر میں نہ صرف حضرت شاہ راجو قتالؒ نے اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار فرمائی بلکہ حضرت کے گذر جانے کے بعد گولکنڈہ کی سلطنت کا بھی زوال پذیر ہوئی۔ مصری گنج کے علاقے میں حضرت کے فیوضات و برکات سے آباد آستانہ اور اس کی خدمت انجام دینے والا حضرت شاہ راجو حسینی ثانی ؒ نے اس بارگاہ کے عظمت اور وقار میں اضافہ فرمایا۔ جس کی نمائندگی حضرت کے کردار و عمل سے ہی نہیں بلکہ ان کے عمدہ سلوک سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ خدا نے شاہ راجو ثانیؒ کی فطرت میں عقیدت اور وارفتگی کو شامل کردیا تھا۔ جس کو بروئے کار لاتے ہوئے حضرت نے جب سے اس بارگاہ کی سجادگی کو زندگی کا لازمہ بنایا تب سے ہی آستانۂ شاہ راجو قتالؒ سرچشمۂ علم و فیضان قرار پایا۔ حضرت ممدوح کی علم دوستی اور ادب پروری کے علاوہ بزرگوں کی عزت ‘شاعروں اور ادیبوں کے احترام کے ساتھ ساتھ اہل علم و فن کی قدردانی اپنی مثال آپ تھی۔ وہ نہ صرف علم و ادب کی خدمت کرنے والے انسانوں کو قریب رکھتے تھے بلکہ مختلف اوقات میں ان سے ربط و تعلق کو برقرار رکھتے ہوئے بندہ نوازی مزاج یعنی صلہ رحمی کی تعمیل کیا کرتے تھے۔ زائد از گذشتہ نصف صدی سے زیادہ عرصے میں یہ دیکھا گیا ‘عرس حضرت شاہ راجو قتال حسینی ؒ کے موقع پر سیمینار کا انعقاد اور مشاعرے کے اہتمام کے علاوہ حضرت کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے اپنے جد اعلی کی فارسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرکے نہ صرف اس کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی‘ بلکہ حضرت ممدوح کے احوال اور آثار کے علاوہ کشف و کرامات سے وابستہ کتابیں شائع کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہیں اپنی ذات سے زیادہ آستانۂ شاہ راجو سے دلچسپی ہے اور حضرتؒ کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانے کا جذبہ ان کی زندگی میں عشق کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
مصری گنج کے آستانہ کے سجادہ کی حیثیت سے حضرت شاہ راجو حسینیؒ کو جب سے دیکھا ہمیشہ راہ سلوک میں یکساں پایا۔ ہر وقت عشق کی دولت کو لٹاتے رہے۔ انجینئر کے سرکاری عہدے سے سبکدوشی کے بعد ہمہ تن خانقاہی نظام کو فروغ دینے میں مصروف رہے۔ دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنا ان کا وصف رہا۔ ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اہل علم و فضل سے رابطہ بنائے رکھنا ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ بارگاہِ شاہ راجو قتالؒ طویل عرصے تک ویرانے کا منظر پیش کرتی رہی تھیلیکن اس آستانے کی سجادگی قبول کرنے کے بعدشاہ راجو حسینی ثانیؒ نے آستانے سے ملحقہ علاقے کو روحانیت اور خدا پرستی سے ایسا معمور کردیا کہ بے شمار بندگانِ خدا تفسیر اور حدیث کے علاوہ فقہی مسائل سے آگاہی کے لئے آستانہ شاہ راجو ؒ پر حاضری دیتے اور فیض رسائی کے نقیب بن جاتے تھے۔ دکن کے باشندوں میں خدا پرستی اور اسلامی احکامات سے آگاہی کو فروغ دینے کے لئے حضرت شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے جامعہ نظامیہ کے مفتی و عالم حضرت خلیل احمد علیہ الرحمہ کی خدمات حاصل فرمائیں اور حضرت کے درس میں شریک ہونے والے بندگانِ خدا کی زندگیوں میں پیدا ہونے والے اسلامی انقلاب نے خود ثابت ہوجاتا کہ انہیں دنیا کے لہو لعب سے زیادہ آخرت کی زندگی عزیز رہی۔ حضرت شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے عام سجادوں کی طرح محفلِ اعراس کے ذریعہ خانقاہی نظام کو فروغ دینے میں زندگی بسر نہیں کی بلکہ عام انسانوں سے رابطہ قائم کرکے ان میں گھل مل کر دعوتِ اسلام اور تبلیغِ دین حنیف کا کام انجام دیا اور اس عملی کام کے توسط سے خانقاہی نظام کو عصر حاضر میں جاوداں کردیا۔ شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے خانقاہ کے مجاور کی حیثیت سے زیادہ خانقاہ کے خدمت گذار کی حیثیت سے تعلیمات و تصرفات راجو قتالؒ کو عام کرکے آخرت سنوارنے کا سامان فراہم کرلیا۔ غرض شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے اپنے اسلاف کی روایات کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار کو برقرار رکھنے کا اہم کارنامہ انجام دیا‘ اور اپنے مشن کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا۔اعراس کی محافل ہوں یا سیمینار یا سمپوزیم کا انعقاد مشاعرہ اور نعتیہ محفلکی پیشکشی کا مرحلہ ہو یا بزرگان دین کی خدمات اور ان کی سوانح حیات کی اشاعت اور تبلیغ دین اور صوفیہ کرام کی خدمات کا مرحلہ‘ غرض ہر میدان میں تن تنہا کام کی تکمیل کے ذریعہ اپنے اطراف حلقہ بنالینے کی روایات ‘ دکن کے بیشتر سجادوں کے معاملہ میں حضرت شاہ راجو حسینی ثانیؒ کے مزاج میں شامل تھی۔ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام اور ایمان کی تازگی کو نئی نسل میں داخل کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ عام مشائخین اور درگاہوں کے سجادوں کے علاوہ متولیوں کی طرح حضرت شاہ راجو حسینی ثانی نے وابستگان بارگاہ نہیں پیدا کئیبلکہ ادب‘ مذہب‘ روحانیات‘ اخلاقیات ‘ تہذیب‘ ثقافت اور اسلامی شعار کو زندگی کا میں شامل کرنے والے افراد کے حلقے کو اپنا گرویدہ بنالیا اور انہیں اسلام کی روح تک پہنچنے کے صوفیانہ طریقوں سے وابستہ کردیا۔ آج مصری گنج کے احاطہ میں اہل علم و فضل کی اعزاز بخشنا حضرت کا خاص کارنامہ رہا۔ بارگاہِ حضرت شاہ راجو قتال ؒ چار سو سال قدیم گنبد اور اس کی قدامت کو عصر حاضر کے تعمیری نمونوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے محکمہ آثار قدیمہ سے ہی نہیں بلکہ مرکزی اور ریاستی حکومت کی توجہ مبذول کروا کر گنبد کے اندرونی حصے کو جس عمدہ نقش و نکار اور تزئین کاری سے خوبصورت بنادیا ‘اسے بلاشبہ حضرت شاہ راجو حسینی کا کارنامہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ گنبد کے بیرونی حصے میں چالیس فٹ اونچے ایک ہی پتھر میں تراشے ہوئے بے مثال ستونوں کو ان کے اپنے فطری رنگ میں نمایاں کرنے کے لئے بھی حضرت شاہ راجو کی جدوجہد جاری تھی۔ درگاہوں سے وابستہ اور مشائخین کے زمرے سے تعلق رکھنے والے اس خدا کے بندے نے تمام تر زندگی دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی ترغیب میں گذاردی۔ اور قدیم آستانہ شاہ راجو حسینی ؒ کو بقعۂ نور بنادیا‘ حضرت ممدوح کا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دلوں میں ایمان کی کم ہوتی ہوئی روشنی کوضیائے پرُنور بناکر اسلام سے وابستہ خدا کے بندوں کو خدا اور رسول کی تابعداری کا سلیقہ سکھایا اور ثابت کردیا کہ حضرت بندہ نواز ؒ اور ان کے خانوادہ نے دکن کی سرزمین میں دین اور دنیا کو ایک ساتھ لے کر زندگی گذارنے کے لئے جن ترغیبات کو آراستہ کیا ہے انہیں عصر حاضر میں شاہ راجو حسینی ثانیؒ نے عملی طور پر اختیار کرنے کا راستہ دکھا کر ثابت کیا کہ ہر کام بندوں کی تائید کے لئے نہیں بلکہ خدا اور رسول کی خوشنودی کے لئے اختیار کیا جانا چاہئے ۔صحت مند افکار اور علم و عمل سے وابستہ کرکے اپنی شخصیت کو احساس کی شدت سے مالامال کردیا۔ غرض بارگاہِ بندہ نوازی میں خدمت انجام دینے والے اس صوفی صافی فرد کو بھی غیر یقینی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غرض ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ دنیا میں وجود کے ساتھ ہی اس کی موت بھی لازمی ہے‘ لیکن ایسے انسانوں کی رحلت پر شدید افسوس ہوتا ہے جو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے دنیا میں زندگی گذار کر آخرت کے سودے کا اہتمام کرتے ہیں۔ غرض موت کے بے رحم ہاتھوں نے ایک با عمل اور اسلامی فکر کو زندگی میں داخل کرکے خدا کے مقرب بندے‘ خانوادۂ بندۂ نواز کے سپوت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا اور خدا کی مہربانیوں کی وسعتوں کو ہم ڈھونڈتھے۔ غرض خانوادۂ بندۂ نواز کا ایک چراغ گل ہوگیا‘ جس کی وجہ سے بارگاہِ شاہ راجو قتال حسینیؒ کے احاطے میں منعقد کی جانے والے سیمینار‘ مشاعرے‘ سمپوزیم اور ادبی و مذہبی محافل کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ اس پرُآشوب دور میں کسی خدا کے بندے کا گذر جانا‘ عالمی سانحہ سے کم نہیں۔ حضرت شاہ راجو حسینی ثانیؒ کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے‘ اسے نعم البدل سے پر کردے تاکہ گذشتہ زائد از چالیس سال سے آستانۂ شاہ راجو قتال حسینیؒ کے احاطے میں جاری رہے۔ غرض مرحوم کے کارنامے ان کی عاقبت سنوارنے کے لئے کافی تھے ‘خدا کے بندے ہونے کے ناطے ہمارا یہ فریضہ ہے کہ ہمارے درمیان سے گذرنے والے اس نیک بندے کی رحلت پر مغفرت کی دعا کریں اور اسلام کی سربلندی کے لئے ایسے ہی خدا پرستوں کو دنیا میں دوبارہ پیدا کردے تاکہ عالمی سطح پر اللہ والوں کی کمی کا ازالہ ہوسکے اور اسلام کے درخت کو سرسبزی و شادابی حاصل ہوتی رہے۔ غرض صوفیہ کرام‘ بزرگانِ دین‘ مشائخین‘ سجادگان اور متوسلین کے توسط سے قیامت تک اسلام کی تعلیمات اور روحانیات کو بادیابی حاصل ہوتی رہے۔
One thought on “حضرت شاہ راجوحسینی ثانی ؒ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمجید بیدار”
حضرت بندہ نواز ؒ کے والد بزرگوار حضرت سید یوسف شاہ راجو قتال حسینی ؒ (رحلت ۱۳۳۱ھ) کا شمار ہوتا ہے۔
السلام علیکم
یہ جو تاریخ بیان کی گئی ہے، ١٣٣١ ہجری، نا ممکن ہے، اصل تاریخ ١٣٣١ عیسوی ہونا چاہئے،
و السلام
محمد محتشم مرتضی